مہر فاطمہ
ہر زبان کی ایک ثقافت ہوتی ہے اور زبان پر ثقافت کا اثر ایک فطری امر ہے۔ چونکہ اردو نے ہندوستان میں آنکھیں کھولیں اسی لیے اردو کے ثقافتی تناظر میں ہندوستانی عوامل کی موجودگی لازمی امر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کو عربی، فارسی یا ایرانی لسانی و ثقافتی عوامل نے کم و بیش متاثر کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی یعنی ہندو، بدھی، جینی اور بھکتی وادی افکار و تصورات سے بھی اردو تہذیب و ثقافت اور اردو شعر و ادب کا دامن مالا مال ہے، بقول حسن عسکری:
اردو زبان سے عظیم تر کوئی چیز ہم نے ہندوستان نہیں دی، اس کی قیمت تاج محل سے ہزاروں گنا زیادہ ہے، ہمیں اس زبان پر فخر ہے، ہمیں اس کی ہندوستانیت پر فخر ہے، اور ہم اس ہندوستانیت کو عربیت یا ایرانیت سے بدلنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں، اس زبان کے لب و لہجے میں، اس کے الفاظ اور جملوں کی ساخت میں ہماری بہترین صلاحیتیں صرف ہوئی ہیں۔ اور ہم نے مانجھ مانجھ کر اس زبان کی ہندوستانیت کو چمکایا ہے ۔
بھکتی تحریک اور تصورکے سائے میں پنپنے والی قدروں کے بغیر اردو تہذیب بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔ تاریخ اور ادب کا ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم بھی بخوبی واقف ہے کہ اردو جدید ہند آریائی زبان ہے، جو کھڑی بولی، ہریانوی اور برج بھاشا سے مل کر تیار ہوئی۔ یہ خالص ہندوستانی پیداوار ہے اور قومی یکجہتی کا منہ بولتا ثبوت ہے، گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر کوئی دوسری زبان اردو کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتی، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کی معتبر ڈکشنری فرہنگ آصفیہ جس میں 59000 الفاظ ہیں، جس میں سے پچاس فیصدی الفاظ ہندوستانی، پچیس فیصدی الفاظ ہندی اور فارسی اور پچیس فیصدی عربی اور دیگر کے میل سے بنے ہیں۔
اردو ادب میں رستم و اسفندیار کی داستان کے ساتھ ساتھ کرشن اور ارجن کے واقعات بھی موجود ہیں،شیریں اور لیلیٰ کی محبوبانہ دلنوازیوں کے ساتھ ساتھ شکنتلا اور رادھا کے والہانہ عشق کا بھی بیان نفسی طمانیت کا سامان بنتا ہے۔ یوسف و زلیخا اور بلقیس و سلیمان کے ساتھ ساتھ رام و سیتا، کرشن و رادھا بھی اردو شاعری اور قصہ گوئی میں اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ہماری گنگا جمنی زبان بھی ہے اور گنگا جمنا کی طرح اس کے دھارے دوسری زبانوں سے الگ بھی بہتے ہیں، پھر سنگم پر ایک بھی ہو جاتے ہیں۔ ہندوستانی جانوروں، پرندوں، پہاڑوں، موسموں، جنگلوں، درختوں، پھلوں اور پھولوں کے دلکش مناظر اردو شعر و ادب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اردو ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس کے خمیر میں ہندوستانی اثر موجود نہیں ہے۔ شاعری میں قصائد، غزلیات، مثنویات، مراثی، شہر آشوب، رباعیات، قطعات، گیت ، دوہے اور دیگر منظومات غرض ہر صنف کی رگوں میں ہندوستانی مٹی ،دریا،پہاڑ،سمندر، جنگلات،گاؤں اور شہر وغیرہ کا لہو رواں دواں ہے۔
اردو نظم کی ابتدا ہی فطری مناظر، ہندوستانی روسم و رواج اور حب الوطنی ہوتی ہے، خسرو سے نظیر تک صرف نظموں کے عنوان پر ہی نظر ڈالی جائےتو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہندستانی رنگ و آہنگ اور ہندوستانی ثقافت میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدا تو اردو نظموں میں حب الوطنی کے باقاعدہ ترانے گائے جانے لگے۔ اقبال، جوش، فیض، چکبست، سرور جہان آبادی، تلوک چند محروم اور جمیل مظہری ، کس کس کا نام لیا جائے۔ اقبال نے بانگ درا کی آخری نظم طلوع اسلام میں دور گراں خوابی سے بیدار کرتے ہوئے صبح نو کی بشارت دی اور اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ :
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونےوالا ہے
شکوہ ترکمانی، زین ہندی، نطق اعرابی
اس شعر سے عیاں ہے کہ اقبال شکوہ ترکمانی اور نطق اعرابی کے ساتھ ساتھ زین ہندی کو بھی انعام خداوندی سمجھتے تھے، یہ ایک شعر ہی اقبال پر لگائے جانے والے الزامات کی نفی کے لیے کافی ہے۔ بانگ درا میں جہاں صدیق اکبر کے لیے نظم ہے وہیں ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جو رام اور گرو نانک کی شان میں ہیں۔ بال جبریل کی ابتداء ہی بھرتری ہری کے شعر سے کی گئی ہے، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز آخری زمانے کے مجموعے ہیں، یہ دونوں مجموعے اخوت انسانی اور حب وطنی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بندگی نامہ ہندوستانی تلمیحات و اشارات سے پر ہے۔ جاوید نا مہ میں شیو جی کو دوست کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ اقبال نے غداران وطن میں بھی بڑی بے باکی سے اپنی رائے دی ہے اور اور ان کے بدترین انجام سے بھی دوچار ہونے کی منظر کشی بھی کی ہے۔ کیا اس کے بعد یہ کہنے کا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ اقبال ہندوستانی تہذیب یا مشترکہ تہذیب یا اقدار سے منحرف ہو گئے تھے۔
وہیں چکبست کی نظموں پر نظر ڈالیں تو حب وطنی کے جذبے سے سرشار نظر آتی ہیں،۔ان کی نظم خاک وطن سے ایک بند :
گوتمؔ نے آبرو دی اس معبد کہن کو
سرمدؔ نے اس زمیں پر صدقے کیا وطن کو
اکبرؔ نے جام الفت بخشا اس انجمن کو
سینچا لہو سے اپنے راناؔ نے اس چمن کو
دیوار و در سے اب تک ان کا اثر عیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیت اذاں ہے
وہیں نظیر کے یہاں ہولی، دیوالی،عید، میلے ٹھیلے اور کرشن وغیرہ پر بے شمار نظمیں گنگا اور جمنی تہذیب کی عکاسی کرتی ملتی ہیں، نظم ہولی سے ایک بند :
جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اور دف کے شور کھڑکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
پریوں کے رنگ دمکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
خم، شیشے، جام، جھلکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
بالکل یہی دور میر و مرزا کا بھی ہے جس میں فارسی ادب کی طرف خاص توجہ دی گئی، اس عہد اس عہد کا تاریخی و تہذیبی سطح پر امتیازی رویہ بھی تھا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، میر کی مثنویات اور سودا کے قصائد میں دیکھئے تو ہندوستانی روایت، دہلوی تہذیب اور تاریخی حسیت کا پر تو اس میں صاف طور پر نظر آتا ہے۔ مثنویاںتو خیر تہذیب و تمدن کی بھرپور عکاسی کرتی ہی ہیں، سحر البیان،گلزار نسیم وغیرہ میں ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔میر یا مصحفی کی مثنویاں ہوں یا مرزا شوق کی زہر عشق ، ہندوستانی تہذیبی اقدار شعوری یا لا شعوری طور پر پیش کرتی ہیں۔ جگہ جگہ میلوں ٹھیلوں کا ذکر ہوتا ہے ، اپنے اپنے عہد کی طرز معاشرت ،محلات کی زندگی، عوامی رہن سہن، شادی بیاہ کی تقاریب و رسومات اور زیورات و ملبوسات، غرض کہ مختلف اقسام کے کھانوں تک کا ذکر مثنویوں میں موجود ہے۔ ان خصوصیات کو دیکھتے ہوئے مثنویوں کو تہذیبی دستاویزات کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہم مرثیوں کی طرف نظر کرتے ہیں جن میں ہندوستانی زندگی کی بھرپور عکاسی ملتی ہے، جبکہ یہ مرثیے واقعات کربلا سے متعلق ہیں۔ نہایت مشعور شعر ہے:
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
عرب کے ریگستان میں اتنی اوس کا کہاں گزر، یہ صرف ہندوستانی موسم ہے جہاں کچھ مہینے زبردست اوس گرتی ہے اور ہر طرف سر سبز و شادابی ملتی ہے۔ قصیدے کی بات کریں تو سودا، ذوق، غالب، محسن وغیرہ کی کسی بھی وغیرہ یا کسی بھی شاعرقصیدہ دیکھئے ہر ہر لفظ سے ہندوستانی شان و شوکت ٹپکتی ہے۔ مثلا ، سودا کے نعتیہ قصیدہ کی ابتداء یوں ہوتی ہے:
ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی
یعنی کفر اسلام کے لئے بطورتمغہ ہے اور اس کی دلیل یہ دی کہ تسبیح کے دانے جو سلیمانی پتھر کے ہیں ان میں باریک باریک دھاریاں ہیں اور دھاری سے استعارتا زنار مراد لیا جاتا ہے جو کفر کی نشانی ہے۔ اس دھاری کو تسبیح کے دانوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا لہذا یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں اسلام کا وجود ہوگاوہاں وہاں کفر ثابت ہے۔ اس سے بڑھ کر باہم ربط کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔
محسن کاکوروی نے پانچ قصیدے لکھے اور پانچوں قصیدے نعتیہ ہیں۔ لامیہ قصیدے کی ابتداء یوں ہے:
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پر لاتی ہے صبا گنگا جل
ان کے قصیدوں کو پڑھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضور عرب کے ریگزاروں میں نہیں بلکہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
اردو غزل کی بات کریں تو غزل ہے ہی سراپا الفت و محبت ، انسان دوستی، مذہبی رواداری، سیکولرزم، جمہوری اور تہذیبی قدروں کی امین ،ترجمان اور پاسبان۔ غزل میں ابتدا ہی سے یہ رنگ نمایاں ہے۔ خسرو کا شعر ہے :
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
زرا ولی کا رنگ دیکھیے:
تجھ مکھ کی پرستش میں گئی عمر مری ساری
اے بت کی پجن ہاری ٹک اس کو پجاتی جا
یا میر کہتے ہیں :
اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
جہاں ان کلاسیکی شعرا نے ہندوستانی عناصر، گنگا و جمنی تہذیب اور مقامی زبانوں کے الفاظ کا استعمال فنکارانہ طور پر کیا ہے وہیں جدید شاعروں کے یہاں بھی یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔
سن ری سجریا، رس کی گگریا، کل گاؤں کے میلے میں
دور دیس کا ایک پردیسی تجھ پر تن من ہار گیا
یوں ہردے کے شہر میں اکثر تیری یاد کی لہر چلے
جیسے اک دیہات کی گوری گیت الا پے شام ڈھلے
دور افق پر پھیل گئی ہے کاجل کاجل تاریکی
پاگل پاگل تنہائی میں کس کی آس کا دیپ جلے
غرض یہ کہ حقیقت پسندی ہو یا پھر رومانوی دور کی حسن پسندی، اشتراکیت پسند ادبی رجحانات ہوں یا انقلاب پسند رویے، آزادی کے نغمے ہوں یا کسان اور مزدور تحریکوں سے وابستہ نعرے ہوں یا ادبی شعری اظہار کی روشیںہوں، ہر جگہ تہذیب کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔
آخر میں چند بند :
زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے
اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے
جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے
زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے
اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے
جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے
یہ کیسی باد بہار ہے جس میں شاخ اردو نہ پھل سکے گی
وہ کیسا روئے نگار ہوگا نہ زلف جس پر مچل سکے گی
ہمیں وہ آزادی چاہیئے جس میں دل کی مینا ابل سکے گی
چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہم ہوائے بہار بن کر
ہمالیہ سے اتر رہے ہیں ترانۂ آبشار بن کر
رواں ہیں ہندوستاں کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر
ہماری پیاری زبان اردو
ہماری نغموں کی جان اردو
حسین، دل کش جوان اردو
(سردار جعفری)
****
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں