خلیق الزماں نصرت
ہندوستان میں فلموں کی شروعات ۱۹۱۳ میں ہوئی۔ ۱۹۳۰ء تک خاموش فلمیں دکھائی گئیں۔ ۱۹۳۱ء سے بولتی فلموں کی شروعات ہوئی۔ اسی سال ہندوستان کی پہلی بولتی فلم’’عالم آراء‘‘ بنی۔ وہ زمانہ فارسی کے بعد کا زمانہ تھا۔ مجبوراً اردو کو فلم کی زبان بنانی پڑی،جو اس وقت ہندوستانیوں کے ذہین عوام کی زبان تھی۔لہٰذا ہندوستان کے کونے کونے سے اردو جاننے والے شاعر ،ادیب اور کلاکارنے ممبئی کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا۔ان میںسے کچھ کامیاب ہوئے اور انہوں نے فلموں کو بہترین نغمے،اچھی کہانیاں، برجستہ اردو مکالمے سے اُسے عوام سے قریب کیا۔
ہم اردو کی مقبولیت کا وہ نظارہ ابھی تک نہیں بھولے ہیں جب محبوب پروڈکشن کالوگوفلم شروع کرنے سے پہلے دکھایاجاتاہے اور بیک گرائونڈسے آوازآتی ہے۔۔۔۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ایک گرجدار آواز کے ساتھ جب یہ شعر سنایا جاتا ہے تو ناظر ین اپنی سیٹ چھوڑکربے ساختہ اچھل پڑتے ہیں۔کچھ اپنی خوشی کااظہار تالیوں سے کرتے ہیں۔اس وقت تک کسی کو اندازہ نہیں تھاکہ یہ شعر کس کاہے؟ حال ہی مَیں نے ایسے سیکڑوں اشعار کی تحقیق کے دوران پتہ لگایا کہ یہ شعر اردو کے ایک گمنام شاعر محمد رضا برق لکھنوی کا ہے۔ مصرعہ اولیٰ میں تھوڑا تصرف کردیا گیا ہے۔ممکن ہے یہ تصرف فلم والوں میں سے کسی نے شعر کو عام فہم بنانے کے لیے کیا ہواور یہی شعرعوام میں مقبول بھی ہوگیا۔ محمدرضابرق صاحب ِ دیوان شاعر تھے۔وہ واجد علی شاہ کے مصاحب میں سے تھے۔سچ تو یہ ہے ایسے اشعارکو عوام میںآسانی سے پہنچانافلموں کا ہی کارنامہ ہے۔ چندذہین شاعروں کے ذہنی الماریوں میں سجے سجائے اشعار کو شہر شہر ، گلیوں گلیوں میں فلموں کے ذریعہ عام کرنے اورمقبول کرنے کاکام فلموں نے ہی کیا ہے،ورنہ ان شاعروں اور ادیبوں کے ذہن میں ہی دفن ہوکر رہ جاتا۔ آج ہم ایسے مصرعوں کاہی ذکر کریں گے ۔فلموں ،رسالوں،ریڈیو،عام بول چال کی تحریر،تقریرمیں اردو کے علاوہ شاید ہی کسی دوسری زبان کے اشعار استعمال ہوئے ہوں گے۔ فلموں کے ناظرین میں ایسے بھی ہیں جواردو نہیں جانتے۔پھربھی وہ اردو شعر سن کر اور انہیں اپنی بات چیت میں استعمال کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔آپ تو یہ جانتے ہیںکہ یہ فلمیں ہندوستان کے کونے کونے میں دیکھی جاتی ہیں۔ چاہے وہ جنوب ہویا شمال، یہی بمبئی والی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ آج بھی ایسے فلموں کے ناظرین موجود ہیں جن کی زبان اردو نہیں ہے مگر وہ ارود کے ڈائیلاگ سن کر بے تحاشہ خوشی کا اظہار کرتے ہیںاور اُسے ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔
اردو کی ایک مقبول فلم’’مغل اعظم‘‘ سے کون واقف نہیں ہے۔یہ فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی تاریخی فلم تھی۔ اس فلم کا وہ گانا کیالوگوں نے بھلا دیا ہے۔۔۔’’پیار کیا تو ڈرناکیا‘‘ ۔شکیل کا لکھا ہوایہ گیت اس قدر مقبول ہوا کہ سیکڑوں لڑکے لڑکیوں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف اپنے اپنے گھروںسے نکل کر شادی کرلی۔لڑکیوں کے جذبات کو بھڑکانے میں اس فلم کا بڑا ہاتھ ہے۔پھر اس فلم کا مقبول ڈائیلاگ ہر خاص وعام کی زبان پر آنے لگا۔’’سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا اور میں تجھے جینے نہیں دوںگا‘‘ اس فلم کی نعت جو گیت کی طرح فلمائی گئی اور اس کا مکھڑا زبان زد ِ خاص وعام ہوگیا۔
