پروفیسر خواجہ اکرام الدین
ادب انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو معاشرتی بیانیہ ہے ۔ ہر دور میں انسانی ذہن معاشرتی ترقی اور نشیب و فراز کے زیر اثر اثر پذیر ہوتا ہے ۔نتیجتاً ادبی رویے اور رجحانات بھی بدلتے رہتے ہیں ۔ ادب میں بدلتے تخلیقی رویے دراصل معاشرتی اور ثقافتی اشاریے ہیں ۔
موجودہ دور برقی وسائل کی ان ترقیوں کا دور ہے جو وہم و گمان سے بھی پرے ہے۔ جس تیزی سے ٹکنالوجی ہمیں حیرت زدہ کررہی ہے اسی تیزی سے ہماری زندگی کو متاثر کررہی ہے ۔ادب میں تنقیدی نظریات ادب کی پرکھ کے لیے ہیں اور تخلیقی رجحانات معاشرتی ترقی کا اشاریہ ہیں اس لیے بدلتے دور کے تمام تخلیقی رجحانات ورویے کو سمجھے بغیر ادب کی قدرو قیمت کو آنکنا مشکل ہے ۔ آج کے سائبر دور نے ادبی تخلیق کو ایک نئی سمت دی ہے ۔ بالکل ایک نیا رجحان عالمی ادب میں سامنے آرہاہے ۔ اسے "سائبر پنک لٹریچر ” کہا جاتا ہے۔
سائبر پنک لٹریچر ایک ادبی صنف ہے جو مستقبل کی تکنالوجی، ڈیجیٹل کلچر، اور سائبرنیٹکس(Cybernetics) کے مسائل کو موضوع بناتی ہے۔ یہ عموماً ایک ڈیستووپیائی دنیا (dystopian)میں ترتیب دی جاتی ہے جہاں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے دور میں انسانی حالت کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
ڈیستووپیائی دنیا: (dystopian)یہ کہانیاں ایک ایسی دنیا میں ترتیب دی جاتی ہیں جہاں معاشرتی اور سیاسی صورتحال بہت خراب ہوتی ہے۔ایک ڈسٹوپیئن معاشرہ وہ ہوتا ہے جو ناپسندیدہ یا خوفناک ہوتا ہے، جس میں اکثر وسیع پیمانے پر مصائب، جبر، اور ایک کامل معاشرے کا وہم ہوتا ہے۔ یہ یوٹوپیا کے برعکس ہے، جو ایک مثالی معاشرہ ہے جہاں سب کچھ کامل ہے۔
نئی صدی میں، آج کا سائبر پنک ان شناختوں کی حدود کو تلاش کرتا ہے اور ان کی دوبارہ وضاحت کرتا ہے جو کسی حد تک Heterotopian سائبر اسپیس میں تیرتی نظر آتی ہیں۔ اس کے کردار تضادات اور پیچیدگیوں کے مجسم ہیں جو ایک ایسے دور میں موجود ہیں جہاں حقیقت اور نقلی، انسان اور مشین، خود اور دوسرے کے درمیان فرق ممکن حد تک موہوم ( دھندلایا ہوا ہوتا)ہے۔
سائبر پنک لٹریچر نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ یہ قارئین کو ٹیکنالوجی اور مستقبل کے بارے میں گہرے سوالات پر غور کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔
سائبر پنک لٹریچر کے موضوعات:
- انسان اور مشین کا انضمام
- ڈیجیٹل کلچر اور شناخت
- ٹیکنالوجی کا استحصال
- کارپوریٹ کنٹرول
- معاشرتی اور اقتصادی عدم مساوات
سائبر پنک لٹریچر کی خصوصیات:
ٹیکنالوجی کا غلبہ: سائبر پنک کہانیوں میں انتہائی جدید اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا غلبہ ہوتا ہے۔
اینٹی ہیرو کردار: ان کہانیوں کے مرکزی کردار اکثر روایتی ہیرو سے مختلف ہوتے ہیں اور انہیں اینٹی ہیرو کہا جاتا ہے۔
انسانیت کی حالت: سائبر پنک لٹریچر میں انسانی حالت، شناخت، اور ٹیکنالوجی کے ساتھ انسانی تعلقات کا گہرا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
کارپوریٹ کنٹرول: ان کہانیوں میں بڑی کارپوریشنز کا کنٹرول اور اثر و رسوخ بہت زیادہ ہوتا ہے، جو حکومتوں سے بھی زیادہ طاقتور ہو سکتی ہیں۔
سائبر پنک کے مشہور مصنفین:
ولیم گبسن: "نیو رومانسر” (Neuromancer) ان کی مشہور ترین کتاب ہے جو سائبر پنک لٹریچر کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔بروس سٹرلنگ: ان کی کتابیں بھی سائبر پنک موضوعات کو چھوتی ہیں اور ان کے مضامین میں اس صنف کی تاریخ اور فلسفہ بھی شامل ہے۔
اردو میں اب تک اس قبیل کی کوئی تخلیق سامنے نہیں آئی ہے ، البتہ پہلے سے ماورائی دنیا اور مہمات کے حوالے سے کئی تخلیقات موجود ہیں ۔۔۔۔ امید ہے ارود ادب میں بھی اس نئے رجحان کے زیر اثر جلد تخلیقات سامنے آئیں گے۔
***
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں