خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے،اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے
چشم رمز آشنا ، قلب عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ ادھر چاہیے
(عرفان ستار)
ہم بخوبی واقف ہیں کہ جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ نت نئی ایجادات واختراعات کا دور ہے۔جو چیزیں آج تک طلسماتی اور قول محال سمجھی جاتی تھیں ،سائنس اور ٹکنالوجی نے اسے سچ کر دکھایا ۔موجودہ دور میں انٹر نیٹ انسانی زندگی کا ایک لازمی جز و بن چکا ہے۔ماضی کا انسان اپنے خیالات و جذبات کا بیان خطوط کے ذریعہ کیا کرتا تھا ۔اس کے بر عکس آج بلاگس،فیس بک،ٹوئیٹراور واٹس ایپ کے ذریعہ پیغام کی بآسانی ترسیل ممکن ہے۔اطلاعاتی انقلاب نے کائناتی نظام کو سائبر ایج میں منتقل کر دیا ہے ۔جہاں معلومات کا لامتناہی انبار موجود ہے۔اس سائبر اسپیس میں ڈیجیٹل لائبریریز ،انسائیکلو پیڈیا،اخبارات و رسائل،ویب سائٹس،بلاگس اور ای کتب موجودہیں۔جو اردوادب کی ترویج و اشاعت میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں اور ثقافتی قدروں کو محبان اردو کے علاوہ ان حلقوں سے بھی جوڑتی ہیں جوبالعموم غیر اردو داں طبقہ ہے۔دوسری طرف یہ ذرائع اردو رسم الخط کے فروغ میں بھی مثبت کردار اد ا کر رہے ہیں ۔
زمانے کی تبدیلی شعبہ حیات کے ہر پہلو پر ار انداز ہوتی ہے اور جدید تر ٹکنالوجی کے اس بڑھتے سیلاب نے یہ بھی ممکن کر دیا ہے کہ زبان و ادب کا مطالعہ ہر لمحہ کیا جا سکتا ہے ۔اردو یو نی کوڈ فونٹ کی ایجاد نے اردو میں ویب سائٹس اور ایپس (apps)کی تیاری میں بہت مدد کی ہے۔موبائل پر ایک ٹچ یا کلک سے اپنی زبان میں معلومات کا قیمتی ذخیرہ سیکینڈ میں حاصل کیا جا سکتا ہے:
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہواتارا مہ کامل نہ بن جائے
(اقبال)
دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن ’’گوگل‘‘پر دوسری بین الاقوامی زبانوں کی طرح اردو میں بھی تلاش کرنے کے بہت سے متبادل دستیاب ہیں ،اسی طرح مشہور آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’’وکی پیڈیا‘‘ پر اردو میں مطلوبہ مواد تک بآسانی ترسیل ہو جاتی ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اس میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش بھی موجود ہے۔فیس بک ،ٹوئیٹر،انسٹاگرام اور دیگر مقبول عام سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر اسی یونی کوڈ ٹکنا لوجی نے بہت مدد پہنچائی ہے ۔ٹکنا لوجی کی اس دنیا میں زبان کی ہجے،قواعد کی پابندیوں اور جملوں کی بھر مار سے آزاد مختصر پیرائے میں اپنی بات کو سموتے ہوئے ایک نئی زبان ایجاد ہو رہی ہے جو تیزی سے مقبول عام ہو رہی ہے۔اس لئے زبان پر جتنی زیادہ قدرت حاصل ہوگی اتنی زیادہ مہارت سے اظہار کا وسیلہ سامنے آئے گا۔اس لئے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں زبان کی اہمیت پر سنجیدگی سے توجہ دیا جا رہا ہے وہیںاردو زبان نے قومی یک جہتی اور اتحاد سے اپنے شناخت کو منور کیا ہے۔اردو اپنی شیرینی ،لطافت، پر زورانداز کے ساتھ اظہار کا بہترین مرقع ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اردو کی ترویج و اشاعت کے جدید ذرائع میں ایک اہم ذریعہ ویب سائٹز ہیں یا ان کا بڑا ہاتھ ہے جہاں پر صارفین اپنی ہر طرح کی تحریر بغیر کسی پابندی کے پیش کر سکتے ہیں ،اور قارئین بغیر کسی زمان و مکاں کی پابندی کئے ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ردو کی کئی ویب سا ئٹز موجود ہیں ،جن میں سے اہم ’’مضامین ڈاٹ کام،ادبی میراث،قندیل ڈاٹ کام،بصیرت آن لائن ،ایس آر میڈیا اور دی سورس بھارت ‘‘ وغیرہ ہیں۔انہوں نے اردو کی ترویج و اشاعت میں اہم رول ادا کیا ہے ۔یوٹیوب پر بھی اردو کے بے شمار چینلز رہے ہیں مثلا کتاب ماضی ،شعر و نغمہ،اردو پوائنٹ،الفاظ کا جادو،ہاٹ کیک، رنجش ڈاٹ کام،باز گشت،انجمن ترقی ہند،جشن ادب اور جشن ریختہ وغیرہ۔ان چینلز پر روزانہ اردو سیکھنے سیکھانے کے متعلق سیکڑوں ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں اور اردو شاعری اور نثر کے بے شمار نمونے ڈالے جاتے ہیں ۔مشہور زمانہ چینل ’’اردو ادب‘‘پر اردو قواعد ،محاورے ،لفظ و معنی کی بحث،اردو کے سفر نامے،خطوط نگاری، مثنوی اور مشہور خاکوں وغیرہ کا خلاصہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اردو ادب کے طلبا و طالبات کے نیٹ ،جے آر ایف کی تیاری کے لئے بھی مواد فراہم کیا جاتا ہے ۔
بہر حال دیکھا یہ گیا کہ بیشتر ویب ساٹز اپنے ابتدائی دور میں کافی متحرک رہیں لیکن ان کا چراغ فتہ رفتہ ماند پڑتے پڑتے بجھنے کے کغار پر ہے۔ہلکی ہلکی مدھم مدھم روشنی توباقی رہی ہے ، لیکن وہ بھی نجانے کب اپنی آخری سانسیں لے کر ہمیشہ کے لئے خیر آباد خیر کہہ جائیں، پتہ نہیں۔۔۔۔۔خیر اس ہچکی آمیز زندگی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔جن پر کبھی تسلی سے بات کی جائے گی۔ فی الحال میں مذکورہ فضا میں آپ سب کو شناسائی ڈاٹ کام کے آغازکی خوش خبری سناتی ہوں۔اس امید کے ساتھ کہ حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ آپ کا بھر پور تعاون حاصل رہے گا۔۔۔۔
شنا سائی ڈاٹ کام کے اغراض و مقاصد یہ ہیں کہ اہم اور نایاب تحریروں کو یکجا کرکے آپ کے سامنے پیش کیا جائے گا کہ جو نہ تونیٹ پر موجود ہوں اور نہ ہی آسانی سے آف لائن دستیاب ہو پا رہی ہوں۔ اس کے علاوہ نثر و نظم کی عمدہ تخلیقات ایک کلک کی حد پر آپ کے سامنے ہوں گی۔اس ویب سائٹ پر اردو زبان کے مشہور ومعروف ادیبوں ،شاعروں ،افسانہ نگاروں اور صحافیوں وغیرہ سے مختلف ادبی موضوعات پر سیر حاصل مذاکرے بھی پیش کئے جاتے رہیں گے۔اس کے علاوہ اہم شاعروں،منصنفین ،ناقدین اور محققین کے موجودہ انٹرویوز بھی پیش کئے جائیں گے، مثلا ہمارے پاس ابھی گوپی چند نارنگ ،شمش الرحمن فاروقی،شافع قدوائی،ابو الکلام قاسی،ناصر عباس نیر،شمیم حنفی اور ابن کنول صاحب وغیرہ کے انٹرویو ز موجود ہیں ، ان کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نوجوان تخلیق کار سے بھی گفتگو پیش کریں گے ۔جس سے اردو ادب اور ان کے ادیبوں اور شاعروں جن میںنئے اور پرانے دونوں چراغ شامل ہیں،ان کی خدمات سے اردو اور غیراردو داںطبقہ روشناس ہو تا رہے گا۔اس کے علاوہ اس کییوٹیوب چینل پرممکنہ حد تک پروگراموں کی ویڈیوز یا ان کی رپورٹ بھی پیش کی جائے گی ،جس سے آپ بے شمار منعقد ہونے ہونے والے پروگراموں سے واقف رہیں گے جبکہ پہلے تو اس کی فہرست نکالنا ہی مشکل ترین مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ موجودہ چینل کی مدد سے نہ صرف فہرست نکالی جا سکتی ہے بلکہ ان میں شریک بھی ہوا جا سکتا ہے۔دوردراز کے سفر کے مرحلے کو بھی یوٹیوب نے آسان کردیا ہے۔ا ن چینلز پر اپنے تاثرات اور خیالات بھی کمینٹ سیکشن میں درج کیے جا سکتے ہیں ۔لائیو پروگرامز(live programs) کے علاوہ مشاعرے ،بیت بازی، داستان گوئی ، غزل سرائی اورمختلف ادبی گفتگو کی پرانی ویڈیوز بی جب چاہیں دیکھ سکتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ ان شاعرو ں کی ویڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں جو بقید حیات نہیں ہیں ۔Rare video and clips کو بھی حتی الامکان حاصل کرکے اپلوڈ کرنے کی کوشش کی جائے گی،ظاہر ہے کہ اب ہمارے ادبا اور شعرا صرف کتابوں کی حد تک محدود نہیں رہ گئے۔اب وہ دور ترقی ہے کہ مرحوم شعراکا کلام بھی بزبان شاعر سننے کا شرف بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ کیا ہی دلچسپ امر ہے کہ ہم شاعر کا حلیہ ،شعر خوانی کا انداز،شخصیت اور عادات واطوارکا اندازہ لگا سکتے ہیںیعنی سنی سنائی باتوں اور لکھی لکھائی باتوں پر اکتفا کرنے کے بجائے بذات خود دیکھ کر اپنے تاثرات قائم کر سکتے ہیں۔وہ قدما جن کی ویڈیوز دستیاب نہیںہیں ان کا کلام دوسروں کی آواز میں پیش کیا جائے گا، جس کو بلند خوانی کا فن بھی کہا جاتا ہے۔بلند خوانی کے سلسلے میں ہم جانے ہی ہیں کہ ایک اہم نام ضیا محی الدین کا ہے۔انہو ں نے عمدہ ادبی تصانیف سے اقتباسات کی بلند خوانی کرکے ڈھیروں داد وصول کی ۔ان کے بے شمار چاہنے والے ہیں جن میں اچھی خاصی تعداد غیر اردو داں طبقے کی بھی ہے۔
ایک بار جب ضیا محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘ریکارڈ کی تو ایک صاحب نے مشتاق احمد یوسفی سے کہا:واللہ ضیا محی الدین نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ یہ سن کر یوسفی صاحب نے کہا :وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جان تو مردوں میں ڈالی جاتی ہے۔انہوں نے جواب دیا :یہی تو ضیا محی الدین نے کیا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے خودبھی لکھا ہے :’ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہمار ی تحریر کے بعض جاندار ،جان ہار اور حساس حصے کوئی دوسرا پڑھ کر سنائے۔میدان حشر میں ہمارا نامہ اعمال اگر بائیں ہاتھ میں پکڑایاگیا تو شرم کے ما رے ہم اسے پڑھ نہ پائیں گے،ضیا محی الدین سے سنیں اور سنوائیں گے‘۔ ضیا محی الدین نے نہ صرف مشتاق احمد یوسفی بلکہ رتن سنگھ سرشار،پطرس بخاری،چودھری محمد علی رودولوی،فیض احمد فیض،ن م راشد،اور ابن انشاوغیرہ کی تصانیف سے شہ پاروں کی بہترین بلند وانی کی ہے۔یوٹیوب پر یہ ویڈیوزہمارا بیش قیمتی سرمایہ ہیں کیونکہ جہاں یہ تخلیق کار کے فن کا نمونہ ہیں وہیں پیش کرنے والے کے حسن انتخاب،سخن فہمی،نکتہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت،الفاظکا مزاج ،لہجہ اورلہجہ پہچاننے کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کی نظرجملے کی ساخت اور ہیئت پر ہی نہیں رہتی بلکہ الفاظ کی حسیت پر بھی توجہ رتی ہے۔بلند خوانی میں آواز کے نشیب و فرازاور اظہار کے انداز کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے ۔وہ نہ صرف تلخٰی،ترشی اور شیرینی کے مختلف سطحوں سے واقف کراتے ہیں بلکہ لہجہ کا ایک منفرد انداز اس میں شامل کرتے ہیں۔ایک کامیاب اور نامور اداکار کی طرح کردار کی ہرزبان ا ن کی زبان ،ہر لہجہ ان کا لہجہ معلو ہوتا ہے:
گویا تمام چہرے ہیں میرے چہرے
ہر ایک لہجہ ہے میرا لہجہ
یہ حقیقت ہے کہ لفظ کے مختلف شیڈش اور تہیں اس وقت تک نہیں کھلتی ہیں جب تک وہ زبان سے ادا نہ کیا جائے۔سیاق و سباق اور اس کی ادائیگی کے وقت جو لہجہ اختیار کیا جاتا ہے وہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔مختصر یہ کہ رفتہ رفتہ بلند خوانی کا نہایت اعلی معیار قائم ہورہاہے جو ایک خوش آئند قدم ہے۔اس کے علاوہ ہم اپنے چینل پر بیت بازی اور دیگر ادبی پروگرامز کی ویڈیوز بھی شامل کریں گے ۔مختصر یہ کہ یوٹیوب پر بیت بازی،غزل سرائی،مشاعرے،داستان گوئی،ادبا اور شعرا پر دستاویزی فلمیں اور دیگر ادبی پروگرام کی ویڈیوز شئیر کرنے کاجو رواج کو مزید پروان چڑھانے کی کوشش میں اپنا حصہ درج کرایا جائے گا ،آخر بس اتنا کہوں گی کہ بہت ہی ناشکری ہوگی کہ اگر میں اس کا اعتراف نہ کروں کہ عالمی سطح پر اردو کی فروغ و اشاعت میں کئی ویب سائٹ پہلے سے ہی گامزن ہیں اگر چہ اب رفتار ذرا دھیمی ہوگئی ہے لیکن واقعی قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اس خاموشی کے ساتھ اردو کی ارتقا کے لئے کام کر رہے ہیں:
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
(جگرمرادآبادی)
ہماری بھی کوشش یہی ہے کہ اس موجودہ فضا میں آپ کی امیدوں پر پورے اترسکیں جس کے لئے آپ سے حوصلہ افزائی ،قیمتی مشوروں اور تحریری تعاون کی درخواست ہے تاکہ آپ کے سامنے پیش کئے گئے منصوبہ میں کامیاب ہوسکیں ۔
شکریہ۔۔۔۔۔
مہر فاطمہ
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
2 تبصرے
بہترین اور مفید گفتگو
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت اردو شعر و ادب سے متعلق مختلف سائٹس موجود ہیں جن میں ریختہ ادبی میراث اور پاکستان کے کچھ اچھا اور معیاری ادب فراہم کر رہے ہیں مگر یہ سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے، ویورز اور اعترافات سے قطع نظر اپنے حصے کی محنت جاری رکھیں اور یقین رکھیں کہ پیاسا کنویں کے پاس خود آئے گا.. نیک خواہشات