؎ بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ
ہم مذکورہ ڈائیلاگ کوآج تک نہیں بھلا پائے ہیں۔اس سے اچھا ڈائیلاگ کوئی نہیں دے سکا۔ یہ اردو کے ادیب کا کمال ہے۔عام بول چال ،تحریراور تقریرمیں برجستہ اشعار لکھے جاتے ہیںاورایسے اشعار زبان سے نکلتے ہی فوراً مدمقابل کے دماغ تک پہنچتے ہیں۔ یہ شعر جادوکااثر رکھتاہے۔اس ایک شعر یامصرعے سے بڑے سے بڑے مجمع کے رخ کو بدلا جاسکتا ہے جو ہزار جملے سے بھی ممکن نہیں ہے۔ایسے اشعار کی مدد سے فلموں کے پروڈیوسرنے بھی وہی کام لیا ہے ۔ مردہ جسم میں روح پھونکنے کاکام بھی ایسے اشعار سے لیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار سے لوگوں کے پژمردہ خیالات کو حوصلہ دے کر ان کی رگوں میں خون دوڑایاجاسکتا ہے۔ایسے اشعار کا نعم البدل نہیںہے۔یہ وہ اشعار ہیںجواپنی سادگی وپرکاری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ایک شعر یاایک مصرعے سے پوری داستان سنائی جاسکتی ہے۔ کسی طول طویل کہانی کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔اردو کا شاعر ہویا ادیب یا کوئی قلم کاراپنی تخلیق میں ایسا برمحل شعر ضروراستعمال کرتا ہے۔ فلموں کے ڈائیلاگ ،کہانی بھی اس سے مبرا نہیں۔ فلم کے رائٹراور فلمی شاعر نے برمحل اشعار کا استعمال کرکے فلم کی دلچسپیوںمیںچار چاند لگا دیے ہیں۔
مادرِ وطن کی محبت کی سرشاری کے لیے اردو کے دو مقبول اشعار ’’سار ے جہاںسے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔ ’’ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘ ۔۔۔۔سے بہتر ہندوستان کی کسی زبان میں برمحل شعر نہیں ہوسکتا۔آزادی حاصل کرنے کے لیے ان دونوں اشعار نے بڑا اہم رول اداکیا ہے۔ برسوں تک ہندوستانیوں کی زبان پر یہ اشعار محفوظ رہے ہیں۔ سکھی جیون ،بھائی بہن۔ دھرم پتر فلموں میں سارے جہاں سے اچھا ۔۔۔۔۔استعمال کرنے کی وجہ سے ملک کے کونے کونے کے نوجوانوں کی زبان پر یہ شعر برمحل ہوتا گیا۔ اسکول اور کالج میں ترانے کے طور پر ستعمال ہونے کی وجہ سے بھی یہ ہر کس وناکس کی زبان پر بیٹھ گیا۔ جو لوگ آزادی کی تحریک میں شمولیت کرنے سے قاصر تھے انہوں نے اپنی زبان سے ہی شعر پر اپنا نام ثواب حاصل کرنے والوں میں شامل کرلیا۔ ہاں فلموں میں سرفروشی کی تمنا ۔۔۔۔۔۔ رام پرشاد بسمل کی زبان سے سن کر ناظرین نے یہ سمجھاکہ یہ غزل رام پرشاد بسمل کی ہے مگر یہ غزل اس زمانے کے گمنام شاعر بسمل عظیم آبادی کی ہے۔اسی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں،نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
فلم لال قلعہ میں بہادر شاہ ظفر کے کردار کی زبان سے سن کر لوگوں نے سمجھا کہ یہ غزل بہادر شاہ ظفر کی ہے حالانکہ یہ شعر مضطر خیرآبادی کا ہے۔ جن کا دیوان جاوید اختر مضطر کے ایک پوتے کے پاس ہے۔میں اکثر کسی نا کسی فلم میں اس طرح کے اشعار کااستعمال دیکھتاہوں۔
فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ میں رحمان جانی واکر کے ساتھ اپنی محبوبہ کا انتظار بے صبری سے کرتا ہے اور یہ شعر پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
اسی فلم میں رحمان وحیدہ رحمن کے سامنے اپنا دل پکڑ کر زمین پر گرجاتا ہے اور فوراً ہی اپنی اصلی حالت میں آجاتا ہے۔ وحیدہ رحمن سکتے میں آجاتی ہے اور کہتی ہے۔۔۔۔۔۔ ’’ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نسیم امروہوی کا شعر ہے جو اس طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہ انتظار نہ ٹہراکوئی بلا ٹہری
کسی کی جان گئی آپ کی اداٹہری
فلم دشمن میں راجیش کھنہ قوالی سنانے سے قبل ایک شعر سناتا ہے۔۔۔۔۔۔
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
یہ مستؔ کلکتوی کا شعر ہے۔
فلم ’’آس کا پنچھی ‘‘ میں وجینتی مالا کے اسکوٹر سے ایکسی ڈنٹ ہوجاتا ہے تو راجندرکمار ان کے درمیان آنے والے مولوی کو بیوقوف بناکر یہ شعر پڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘
کیا ہمارے ناظرین اردو کے شاعر کے گیت بھلا پائے ہیں۔ فلم ’’دوآنکھیں بارہ ہاتھ‘‘ کا یہ گیت نما بھجن ۔۔۔۔۔
اے مالک ترے بندے ہم نیکی پر چلیں اور بدی سے بچیں تاکہ ہنستے ہوئے نکلے دم
وطنیت سے تعلق رکھنے والے کچھ مصرعے بڑے مشہور ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ وطن کی آبرو خطرے میں ہے ہشیار ہوجائو ؎ اپنی آزادی کو ہم ہر گز مٹا سکتے نہیں
ساحرؔ کے گیت کا یہ شعر بر محل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
اور جگرؔ کا یہ شعر تو جیسے راجکمار کے لئے ہی کہاگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
فلم میں ڈائیلاگ کی طرح استعمال کرنے والے راجکمار تو اسی اردو کے لہجے کا ڈائیلاگ بول بول کر عوام میںاردو والے ہوگئے۔ وہ اگر فلموں میں رام کمار پنڈت کا بھی رول کرتے تھے تو انہیں اردو الفاظ سے بھرے ڈائیلاگ چاہیے تھے۔ وہ اپنے ڈائیلاگ خود تیار کرواتے تھے۔ اس پر راجکمار خوب محنت کرتے تھے۔
نخشب جارچوی،ڈاکٹرصفدرآہ، مجروح ، شکیل،ساحر جیسے قدآور اردو کے شاعروں نے بے شمار فلمی گیت لکھ کر فلم کو مالا مال کردیا۔ جب تک دنیا میںلوگ رہیں گے ،ان کے گانے سنے جائیں گے۔اردو کے شاعروں نے بھی فلموں میں کبھی اپنی غزل کبھی اردو کے بڑے شعراء کے اشعارکا استعمال کرکے فلم کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔غالبؔ کا ایک شعر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مجروحؔ نے اس شعر کے بعد اپنا گیت شروع کیا ہے۔ لتا کی آواز میں یہ گیت فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ کے لئے فلمایا گیا تھا۔
فلم فری لو ۱۹۷۴ میں اسد بھوپالی نے حفیظ بنارسی کے اس مطلع کو مکھڑا بنا ہے
آنکھوں نے محبت میں بڑا بڑا کام کیا ہے ۔
پیغام دیا ہے کبھی پیغام لیا ہے
فلم’ آندولن‘میں بھوپندر نے ایک گیت گایاہے۔ گیت کی شروعات میں واجد علی شاہ رفتہ کے اس شعر سے کی ہے اور یہ شعر بار بار دہرایاجاتا ہے:
درودیوارپہ حسرت کی نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
تعجب کی بات ہے کہ اس کے شاعر کا نام بسمل لکھا ہے۔ فلم’ شہیداعظم بھگت سنگھ‘ میں رام پرساد بسمل کے نام سے ایک گیت محمد رفیع کی آواز میں ہے۔ اس میں علامہ اقبال کا یہ شعر شامل کیا گیا ہے :
جس کھیت سے دہقاں کو نہ ہو روٹی میسر
اس کھیت کے ہر گوشۂ گندم کوجلادو
فلم آدھی رات ۱۹۵۰میں اس نغمہ کو پڑھیں:
دل ہی تو ہے تڑب گیا ۔درد سے بھر نہ آئے کیوں
غالب کا مصرع ہے دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
حسرت موہانی کے شعر کا عکس فلم آبرو ۱۹۶۸ میں جی۔ ایس ۔ راول کے لکھے نغمے میں دیکھیں
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیںآتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
جنہیں ہم بھولنا چاہیں وہ اکثر یاد آتے ہیں
برا ہو اس محبت کا وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
پریم دھون کے گیتوںمیں بھی اسی طرح برمحل شعر کو جذب کیا گیا ہے۔فلم ’بھارت کے شہید‘ میں مہندر کپور اور ساتھی نے ایک گیت گایا ہے جس میں یہ شعر شامل ہے۔ یہ اقبال کا شعر ہے :
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
فلم ’’دستک‘‘ میں ان کی غزل۔۔
ہم ہیں متاعِ کوچہ وبازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نظرجو خریدار کی طرح
مجروح ؔ نے فلم ’’تم میرے ہو‘‘ میں حفیظ میرٹھی کا مصرع۔۔۔۔۔۔۔
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے دل ٹوٹے آواز نہ آئے
کو بدل کر اس طرح استعمال کیا۔۔۔۔۔
شیشہ چاہے ٹوٹ بھی جائے دل نہ کسی کا ٹوٹنے پائے
فلم’’تو نہیں اور سہی‘‘ میں داغؔ کے شعر کو استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔۔
تو جو ہرجائی ہے ،اپنا بھی یہی طور سہی تو نہیں اور سہی،اور نہیں اور سہی
ساحرؔاور شکیل نے اپنی اپنی فلم کے لئے شعر کہے جو موقع محل استعمال ہونے لگا۔
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
ساحرؔ
غالبؔ جسے کہتے ہیں اردو کا ہی شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھاکر غالب یہ کرم کیوں ہے
ساحرؔ
ساحر نے اپنی فلم میںاقبال ؔ اورمیرؔکا یہ مطلع استعمال کیا۔لوگو ں نے سمجھا یہ ساحر کا مطلع ہے۔۔۔۔۔۔۔
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے،تو نہیں جہاں کے لئے
اقبالؔ
پتہ پتہ ، بوٹابوٹا، حال ہماراجانے ہے
جانے نہ جانے دل ہی نہ جانے ،باغ تو سارا جانے ہے
میرؔ
مصحفی کے اس شعر کو شہر یارنے بدل کر امرائو جان فلم میںشامل کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
کیا چیز دل ہے،چاہئے تو جان لیجئے
پربات کوئی ہے جوکہوں مان لیجئے
مصحفی
دل چیز کیا ہے آپ مری جان لیجئے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجئے
شہر یار
مندرجہ ذیل چند اشعار میں حمایت علی،پاکستان کے فلمی شاعر کے حوالے سے لکھ رہاہوںجو فلموں میں استعمال ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگری مری کب تک یونہی برباد رہے گی
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
دوسرا مصرعہ یگانہ چنگیزی کا ہے لیکن جوش نے فلم ’’من کی جیت‘‘ میں استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ آئے تو خیالِ دلِ ناشاد آیا
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
یہ ریاض خیرآبادی کا مطلع ہے لیکن پہلے مصرعے کو ساحر نے فلم’’ گمراہ ‘‘اور دوسرے مصرعے کو مجروح سلطانپوری نے فلم ’’آرتی‘‘میں اپنے مصرعوں کے ساتھ بطور مکھڑوں کے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ ساحر کے یہ مکھڑے دیکھئے،فلم داستان اور بھائی بہن میں۔۔۔۔۔۔
(۱) نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
(۲) سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
’’پھر صبح ہوگی‘‘میں مجید لاہوری کی پیروڈی کا یہ مطلع استعمال کیا ہے۔۔۔۔۔
چین وعرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے،سارا جہاں ہمارا
نخشب نے نہ صرف نظام رامپوری کی غزل تضمین کے طور پر اپنی فلم میں شامل کرلی ہے بلکہ خواجہ میر دردؔ کی غزل کا نام رکھ کر پورا مطلع ہی مکھڑے کے طور پر استعمال کرلیاہے۔داغ ؔکا شعر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے سنئے اب افسانہ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
نظام رامپوری کا شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیا مسکرا کے ہاتھ
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
شکیل بدایونی نے میرابائی کے اکثر دوہوں کو مکھڑا بناکر گیت لکھے ہیں اور بیدم ؔ اور داغؔ کے اشعار سے اپنے نغمات مرتب کئے ہیں۔
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
جہاں بجتی ہے شہنائی وہیں ماتم بھی ہوتا ہے
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ روناآیا
سیف
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ساحر
زیست مانگی تھی، خدائی تو نہین مانگی تھی
پیار مانگا تھا جدائی تو نہیں مانگی تھی
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
محمود رامپوری
ڈر کے بجلی سے یکایک وہ لپٹنا اس کا
اور پھر شرم سے بل کھاکے سمٹنا اس کا
ساحر
اس طرح کے اور بھی مصرعے اور اشعار جو عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں ۔ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف چند شعر درج کررہاہوں۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہیر
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
مضطرب
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور دوب کے جانا ہے
جگر
دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز وہ کم نہ ہوں گے
چرچے یونہی رہیں گے،افسوس ہم نہ ہوں گے
ترقی
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
غالب
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
اقبال
کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو
تراب
بیکس پہ کرم کیجئے سرکارِ مدینہ
شکیل
سینے میں جلن ،آنکھوں میں طوفان ساکیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
شہر یار
جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا
دو گز کفن کا ٹکڑا ترا لباس ہوگا (موتی محل ۱۹۵۲ء)
اسد بھوپالی
بھلائی کر بھلا ہوگا برائی کر برا ہوگا
کوئی دیکھے نہ دیکھے پر خدا تو دیکھتا ہوگا
اسد بھوپالی
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا (فلم ’’دھول کا پھول‘‘)
ساحر لدھیانوی
میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک۔
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے
یوسف ظفر
بڑی مشکل سے دل کی بے قرار ی کو قرار آیا تو آئے
کہ جس ظالم نے تڑپایا اسی پر تجھ کو پیار آیا
نخشب چا رچوی
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
عارف جلالی
بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی
کفیل آذر
کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹہری
نسیم امروہوی
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمناکو ن کرے
معین احسن جذبی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
مجاز لکھنوی
ہمیں تو شامِ غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی
شعری بھوپالی
اسیرِ پنجئہ عہدِ شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
مضطر خیر آبادی
دل جلتا ہے تو جلنے دو
ڈاکٹر صفدر آہ
یہ اور اس طرح کے کئی اشعار فلموں میں استعمال ہوئے ہیں،اور کہیں کہیں فلموں میں استعمال ہوکرعوام میں بے حد مقبول بھی ہیں ٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں