ڈاکٹر ظہیر ؔرحمتی
اسسٹنٹ پروفیسر
ذاکر حسین دہلی کالج ، ایوینگ۔دہلی یونیورسٹی
اردو شعر کا تیسرا اسکول، دبستان رامپور اپنی منفرد شناخت کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے۔ دبستان رامپورنے دبستان دہلی کی خود سپردگی اور دبستان لکھنؤکی نسائیت کے بر عکس اردو شعر و ادب میں مردانہ لب و لہجے کے ساتھ عمومی زندگی کے معاملات و مسائل کو شعری اظہار کا جامہ پہنایا۔ شاعری میں دبستان رامپور کی درج ذیل خصوصیات واضح رہیں:
(۱) مردانہ لب و لہجہ
(۲) طنز ، شوخی
(۳) عام سلیس اور آسان بان
(۴) سادہ تشبیہات و استعارات کا استعمال
(۵) پرتکلف اور پر شکوہ زبان کے بجائے عوامی بول چال کی زبان اور لب و لہجے کا استعمال
(۶) رکاکت اور ابتذال سے از حد گریز
(۷) پاکیزہ معاملہ بندی کے ساتھ سماجی معاملات کا اظہار
دبستان رام پور نے اپنی ابتدا سے ہی میر ؔکی طرح زبان Langue کے بجائے Paroleکو شعری اظہار کاسب سے بڑا وصف قرار دیا ہے۔ اس لئے یہاں ناسخ ؔو غالبؔکی طرح کی تمثیل پسندی یا تراکیب کا استعمال دور دور تک نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دبستان رامپور کی شاعری میں فکر و فلسفے کی واضح گونج نہیں ہے مگر سماجی معاملات کے بیان میں دبستان رامپور تمام دبستانوں پر امتیازی فوقیت رکھتا ہے۔ داغ دہلوی اور شاد ؔعارفی دبستان رامپور کے مزاج و آہنگ کی نمائندہ علامت ہیں۔ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ دونوں شعرا ماحول رامپور کے پروردہ نہیں ہوتے تو جرأتؔ کی چوما چاٹی اور سوداؔ کی ہجو گوئی سے آگے ہیں بڑھتی۔ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤوقت کے بہاؤمیں ناپید ہوگئے مگر دبستان رامپور آج بھی اپنی امتیازی خصوصیات کے ساتھ موجود ہے۔ اردو شعر و ادب میں ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہے کہ ان تحریکات و رجحانات کی شاعری نے دبستان رامپور کے لب و لہجہ، طریقہ کار اور انداز بیان سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے بالخصوص مابعد جدید شاعری میں یہ وصف بالکل آئینہ ہے۔
شادؔ عارفی، محشر عنایتی، جلیل نعمانی، منے میاں صابرؔ، خیال ؔرامپوری،ڈاکٹر شوق اثری وغیرہ شعرا نے آزادی سے ما قبل اور ما بعد دبستان رامپور کے شعری اظہار کا جو خمیر تیار کیا تھا۔ اسی خمیر سے آزادی کے بعد اظہر ؔعنایتی، طالب رامپوری، سعید رامشؔ، شہزادہ ؔگلریز، ہوشؔنعمانی اور عرفان دانش جیسے شعرا منظر عام پر آئے۔ جنھوں نے جدیدیت کے شور و غوغاں میں بھی دبستان رامپور کی روایت کو اس طرح مستحکم کیا جو مابعد جدید شاعری کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی۔
ان شعرامیں اظہرؔ عنایتی واحد شاعر ہیں جنھوں نے منفرد طرز و اسلوب کے ساتھ دبستان رامپور کی جملہ خصوصیات کو بین الاقوامی سطح پر روشن کیا اور قابل فخر اثر قائم کیا۔ جبکہ مابعد جدید غزل پر طالب رامپوری ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے متنوع تجربات کے ساتھ لسانی تجربات اور سماجی و گھریلو معاملات کو جس رومانی پیرائے میں شاعری کا حصہ بنایا ہے اس کی دوسری مثال ابھی تک ناپید ہے۔ طالب رامپور وجودی جدیدیت کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے یہاں ذات کی بھول بھلیوں میں چکر کاٹ رہے انسان کی وہ مبہم اور بے نام کیفیات کا اظہار نہیں ہے جس کے تحت ہر نظریہ، ہر اصول ٹوٹتا بکھرتا ہوا نظر آئے اور شکستگی خود نظریہ و اصول کا درجہ پالے۔ طالب ؔرامپوری کے یہاں کوئی نہ کوئی نظریہ، اصول، معیار سفر ہمہ وقت موجود ہے، مگر یہ تمام امور عقلی تنقیدی تجزیہ پر مبنی ہیں لیکن یہ غیر مستقل اور غیر مستحکم ہیں کیوں کہ طالب ؔرامپوری فطرت جذبۂ انسانی کی آزادی کے قائل ہیں۔ اس لئے جہاں کہیں اس آزادی پر آنچ آتی ہے وہ نظریہ و اصلو شکست سے دوچار ہوجاتا ہے۔ دبستان رامپور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہاں سماجی معاملات میں روایتی اقدار ملحوظ خاطر رہتی ہیں۔ طالب ؔ رامپوری کے نزدیک بھی زندگی کی خوشیاں انھیں روایتی اقدار میں پنہاں ہیں چونکہ ہر قدر قربانی کی طالب ہوتی ہے۔ اس لئے طالبؔ رامپوری کے یہاں جذبۂ قربانی باعث راحت و سکون ہے۔ قربانی جذبہ ٔ محبت کی مرہون منت ہے۔ طالبؔ رامپوری کی شاعری کا محور و مرکز جذبۂ محبت ہی ہے لیکن ان کی شاعری میں محبت کا بیان روایتی تصوراتی نوعیت کا نہیں ہے نہ ہی وہ فلاطونی محبت کے قائل ہیں بلکہ ان کی محبت تمام ترتجرباتی نوعیت کی ہے۔ پاکیزہ مادی محبت وہ اس معاملے میں روح اور جسم کی کی دوئی کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری کے ساتھ ان کی شخصیت بھی سراپا محبت ہے۔ طالب رامپوری ہر شے سے ہمدردانہ معاملہ کرتے ہیں۔ ناقدانہ یا طنزیہ نہیں اس لیے ان کی شاعری بالخصوص ان کی غزل کا زیریں آہنگ خزانہ ہے اس میں ایک درد کی کسک ہے۔ لہجہ میں دھیما پن اور آہستگی ہے لیکن یہ آہستگی ناصرؔ کاظمی سے مختلف ایسی آہستگی ہے جس کی تہہ میں جوش روانی موجود ہے۔ لہجے کی اس آہستگی اور خوبصورتی سے با وصف طالب ؔ رامپوری کی غزل ہر طرح سامع سے اپنا ررشتہ بآسانی استوار کرلیتی ہے۔ لیکن ان کی سادگی، دھیمے پن اور آہستگی کی وجہ سے اکثر اوقات ان کے اشعار کی گہرائی و گیرائی سے سامع و قاری بے خبر گذر جاتا ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے جس کا شکار برسوں تک میر بھی رہے۔ طالبؔ رامپوری کا اسلوب دسادہ اور سلیس ہے تشبیہ واستعارے کے بیچ نامانوس علامتیں یا رعایت و مناسبت لفظی کی رنگینی اور تلازمات وغیرہ سے طالبؔ رامپوری کو علاقہ نہیں ہے اس لحاظ سے ان کے اسلوب پر نثریت کا غلبہ ہے جس کو سہل ممتنع بھی کہہ سکتے ہیں۔ طالبؔ رامپوری کے اسلوب میں تخئیلی عمل سے زیادہ محاکاتی عمل ہے تبھی ایک افسانہ نویس کی طرح واقعے یا منظر کو ابتدا اور انتہا کی درمیانی کڑیوں کو حذف کرتے ہوئے یا ابتدا اور وسط کے بیان سے اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ اس سے پرے معنیٰ کی کئی قندیلیں روشن ہوجاتی ہیں۔ طالب رامپوری کا یہی وصف ان کو افسانہ نویس اور نثر نگار سے ممتاز کرتا ہے۔ دبستان رامپور کے دوسرے معتبر شعرا کی طرح طالب ؔ رامپوری کی غزل کا ہر شعر ایک پلاٹ رکھتا ہے ان کی غزل میں شاعری کی تیسری آواز ہے وہ ایک راوی کی طرح کہانی کا کردار نہ ہوکر واقعے پر رائے زنی یا تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ مبصر ہی کہانی کا واقعی کردار ہوتا ہے۔ طالبؔ رامپوری کی غزل ذات کی شمولیت اور ذات کی علیحدگی کے درمیان اپنی معنویت قائم کرتی ہے۔ مابعد جدید شعرا مثلاً شارق کیفیؔ اور شکیلؔ جمالی وغیرہ کے یہاں پلاٹ اور واقعات کی رو کی خصوصیت طالبؔ رامپوری ، اظہرؔ عنایتی وغیرہ دبستان رامپور کے شعرا کی مرہون منت ہے۔ شارق کیفی اور شکیلؔ جمالی دونوں شعرا تو دبستان رامپور کا ہی حصہ ہیں۔ طالب رامپوری کا شعری اظہار اور طریقہ کار منفرد اور جداگانہ ہے۔ جدید اور مابعد جدید شعراء میں طالب ؔ رامپوری ہی وہ واحد شاعر ہیں جنھوں نے غزل میں مستعمل انگریزی الفاظ کو سنجیدگی سے برتا اور زبان کو مثالی اساس فراہم کی جو ہمارے معاشرے میں عام طور پر رائج ہوتی جارہی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے طالبؔ رامپوری Langueنہیں Paroleکو اہمیت دیتے ہیں یعنی معاشرے میں پنہاں زبان کا جو نظام جای و ساری ہے۔ وہ اہم ہے نہ کہ شاعر کی خود ساختہ زبان۔ چنانچہ paroleمیں انگریزیت بھی شامل ہوچکی ہے اس لیے طالب رامپوری کے اس سے کسی طرح گریز نہیں ہے۔ حالانکہ یہ کام خطرات اور جوکھم اٹھانے کے مترادف ہے کیوں کہ ابھی ہمارے مکتبی ذوق اور تنقید نے اس کو قبول نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ محنت غیر سنجیدہ مذاق کا اباعث ہوسکتی ہے۔ لیکن طالبؔ رامپوری نتیجے کی پروا کیے بغیر اپنے کام میں منہمک ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ طالب رامپوری کا ہر شعر ایک پلاٹ ہے ان کے یہ پلاٹ عام زندگی اور عمومی مسائل پر مبنی ہیں۔ محبت کے مسائل ، دوست احباب کے رویہ، گھریلو مسائل، آپسی چپقلش، ہمدردیاں، رقابتیں غرض کہ وہ تمام سماجی معاملات جو سماج کے افراد کو پیش آتے ہیں۔ طالبؔ رامپوری کی غزل کا حصہ ہیں۔ اس لیے طالب رامپوری کی غزل نہ تو ترقی پسندوں کی طرح سیاسی سرکار کی حامل ہے اور نہ جدیدیت کی طرح ذات و کائنات کی پیچیدگیوں سے سروکار رکھتی ہے۔ ان کے یہاں نہ تو مسائل کے حل کے لیے کوئی آدرش نظریہ ہے نہ ہی نظریوں سے فرار ہے بلکہ ہر معاملے کو اخلاقی قدر کے لحاظ سے دیکھتے ہیں اور اخلاقی ضمیر کی آواز کے سوا کچھ نہیں جو عین فطرت ہے محض عقلی اصول مسائل کا حل نہیں ہوتے بلکہ معاملہ فہمی سماجی رشتوں کی ضامن ہوتی ہے اور یہی معاملہ فہمی محبت و اخوت کو مستحکم کرتی ہے۔ اس لحاظ سے طالب ؔ رامپوری کی غزل جدید شعرا کے مقابلے میں زیادہ معنی خیز اور معنویت کی حامل ہے۔ سماجی معاملات کے بیان طالبؔ رامپوری کے اسلوب میں جاذبیت و کشش کے ساتھ حیرت انگیزی ، نیا پن اور تازگی ہے۔ ان کے رویے اور فکر سے نسلی فاصلے کا شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ ماضی سے استفادہ کرنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں اور مستقبل کو مثاتر کرنے کا ہنر بھی۔ شادؔ عارفی کے بعد دبستان رامپورکے شعرا میں طالب ؔرامپوری بھی ایک البیلے شاعر ہیں جن کی غزل میں نئے اور غیر شاعرانہ الفاظ کو بہتر طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ورنہ اکثر شعرا کی لفظیات کا دائرہ تنگ ہے۔ اس معاملے میں طالبؔ رامپوری منورؔرانا کے ہمسر ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ منور رانا کی غزل میں اونچی آواز Loudnessہونے کی وجہ سے وہ منظوم صحافت ہے جبکہ طالب ؔ رامپوری کی غزل شاعرانہ ثقافتی تاریخ جدید دور میں اردو غزل کے لب و لہجے اور اس کے دلکش انداز بیان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والوں میں دو بڑے نام منور رانا اور راحت اندوری کے ہیں۔ منور رانا کے یہاں کانٹ چھانٹ کر کچھ نہ کچھ ضرور بچ جاتا ہے مگر راحت اندوری کے یہاں چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں۔ مابعد جدید غزل کے اچھے خاصے شاعر محض بد تمیزی، بد تمیزی اور سوقیانہ لہجے کے استعمال کو بڑا کمال خیال کررہے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ اس طرح کے امور سے بھی بڑے کام لئے جاسکتے ہیں مگر اس کے لئے بڑی تخلیقی قوت اور ریاضت درکار ہے جس سے یہ محروم ہے۔ طالبؔ رامپوری کی غزل میں بھی بے تکلفی کے عناصر موجود ہیں مگر ان کے یہاں یہ امور گہرائی و گیرائی لیے ہوتے ہیں اس لیے کہیں بھی بد تمیزی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ طالب ؔ رامپوری کی مضمون بندش اور ان کے اشعار میںالفاظ کی در و بست غضب کی ہے۔ ان کے شعر کی ساخت عام بول چال کے جملوں سے ہے۔ یہ جملے عام انداز، روز مرہ اور رامپور و پرانی دہلی اور اس کے گرد نواح کا ہے۔ طالب ؔ رامپوری کا کمال یہ ہے تمام تر سادگیوں کے باوجود ن کے یہاں سپاٹ پن پید نہیں ہوتا۔ شعر میں مضمون کے اظہار سے جملوں کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ اس میں ایک استعجابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور بہت آسانی کے ساتھ شعر قائم ہوجاتا ہے ۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ جدید اور مابعد جدید غزل میں اس طرح کے اسلوب کے حامل صرف تین شاعر ہیں اظہر عنایتی، طالب رامپوری اور شارقؔ کیفی۔ بہت آسان الفاظ اور بالکل سادہ بندش کے باریک سے باریک کیفیت اور گہرے مضمون کو معنی آفرینی کے ساتھ بیان کرنا ان شعرا کا سب سے بڑا کمال ہے۔ ان شعرا کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری نسل سنجیدہ ناقد اور اس سے بڑھ کر ان تنقیدی آلات سے محروم ہے جو ان شعرا کی باریک مینا کاری کو تمثیلی سطح پر ثابت کرکے ان کی قدر افزائی کرسکے۔ ابھی تک ہمارے شعری تنقید میں غالبؔ و میرؔ کی قدر قیمت متعین کرنے والے معیارات اور آلات کے سوا کچھ نہیں کیے اس لئے ج بھی مابعد جدید غزل پر خامہ فرسائی ہوتی ہے تو سارا زور غزل کے موضوعات پر ہوتی ہے بیان مینا کاری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جب کہ شاعری میں بیان ہیئت مقدم ہے اور موضوع وخیال مؤخر۔ بات کیسے کہی گئی ہے شعر اس پر قائم ہوتا ہے۔ بات کیا کہی گئی ہے شعر اس پر قائم نہیں ہوتا۔ موضوع پر حد سے زیادہ ارتکاز کی وجہ سے ہمارے بہت سے ناقدین بے ہنگم اور بے شعور شعرا کو بھی صف اول کے شعرا سے متمائرہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
طالبؔ رامپوری کے اسلوب میں ایجاذ و اختصار سب سے بڑا وصف ہے۔ ان کی غزل کا مصرع ثانی شعر کے مکمل مضمون کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے مصرع اولیٰ ماحول بنانے یا اشارہ کرنے کا کام کرتا ہے۔ ان کے بعض مصرع ثانی دیکھ لیجئے
ع مسکرا کر دیکھ لیجئے دل بڑا ہو جائے گا
یہ نواش بھی بہت ہے ان غریبوں کے لیے
مسکرا کر لیجئے دل بڑا ہوجائے گا
ع گناہ کرنے کی عادت چھڑائے دیتا ہے
خدا بچائے تیرے پاکباز چہرے سے
گناہ کرنے کی عادت چھڑائے دیتا ہے
ع دیار عشق میں جب عرض و طول ہے ہی نہیں
یہ لوگ وسعتیں کیوں ناپتے ہیں پھر طالب
دیار عشق میں جب عرض و طول ہے ہی نہیں
ع دل اشارے میں بھی ٹوٹ جاتا ہے
چھو کے مت دیکھنا خدا کے لیے
دل اشارے میں بھی ٹوٹ جاتا ہے
ع محل تعمیر مل جل کر کئی مزدور کرتے ہیں
اکیلے آدمی کی کوششوں سے کچھ نہیں ہوتا
محل تمیر مل جل کر کئی مزدور کرتے ہیں
ع عشق میں کوئی ذات پات نہیں
کون ہو کیا ہو تم سے کیا پوچھی
عشق میں کوئی ذات پات نہیں
ع دنیا کو کوئی شخص نہیں جانتا تمام
تھوڑی سی معلومات پہ سب مطمئن سے ہیں
دنیا کو کوئی شخص نہیں جانتا تمام
اسی طرح وہ’’سے‘‘ ’’بھی‘‘ ’’اب‘‘ جیسے الفاظ سے بڑی معنی خیزی ، معنی آفرینی اور گہرائی پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ طالبؔ رامپوری اس طرح کے الفاظ سے لہجے میں تعری علائمت اور خوشگواری کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ طالبؔ رامپوری کے یہاں بہت کم ایسا ہے کہ کوئی لفظ یا ترکیب علامت کے طور پر برتی گئی ے بلکہ ان کا مکمل شعر یعنی مضمون و واقعہ ایک علامت کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے یہاں سیاسی پس منظر بھی کسی طور پر نمایاں ہوتا ہے لیکن سیاسی موضوعات سے بظاہر انھیں کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ان کا تمام تر ارتکاز سماجی معاملات بالخصوص گھریلو معاملات پر ہے۔
روز کچھ توڑنے والے سے یہ پوچھو طالبؔ
کیا کوئی چیز گھر میں نئی بھی ہے
دوہی دن گزرے ہی مجھ کو اپا گھر چھوڑے ہوئے
دور بیٹھا ہے مرا ہمزاد منھ موڑے ہوئے
القصہ احتیاط بھی مہنگی پڑی ہمیں
ٹوٹا وہی سنبھال کے جس کو رکھا گیا
کچھ بھروسا نہیں ہے رشتوں کا
اک اشارے میں ٹوٹ جاتے ہیں
وہ مرا ظرف آزماتا ہے
خاص موقعوں پر بھول جاتا ہے
بھوک بہت لگتی تھی جب تک اماں زندہ تھیں
شوق سے ہم پوچھا کرتے تھے کیا کیا پکا ہے
مارے غصے کے میں جو پھٹ سا گیا
ایک کونے میں گھر سمٹ سا گیا
چوٹ کھائی ذرا سی آہٹ پر
کیا ضرورت تھی دوڑ پڑنے کی
خدا نظر سے بچائے خوشی نہ ظاہر کر
پسند ہوں تو پسندیدگی نہ ظاہر کر
آپس میں سوکھے پتے کل بھی یہ کہہ رہے تھے
اس نے کئی دنوں سے جھاڑو نہیں لگائی
پیش کردیتا ہے غصے میں وہ پانی طالبؔ
کچھ تو مخلص ہے بپھرنے سے مجھے روکتا ہے
پتیلیوں کی چمک روٹیوں کی گولائی
اڑا کے لے گئی ہاتھوں سے اس کے رعنائی
روٹی کبھی کچی کبھی سالن میں نمک تیز
پاگل کیے رہتی ہے اسے دل کی کسک تیز
اس کے ہاتھوں کی مہک چٹنی میں تھی
لمس بھی مہندی کا پودینے میں تھا
شعرنمبر ۱؎ اس گھریلو فضا کا احاطہ کررہا ہے جس میں گھر کے بڑے بالخصوص مائیں اپنے غصیلے لڑکوں کی توڑ پھوڑ کی حرکتوں پر تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے اسی طرح کی بات کہا کرتی تھیں۔ شعر نمبر ۲؎ شوہرکے شہر سے باہر جانے پر محبت کرنے والی بیوی کی کیفیات کا اظہار ہے۔ شعر۳،۴؎ بھی اسی گھریلو ماحول کا عکاس ہے۔ شعر نمبر۵ ؎ دوست احباب کے اعتنائیوں کا اظہار ہے۔ پچھلے وقتوں میں عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ لوگ جن یار دوستوں یا رشتے داروں میں اپنا زیادہ وقت گزار تے تھے خاص موقعوں پر تلخی عام ہوتا شادی وغیرہ کی دعوت میں انھیں نہیں بلاتے تھے جس کی کئی وجوہات ہوا کرتی تھیں۔ کسی کو خاص موقع پر بلانا بہت گہرے رشتے کا شاریہ ضرور تھا مگر شخص سے ملاقات بس خاص موقعوں پر ہی ہوا کرتی تھی۔ بقیہ اشعار میں بھی واضح طور پر گھریلو معاملات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ طالب ؔ رامپوری کی غزل میں اس طرح کے بے شمار اشعار ہیں ان اشعار کے مطالعے سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوتی ہے کہ طالبؔ رامپوری کی غزل کے پس منظر میں ایک پختہ کار عورت کا کردار کسی نہ کسی صورت میں ضرور ہے۔ یہ عورت کہیں دادی نانی ماں ہے اور صالح بیوی ہے۔ مابعد جدید شاعری میں ’’ماں‘‘ اور بچوں کا موضوع خاصہ پرکشش رہا ہے لیکن طالبؔرامپوری کے ہاں یہ موضوع جس طرح جذب ہوکر پس منظر سے ابھرتا ہے اس کی مثال شاذ و نادر ہے۔ ان اشعار کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات آئینے کی طرح صاف ہے کہ طالب ؔ رامپوری کے یہاں یہ گھریلو موضوعات فقط مضمون کے بیان تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ موضوعات ایک گہری علامت بن کر سامنے آتے ہیں۔ حیات و کائنات ، زندگی اور قوت کشمکش وغیرہ تمام معانی ان کے جلو میں موجود ہیں؎
گھر کے دروازے، کھڑکی نے پکارا رک جاؤ
پاؤں پکڑے ہوئے کچھ دور گلی بھی آئی
دل کی پتنگ اڑائی ہے سپنوں کی ڈور سے
چلتی ہے آج دیکھیں ہوا کتنی زور سے
وقت کی گردش اچانک رک گئی
میں تھا چھت پر اور وہ زینے میں تھا
میری خیریت بس یہی ہے کہ میں
جہاں جس جگہ تھا بدستور ہوں
اسی کے دم سے ہی محفوظ عزتیں تھی بہت
کبھی ہمارے محلے میں شیر رہتا تھا
وقت جب آیا تو میں نے توڑ دی اپنی کماں
نام لکھ کر رکھ لیا تھا یوں تو اک اک تیر پر
ہم اتنے بے نیاز تو پہلے کبھی نہ تھے
اس نے برا کہا تو برا بھی نہیں لگا
و اب بھی شرم سارہے پتھر اچھال کر
ہم نے تو زور دے کے کہا بھی نہیں لگا
شہر اسٹوریوں کا جنگل
رائٹر بے شمار رہتے ہیں
مینٹل سا دکھائی دیتا ہوں
کچھ دنوں سے عجیب الجھن س
وہ کھڑکی کی شیشوں نے کروٹ سی لی
وہ کچھ اس نے پہنا اتارا سا کچھ
مذکورہ اشعار اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبؔ رامپوری کی غزل میں فرد اور سماج کے ان پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے جو ان سے پہلے مفقود تھا۔ ہر شعر ایک علامت ہے جس کا سیاسق کھلا ہوا ہے۔ ا ن میں سیاست، مذہب اور سماج کے پس منظر میں معنی خیزی کی مکمل گنجائش ہے۔ طالبؔ رامپوری کی شاعری کا یہ بڑا وصف ہے جو انھیں اپنے ہم عصروں سے ممتازو منفرد بناتا ہے۔ مابعد جدید غزل بالخصوص دبستان رامپور کی شاعری طالبؔ رامپوری کے ذکر کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہے۔ طالبؔ رامپوری کی قدر افزائی اہل علم و ادب پر لازم ہے۔ حالانکہ قدر کے نام پر تحسین نا شناس کو دیکھتے ہوئے وہ اس خواہش سے ہاتھ اٹھا چکے ہیںمگر ایک فن کار کے لئے سکوت سخن شناس کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے اسے اللہ ہی جانتا ے۔ اسی طالبؔ رامپوری کہتے ہیں؎
کچھ تو ہوا ہے ایسا کہ اندر کا آدمی
طالب تو ہے ضرور طلب گار اب نہیں
اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں