ڈاکٹر منور حسن کمال
اردو شعر و ادب کی عمرانی تاریخ میں مشاعروں کا اہم کردار رہا ہے اور مشاعروں نے ہی تہذیب و ثقافت کی ایک مستحکم روایت کو بڑا فروغ دیا ہے۔ گزشتہ نصف صدی تک نشر و اشاعت کے معقول ذرائع نہ ہونے کے سبب مشاعرہ کی روایت نے رواج پایا۔ اگرچہ مشاعرے آج بھی اردو شعر و ادب کی ترسیل و ابلاغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، لیکن اس زمانے کے مشاعروں اور آج کے مشاعروں میں بڑی تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔
گزشتہ زمانے میں مشاعرے بادشاہوں اور امیروں کے دربار میں منعقد کیے جاتے تھے۔ بادشاہ اور امرا اپنے ادبی اور شعری ذوق کی تسکین کے لیے ملک کے معروف اور نامور شعرا کو اپنے یہاں جمع کرتے اور شعر و سخن کی محفلیں آراستہ ہوتیں۔ عام طور پر تیس پینتیس شعرا جمع ہوجاتے اور اپنا اپنا کلام سناتے تھے۔ نوواردان شعر و ادب کی اصلاح بھی ان محفلوں کا ایک طرئہ امتیاز تھی، یہاں تک کہ بعض بادشاہ اور امرا بھی اپنے کلام پر استاذ شعرا سے اصلاح لیتے تھے۔ بعض شاعروں کا تو درباروں سے باقاعدہ مشاہرہ اور روزینہ مقرر تھا۔ خلعت اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ میرؔ و سوداؔ اور مصحفیؔ و انشاؔ سے لے کر تقسیم ہند تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہےکہ بادشاہوں اور امرا کے درباروں میں شعرا ہی کیوں نوازے جاتے تھے، نثر نگاروں اور انشا پردازوں کو قدر کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا جاتا تھا؟ اس سلسلے میں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے زمانۂ اردو میں بیشتر ذخیرئہ ادب اور سرمایۂ علوم و فنون نظم ہی میں تھا۔ اس وجہ سے درباروں میں عالم شعرا کو نثر نگاروں پر فوقیت و اہمیت حاصل تھی۔(1) یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ دنیا کی ہر زبان میں یہی صورت حال پیش آئی۔ اب یہ بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اگر شاعری پہلے وجود میں آئی تو شاعری کو پہلی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی، جبکہ نثر کے مقابلے شاعری کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر ہم جب غور کرتے ہیں تو یہ بات بھی ہماری سمجھ میں آجاتی ہے کہ بچے نثر کے مقابلے مترنم لوریوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں، چنانچہ انسانی تہذیب بھی جب اپنے بچپن میں تھی تو اس وقت اس نے نثر کے مقابلے میں نظم کو ترجیح دی۔ دوسری بات یہ کہ شاعری انسانی محسوسات کو زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کرسکتی ہے۔(2) بادشاہوں کے ہاں ان قدردانیوں اور عزت افزائیوں کے نتیجے میں شعرا نے اپنی قوت شعری کو منظم طور پر مرتب کرنے کی طرف پوری توجہ مبذول کی۔(3) ان شاعروں کے تئیں بادشاہوں کی قدر افزائیوں میں شعرا کے اسلوب بیان اور انداز نگارش کو بھی یقینا دخل رہا ہے، اس لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اسلوب بیان ایک انفرادی عطیہ ہے۔ یہ اسلوب بیان پائیدار اور وسیع مطالعے سے حاصل ہوتا ہے۔ شعرا بادشاہوں کے مزاج آشنا ہوتے تھے، وہ انھیں خوش کرنے کے لئے، اپنی گزر اوقات کے لئے اور اپنی قدردانی کے لئے ان کی شان میں قصیدے کہتے اور عشقیہ و حزنیہ غزلیں سناکر ان کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیتے تھے۔
جب ہم مشاعروں کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بتانا بہت مشکل نظر آتا ہے کہ مشاعروں کا آغاز کب اور کیسے ہوا، اس لیے کہ آج تک کوئی تحقیقی کتاب ایسی نظر نہیں آتی جس میں صحیح صحیح مشاعروں کے آغاز اور ابتدا کا پتہ چلتا ہو۔ اغلب گمان یہ ہے کہ مشاعروں کی تحریک شاعروں کے اس جذبے کے تحت ہوئی ہوگی کہ لوگ ان کا کلام سنیں اور ان کی کاوشوں کو سراہیں۔ ایسی نشستیں غالباً شعرا کے گھروں میں شروع ہوئی ہوں گی اور پھر ان شعرا کے معتقدین نے اپنے گھروں پر ان محفلوں کو منعقد کرایا ہوگا۔ ایسی صحبتوں کا تذکرہ سب سے پہلے ہمیں راج شیکھر (۹۲۰ء-۸۸۰ء) کی کتاب ’’کاویہ مہمانسا‘‘ کے دسویں باب میں ملتا ہے۔ اس میں انھوں نے ایک ایسے شاعر کا تذکرہ کیا ہے جو فارغ البال ہو اور وہ اپنے نظام الاوقات کو چار حصوں میں بانٹ لے۔ صبح کو پوجا پاٹ سے فارغ ہوکر مطالعہ کرے۔ دوسرے پہر شعر نظم کرے، دوپہر کے قریب نہادھوکر کھانا کھائے، تیسرے پہر شعری نشست منعقد کرے، چوتھے اور آخری پہر میں اپنی تخلیق پر نظر ثانی کرے، اچھی طرح جانچے پرکھے اور شعری نشست میں تنقید و تعریف کو پیش نظر رکھ کر مناسب ترمیم کرے۔(4) اس بات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ شعری نشستوں اور مشاعروں کا مقصد روز اوّل سے اصلاحِ سخن تھا، بڑے بڑے شعرا اپنا کلام سناکر داد و تحسین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کلام پر گفتگو میں حصہ لیتے تھے۔ شعر کے محاسن اور معائب پر بحث و تمحیص ہوتی تھی اور ردّ و قدح کے بعد اچھی باتوں کو قبول کرلیا جاتا تھا اور منفی پہلوئوں کو اپنے کلام سے حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جاتا تھا۔
برہمنوں کے ہاں بھی اظہار علم و فن کے لئے ’’برہم سبھا‘‘ کے انعقاد کا پتا چلتا ہے۔ ان میں بہت سے عالم شریک ہوتے تھے، اپنی تخلیقات پیش کرتے تھے اور وہاں ان کی خوبیوں کا اعتراف اور کمیوں کی نشاندہی کی جاتی تھی۔ اجین میں ’’کالی داس، امر، روپ سوتر بھاروی اور ہری چند‘‘ وغیرہ کی شاعرانہ خدمات کا اعتراف ایسی ہی مجلسوں کا رہین منت شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’پاٹلی پتر‘‘ میں ’’پاننی، پنگل اور پاتن جلی‘‘ کو خراج تحسین حاصل ہوا۔ ’’بھوج پربندھ‘‘ اور ’’پربندھ چنتامنی‘‘ میں شاعرانہ بزم آرائی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
گویا یہ بات صاف ہوگئی کہ شاہی سرپرستی میں وہ چاہے ہندو امرا رہے ہوں یا مسلم امرا، دونوں کے ہاں شاعری کو فروغ حاصل ہوا، پھر نوعیت یہاں تک پہنچی کہ شاعر اور مشاعرے درباروں کا لازمی جز بن گئے۔
عربی ادب پر نظر ڈالیں تو عرب قبائل کے زمانے سے ہی مشاعروں کی روایت کا پتا چلتا ہے۔ عرب معاشرے میں اشعار سننے اور سنانے کو ’’انشاد‘‘ اور ’’نشید‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب گانا ہی ہوتا ہے۔ عموماً اوّل اور اوسط درجے کے شعرا ہی مقبولیت و شہرت حاصل کرتے تھے۔ شہرت کا ذریعہ عام طور پر میلے اور بازار ہوا کرتے تھے۔ میلوں میں قبائل اپنی اپنی بہادری اور جنگی کارناموں کا تذکرہ کرتے اور اپنی اپنی فوقیت جتاتے تھے۔ ان مواقع پر شاعروں کی زبردست مانگ ہوتی اور ان کی بڑی قدر کی جاتی۔ ایسے ہی میلوں میں شعرا کے جو اجتماعات ہوتے تھے، انھیں مشاعرہ اور مقاصدہ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں اپنا کلام سنانے کے لئے شعرا خوب خوب تیاریاں کرتے، اپنا اپنا کلام سناتے اور میر مشاعرہ یا ثالث جسے ہم صدر مشاعرہ بھی کہہ سکتے ہیں، سب سے اچھے کلام اور شاعر کا انتخاب کرتا اور پھر یہ نظم یا قصیدہ لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکادیا جاتا تھا۔ انھی کو ’’معلقات‘‘ یا ’’سبعہ معلقہ‘‘ کہا جاتا ہے۔(5) اور یہ قصائد دنیائے ادب کے ادبی شہ پارے تسلیم کیے جاتے ہیں۔
ایران میں ’’جاحظ‘‘ کے بیان کے مطابق ’’جشن نوروز‘‘ کے موقع پر نوشیرواں کے دربار میں شعرا جمع ہوکر مدحیہ اشعار پڑھتے تھے۔ انھیں خاص طور پر ایسے ہی موقعوں کے لیے قلم بند کیا جاتا تھا۔ علامہ شبلی نے ’’شعر العجم‘‘ میں فغانی کے دور سے مشاعروں کا آغاز بتایا ہے، لیکن فردوسی کے متعلق لکھتے ہوئے انھوں نے چوتھی صدی ہجری آخر یا پانچویں صدی ہجری کا آغاز بتایا ہے، چنانچہ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے مشاعرے مختلف ادوار میں عربی مشاعروں، فارسی مشاعروں اور ہندی کوی سمیلنوں کے دور سے گزرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج کے کوی سمیلن کی مجلسیں اردو مشاعروں سے ہی مستعار لی گئی ہیں۔
میرؔ کے دور سے باقاعدہ اردو تذکرہ نگاری کا آغاز ہوتا ہے، اسی کے ساتھ ان تذکروں میں شاعروں کے ساتھ ساتھ مشاعروں کا بھی ذکر ملتا ہے۔
میرؔ سے ہی یہ بھی پتا چلتا ہے کہ خواجہ میر درد کے ہاں اردو شعرا کا اجتماع ہوتا تھا، بعد میں مرور زمانہ کے ساتھ یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ پھر میرؔ کے ہاں یہ سلسلہ شروع ہوا اور ’’مجلس ریختہ‘‘ اس کا نام قرار پایا۔ ایسی ہی شعرا کی مجلسوں کو کہیں ’’مجمع شاعران ریختہ‘‘، ’’مجلس یارانِ ریختہ‘‘ اور کہیں صرف ’’مجلس‘‘ کہا گیا ہے۔ ان سے پہلے فارسی کلام پر مشتمل نشستیں بھی منعقد ہوا کرتی تھیں، بلکہ بعض نشستوں میں ہر دو طرح کے کلام سنے سنائے جاتے تھے۔ ’’عقد ثریا‘‘ میں مصحفی نے اس بات کی تائید کی ہے کہ اردو اور فارسی کے مشترکہ مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔
دہلی میں اردو مشاعرے کا تذکرہ قلعۂ معلی سے باقاعدہ رواج پاتا ہے، پھر دہلی میں اردو شاعروں کے درمیان ادبی معرکوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس سلسلے میں قاسمؔ و عظیمؔ کے معرکے بڑے مشہور ہیں۔ انشاؔ بھی ایسے معرکوں میں پیش پیش رہتے تھے، لیکن ان سب معرکوں کا مقصد بہتر سے بہتر کلام کو منظرعام پر لانا تھا، چاہے مشاعرے خصوصی ہوں یا عمومی، دونوں میں شعرا کی چشمک اور ہنگامہ آرائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ برسر محفل مشاعرہ میں ٹوکے جانے کا سراغ خان آرزو کے عہد (۱۶۸۷ء-۱۷۵۶ء) سے ملتا ہے۔ اکثر و بیشتر مشاعروں میں نومشق اور نوآموز شعرا شرکت کرتے تھے، اساتذہ ان مشاعروں میں کم ہی جاتے تھے، لیکن اساتذہ کے ’’قدغن‘‘ لگانے کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہی روایت لکھنؤ کے مشاعروں میں بھی ملتی ہے۔ ’’خوش معرکہ زیبا‘‘ میں مرزا جعفر کے مشہور مشاعروں کے دو واقعات خاص طور پر قابل تذکرہ ہیں۔ اسی طرح ’’تذکرہ خازن الشعراء‘‘ میں درج ہے کہ استاذی اور شاگردی کے اداروں کی بدولت استاذ شاعروں کی بڑی بڑی پارٹیاں قائم ہوگئی تھیں، جو مشاعروں میں بھی جماعت کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ دہلی میں اس روایت کے امین استاد رسا شمار کیے جاتے ہیں۔(6) یوپی میں لکھنؤ کے علاوہ ملیح آباد، بدایوں، فرخ آباد، رام پور، ٹانڈہ، بنارس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی مشاعروں کے انعقاد کا ذکر ملتا ہے۔ اگر ہم دور جائیں تو حیدرآباد دکن اور عظیم آباد (پٹنہ) میں بھی مشاعرے بڑی آن بان سے منعقد کیے جاتے تھے۔ ’’عروس الاذکار‘‘ میں ان مشاعروں پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ عظیم آباد کے مشاعروں کا ذکر ’’تذکرئہ شورش‘‘ (مرتبہ: محمودالٰہی) میں موجود ہے۔ اسی طرح بنگال میں بھی کلکتہ، ڈھاکہ اور مرشدآباد میں مشاعروں کا تاریخی سلسلہ ملتا ہے۔ کلکتہ میں ۱۷۸۱ء میں مدرسہ عالیہ قائم ہوا اور وہاں ایک بزم سخن کی بنیاد ڈالی گئی۔ ۱۸۲۸ء میں کلکتہ میں منعقد ان مشاعروں میں مرزا غالب کی بھی شرکت کا پتا چلتا ہے۔ ان مشاعروں کا مقصد بھی اردو شاعری کی صفائی ستھرائی رہی، یہاں تک کہ مرزا غالب کا ایک شعر واحد اور جمع کے فرق کے ساتھ خوب موضوع بحث بنا۔ غالب نے ’’عود ہندی‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
جے پور (راجستھان) میں ادبی و شعری محفلوں کا آغاز مولوی رشید الدین فائز نانولی کی آمد سے ہوتا ہے۔ مولانا جے پور کالج میں علوم شرقیہ کے مدرس اعلیٰ تھے۔ وہ بہت بڑے عالم اور بلند مرتبہ شاعر تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں پسپائی سے خوف زدہ بہت سے شعرا نے جے پور کا رخ کیا۔ ان میں خواجہ قمر الدین خاں راقم، نواب احمد مرزا خاں آگاہ اور امرائو مرزا انور تلامذہ غالب اور میر واجد علی شگفتہ تلمیذ رشک لکھنوی کے نام قابل ذکر ہیں۔ میر ذکی دہلوی، جلال رام پوری اور نواب زین العابدین خاں عابد رامپوری بھی اسی دور کے ممتاز شعرا تھے۔ ان شعرا کے جے پور پہنچنے کے بعد وہ شعر و سخن کی محفلیں جو شاذ و نادر منعقد ہوتی تھیں، ان میں گرمی اور حرارت پیدا ہوگئی۔ جے پور میں ۱۸۷۱ء میں ایک ’’بزم ادب‘‘ قائم کی گئی۔ اس کی صدارت کے لیے مولانا سلیم الدین کو منتخب کیا گیا اور اس بزم کے تحت مشاعرے باقاعدہ منعقد ہونے لگے۔ مشاعروں کے ساتھ ساتھ مناعتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ اس کا آغاز بھی مولانا سلیم الدین تسلیم کے مکان پر ۱۸۸۰ء میں ہوا، اس لیے جے پور میں ادبی محفلوں کی جھلک نظر آنے لگی۔ اس کی مناسبت سے مولوی عبدالحق نے ایک جگہ ’’جے پور‘‘ کو ’’چھوٹی دلی‘‘ کہا ہے۔ میر محمد علی جویا کے ہاں بھی اکثر مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے، جن میں تاریخ مادہ کی شرط لازمی تھی۔
اس سلسلے میں منشی چاند بہاری لال صبا کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ ان کی سال گرہ کی تاریخ ۲۵؍دسمبر تھی، وہ اسی روز ایک مشاعرہ منعقد کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ۲۹؍شعبان کی سال گرہ آگئی، لہٰذا احتیاطاً مشاعرہ دوپہر میں منعقد کیا گیا کہ کہیں چاند نہ ہوجائے اور شعرا اور سامعین نماز تراویح سے غافل رہ جائیں۔ دوران مشاعرہ عصر کا وقت ہوگیا، مشاعرہ روک کر باجماعت نماز عصر ادا کی گئی۔ یہ تھی قومی رواداری اور تہذیب کیپاس داری جو تمام شعرا کے ہاں بلکہ علاقائی وجہ سے عوام کے ہاں بھی پائی جاتی تھی۔(7)
اصلاح شاعری کے سلسلے میں آزاد کی اولیت کا اعتراف خود مولانا حالیؔ نے کیا ہے، پنجاب میں مشاعروں کا تذکرہ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مجموعہ نظم حالیؔ کے مقدمے میں ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
انجمن پنجاب نے ایک مشاعرہ قائم کیا تھا، جو ہر مہینے میں ایک بار انجمن کے مکان میں منعقد ہوتا تھا۔ اس مشاعرے کا مقصد یہ تھا کہ ایشیائی شاعری جو کہ دروبست عشق اور مبالغے کی جاگیر ہوگئی ہے، اس کو جہاں تک ممکن ہو وسعت دی جائے۔ بیسویں صدی کے ربع اوّل میں جب مجاہدین آزادی جیلوں میں ٹھونسے جارہے تھے، ان میں عالموں، شاعروں اور دانشوروں کی بھی کثیر تعداد تھی، ان لوگوں نے وہیں محفلیں منعقد کیں، جن کی رپورٹیں ’’روزنامہ زمیں دار‘‘ لاہور میں شائع ہوئیں۔ ان مشاعروں کی رپورٹوں کو ’’مشاعرئہ زنداں‘‘ کے نام سے اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔
گویا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشاعرے بامقصد بھی ہوا کرتے تھے، جو جذبۂ حب الوطنی اور قومی ایثار سے بھرپور جذبہ شاعری سے متصف ہوتے تھے۔ اسی ذیل میں محنت کے ساتھ ساتھ شاعر کی عظمت کا بھی خوب خوب تذکرہ کیا جاتا تھا۔ ایسے مشاعروں میں بسمل الٰہ آبادی، فیاض گوالیاری، عمر انصاری، روش صدیقی، احسان دانش، جوش ملیح آبادی، سیماب اکبرآبادی، ساغر نظامی اور شوکت تھانوی نے اپنی شاعری کے جوہر دکھائے اور داد و تحسین حاصل کی۔ آداب مشاعرہ کا بھی خوب خیال رکھا جاتا تھا۔ شعرا ایک جگہ جمع ہوتے تو ایک حلقہ بنالیتے، اساتذہ اور صدر مشاعرہ اس طرح بٹھائے جاتے کہ ان کا نمبر آخر میں آتا۔ ایک بڑی شمع جلاکر ہر شاعر کے سامنے سے گزارنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بجلی اور لائوڈاسپیکر کا جب زمانہ آیا تو مشاعروں کی ہیئت بدلی اور فہرست مرتب کرکے شاعر کوپکارا جانے لگا، وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اپنا کلام سناتا۔ کم و بیش اسی زمانے سے مشاعروں میں ترنم سے غزل سنانے کا رواج ہوا، جس کو جگر مرادآبادی نے اپنے کلام سے مزید وسعت دی اور باضابطہ مترنم شعرا کی کھیپ کی کھیپ مشاعروں میں آنے لگی اور پسند کی جانے لگی۔ یہ روایت آج تک چلی آرہی ہے۔
رفعت سروش نے آزادی سے متصلاً قبل کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’نقوش رفتہ‘‘ میں لکھا ہے:
’’بعد نماز مغرب محفل مشاعرہ منعقد ہوتی تھی اور مغرب سے قبل بزم نثر، اس بزم میں کبھی کبھی خواجہ حسن نظامی بھی آتے تھے۔ جامع مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والے اکثر شعرا بھی ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ قدیم رنگ کی غزلیں پسند کی جاتی تھیں، رعایت لفظی اور معاملہ بندی کو کمال فن تصور کیا جاتا تھا۔ ان محفلوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، فیض جھنجھانوی، بسمل شاہجہاں پوری، گلزار دہلوی اور جمیل الدین عالی پیش پیش رہتے تھے، جنھیں مشاعروں میں اپنا بھرپور انداز میں تعارف کرانا مقصود ہوتا تھا وہ کوشش کرتے تھے کہ خواجہ محمد شفیع ان کا تعارف کرائیں۔ خواجہ محمد شفیع رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی پاٹ دار آواز، ٹکسالی زبان اور شاعر کو متعارف کرانے کا دلچسپ انداز شاعر کو راتوں رات معروف کردیتا تھا۔ جمیل الدین عالی اس زمانے میں بھی پختہ کہتے تھے اور بڑی پرسوز آواز میں شعر پڑھتے تھے، اسی لیے مشاعروں میں بے حد مقبول تھے۔ ان دنوں مشاعرہ محض نمائشی چیز نہیں ہوتا تھا، بلکہ عملی طور پر نظم و نسق قائم کیا جاتا تھا۔‘‘ (8)
رفعت سروش کے مطابق مشاعروں کو آج بھی ادب و شعر کی ترویج اور اہم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے غیرجانبداری، ادبی سوجھ بوجھ اور عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ آج بھی مشاعرے اپنی تمام خامیوں کے باوجود عوام تک پہنچنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔
معروف ادیب و شاعر اور اردو اکادمی دہلی کے سابق سکریٹری مخمور سعیدی مشاعروں سے متعلق سہ ماہی اثبات و نفی (کلکتہ) میں شائع اپنے انٹرویو میں یوں روشنی ڈالتے ہیں:
’’ہمارا کلاسیکی ادب باقاعدہ، منظم اور مرتب معاشرے کا ادب ہے۔جہاں ہر چیزکے خاص آداب و ضوابط طے تھے وہیں شاعری کے بھی تھے، ان قواعد یا آداب و ضوابط کی خلاف ورزی آسان نہیں تھی، لیکن اب یہ سب چیزیں بکھر گئی ہیں۔ آج سے 50 برس پہلے تک سارا زور اس بات پر دیا جاتا تھا کہ کس ڈھنگ سے کہا، کیسے کہا۔ شعرا جب مشاعرے میں شعر سناتے تھے تو اس بات پر خاص زور دیا جاتا تھا کہ صاحب فلاں استاذ نے اس خیال کو یوں کہا تھا، خاکسار نے یوں کہنے کی کوشش کی ہے۔ مضمون کی تلاش ضروری نہیں تھی، اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ فلاں بات کو اس طریقے سے کہنا انفرادیت کا ثبوت ہے۔ اب اس طرح کی پابندی نہیں ہے۔ اب آپ کچھ بھی کہیں، وہ ہمارے شعر کا حصہ بن جاتا ہے۔‘‘(9)
گویا اس بات کے کثیر شواہد موجود ہیں کہ گزشتہ صدی کے نصف اوّل اور نصف آخر کے آغاز کے چند برسوں بعد تک مشاعرے تعلیم و تعلّم کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔ استاذ اور شاگرد کا احترام دل سے ہوتا تھا۔ آج کی طرح محض دکھاوا نہیں تھا، بلکہ قدآور اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب طے کرنے اور ان کی موجودگی میں اپنا کلام سنانے میں شاگرد فخر محسوس کرتے تھے۔ اساتذہ بھی اپنے شاگردوں کو اپنے ساتھ مشاعروں میں لے کر جاتے تھے اور ان کا کلام سنواتے تھے۔ معمولی معمولی خامیوں پر تنبیہ کی جاتی تھی، جسے شاگرد بغیر کسی رد و قدح کے قبول کرتے تھے۔
مشاعروں کی یہ طویل روایت صرف اردو شاعری کا حصہ ہے، جس میں شعرا کی تخلیقات کی پذیرائی ہی نہیں کی جاتی، بلکہ ارباب ذوق اپنی سخن شناسی کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ مشاعروں کی یہ عمومی روایت ہی اس کی امین ہے۔ ادبی ذوق کی جلا اور تسکین کا ایک بڑا ذریعہ مشاعرے ہی رہتے ہیں۔ ان کے ذریعہ ہمیں زندگی کی قدروں اور سچائیوں کا شعور حاصل ہوتا ہے، لیکن جس طرح مشاعروں نے نئی کروٹ لی ہے، یہ نہ مشاعروں کے لیے بہتر ہے اور نہ اردو شاعری ہی کے لیے۔ آج کے مشاعرے محض رت جگے کا سامان بن کر رہ گئے ہیں۔ بعض جگہوں پر یہ صورت حال اور بھی خراب ہے کہ حاضرین مشاعرہ کی کم و بیش اکثریت صرف ڈرامے باز شاعروں یا شاعرات کو ہی سنناچاہتی ہے۔ انھیں کلام کے معیار سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
اسی طرح نہ آج کے اساتذہ ایسے ہیں کہ وہ شاگردوں کو برسرمشاعرہ ٹوک دیں اور نہ شاگرد ہی ایسے ہیں جو دو کو دو اور چار کو چار برسرمنبر برداشت کرلیں، لیکن اگر ہم غور کریں تو غیرممالک میں یہ روایت آج بھی زندہ ہے اور اس پر کسی حد تک عمل بھی کیا جارہا ہے۔ مشاعروں کے لیے یہ بات بڑی نیک فال ہے کہ اب مشاعرے غیرممالک میں بھی بڑی پابندی سے منعقد کیے جانے لگے ہیں اور ہندو پاک سے زیادہ کامیاب شمار کیے جارہے ہیں۔ بانو ارشد نے ’’کتاب نما‘‘ میں شائع شدہ اطہر راز سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اطہرراز مشاعرے کے بعد میرے پاس آئے، کہنے لگے: بانو! آپ کا ترنم بہت اچھا ہے، لیکن جب آپ تحت میں پڑھتی ہیں تو ذرا دھیرے پڑھیں، آپ کی شعر سنانے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ سامع پہلے مصرعے کو ابھی اپنے ذہن تک پہنچانے کے عمل میں مصروف ہوتا ہے اور آپ دوسرا یعنی مصرع ثانی فوراً پڑھ دیتی ہیں۔ آگے لکھتی ہیں کہ ایک مرتبہ کہنے لگے: آپ کی غزل ’’شاعر‘‘ میں پڑھی، اس کی ردیف ہے ’’شروع کیا‘‘، اس میں ع گرتی ہے۔ سمجھ گئیں بی بی۔ انھوں نے ایسی شفقت سے کہا کہ میری تیوری پر بل نہیں پڑا، البتہ اس کے بعد وہ غزل پھر میں نے کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی‘‘۔(10)
برطانیہ میں تو مشاعرے آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں بقول ثروت اقبال (اک عرض تمنا اک طرز تغافل) برطانیہ کی ہر اردو کی محفل میں یہاں تک کہ تعزیتی جلسے میں بھی مشاعرے کا انتظام ضرور کرنا پڑتا ہے، ورنہ ان جلسوں کی کارروائی ’خالی کرسیوں‘ کو ہی سننی پڑے۔
آج کے مشاعرے میں سلیقہ سے کی گئی ہوٹنگ کو مشاعرے کا ایک حصہ سمجھا جانے لگا ہے، ایک حد تک یہ بات درست بھی ہے، اس لیے کہ اس سے مشاعرے کو حرارت ملتی ہے اور شاید شعرا میں ایک ایسا جذبہ پیدا کرتی ہے، جو انھیں نئے اور تازہ کار اشعار سنانے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہی حال سامعین کا بھی ہے، وہ خاموش تماشائی کی طرح مشاعرہ سننا پسند نہیں کرتے، وہ داد و تحسین کے ڈونگرے اسی شاعر پر لٹاتے ہیں، جو حسن و رخسار اور معشوق کے شکووں کے ساتھ ساتھ انسان کی شاعری کرے، انسانیت کی شاعری کرے اور شاعری میں اس سماج کی بات کرے، جس میں جی رہا ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مشاعروں کی روایت کو زندگی بخشنے کے ساتھ ساتھ قدما کی فکری روایتوں کو بھی فروغ دیا جائے۔ اساتذہ اور شاگرد باہم اپنی اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں۔ یہ صحیح ہے کہ آج کا انسان بہت گرم مزاج واقع ہوا ہے، اس کا پارہ بہت جلد چڑھ جاتا ہے، لیکن اگر اردو شعر و ادب کی خدمت کرنی ہے اور مشاعروں کی روایت کو اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ رکھنا ہے تو کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اس کی پہل کیوں نہ ہمارے نئی نسل کے شعرا کریں۔ اپنی خامیوں کو قبول کریں اور دور کریں۔ جہاں تک سامعین کا تعلق ہے ان کے طرز عمل سے بھی کئی شعرا بدظن نظر آتے ہیں، جن سامعین سے شعرا بدظن نظر آتے ہیں ان کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر آپ پختہ اور خیال سے بھرپور کلام سنائیں گے تو یقینا پسند کیے جائیں گے۔
کتابیات:
- تاریخ مشاعرہ، ص ۱۹، علی جواد زیدی
- ادب کا مطالعہ، ص ۵۵، ۵۶، اطہر پرویز
- تاریخ مشاعرہ، ص۱۹، علی جواد زیدی
- بہ روایت تاریخ مشاعرہ، ص۱۶، علی جواد زیدی
- عربی ادب کی تاریخ، ص ۶۷، ۶۸، ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی
- تاریخ مشاعرہ، ص ۱۲۹، علی جواد زیدی
- سہ ماہی نخلستان، اپریل تا ستمبر ۱۹۸۶ء (جے پور): جے پور کی ادبی و شعری محفلیں،
- ص۵۳، مضمون نگار: ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی
- نقوش رفتہ، ص ۳۲-۳۴، ۱۱۶، رفعت سروش
- سہ ماہی اثبات و نفی (کلکتہ)، ص ۱۳۱-۱۳۲، مدیرہ: شگفتہ طلعت سیما
- ماہنامہ کتاب نما، اکتوبر ۲۰۰۱ء، نئی دہلی، ص ۵۶، مضمون نگار: بانو ارشد
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
ایک اچھے ویب میں اچھے ادیبوں کا اجماع قابل ستائش ہے ۔۔ ڈھیروں مبارک باد