شہاب ظفر اعظمی
غضنفر اردو فکشن کی دنیا میں خاموشی سے نہیں بلکہ اجتہاد کرتے ہوئے آواز پیدا کرنے والے قدموں کے ساتھ داخل ہوئے اور اس طرح جم گئے کہ ان کی شناخت فکشن نگار کے طور پر دائمی شکل میں قائم ہوگئی۔ ان کے پہلے ناول ’’پانی‘‘ (۱۹۸۹) کے علامتی اور استعاراتی اسلوب نے اردو دنیا کوچونکا دیا تھا۔پھر کہانی انکل،مم،کینچلی،فسوں،شوراب،مانجھی،دویہ بانی اور وش منتھن وغیرہ نے تو انہیں اپنے طرز کا منفرد اور صاحب اسلوب فکشن نگار منوا ہی لیا۔اس دوران ان کے افسانے ،شاعر ی، خاکے اور مضامین بھی ارباب ادب کو متحیر کرتے رہے۔دراصل غضنفر کے یہاں تخلیقیت کا جو وفور ہے وہ انہیں مختلف شکلوں میں سامنے آنے پر مجبور کرتاہے۔ان کا متحرک ذہن اور بے چین روح اپنے احساسات و جذبات کو پیش کیے بغیر سکون نہیں حاصل نہیں کرپاتی ،خواہ اس کے لئے کسی ہیئت یا صنف کو اختیار کرنا پڑے۔شمیم حنفی نے بہت صحیح کہا ہے کہ:
’’غضنفر ہمارے عہد کے بہت سرگرم اور خاصے بے چین لکھنے والوں میں ہیں۔ان کا تخلیقی تجسس انہیں کبھی نچلا اور خاموش بیٹھنے نہیں دیتا۔وہ شاعری اور نثر دونوں میں رواں ہیں‘‘
مگر کمال یہ ہے کہ کسی صنف کو انہوں نے غیر سنجیدگی سے نہیں برتا۔انہوں نے جس صنف پہ قلم اٹھایا اس کے فکری،لسانی،صنفی ،فنی اور اسلوبی تقاضوں کا پوراخیال رکھاہے اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ان کے ہم عصر فکشن نگار سید محمداشرف نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ:
’’غضنفر ہمارے عصر کے ان اہل قلم میں ہیں جن کی مدارات میں تقریباً تمام مروجہ اصناف سخن نے اپنے بازو کشادہ کررکھے ہیں۔۔۔۔بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام اصناف میں غضنفر نے امتیاز کے جو پہلو پیداکیے ہیں ،وہ اصحاب نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں۔‘‘(ص۔۹)
اب جبکہ غضنفر اپنی زندگی کی ساتویں دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں،ایک نئی صنف خودنوشت کے ساتھ ہمارے سامنے آئے ہیں ،جس کا نام انہوں نے اپنے استاد شہریار کے مشہورزمانہ شعر :
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
سے اخذ کرتے ہوئے ’’دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ رکھاہے۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ غضنفر نے اپنی پوری زندگی درس وتدریس،علم وادب اور اردو زبان کی خدمت میں صرف کی ہے۔ملازمت سے سبکدوشی اور عمر کی ۶۰۔۶۵ منزلیں طئے کرنے کے بعد بیشتر لوگوں میں پہلے کی طرح جو ش و خروش نہیں رہتا اور شعر وادب سے وابستگی رفتہ رفتہ کم ہو تی چلی جاتی ہے۔لیکن سنجیدہ لو گوں کو ایسے ہی وقت کی تلاش رہتی ہے۔وہ اپنا تمام تر وقت ادھورے خوابوں کی تکمیل میں صرف کرتے ہیں۔اور نتیجتاً قابل ذکر کارنامے وجود میں آتے ہیں۔شعرو ادب سے جنون کی حد تک وابستگی رکھنے والے ایسے ہی فرد ہیںغضنفر ،جو آج پہلے سے کہیں زیادہ متحرک و فعال ہیں۔انہوں نے سفر حیات کی تھکن مٹانے کے بجائے مثنوی،خاکے ،ڈرامے،شاعری اور خودنوشت کے ذریعہ اردو زبان وادب کو ثروت مند بنانے کے عمل کو ترجیح دی ہے ،جس کی وجہ سے ہم آج ایک خوبصور ت اور اپنی نوعیت کی منفرد خودنوشت کے مطالعہ سے محظوظ ہو سکے ہیں۔
غضنفر بنیادی طور پرفکشن نگار ہیں اس لیے وہ کسی صنف میں اظہار خیال کریں اس میں فکشن کا رنگ خودبخود در آتاہے۔یہاں تک کہ ان کی شاعری میں بھی ڈرامائیت،تجسس،تصادم اور افسانوی اسلوب کو بہ آسانی محسوس کیا جاسکتاہے۔لہذا ان کی خودنوشت اگر پوری طرح سے سوانحی ناول کی ہیئت میں میرے سامنے آئی تو مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی ۔ ویسے بھی وہ روایتی طرز پر کچھ لکھنے کے قائل نہیں رہے ہیں۔اسلوب ،ہیئت اور تکنیک کے تجربات ان کی تخلیقات کا حصہ رہے ہیں ،اس لیے ان کی خودنوشت میںبیک وقت افسانہ،ناول ،داستان ،ڈراما اور خاکہ جیسی اصناف کا لطف مل جائے تو اسے غضنفر کی تخلیقیت اور اسلوبی ندرت کا ایک بے مثل نمونہ ہی سمجھنا چاہیے۔
۳۳۶ صفحات پر مشتمل ’’دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘میں ابواب کا اہتمام کیے بغیر غضنفر نے اپنی پوری زندگی کو ایک آئینہ کی طرح ہمارے سامنے پیش کیاہے ۔اس میں حقائق جوں کا توں اٹھاکر نہیں رکھ دیے گئے ،بلکہ تخیل،تصور ،فسانہ اور فکشن کی آمیزش کے ساتھ اس طرح پیش کیے گئے ہیں کہ حقائق مجروح نہ ہوں اور قاری ناول کی طرح اس کی گرفت سے بھی نہ نکل سکے۔اس میں کرداروں کی بو قلمونی ہے اور مشاہدے کی گہرائی بھی۔تجسس کی کشش ہے اور اسلوب کی سحرطرازی بھی ۔ظاہر ہے فکشن کی یہ خوبیاں جس آپ بیتی میں ہوں ،قاری اس کے سحر سے کیسے آزاد ہو سکے گا۔سو اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی مطالعیت (Readability) ہے جو قاری کو شروع سے آخر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔
’دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ صرف ایک فرد واحد کی خود نوشت نہیں بلکہ ایک عہد کی تاریخ ہے ۔ایک ایسے فرد کی داستان ہے جس نے جہدمسلسل،صبر واستقلال اورمثبت زاویۂ فکر کے ذریعہ زندگی میں وہ سب حاصل کیا جس کی تمنا اور خواہش اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور اور زندہ دل شخص ہی کر سکتاہے۔ خودنوشت کا آغاز بچپن سے کیاگیاہے اور اختتام ملازمت سے سبکدوشی پر۔مگر اس درمیان جو زندگی پیش ہوئی ہے وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ معلومات سے بھر پور بھی ہے۔اس میں سوانحی حالات کے علاوہ کچھ تاریخی حقائق ہیں،کچھ یادگار واقعات ہیں،کچھ ادبی معاملات ہیں اور کچھ ادیبوں ،دانشوروں اور اہم لوگوں کے حالات بھی۔مگر ہر جگہ ایک خاص بات ہے کہ مصنف کا نقطۂ نظر مثبت رہا ہے۔انہوں نے زندگی کے تاریک پہلوئوں سے دانستہ گریز کیا ہے بلکہ کوشش کی ہے کہ کسی شخصیت یا واقعے کا کا ذکر کرتے ہوئے اس کے تکلیف دہ یا داغدار پہلو سے صرف نظر کی جائے۔انہوں نے خود اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ:
’’میں نے اپنا وطیرہ بنالیاہے کہ کسی کے اندھیروں کو مجھے نہیں دکھاناہے اور کبھی کسی ناگزیر واقعے کا ذکر کرنا بھی پڑا تو میری نیت یہ ہوگی اور طریقۂ کاربھی ایسا ہوگا کہ کوئی ایسا مثبت پہلو نکل آئے جس سے ان اندھیروں کی اصلاح ہو جائے یا ان میں سے بھی روشنی کی کوئی کرن پھوٹ پڑے۔‘‘(ص۔۱۱۰)
چنانچہ علی گڑھ،لکھنؤ،دہلی،سولن،پنجاب ،بہار اور مختلف مقامات پر جن بے شمار کرداروں سے اس خودنوشت میں ملاقات ہوتی ہے وہ اخوت ،مروت،خلوص،انصاف پسند ،متوازن مزاج اور محبت سے لبریز دل کے حامل نظرآتے ہیں۔زندگی کو لہو لہان کرنے والے،دل دکھانے والے اور راہ میں کانٹے بونے والے کردار تو نظر ہی نہیں آتے۔عملی زندگی میں یہ ناممکنات میں شامل ہے،اس لئے یہی کہا جاسکتاہے کہ غضنفر چو ں کہ خود صاف ،شفاف اور محبت سے بھرپور دل رکھتے ہیں انہوں نے دنیا کو بھی ایسا ہی محسوس کیاہے اور راہ میں نمایاں ہونے والے خاروخس سے دانستہ دامن بچا کر نکل گئے ہیں۔
عموماًایک عمدہ خونوشت کے تین امتیازی پہلو ہوتے ہیں ۔جمالیاتی کیف وکم،خود اپنی ذات کا اظہار اور تاریخی صداقتوں کا اظہار۔خودنوشت جب ادب ہے تو اسے جمالیاتی کیف وکم سے بہروہ ور تو ہونا ہی چاہیے اور ایسے شخص کی خودنوشت جو خود صف اول کا ادیب او رصاحب اسلو ب انشا پرداز ہو تو اس کی خودنوشت سے توقعات اور بڑھ جاتی ہیں۔اس پہلو سے’ دیکھ لی دنیا‘ کا انفراد یہ ہے کہ یہ قاری کو بیک وقت خاکہ،افسانہ،رپورتاژ،ناول اور آپ بیتی کے حسن سے محظوظ کرتاہے۔اس میں اتنی روانی اور بے ساختگی ہے کہ اسے ایک نشست میں ختم کیے بغیر چین نہیں ملتا۔غضنفر فکشن کی دنیا میں اپنے اسلوب اور ادبی نیرنگیوں کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے ہیں ۔انہوں نے اپنی خودنوشت کوبھی سادہ،شاعرانہ،استعاراتی اور مقفی اسلوب کے ان تمام رنگوں سے سجایا ہے جس سے نثر دلچسپ ،پرلطف اور موثر ہو جاتی ہے۔معروف ناقد صفدرامام قادری نے درست لکھا ہے کہ:
’’سادہ اور بے لوث نثر تو بنیاد کی اینٹ ہے ہی مگر استعاراتی زبان،شاعرانہ لطف و انبساط سے لیس زبان،مفکرانہ اور مدبّرانہ اسلوب،طنزیہ و ظریفانہ بیانیہ اور علمی و تنقیدی کون سی ایسی نثر ہے جس کے نمونے مختلف واقعا ت کے بیا ن میں حسب ضرورت غضنفر نے اس خودنوشت میں پیوست نہیں کررکھے ہیں۔‘‘(ماہنامہ تہذیب الاخلاق۔نومبر ۲۰۲۱،ص۔۷۴)
اظہار ذات کا معاملہ یہ ہے کہ خودنوشت میں مرکزی حیثیت بہر حال مصنف کو ہی رہتی ہے،اس لیے اس کی ذات کا نمایاں ہونا ایک فطری صورت ہے۔مگر اس کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ مصنف اپنی ذات کو مرکزیت عطاکرتے ہوئے دیگر تمام کرداروں کو مدھم روشنی میں ثانوی حیثیت سے پیش کرے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کرداروں کے ذریعہ اپنی شخصیت اور زندگی کااظہا ر کرے۔غضنفر کے مزاج میں چوں کہ سادگی ہے انہوں نے دانستہ خودنمائی سے گریز کیاہے اور ثانوی طریقہ اختیار کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ دیگر کرداروں،سماجی پہلوئوں،ثقافتی رنگوں کی پیش کش میں ان کے کردار پر خود بخود روشنی پڑ جائے۔چنانچہ اس خودنوشت میں ہمیں طرح طرح کے کردار اور قسم قسم کے ماحول ملتے ہیں ۔سب کا انداز الگ ،سب کی فکر الگ اور سب کے اعمال الگ ۔مگر سب میں قدر مشترک غضنفر کی شخصیت ہے۔بقول سیدمحمد اشرف اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ:
’’ایک اچھی خودنوشت کا غالباً یہ بھی کمال ہوتاہے کہ وہ سرتاپا صرف مصنف کے ذکر سے گراں بار نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی راہ میں آنے والے تمام انسان اس میں اپنا حصہ پاتے ہیں۔‘‘(ص۔۱۰)
تو ’’دیکھ لی دنیاہم نے‘‘اس کی سب سے اچھی مثال ثابت ہوگی۔کیوں کہ غضنفر نے اس میں اپنے ذکر کو کہیں فوقیت نہیں دی ہے ، بلکہ دوسروں کی محبت،شفقت،صلاحیت ،انفردیت،اوصاف ،افکار ، کامیابیاں اورکارنامے اس طرح بیان کیے ہیں کہ وہ غضنفر کی شخصیت کی تفہیم و تکریم میں بھی معاون ثابت ہو جاتے ہیں۔اسی طرح سماجی اور ثقافتی احوال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خود کو سماج اور ثقافت کا حصہ تصور کیاہے اور اسی حوالے سے اپنی شناخت کے لئے مختلف مقامات کے واقعات و مناظر ہمیں دکھائے ہیں۔اسی لئے اس خونوشت میں نہ تو غضنفرنے خود کو ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے اور نہ ہی کسی مخصوص مقام (علی گڑھ بھی نہیں)کو آئیڈیل یا سب سے بہتر قرار دینے کی کوشش کی ہے۔اس خودنوشت میں کرداروں کی ایک دنیا آباد ہے۔اہل خاندان،اساتذہ،ہم جماعت احباب،رفقائے کار،جہان ادب کے ساتھی اور سفرحیات میں ملنے والے مختلف قسم کے شناسا چہرے اس خونوشت کا حصہ بنے ہیں ۔مصنف نے کوشش کی ہے کہ ان سب کی حقیقی اور سچی صورتیں ان کی اہمیت کے مطابق ہی دنیا کے سامنے آئیں۔اپنے والد ، چچااور استاد شہریار کا ذکر قدرے تفصیل سے انہوں نے کیاہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ مصنف کی زندگی پر ان شخصیتوں کا سب سے زیادہ اور دیرپا اثر رہاہے۔دوستوں میں عزیز دوست نسیم عالم کے علاوہ علی گڑھ کے رفقائے درس اور ادبی احباب کا ذکر محبت اور تفصیل سے کیاگیاہے جس سے ان کے حلقۂ احباب اور دوستانہ مزاج کا اندازہ ہوتاہے۔پروفیشنل زندگی میں انہیں متاثر کرنے والے کم ہی کردار ملے ہیں۔جمال ،شیکب نیازی،گپتا،فگار،زیدی،بجاج اور اودئے ناراین سنگھ جیسے کرداروں کے توسط سے غضنفر کی انسان شناسی،انتظامی حکمت عملی اور طریقۂ حاکمیت کا پتہ تو چلتاہی ہے ساتھ ساتھ انسانی کردار کی بو قلمونی ورنگاررنگی کا بھی شدید احساس ہوتاہے۔
خودنوشت میں تاریخی صداقتوں کا اظہار سے یہ مراد نہیں کہ واقعات کو کسی تاریخی تسلسل یا شہادت کے ساتھ پیش کیا جائے بلکہ اس کا مقصد مختلف تہذیبی اور فکر ی قدروں کو،اس کے ساتھ مصنف کی وابستگی کو اور مصنف کی ذات پر ان کے اثرات کو دکھاناہے۔بالخصوص ادیب یا دانشور کی خودنوشت میں اس کے عہد کو تو جلوہ گر ہونا ہی چاہیے بشرطیکہ ادیب اپنے عہد اور زمانے کو حصار ذات سے آگے بڑھ کر گرفت میں لینے کی کوشش میں اعتدال اور توازن کا دامن نہ چھوڑدے۔غضنفر نے اپنی خودنوشت میں اس کا خاص خیال رکھا ہے اس لیے’ دیکھ لی دنیاہم نے‘اگر ایک طرف اپنے لکھنے والے کی ذات کاآئینہ ہے تو دوسری طرف اس میں مصنف کا عہد بھی اپنے تمام تر نشیب و فراز کے ساتھ جلوہ گر ہواہے۔اور اس عمل میں خاص خیال رکھاگیاہے کہ ایسے امور کا بطور خاص احاطہ کیا جائے جو تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتے کیوں کہ آنے والے زمانے کو مصنف سے زیادہ انہیں امور سے دلچسپی رہتی ہے۔مثلاً علی گڑھ،لکھنؤ،سولن،پٹیالہ یا بہار کے ذکر میں ان کا مقصد محض ذات کا اظہار نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کی پیش کش بھی ہے۔انہوں نے اپنی ذات کو وہاں کی تہذیب اور ثقافتی زندگی کے پس منظر میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔بازار،میلے ٹھیلے،عمارت کا افتتاح،پانی کی کمی اور تلاش،رسم ورواج،معمولات زندگی،وضع قطع،آداب محفل،ادبی مجالس،عقائد کی تفریق اورتغیر پذیر سیاسی و سماجی صورتوں کی جو جھلکیاں لکھنؤ،پٹیالہ،ہماچل ،میسور اور علی گڑھ وغیرہ کے حوالے سے دکھائی گئی ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ غضفرثقافت کے ان پہلوئوں کو دکھانا اور محفوظ کردینا چاہتے ہیںجن سے ان کا براہ راست واسطہ رہاتھا۔اس دوران جگہ جگہ انہوں نے تعلیمی نظام،انتظامیہ کی خامیوں ،سرکاری طریقۂ کار،تقرری کے پیچ وخم اور تدریس وتحقیق کی پامالی و زوال پر بھی اپنے خیالات پیش کیے ہیں جن سے ان کی دانشوارنہ اور مدبرانہ طر ز فکر کا اظہار ہوتاہے۔
ناول میں منظر نگاری کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور غضنفر تو الفاظ سے تصویر کشی کے ہنر میں ماہر ہیں جس کے نمونے مانجھی،فسوں،وش منتھن اور دویہ بانی وغیرہ میں ہم نے کثرت سے دیکھے ہیں۔اس خودنوشت میں بھی ہماچل،پٹیالہ،لکھنؤ اور میسور وغیر ہ کی تصویریں ان کی محاکات نگاری پر عبور کی کہانی سناتی ہیں۔سولن ،پٹیالہ اور میسور جیسے چھوٹے چھوٹے شہروں کی سماجی ،تہذیبی زندگی کی اتنی رنگارنگ اور معنی خیز جھلکیاں ہیں کہ باربار یہ خواہش پیداہوتی ہے کہ کاش غضنفر اس کے پس منظر میں بھی کوئی ناول لکھ ڈالتے۔حالانکہ سولن میں پانی کی قلت اور اس کی حصولیابی میںجو مشقت انہوں نے محسوس کی وہ ان کے شہرہ آفاق ناول ’پانی‘ کی وجہ تصنیف بنی ،مگر وہاں کی تہذیبی و ثقافتی انفرادیت کی جو تصویریں انہوں نے اِس خودنوشت میں پیش کی ہیں ان کے پس منظر میں بھی ناول لکھے جاسکتے ہیں۔اسی طرح لکھنؤ کے ذکر میں اودھ کا نیا کلچر اپنے تمام تر حسن و قبح کے ساتھ موجودہے جسے فکشن کا حصہ بنایا جاسکتاہے۔
’’دیکھ لی دنیا‘‘ کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ یہ کسی ایک خطے یا علاقے کی تہذیب وثقافت کی نمائندگی نہیں کرتی جیسا کہ ہم اکثر آپ بیتیوں میں دیکھتے ہیں ۔اور اسی لیے کبھی کبھی ان پر اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں۔مثلاً قرۃ العین حیدر کے سوانحی ناول ’کارجہاں دراز ہے‘ پر اعتراض کیا گیا کہ وہ ایک خاص طبقے کے تہذیبی آثار کی منظر کشی میں مصروف رہیں،گیان سنگھ شاطر سے سوال کیا گیاکہ وہ پنجاب سے باہر کیوں نہیں نکلے؟وہاب اشرفی پر لوگ معترض ہوئے کہ انہوں نے صرف کاکو جیسے چھوٹے سے قصبے پر تفصیلی نگاہ ڈالی،وغیرہ وغیرہ ۔مگر غضنفر نے اپنی خودنوشت میں لکھنؤ ،میسور،پٹیالہ یا سولن وغیرہ کو بہار یا علی گڑھ سے کم اہمیت نہیں دی ہے۔یہاں ایک ذات کے وسیلے سے کئی ثقافتوں کی آئینہ دار ی کی گئی ہے جو قاری کو نئے اور متفرق جہانوں سے روشناس کراتی ہے۔
اس پوری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ’دیکھ لی دنیا ہم نے‘ میں اچھی خودنوشت کے تمام تر تقاضے پوری طرح نہ صرف نبھائے گئے ہیں بلکہ ان کی پیش کش میں انفرادوامتیاز پیدا کرنے کی سعیٔ مستحسن بھی کی گئی ہے۔چوں کہ غضنفر مختلف تخلیقی اصناف پر دسترس رکھتے ہیں اس لیے جمالیاتی کیف وکم کاعنصر غالب ہے ۔ایک تخلیقی فن پارے کو جمالیاتی اور ادبی طور پر بھر پور ہونا بھی چاہیے کہ ایسا فن پارہ دل ودماغ دونوں کو متاثر کرتاہے۔اس خودنوشت کے مطالعے کے بعد یقینی طور پر کہا جاسکتاہے کہ فنی،اسلوبی اور تکنیکی ہر اعتبار سے یہ قابل مطالعہ اور قابل توجہ کتاب ہے ۔جب بھی اردو میں دلچسپ،تخلیقیت سے بھر پور اور Readable خودنوشتوں کی فہرست تیارکی جائے گی اس میں غضنفر کی ’دیکھ لی دنیا کو ‘نمایاں مقام حاصل ہوگا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں