کوثر مظہری
پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ
تیر یہ کیسا تھا اور کس کی نظر سے نکلا
سر مرا گھوم گیا، تیر اِدھر سے نکلا
اشک بہنے کا عمل سب کو پتہ ہے لیکن
خون آنکھوں سے جو نکلا وہ جگر سے نکلا
پیٹھ پر آگیا خنجر تو یہ باور آیا
بھائی میرا مرے دشمن سے بھی بڑھ کر نکلا
رات کے پچھلے پہر چیخ تو اک آئی تھی
احتیاط ایسی ہوئی میں بھی نہ گھر سے نکلا
آپ کہتے ہیں جدائی کا کوئی غم بھی نہیں
کیا لہوٗ جیسا مگر دیدۂ تر سے نکلا
محو نظارہ ہیں احساس کی آنکھیں اب بھی
ایک شعلہ سا جو آواز سے بن کر نکلا
(غزل نمبر ۲)
یہ تو اچھا ہے کہ دکھ درد سنانے لگ جاؤ
ہر کسی کو نہ مگر زخم دکھانے لگ جاؤ
نیل کے پانیو! رستے میں نہ حائل ہونا
کیا پتہ ضربِ کلیمی سے ٹھکانے لگ جاؤ
موسمِ دل جو کبھی زرد سا ہونے لگ جائے
اپنا دل خون کرو، پھول اُگانے لگ جاؤ
بوجھ دل پر ہے ندامت کا تو ایساکرلو
میرے سینے سے کسی اور بہانے لگ جاؤ
کتنی مشکل سے تو آئے ہو ذرا ٹھہرو بھی
سہل انداز میں اس طرح نہ جانے لگ جاؤ
سامنے آؤ تو جیسے کہ گُلِتر کوئی
اور اکیلے میں یونہی اشک بہانے لگ جاؤ
کبھی تنہا جو یوں بیٹھو تو فقط روتے رہو
پھر اچانک ہی کبھی ہنسنے ہنسانے لگ جاؤ
عقل سمجھائے تو کچھ لاج رکھو اس کی بھی
جب جنوں تیز ہو تو خاک اڑانے لگ جاؤ
(غزل ۳)
منظرِ چشم جو پُرآب ہوا جاتا ہے
چمنِ دل مرا شاداب ہوا جاتا ہے
وہی قطرہ جو کبھی کُنجِ سرِ چشم میں تھا
اب جو پھیلا ہے تو سیلاب ہوا جاتا ہے
اس کی پلکوں پہ جو چمکا تھا ستارہ کوئی
دیکھتے دیکھتے مہتاب ہوا جاتا ہے
ایک احساس تھا جو غم سے دبا رہتا تھا
ساز غم کا وہی مضراب ہوا جاتا ہے
وہ جو شیریں دہن اس شہر میں آیا ہے مرے
اُس کا بولا ہوا شہداب ہوا جاتا ہے
مجھ کو معلوم ہے گرداب نظر کا دھوکا
دل ہی احمق ہے جو بیتاب ہوا جاتا ہے
(غزل ۴)
پَر مرے عشق کے لگ جائیں دوانہ ہوجاؤں
میں نے سوچا تھا کہ اِک دم سے فسانہ ہوجاؤں
آپ کہیے تو چلوں دشت کی، صحرا کی طرف
اور اگر کہیے تو دریا کو روانہ ہوجاؤں
کیوں بھلا اُس کو سرشام یہ زحمت دی جائے
کیوں نہ میں خود ہی ذرا چل کے نشانہ ہوجاؤں
ربط ہے اُس کو زمانے سے بہت، سنتا ہوں
کوئی ترکیب کروں، میں بھی زمانہ ہوجاؤں
کروٹیں لیتے ہوئے رات گزر جائے تو کیا
صبح ہوتے ہی محبت کا ترانہ ہوجاؤں
(غزل ۵)
ہم اس کو چاہتے ہیں جس کو چاہا بھی نہیں جاتا
نہیں سمجھے؟ وہی جس کو کہ سمجھا بھی نہیں جاتا
ہم اس سے بات کرتے ہیں ہم اس سے مل بھی آتے ہیں
اور اس کے در سے اک لمحہ کو پہرہ بھی نہیں جاتا
سمجھ لیجے ہماری زندگی بھی اک تماشا ہے
تماشا ہو بھی جاتا ہے، تماشا بھی نہیں جاتا
صبا گلشن میں سامانِ بہاراں لے کے آتی ہے
کبھی اہل جنوں کا گو بلاوا بھی نہیں جاتا
وہ ہم سے دور ہے، تم کہہ رہے ہو، مان لیتے ہیں
اگر سچی کہیں تو دل سے مانا بھی نہیں جاتا
ہماری آرزو پر بے نقاب آئے تو وہ لیکن
اُسی کو دیکھنا ہے جس کو دیکھا بھی نہیں جاتا
حجاب اک حسن کا ہر دم رہا کرتا ہے چہرے پر
کہ پردہ بھی نہیں رہتا ہے، پردہ بھی نہیں جاتا
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں