خلیق الزماں نصرت
شاعری میں حساب کے اصول کے مطابق دو اور دو چار نہیں ہوتے ہیں اس کے خیال ،اسکی بندش،اور اظہار کے طریقے ان کے پیش روؤں اوران کے ہم عصروں سے ملتے جلتے ہیں وہ ان شاعروں کے کلام کا مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی شاعر اپنا اچھوتاخیال نذر کرتا ہے توکہیں استفادہ ،کہیں سرقہ اور کہیں تواردکرتا ہے۔
تقریبًا پندرہ برس سے برمحل اشعار کی کھوج کرتا آرہاہوں۔ یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔اس کے لئے میں نے تذکروں کے بعد شاعروں کے دیوان بر محل اشعار کوخوب پڑھے ہیں اور انہیں میں برمحل پہچانا ہے۔ یہ وہ اشعار ہیں جو عام بول چال میں بولے یا لکھے جاتے ہیں۔ مطالعے کے دوران جب میں کوئی شعر پڑھتا ہوں تو میرا ذہن ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس مفہوم کا شعر میں نے کہیں پڑھا ہے۔کبھی کبھی تو فی الفور وہ شعر ذہن سے قلم تک آجاتا ہے۔کبھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔لیکن کبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں وہ شعر ضرور مل جاتا ہے۔ویسے بھی پڑھتے پڑھتے غالب کے بھی اشعار میں مَیں نے کئی دوسرے شاعروں کے شعر کا عکس دیکھا۔ عنقریب میری ایک کتاب ’’استفادہ، سرقہ او ر توارد‘‘ شائع ہونے والی ہے۔آج میں غالب کے اشعار وہ بھی برمحل اشعار پر کچھ لکھوں گا۔
میرسید علی غمگین(۷۸۰ ۱ ء ـــ ـــ۔ ۱۸۵۱ء)ایک صوفی بزرگ شاعر تھے ۔غالب (۱۷۹۷ء ــــــــــــــــ۔ ۱۸۶۹ء) کے پیش رو اور ہمعصر شاعر تھے۔غالب سے ان کے روابطہ بھی تھے اور ان کے مجموعے کا دیباچہ بھی لکھا ہے۔ جب غمگین کا میں نے یہ شعر پڑھا:
کون جیتا ہے شبِ ہجر سحر ہونے تک
عمر اک چاہئے یہ عمر بسر ہونے تک
غالب کا یہ شعر فوراً میرے ذہن میں آگیا۔
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
غالب کا شعر ہے
کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد ہیں
غالب نے کوچئہ جاناں کو بہشت سے تشبیہ دی ہے ا ور کہا کہ بہشت کی جلوہ گری معشوق کے کوچے سے کم نہیں ہے۔
مومن(۱۸۰۰ء ۔۱۸۵۲ء ) نے اسی بات کو اس طرح کا کہہ دیا کہ وہ برمحل ہو گیا ۔شعر میں اس سے زیادہ روانی اور صفائی دیکھئے۔مومن بھی کہتے ہیں کہ معشوق کے کوچے کی اہمیت ان کی نظر میں بہت ہے اور اگر ایسا یعنی معشوق کی گلی جیسی نہیں ہوگی تو وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔
نہ جاؤں گا کبھی جنت کو میں نہ جاؤںگا
اگر نہ ہووے گا نقشہ تمہارے گھر سا
مومن نے ایک شعر میں کہا تھا ۔
مومن خدا کے واسطے ایسا مکاں کو نہ چھوڑ
دوزخ میں ڈال خلد کو کوئے تباں نہ چھوڑ
محبوبہ کی گلی مومن کو بڑی پیاری لگتی ہے۔ اس کے لئے وہ جنت بھی چھوڑ سکتے ہیں۔وہی بات جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے۔ غالب کا اندازِ شعر :
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو
مومن اور غالب کے کئی اشعار ایک ہی مفہوم اور ایک ہی انداز لئے ہوئے ہیں مگر جس شعر میں مومن تغزل کی رنگینی پیش کرتے ہیں وہیں غالب اسی مفہوم کو خشک فلسفہ بنا دیتے ہیں۔
مومن: چھٹ کہاں اور اسیر محبت کی زندگی
ناصح یہ بند غم نہیں قیدِ حیات ہے
غالب: قیدِحیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہی ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
مومن: لگتی ہیں گالیاں بھی تیرے منہ سے کیا بھلی
قربان تیرے ، پھر مجھے کہہ لے اسی طرح
غالب: کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بد مزہ نہ ہوا
غالب: کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آئے
مومن: جائیں وحشت سوئے صحرا کیوں
کم نہیں اپنے گھر کی ویرانی
غالب: ان دلفریبیوں پہ نہ کیوں اس پہ جان دوں
روٹھا تھا جو بے گناہ تو بے عذر من گیا
نظیر اکبر آبادی(۱۷۳۵ء ۔ ۱۸۳۰ء) تو غالب کے پیش روؤں میں سے تھے۔
نظیر: اس مہر پر انوار سے شبنم کی طرح ہم
گم ہوتے گئے ہم کو وہ جوں جوں نظر آیا
اسی خیال کاہو بہو عکس غالب کے شعر میں دیکھیں۔
پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں عنایت کی ایک نظر ہونے تک
غالب: نکتہ چیں ہے غمِ دل اسکو بنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
ذوق کا ایک شعر اسی انداز کا جو مشہور نہ ہو سکا۔
بات تو ہم نے بنائی تھی وہاں خوب مگر
تھی جو بگڑی ہوئی قسمت تو بنی خوب نہیں
کہیں کہیں پرانے شعراء میں ایک ہی مفہوم پر ایک دوسرے پر سبقت لینے کی غرض سے شعر بھی کہا جاتا تھا۔ شعر میں تھوڑی تبدیلی ہے۔
غالب: دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
ذوق: کہاں تلک کہوں ساقی کہ لا شراب تو دے
نہ دے شراب بھگو کر کوئی کباب تو دے
میرکاشعر: عاشق وہ ہیں جو اپنے دمِ رفتن
کرتے نہیں یار کو بھی اللہ کے حوالے
غالب: قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
نظیرکایہ شعر
حاضرجوابی دیکھو کہ لب سے مرے ہنوز
نکلا نہیں کہ سوال کہ واں ہو گیا ہے جواب
غالب کا شعر برمحل ہوگیا۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
نظیر: یار دیکھ اس کو لگے رکھنے عداوت مجھ سے
دوست بھی ہو گئے دشمن مرے وائے نصیب
نظیر ابتدائی دور کے شاعر تھے ۔ یہ شاعری غالب تک آتے آتے بالکل بدل گئی۔
غالب: ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ہو گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا
یہ شعر آج بھی مشہور ہے۔
قائم کا شعر ہے جس پر بہت کم لوگوں کی نظر گئی ہے۔
مسجد میں خدا کو بھی نہ کیجئے سجدہ
محراب نہ ہو خم جو برائے تعظیم
غالب: بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِکعبہ اگر وا نہ ہوا
قائم: اے آہ و نالہ چھپ کے میں آیا ہوں اس جگہ
عالم کو شور کرکے خبردار مت کرو
غالب: جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گِلہ نہ ہوا
میر نے کہا تھا۔
کون کہتا ہے نہ تم غیروں پہ امداد کرو
ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھی یاد کرو
غالب: تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو گناہ کیا ہو
میر نے غالب سے قبل کہا تھا
بھاگے مری صورت سے وہ عاشق،میں اس کی شکل پر
میں اس کا خواہاں یاں تلک وہ مجھ سے بیزار اس قدر
غالب نے اسے اپنے رنگ میں کہا
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میر کا ایک شعر تھا
گو گل و لالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن
خاک سے یکساں ہوئے ہیں ہائے کیا کیا آشنا
اسی مضمون کو ناسخ نے یوں ادا کیا۔
ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل انداے اس میں
اس لئے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا
غالب نے اس سے ملتا جلتا شعر کہا
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
میر کا ایک شعر جو غالب کے زمانے میں بھی مقبول رہا ہوگا۔
غم رہا جب تک دم میں دم رہا
دم کے جانے کا نہایت غم رہا
غالب: جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیاتو وہی دل کا درد تھا
یہ چند نمونے ہیں جواردو شاعروں کے ہیں۔فارسی شعرا سے غالب نے خوب سرقہ اور استفادہ کیا ہے جو عام قارئین کے مطالعے میں بہت پہلے سے ہے۔
آخر میں طوالت کے خوف سے مضمون یہیں چھوڑ رہا ہوں۔ آئندہ پھر کبھی اس موضوع پر لکھوں گا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں