ابراہیم افسر
’’ماہیا‘‘پنجاب کے دیہاتوں کی مقبول ترین صنف ہے۔ناقدین نے اس صنف کو پنجابی لوک گیت سے بھی موسوم کیا ہے۔یہ صنف پنجاب کے دیہاتوں میں بھینس چرانے والے چرواہوں کی ایجاد ہے۔ پنجابی میں بھینس کو ’’مہیں‘‘اور چرواہے کو ’’ماہی‘‘کہا جاتا ہے۔اسی مناسبت سے بھینس چراتے وقت ماہی کی زبان سے نکلنے والے مخصوص الفاظ ’’ماہیے‘‘کہلائے۔یعنی ماہی،بھینس چراتے وقت بانسری یا موسیقی پر جو چند جملے لَے میں گنگناتا ہے وہی ماہیا ہے۔ماہیا کے فروغ میں پنجاب کے رومانی ماحول نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔اپنے محبوب سے ملنا اور مل کربچھڑنے کی تمنا نے بھی اس مخصوص صنف کو جلا بخشی۔ علاوہ ازیں پنجاب کے رومانی قصوں کہانیوں بالخصوص ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کی عشقیہ داستانوں نے بھی ماہیوں کو تقویت عطا کی۔ ماہیا نے اپنے خاص لب و لہجے سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔اس لیے ماہیا جلد ہی مقبول ہو کر عوامی گیت بن گیا ۔حیدر قریشی نے اپنی کتاب’’اُردو ماہیا تحقیق و تنقید‘‘میں ماہیا کے خد و خال پر بحث کرتے ہوئے لکھا:
’’ماہیا سر زمینِ پنجاب کا عوامی گیت ہے۔ماہیا کا لفظ ماہی سے نکلا ہے لیکن یہ اُردو والا ماہی نہیں ہے۔ ویسے ماہیا میں محب اپنے محبوب کی جدائی میں ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتا دکھائی دیتا ہے۔ پنجابی میں بھینس کو مہیں کہتے ہیں ۔بھینس چرانے والے کو اسی نسبت سے ماہی کہا جاتا تھا۔ ان چرواہوں کو بھینسوں پر نظر رکھنے کے سوا کوئی نہیں ہوتا تھا ۔اس لیے دیہاتی ماحول کے مطابق انھوں نے کسی مشغلے کے ذریعے وقت گزاری کا راستہ نکالا۔بانسری بجانے اور گیت گانے کا مشغلہ ایسا تھا کہ بیک وقت چرواہے کا فرض بھی ادا کیا جا سکتا تھا اور اپنے دل کو بہلایا جا سکتا تھا۔بانسری اور اچھی آوازوں کے جادو نے بھی چرواہوں کو اپنے اپنے دیہاتوں میں مقبولیت عطا کی ہوگی لیکن جب محبت کے قصوں میں رانجھے اور مہیوال کو اپنے اپنے محبوب تک رسائی حاصل کرنے کے لیے چرواہا بننا پڑا تو پھر ان کے کرداروں کی رومانوی کشش نے لفظ ماہی کو چرواہے کی سطح سے اٹھا کر نہ صرف ہیر اور رسوہنی کا محبوب بنا دیا بلکہ ہر محبت کر نے والی مٹیار کا محبوب ماہی قرار دیا۔اسی ماہی کے ساتھ اپنے پیار کے اظہار کے لیے ماہیا عوامی گیت بن کر سامنے آیا۔۱؎
اُردو ماہیا کے بنیاد گزاروں میں چراغ حسن حسرت ،ساحر لدھیانوی ،قمرجلال آبادی اور ہمت رائے شرما وغیرہ کا نام سر فہرست ہے ۔لیکن پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنی تحقیق میں ہمت رائے شرما کو اُردو ماہیے کا بانی قرار دیا ہے۔۲؎۔بعض محققین نے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کی تحقیق سے اختلاف کیا ہے۔بعض اُردوناقدین کی نظر میں ماہیا تین مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جب کہ کئی نقادوںکا خیال ہے کہ یہ ڈیڑھ مصرع نظم ہے۔حالاں کہ موجودہ دور میں تین مصرعوں پر مشتمل نظم کو ہی ماہیا کہا جا تا ہے۔ بعض ناقدین نے ماہیا اور ثلاثی کو ایک وزن میں کہی جانے والی نظم قرار دیا ہے۔ اُردو ماہیامفعول مُفاعیلن بحر میں لکھا جاتا ہے۔لیکن بعض ناقدین نے اس کے لیے فعلن فعلن فعلن کی بحر کو قبول کیا ہے۔
جدیداُردو ماہیا نگاری کو تقویت بخشنے والوں میں رستم نامی،منظر نقوی، اجمل جنڈیالوی ،نوید رضا، ضمیر اظہر، عارف فرہاد، یوسف اختر، مناظر عاشق ہرگانوی، انور مینائی، نذیر فتح پوری اور دیپک قمر کے نام سر فہرست ہیں ۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بعض شعرا نے اس فن میں طبع آزمائی تو کی لیکن باقاعدہ کسی نے ماہیوں کو مجموعے کی شکل میں پیش نہیں کیا۔ہر ونش لال مہتہ بالمعروف دیپک قمر کا یہ اختصاص ہے کہ انھوں نے اپنے ماہیوں کو کتابی شکل میں قارئین کے سامنے پیش کیا۔دیپک قمر کے اب تک پھوئیں پھوئیاں پھار ،ہلّے ہلارے اور لہر لہر لہراؤ ماہیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں، ناقدین ادب نے ان کے ماہیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔مالک رام نے دیپک قمر کے ماہیوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’یہ صنف پنجابی سے مخصوص ہے اور اُردو والوں نے آج تک اسے قابل اعتنا خیال نہیں کیا۔ اب جناب دیپک قمر نے اس پر توجہ کی ہے۔انھوں نے اُردو میں سیکڑوں ماہیا لکھ کر ان کا مجموعہ ’ہلے ہلارے‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے ۔ انھوں نے اس کے موضوع کو بھی وسعت دی ہے اور ہیئت میں بھی کچھ نیا تجربہ کیا ہے۔کسی زبان کی مخصوص صنفِ کلام کو دوری زبان میں متعارف کرانے کی کوشش ایسا ہی ہے جیسے ایک درخت کو اُس جگہ سے اُکھاڑ کر کسی دوسرے مقام پر لگا دیان۔ زمین نئی، آب و ہوا مختلف، ،ماحول اجنبی، ،خدا معلوم یہ انجانی باتیں اس درخت کو راس آئیں یا نہیں۔وہ پنپ سکیں یا نہیں۔دیپک قمر ہمارے معروف اور ممتاز شاعر ہیں ۔اُردو میں ان کے کلام کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ہمیں بہر حال انھیں اس جرأت اور ہمت کے لیے داد تو دینا ہی پڑے گی کہ فراوانیٔ شوق نے انھیں اس نئے تجربے کو کامیاب کرنے میں اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں اور صلاحیتوں کو صرف کرنے پر آمادہ کر لیا۔میں جناب دیپک قمر کو اُن کے اس مستحسن اقدام کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اُن کی کامیابی کے لیے دعا گوہوں۔‘‘۳؎
دیپک قمر26اکتوبر 1924کو کریالہ تحصیل چکوال ،ضلع جھیلم (پاکستان)میں پیدا ہوئے۔انھیں اپنی ننہال پر بڑا ناز تھا اس لیے انھوں نے کہا:
ننہال تھا سرگودھا
ہر شخص علاقے کا
تھا گبرو جواں، جودھا
اسی طرح پشاور،چکوال،قصور اور روالپنڈی وغیرہ شہروں میں جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بیش قیمت ایام گزارے وہاں کی تعریف میں بھی دیپک قمر نے ماہیے کہے ہیں:
بازار پشاور کے
یادوں میں بسے اب بھی
دلدار پشاور کے
…………
چکوال سے کریالہ
بچپن کو مرے لے کر
چلتا تھا کبھی یکّہ
…………
جوتی یہ قصوری ہے
ملتی ہے نصیبوں سے
پیروں میں تو پوری ہے
…………
بچپن کی بہاروں کو
ہم بھول نہیں پائے
پنڈی کے نظاروں کو
…………
گودی میں کھلایا تھا
پنڈی کے محلوں نے
سینے سے لگایا تھا
دیپک قمر کی مادری زبان پنجابی اور پدری زبان اُردو تھی۔انھیں بچپن سے ہی دونوں زبانوں پر عبور حاصل رہا ہے۔وہ زبانوں کے میل جول اور اختلاط کے قائل تھے۔انھوں نے ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا۔انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ پنجابی انھیں خمیر میں ملی۔اس لیے انھوں نے ـاُردو او پنجابی کے بارے میں کچھ اس انداز میں ماہیے کہے :
جائے گی کہاں اُردو
پُرکھوں نے جہاں چھوڑا
بیٹھی ہے وہاں اُردو
…………
ہر بولی سے بولی کا
رشتہ ہے ہمیشہ سے
دامن ہے چولی کا
دیپک قمر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل سے کیا۔لیکن انھوں نے پنجاب کے لوک گیتوں میں بھی طبع آزمائی کی ۔اس کے بعد ماہیوںمیں ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔حتیٰ کہ ان کے کئی ماہیوںکے مجموعے منصہ شہود پر آئے:
رس رنگ مہک نِت ہے
ہے دودھ مِری ماں کا
ماہیے کا جو امرت ہے
…………
اک ماں کا ہوں میں جایا
اک اور نے پالا ہے
کچھ فرق نہیں پایا
…………
ماہیوں سے بھرے ہر سو
آکاش سے دھرتی تک
پنجاب کی نِت خوشبو
…………
اُلجھا ہوں کوئی حل دے
یہ میری ریاضت ہے
اے داتا مجھے پھل دے
نکہت قدوائی کو دیے انٹرویو میں دیپک قر نے اپنے ادبی سفر پر طویل گفتگو کی ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے اپنے سیاسی سفر، جنگِ آزادی کی تحریک سے وابستگی،تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں میں قیام، بالآخر میرٹھ میں سکونت اختیار کرنے پر گفتگو کی گئی ہے۔ اُردو ماہیے کی جانب متوجہ ہونے کے بارے میں جب نکہت قدوائی نے دیپک قمرسے سوال کیا کہ عموماً مبتدیٰ شعرا ذائقہ بدلنے کے لیے اُردو میں ماہیے تحریر کر رہے ہیں مگر ان میں نہ تو گہرائی ہوتی ہے اور نہ ہی معنویت اور خیال آرائی بلکہ عام طور پر یہ ماہیے بے بحر، بے وزن، بے ربط اور بے آہنگ ہوتے ہیں مگر آپ نے ماہیا نگاری کو ایک مضبوط اسلوب کے طور پر اختیار کیا ہے اور سالہا سال سے طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں ۔آخر آپ کو ماہیوں میں کیا نظر آیا کہ آپ دل و جان سے ان کے گرویدہ ہو گئے اور اب تک پچیس ہزار سے زائد ماہیوں کی تخلیق کر دی ہے؟اس سوال کے جواب میں دیپک قمر کہتے ہیں:
’’ماہیا پنجاب کا نہایت مقبول لوک سنگیت ہے ۔پاکستان میں کافی عرصہ سے اُردو ماہیے چھپ رہے ہیں مگر ہندوستان میں ان کا چلن پچھلے چند سال سے ہی ہونے لگا ہے۔’ماہیا ‘ اور ’ماہی‘ دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اور لوک سنگیت میں محبوب اور ساجن کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔’ماہیے‘کی ہیئت کے بارے میں ایک فروعی سا اختلاف ہے ۔کچھ اصحاب کی رائے ہے کہ یہ صنف تین مصرعوں پر مشتمل ہے اور پہلے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں ۔دوسرے حلقۂ فکر کا خیال ہے کہ پہلا آدھا مصرع جو کہ ہم آہنگ ،ہم بحر و ہم قافیہ ہوتا ہے مل کر اس کی تکمیل کرتے ہیں ۔مگر دو اقسام کے ماہیوں کی بحر ’مفعول مفاعلین ‘ہی ہوتی ہے بریں وجہ آہنگ ،ترنم اور غنائیت کی فضا رہتی ہے۔اس خاکسار کو جب محترمہ سیدہ حنا (مدیر ابلاغ ،پشاور) کے ماہیے پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اس اختصار پسند اسلوب نے قلب و ذہن کو مسحور کر دیا اور میں نے اس ہر دل عزیزلوک سنگیت کو غزل کی طرح اُردو ادب کا ایک با قاعدہ اسلوب بنانے کا ارادہ کر لیا اور دس سال کے عرصہ میں ہزار ہا ماہیوں کی تخلیق کر چکا ہوں ۔یہ ماہیے میرے قلب و روح کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ میں نے ان ماہیوں کو زندگی کا پہلو صد ہزار نظارہ بنانے کی کاوش کی ہیں۔‘‘۴؎
دیپک قمر کے ماہیوں کے موضوعات میں تنوع اور رنگا رنگی ہے۔ان کا آزاد تخیل انھیںماہیوں کی اس دنیا میں لے جاتا ہے جہاںماہی اپنے محبوب کے تصور کو حقیقی جان کر کرب میں ڈوبے ہوئے کلمات ادا کرتا ہے ۔ ان کے ماہیوں میں عوامی جذبات کی ترسیل جا بجا موجود ہے۔ انھوں نے اپنے ماہیوں میںرومان ،ہجر و وصال کو زیادہ ترجیح دی ہے۔اس لحاظ سے ان کے ماہیوں میںگاؤں کے الہڑپن کے علاوہ اپنے لوگوں سے بچھڑنے کا میٹھا کرب بھی قارئین محسوس کر سکتے ہیں۔دیپک قمر کے ماہیوں میں جو پیغام پنہاں ہے اس کا اثر سیدھا دل پر ہوتا ہے۔موصوف نے اپنے ماہیوں میں جزئیات نگاری سے کام لیتے ہوئے اس میں فن کارانہ طریقے سے افسانوی رنگ بھر دیا ہے:
پھر شام ہے کجرائی
پردیس میں بچوں کی
ہے یاد اُسے آئی
…………
آواز ہوئی جاگو
کھڑکی میں کہے پنچھی
لو بھور بھئی بھاگو
…………
نکلے تھے بہت چڑھ کے
گھبرا کے ہیں گھر لوٹے
اخبار کو وہ پڑھ کے
…………
کر کر کے جدا بانٹا
کیا خوب تماشا ہے
بندوں نے خدا بانٹا ہے
دیپک قمر نے اپنے ماہیوں میں خوابوں و خیالوں کی دنیا خود آباد کی ہے۔ انھوں نے اس بات کو قبول کیا کہ وہ جو لکھتے ہیں پہلے اسے محسوس کرکے بعدمیں اسے قرطاس کی زینت بنا تے ہیں۔یعنی اپنے مشاہدے اور تجربے کو انھوں نے ماہیوں میں قارئین کے سامنے پیش کیا ۔ ان کے ماہیوں میں اخوت، اپنائیت اور یگانگت کا درس تو موجود ہی ہے ساتھ ہی ان میں ایک خاص قسم کی وجدان بھی موجود ہے۔ پنجاب کی مٹی کی سوندھی سوندھی مہک نے ان کے ماہیوں کو عروج عطا کیا۔انھوں نے اپنے ماہیوں میں اُن شہروں کو بھی یاد کیا جن میں ان کے کچھ ایام گزرے تھے۔ہجرت کے بعد ان کے دل میں ہمیشہ اُن شہروں کو دیکھنے کی تمنا تھی :
چِت چور نہیں دیکھا
پھر خانہ بدوشوں نے
لاہور نہیں دیکھا
…………
بھلوال نہیں بھولا
بچپن نے جہاں ڈالا
تھا پہلے پہل جھولا
…………
قسمت نے کہاں ٹپکا
اپنے بھی ہیں بیگانے
دو ملکوں میں ہوں لٹکا
دیپک قمر نے اپنے ماہیوں میں برسات ،صبح و شام، مزدور،بچپن ،ماں ،سبزہ،میلے ٹھیلوں،لڑکپن وغیرہ موضوعات کو بھی شامل کیا ہے۔انھوں نے پنجابی دیہاتوں کے خاص گیت ’جگنی ‘کو بھی اپنے ماہیوں میں سلیقگی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ویسے جگنی کا لفظ اصطلاح میں زیور،پنجابی لوک گیت یا حسین و جمیل لڑکی کے لیے بھی ستعمال ہوتا ہے ۔دیپک قمر کی عمر کا خاص حصہ پنجاب میں گزرا ہے اس لیے انھیں جگنی کے دل کی کیفیت کا بہ خوبی اندازہ ہے ۔لہٰذا وہ کہتے ہیں:
جگنی ہے ہر اک گھاٹی
پنجاب سے کیا نکلی
جا پہنچی وہ گوہاٹی
…………
ہرنی ہے اچھلتی سی
سب گاؤں کہے جگنی
بجلی سی مچلتی ہے
…………
تنہائی میں کیا گھاتیں
جب تک نہ ملیں نظریں
جگنی سے کیا باتیں
…………
بیٹھے جو اکیلی وہ
جگنی سے کروں باتیں
بن جائے سہیلی وہ
…………
جگنی ہے اجالوں سی
مچلے ہے اندھیروں میں
غزلوں کے خلایوں سی
…………
جگنی ہے کبھی گڑیا
چترائی جواں ہو کر
بن جائے بڑی بڑھیا
مشہور افسانہ نگارجوگندر پال نے دیپک قمر کے ماہیوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:
’’دیپک قمر کی ایک اور نمایاں خوبی ہے کہ وہ ان سے روایتی ماہیا گوؤں کی طرح موضوع یک رنگی سے پیش نہیں آتے ۔اس صنف میں عام طور پر عشقیہ صورتِ حال پر ہی اصرار کیا جاتا رہا ،جو بہر کیف برا نہیںبلکہ بعض دھنوں پر تو سر دھنے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ تاہم حسن و عشق کے موضوعات کی اس تکرار سے ماہیے پر سوانگ بھرنے کا خیال بھی گزرنے لگتا تھا۔ اس تعلق سے دیپک قمر کے ماہیے کسی ایک مقام پر اکتفا نہیں کرتے ۔آزاد پنچھیوں کا تو یہی ہے کہ جدھر بھی نظر اٹھی اُدھر ہی پرواز بھر لی۔۔۔ماہیے کے بول اصلاً ’’بولے ہوئے الفاظ‘‘سے زیادہ اہم نہ سمجھے جاتے تھے ایسے میں دیپک قمر کا ویژن اور ریاض کا اعجاز کہیے کہ یہی بول اب ’’لکھے ہوئے الفاظ‘‘کی آبرو بنتے جا رہے ہیں۔‘‘۵؎
بہر کیف !دیپک قمر نے اپنے ماہیوں میں ہندی ،اُردو اور پنجابی کے لفطوں کی آمیزش سے شیرینی تیار کی۔اس نئے کلیور اور فلیور نے ناقدین اور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔موصوف کے ماہیے ان کے نام کی مانند اُردو دنیا میں تابندہ ہیں۔میں امید کرتا ہوں کہ اُردو ادب کی دیگر اصناف کی طرح ماہیوں پر بھ تنقیدی گفتگو کی جائے ۔میں سمجھتا ہوں کہ نئے شعرا کو اس صنف میں بھی طبع آزمائی کرنا چاہیے تاکہ ماہیے کی روایت کو فروغ حاصل ہو۔البتہ دورِ حاضر میں فلمی نغموں میں بھی اس صنف کا اب کم استعمال ہو رہا ہے۔ گاہے گاہے اُردو رسائل و جرائد میں کائی مضمون نظر آتا ہے۔ راقم امید کرتا ہے کہ نئے لکھنے والے اس جانب اپنی توجہ مبذول کریں گے۔آخر میں بقول دیپک قمر:
ارمان بہت سے ہیں
کیا ہوگا خدا جانے
امکان بہت سے ہیں
حواشی:
۱؎ اُردو ماہیا تحقیق و تنقید،وحید قریشی،ناشر الوقار پبلی کیشنز، لاہور،اگست 2010،ص 28
۲؎ رسالہ کوہسار جرنل، بھاگل پور،اگست1997
۳؎ پھوئیاں پھوئیاں پھہار کے فلیپ پر لکھی گئی آرا،دیپک قمر، 1992
۴؎ ماہ نامہ انشا، کلکتہ، جنوری فروری 2002، ص 11
۵؎ ہُلّے ہُلارے کی پشت پر لکھی گئی تحریر،مئی 1995
٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں