ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی
عصمت چغتائی اردوادب بالخصوص فکشن کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں۔ انھوں نے اس میدان میں اپنی جولانی طبع کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ گرچہ ان کے ناولوں کی تھیم یا کردار ایک محدود دائرے میں گردش کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، لیکن اس کے باوجود قلم کی جدت قاری کو سوچنے پر مجبورکردیتی ہے۔ عصمت کی تخلیق کردہ نالوں میں جو شہرت اور مقبولیت ٹیڑھی لکیر، ضدی اور معصومہ کو حاصل ہوئی وہ دوسرے ناولوں کو نصیب نہ ہوسکی۔ حالانکہ بقول عصمت”مجھے اس (ٹیڑھی لکیر) سے زیادہ ’دل کی دنیا‘ پسند ہے۔“ ۱؎ عصمت کے اس جملے پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو حیرت ہوگی کہ جن ناولوں کو ناقدین ادب نے تخلیقی اعتبارسے بہتر گردانا ہے وہ ان کے نزدیک ’دل کی دنیا‘ سے کمتر درجے کی قرار پاتی ہے۔ کمتر درجے سے میری مراد فنی اعتبار سے نہیں بلکہ پسندیدگی کے لحاظ سے ہے ورنہ عصمت بھی اس حقیقت سے کماحقہ واقف تھیں کہ ’ٹیڑھی لکیر‘، ’دل کی دنیا‘ سے بدرجہا بہتر ہے۔
اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ عصمت نے ’دل کی دنیا‘ کو ’ٹیڑھی لکیر‘ پر فوقیت دی؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ’دل کی دنیا‘ میں عصمت کے وہ سارے خیالات اور نظریات یکجا ہوگئے ہیں جن پر وہ تادم آخر قائم رہیں مثلاً جنسی ناآسودگی اور اس کے حصول کے لیے جرأت مندانہ اقدام خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں جائز ہو یا ناجائز، توہم پرستی، عورتوں اور مردوں کے درمیان سماجی نابرابری، معاشرے میں پھیلے بے جا یا بجا رسم و رواج سے بغاوت، گھریلو عورتوں کی بے بسی اور مجبوری وغیرہ غرض کہ ان کے نظریات کی مکمل عکاسی ’دل کی دنیا‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔غالباً یہی وجہ رہی ہوگی کہ عصمت کو بہ نسبت دوسرے ناولوں کے ’دل کی دنیا‘ زیادہ عزیز تھا۔ اسی خیال کو جگدیش چندر ودھان نے یوں بیان کیا ہے:
”…..عصمت کا یہ ناولٹ….. ان کے عقائد اور نظریات اور جذبات و احساسات کی بطریق احسن ترجمانی کرتا ہے۔ توہمات کی شکست و ریخت اور ”آزاد محبت“ کے نظریے کی ترویج عصمت کی سائیکی کا حصہ ہیں۔ ان کی نجی زندگی اور ادب پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے…… شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک اس ناولٹ کو ان کے دیگرناولوں پر فوقیت حاصل ہے۔“ ۲؎
درج بالااقتباس سے پہلے ’دل کی دنیا‘ کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ عصمت کے یہاں معاشرے میں پھیلے بے جا یا بجا رسم و رواج کے تئیں بغاوت کا عنصر کارفرما نظر آتا ہے۔ ناولٹ ’د ل کی دنیا‘ میں اس کا اطلاق بڑی چابکدستی سے ہوا ہے۔ جہاں تک سماج میں رائج بے جا رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرنے کی بات ہے وہاں عصمت کا قد قدرے اونچا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر قدسیہ خالہ کے شوہر کا دوسری شادی کرلینا اور پہلی بیوی یعنی قدسیہ خالہ کویوں بھول جانا جیسے کوئی ردی ٹوکری میں رکھ کر بھو ل جائے، یقینا مذمت کے قابل ہے۔ کیوں کہ جنسی جذبے کی تسکین بہ نسبت مردوں کے عورتوں کے لیے زیادہ پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک بجا رسم و رواج کا تعلق ہے وہاں عصمت کا باغیانہ پن سماج میں انتشار و فساد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ عصمت چونکہ آزاد محبت (Free Love) کی قائل تھیں لہٰذا اس نظریے کو بڑی شد و مد کے ساتھ اس ناولٹ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود قدسیہ خالہ کا دیور شبیر کے ساتھ معاشقانہ چشمک کا سلسلہ تو کسی طرح قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بغیر طلاق یا خلع کے دوسرا نکاح کرنا شرعی اعتبار سے نہ درست ہے اور نہ دنیاوی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔اگر بہ فرض محال مان بھی لیا جائے کہ عصمت کا یہ نظریہ عورتوں کے حق میں درست ہے تو پھر انسانی اور سماجی قدروں کی کوئی وقعت ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
عصمت نے اکثر اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرد جنسی خواہشات کی تکمیل میں آزاد ہے جب کہ عورت محبوس۔ اس ناولٹ میں بھی انھوں نے چچا مستقیم عرف مچھو اور قدسیہ خالہ کے کردار کے ذریعہ یہ باور کرانے کی سعی کی ہے کہ مچھو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے بالکل آزاد ہے۔ طوائفوں کے یہاں آنا جا نایا اپنی محبت کا بذات خود قدسیہ سے اظہار کرتے ہوئے یہ کہنا: ”عجیب منچنو ہیں یہ تمہارے شبیر حسن! ہم ہوتے تو….. لے کے بھاگ جاتے!چچا میاں نے لمبی چوڑی انگڑائی کے ہاتھ پھیلائے۔“ ۳؎ جب کہ قدسیہ نے اپنے شوہر کی خواہش میں جوانی کے دس سال یوں ہی گزار دیے۔ یہی نہیں شبیر ماموں سے محبت کرنے کے باوجود وہ اظہار سے قاصر نظر آتی ہیں۔ عورتوں کی اسی کسمپرسی کی حالت کے زیر اثر عصمت نے آزاد محبت کا نعرہ لگایا کہ آخر عورت ہی کیوں اپنے جذبات و احساسات کی بلی چڑھائے۔
ناولٹ کے آخر میں قدسیہ خالہ اور شبیر ماموں کے نکاح کے متعلق جب بعض مسائل پیدا ہوئے کہ بغیر طلاق کے دوسرا نکاح کیوں کر ممکن ہے؟ تو مچھو چچا نے زور زبردستی سب کو ڈرا دھمکا کر ان دونوں کا نکاح کروادیا:
”مچھو ماموں کو جب اس ہچر مچر کی خبر ملی تو آکر بہت دند مچایا۔ سب کو قتل کر کے قدسیہ کو لے بھاگنے کی دھمکیاں دیں۔ شبیر ماموں کی مرمت کرنے کی دھمکیاں دیں اسی شام ایک قاضی کو بلا کر نکاح کردیا۔“ ۴؎
اس نکاح پر مچھو کے دوست ابرار جو وکالت کے پیشے سے منسلک تھے، نے اعتراض کیا تو مچھو چچا ان کی بھی گردن توڑنے پر مصر ہوگئے۔ یہاں اگر تھوڑی توجہ صرف کی جائے تو مچھو چچا کے پردے میں ہمیں بذات خود عصمت کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔وہ اپنی باغیانہ روش کی بنا پر ہمیشہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنتی رہیں۔ ان کے رویے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھیں ہر سماجی رسم و رواج سے چڑھ تھی،خواہ مردوں کے ذریعہ بنائے گئے وہ اصول درست ہی کیوں نہ ہوں۔
درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ عصمت آزاد محبت کی قائل تھیں۔ اس نظریے کو قدسیہ کی بیٹی کی زبانی کس قدر واضح اور صریح انداز میں بیان کیا ہے:
”…..امی اور ابو کی محبت کو دیکھ کر شادی بیاہ اور طلاق کی اہمیت پر ہنسی آنے لگتی ہے…..میں سمجھتی ہوں جو امی اور ابو نے کیا وہی کرناچاہیے تھا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کی محبت کا پھل ہوں۔“ ۵؎
یعنی ہر عورت جو شوہر کی بے التفاتی کا شکار ہو یا کسی دوسرے مرد کے دام عشق میں گرفتار ہو، کوشریعت کے احکام کی پرواہ کیے بغیر اپنی مرضی سے شادی کرلینی چاہیے۔حالانکہ شرعی احکام طبقہئ نسواں کے حق میں باعث رحمت ہیں نہ کہ موجب زحمت۔مگر عصمت کی نگاہ میں شادی بیاہ کی کوئی وقعت ہی نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بچے ہی پیدا کرنے ہیں تو بغیر شادی کے بھی کیے جاسکتے ہیں پھر کیوں کوئی اپنی پاؤں میں بیڑیاں ڈالے۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک فاحشہ عورت نے عصمت سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ شادی کر کے شریفوں کی طرح زندگی گزارناچاہتی ہے۔ اس پر عصمت نے شادی کے نقصانات اور گھریلو بیبیوں پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام، چار دیواری میں ان کی قید و بند کاذکر کرتے ہوئے اس کی آزادانہ زندگی کا نقشہ یوں کھینچا کہ وہ سیدھے اپنے پیشے میں واپس لوٹ گئی۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عصمت کا دل سماجی رسوم و قیود سے کس قدر متنفر اور بیزار تھا۔
عصمت کے حوالے سے یہ بات اکثر دہرائی جاتی رہی ہے کہ انھوں نے سماج میں پھیلے غلط رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کی لیکن اس حقیقت کی طرف کم ہی لوگوں نے توجہ دی کہ انھوں نے خود سماج میں غلط رسم و رواج کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔جس کی چند مثالیں درج بالا میں پیش کی جاچکی ہیں۔البتہ توہم پرستی کے خلاف عصمت نے جو محاظ کھول رکھا تھا وہ قابل ستائش ہے۔’دل کی دنیا‘ میں انھوں نے بڑی چابکدستی سے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔اس ناولٹ میں عصمت نے بوا کی غازی میاں (سید سالار مسعود غازی) سے عشق کی داستان کو ایسے جامع انداز میں بیان کیا ہے کہ اس سے دو پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اوّل عورت کی بے باکی و بے خوفی، اس کی آزادی اور محبت کا بے باکانہ اظہار اور دوئم سماج میں رائج توہم پرستی کی بیخ کنی۔بوا کی سرشت میں بے باکی اور بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ میلے ٹھیلے اور بازار و قبرستان میں بلا جھجھک آنے جانے کے ساتھ غازی میاں سے اپنی محبت کا پرجوش انداز میں اظہار بھی کرتی ہے۔لوگوں کے منع کرنے پر کہ کسی عورت کا اکیلے اس طرح جنگل اور بازار میں گھومنا صحیح نہیں تو بوا بڑی خوبصورتی سے جواب دیتی ہے:
”کون ہم اکیلے گھومت ہیں؟“ ارے ہم اکیلے ناہیں، ہمرا ساتھ او جو رہت ہیں۔“ یعنی ان کے ”وہ“۔ مجال ہے کوئی کی جو ہم سے بولے۔“ ۶؎
ہندوستانی سماج میں عورتوں کا تنہا بازاروں یا میلوں میں جانا معیوب بلکہ تعجب خیز سمجھا جاتا ہے۔ عورتیں خود بھی ان جگہوں پر اکیلے جانے میں گھبراہٹ محسوس کرتی ہیں۔لیکن عصمت نے بوا کے ذریعہ ہندوستانی عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سماجی رسوم وقیود کو توڑ کر آزادانہ زندگی گزاریں۔
عصمت کے خیالات و نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر بوا کے کردار پر غور کیا جائے تو یہاں بھی دونکتے سر اٹھا کر ہمارے سامنے آموجود ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ بوا کا نیم پاگل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے ساتھ ضرور کوئی سماجی ناانصافی ہوئی ہوگی جس کا رد عمل اس کے کردار میں دیکھاجاسکتا ہے۔دوسرا پہلو یہ کہ سماجی رسوم و قیود کو توڑنے کے لیے بوا نے یہ کھیل کھیلا ہو۔ بقول مچھوماموں: ”سالی لفنگی ہے؟…..پاگل واگل کچھ نہیں سب کو الّو بناتی ہے۔“۷؎ بہرحال معاملہ جو بھی رہا ہو بوا کے کردار کے ذریعہ عصمت نے بڑی ہنرمندی سے اپنے نظریات و خیالات کی عکاسی کی ہے۔
عصمت نے ایک طرف بوا کے پاگل پن کے ذریعہ سماج میں عورتوں کو بے باکی کی تعلیم دی ہے تو دوسری جانب اسی پاگل پن سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے توہمات پر گہرا طنز بھی کیا ہے۔عام انسانوں کے دلوں میں غلط عقائد یا توہم کس طرح گھر کرجاتی ہے اسے عصمت نے بوا کے ساتھ پیش آنے والے اقعہ کے ذریعہ یوں بیان کیا ہے:
”ایک دفعہ کسی بدمعاش نے انھیں اکیلے پا کر د بوچنا چاہا۔ غازی میاں نے اس زور کا تھپڑ رسید کیا کہ اس کا تھوبڑا وہیں کا وہیں ٹیڑھا ہوگیا۔ ایک اور کم نصیب الجھا تھا۔ سنتے ہیں جس ہاتھ سے اس نے ان کی کلائی پکڑی تھی وہ سڑ گل گیا۔“ ۸؎
اس واقعہ نے لوگوں کواس درجہ خائف کر دیاتھاکہ ہر کوئی بوا سے ڈرنے اور اس کی ناراضگی سے بچنے لگے تھے۔ کیوں کہ لوگوں کو کامل یقین تھا کہ بوا کی ناراضگی میں بالے میاں یعنی غازی میاں کی ناراضگی پوشیدہ ہے اور غازی میاں کو ناراض کرنا گویا خدائی عتاب کو دعوت دینا ہے۔سماج میں رائج ان توہمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جگدیش چندر ودھان لکھتے ہیں ہے:
”توہمات پر جب ایمان لے آیا جائے تو وہ رفتہ رفتہ پختہ ہوکر مسلمات بن جاتے ہیں۔ عقیدے اور نظریات بن جاتے ہیں اور ان کے سامنے عقل اور منطق اپنا جواز کھو دیتے ہیں۔“ ۹؎
غازی میاں کے تئیں عوام میں محبت، عقیدت یا ڈر کا جوعنصرموجود تھا اس سے بوا پوری طرح آگاہ تھیں۔ لہٰذا جب ان کے ساتھ سماج میں ناانصافی برتی گئی تو انھیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اس سے بہتر کوئی دوسری راہ دکھائی نہ دی کہ اپنے ڈانڈے غازی میاں سے ملا لیں۔ اس طرح وہ لوگوں کی نگاہ میں محترم بھی بن گئی اور اپنی مرضی کی مالک بھی:
”بوا نے اپنے ڈانڈے غازی میاں سے ملا کر سادہ لوح، توہم پرست، ناخواندہ عورتوں کا اعتماد حاصل کرلیاہے۔ وہ فرط عقیدت سے ان کے سامنے بچھی جاتی ہیں….. اور ان کی ہر بات کو آسمان سے اترا ہوا حکم تصور کرتی ہیں۔بوا ڈھونگی اور پاکھنڈی ہیں۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کو بھرمانے کا گر جانتی ہیں۔ وہ ان کے سامنے بالے میاں سے ڈرامائی انداز میں باتیں کرتی ہیں۔ کچھ یوں کہ کم فہم، اجڈ، توہم پرست عورتیں انگشت بد نداں رہ جاتی ہیں۔بوا نے کچھ مقبول عام گیت بھی رٹ رکھے ہیں۔جنھیں وہ موقع محل کی مناسبت سے گاتی ہیں۔“ ۰۱؎
اس قسم کے واقعات موجودہ سماج میں بھی بارہا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے ساتھ حسن اتفاق سے کوئی محیر العقول واقعہ پیش آجائے یا کسی کے حرکات و سکنات اور عادات و اطوار کو دیکھ کر یہ محسوس ہو کہ اس کاتعلق خدا یا بھگوان سے بہت مضبوط ہے، تو لوگ اسے بزرگ، پیر، بابا اور نہ جانے کن کن القاب سے نواز کر اس کی تعظیم و تکریم میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن حقیقت واضح ہونے کے بعدعوام کی عقیدت نفرت میں بدل جاتی ہے یا وہ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔یہی بوا کے ساتھ ہوا جب لوگوں کو اس کا یقین ہوگیا کہ وہ چڑیل یا بھوتنی نہیں ہے بس ذرا سی پاگل ہے تو ان کے دلوں سے بوا کا خوف جاتا رہا:
”…..ہمیں تو بوا پر شک کرتے ڈرلگتا تھاکہ کہیں تھوبڑا وہیں کا وہیں ٹیڑھا ہوگیا تو کیا کرلیں گے۔ بڑی جناتی طبیعت پائی تھی۔ پر جب سے معلوم ہوا تھا ذرا سی پاگل ہیں بھتنی وتنی نہیں۔ تو ہمیں ان سے ڈر بھی نہیں لگتا تھا۔“ ۱۱؎
بوا کی طبیعت کا علم تو لوگوں کو بعد میں ہوا لیکن عصمت نے مچھوچچا کے کردار کے ذریعہ پہلے ہی توہم پرستی کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا۔جب بوا کے ساتھ پے در پے چند واقعات جن کا تذکرہ درج بالا میں بیان کیا گیا ہے، گزرا اور لوگوں میں ان کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہونے لگیں تومچھو چچا نے جو ان توہمات پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے مرتد قرار دیے جاچکے تھے، بڑی بے باکی سے ان واقعات یا حادثات کی نفی کرتے ہوئے کہا:
”…..درگاہ میں ہر سال ہزاروں کوڑھی شفا کی آس لگا کر آتے ہیں۔ ہاتھ پیر سٹر گل کر گرجانا معجزہ نہیں بیماری ہے۔اور شرابی کا لقوہ مار جانا بھی ایسی کوئی غیر معمولی بات نہیں۔“ ۲۱؎
یا اسی طرح جب مچھو چچا نے یہ سنا کہ ملانی کے بیٹے کو سانپ نے کاٹ لیا ہے اور وہ غازی میاں کی برکت سے موت کے منھ سے بچ نکلا تو انھوں نے فوراً زبان حال سے یہ الفاظ دہرائے کہ ”پانی کا سانپ ہوگا، زہریلا نہیں ہوتا۔“غرض کہ کسی بھی بات کو من و عن یا بغیر تحقیق کے قبول کرنا ان کی سرشت میں داخل نہ تھا۔باالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مافوق الفطری عناصر کے قائل تھے نہ معجزوں اور کراماتوں کے۔جو بات ان کے عقل کی کسوٹی پر کھری نہ اترتی وہ اسے فوراً رد کردیتے تھے۔ عصمت نے اس کردار کے ذریعہ بالخصوص عورتوں کو (کیوں کہ ان کے اندر توہمات سے متاثر ہونے کا مادہ بہ نسبت مردوں کے زیادہ پایا جاتا ہے) متنبہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس دلدل سے نکل کر اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کریں۔ اور ہر اس بات کو جو عقل کی کسوٹی پر پوری نہ اترتی ہو قبول کرنے سے احتراز کریں۔
قصہ مختصر عصمت نے اس ناولٹ میں توہم پرستی کے ذکر کے ساتھ عقل اور منطق کے ذریعہ اسے رد کرنے کی بھی کوشش کی ہے، جہاں عورتوں کے مسائل اور مجبوریوں کو دکھایا ہے وہیں ان کی جرأت و ہمت کا نقشہ بھی کھینچا ہے، نکاح جیسا مقدس عمل بھی ان کی نگاہ میں جنسی اختلاط کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف مردوں کا طوائفوں کے یہاں اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرنے پر تیکھا طنز موجود ہے تو دوسری جانب عورتوں کو دنیاوی رسوم و قیود سے آزاد ہو کر Free Love کی دعوت دینے کا عمل بھی دکھائی دیتا ہے۔ بقول ڈاکٹر زرینہ عقیل احمد:
”اس (ناول) میں عورت نے نئی زندگی اور نئی قدروں کا خیر مقدم کیا ہے۔ سماجی ناانصافی کے خلاف بغاوت کی ہے۔ فرسودہ خاندانی روایات کو بے جگری کے ساتھ توڑا ہے….. انسان کو اپنی صلاحیتوں سے، اپنی جدو جہد اور محنت سے اپنی دنیا آپ پیدا کرنی چاہیے اور عصمت نے ان سبھی چیزوں کو قدسیہ بیگم کے کردار میں سمو کر قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔“ ۳۱؎
بہرحال ناولٹ ’دل کی دنیا‘ کے مطالعہ یا تجزیہ کے بعد یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں کہ آخر کیوں عصمت نے ’ٹیڑھی لکیر‘ کے بجائے ’دل کی دنیا‘ کے متعلق پسندیدگی کا اظہار کیاہے۔ میں آخر میں یہی کہوں گا کہ عصمت کے خیالات و نظریات یا سماجی رسم و رواج کے خلاف ان کے باغیانہ تیور کو سمجھنے کے لیے ناولٹ ’دل کی دنیا‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
**********************
حواشی
۱: بحوالہ عصمت چغتائی شخصیت اور فن،جگدیش چندر ودھان، ص۔ ۱۱۴، کتابی دنیا،دہلی، ۶۰۰۲
۲: ایضاً، ص۔۵۴۴
۳: سودائی ٭دل کی دنیا،عصمت چغتائی، ص۔۴۶۱، کتابی دنیا،دہلی، ۲۰۰۲
۴: ایضاً، ص۔۲۷۱
۵: ایضاً، ص۔۳۷۱
۶: ایضاً، ص۔۸۲۱
۷: ایضاً، ص۔۸۲۱
۸: ایضاً، ص۔۲۲۱
۹: عصمت چغتائی شخصیت اور فن، جگدیش چندر ودھان، ص۔۹۱۴
۰۱: ایضاً، ص۔۲۲۴
۱۱: ایضاً
۲۱: ایضاً
۳۱: اردو ناولوں میں سوشلزم،ڈاکٹر زرینہ عقیل احمد، ص۔۶۹۴، مطبع: اسرار کریمی پریس الہٰ آباد، سنہ:۲۸۹۱
þþ„¢¦Ÿ„ ƒŽ ‡‚ ¤Ÿ ž¥ ³¤Ž… Žœ§\
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں