شہاب ظفر اعظمی
شعبہ اردو، پٹنہ یونیورسٹی
شادؔ عظیم آبادی صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک نابغہ ٔ روزگار دانشور تھے۔انہوں نے نثر اور شاعری دونوں میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔انہوں نے داغ کے مقبول طرز شاعری سے اختلاف کرتےہوئے ایک بلند آواز بلند کی جو ان کے عہد سے مختلف تھی۔اسی رو نے جدید غزل کی بنیاد ڈالی ہے۔شادؔبنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ،انہوں نے بہت غزلیں کہیں مگر ان کی نظمیں،مراثی،مسدس،مستزاد بھی کم اہم نہیں۔ان کے علاوہ شادؔ نے نثر میں بھی جو کاوشیں کی ہیں وہ قابل مطالعہ ہیں مثلاً یہ کہ اردو میں پہلی کتاب نقش پائدار لکھی جوبہار کی تاریخ کہی جاسکتی ہے۔اسی طرح بہار میں’صورت الخیال ‘‘ کےذریعہ اردو ناول نگاری کی بنیاد رکھنے کا شرف بھی شادؔ کو ہی حاصل ہے۔شادؔ کا عہد چونکہ اردو ناول کے آغاز کا عہد تھا ،ڈپٹی نذیر احمد اس صنف کی بنیاد رکھ ہی رہے تھے ،اس لیے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ شادؔ کے ناولوں کا معیار فنی اور فکری طور پر جدید ناول کی سطح کا ہوگا ۔مگر چونکہ وہ ڈپٹی نذیر احمد سے متاثر معلوم ہوتےہیں اس لیے ان کے ناول ادب کے اصلاحی و سماجی نصب العین کی آئینہ داری کرتے ہیں۔شادؔ کا اسلوب سادہ اور نیت مثبت ہے اس لیے یہ ناول تاریخی اعتبار سے اہم ہیں اور شادؔ کے مطالعہ کا ایک نیا باب وا کرتے ہیں۔
شادؔ نے نثر میں تاریخ ،تذکرہ ،سیرت،مکتوب اور مضامین پر بھی اپنا زور قلم صرف کیاہے۔ان کی نثری تحریروں کو ادبی سے زیادہ تاریخی اہمیت حاصل رہی ہے۔ان سے شادؔ کے عہد،ان کی فکر ،ان کی تخلیقات اور معاصرین کے بارے میں بہت ساری باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔مگر جس طرح ان کی شاعری دبستان عظیم آباد کے لیے باضابطہ آغاز اور روایت ساز ہے ،ان کی نثر نگاری روایت ساز نہیں۔ان کی بس تاریخی او ر تہذیبی اہمیت باقی رہے گی۔ان کی نثر میں صرف ناول نگاری کو اس لیے ادبی اور تاریخی دونوں اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے صوبہ بہار میں اردو ناول نگاری کی بنیاد رکھی۔’صورت الخیال ‘ کو بالاتفاق بہار کا پہلا اردو ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی میں جس واقعے نے مسلمانوں کو سماجی ،فکری اور سیاسی طور پر انقلاب سے دوچار کیا وہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی یا غدر کا واقعہ ہے۔۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے وقت شاد عظیم آبادی کی عمر محض گیارہ سال تھی۔یہ کوئی ایسی عمر نہیں تھی کہ وہ غالب اور سرسید کی طرح بغاوت کے اسباب،محرکات یا مشاہدات پر بہت باریکی کے ساتھ نظر ڈال سکتے تھے۔مگر اس بغاوت کے نتیجے میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھالے گئے اور ان کی پستی و ناکامی کے جو اسباب شمار کروائے گئے وہ انہوں نے ضرور محسوس کیے۔اس جدوجہد آزادی کا عبرتناک انجام ،بے گناہوں کے گھروں کی تاراجی،اہل علم اور ممتاز خاندانوں کی بربادی و تباہی کے ہولناک مناظر انہوں نے دیکھے۔اس ناقابل انکار حقیقت کو انہوں نے محسوس کیا کہ جدوجہد آزادی کی ناکامی کے بعد زیادہ تر مسلمان ہی مصائب کا نشانہ بنے۔حکومت وقت نے ان کی سرکوبی کے لئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور پوری کوشش کی کہ اس قوم کے دست و پا کو مفلوج اور رگِ احساس کو ناکارہ بنا دیا جائے۔نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے حقیقت سے فرار اختیار کرکے گوشۂ عافیت میں پناہ لینا بہتر سمجھا۔طاؤس ورباب ،شطرنج کی بساط،پتنگوں کی دائوں پینچ،کبوتر بازی،مرغوں کی معرکہ آرائی اور افیون و شراب کا نشہ ان کے لیے سکون و عافیت اور فرار کا سب سے بہتر راستہ بن گیا۔شادؔ نہ صرف ان تبدیلیوں کو دیکھ رہے تھے بلکہ ایک حساس اور دور اندیش ادیب کے طور پر یہ محسوس بھی کر رہے تھےکہ اگر یہی حالات رہے تو نہ صرف یہ قوم قعر مذلت میں گم ہو جائے گی بلکہ جہالت و تاریکی کے اس سمندر میں غرقاب ہو جائے گی جہاں سے نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔شادؔ کے پاس اپنے محسوسات کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ قلم کے سوا کچھ اور نہ تھا،سو انہوں نے اپنی نظموں میں مسلمانوں کی عظمت دیرینہ کی یاددلاتے ہوئے انہیں تحصیل علم وہنر پر زور دینا شروع کردیا۔ ان کی متعدد نظمیں اس زمانے کی مل جاتی ہیںجن میں انہوں نے جہالت ،لاعلمی اور نفرت و نفاق کے خلاف نظمیں لکھیںاور بلا تفریق مذہب وملت آپسی اتفاق ،اتحاد اور بھائی چارے کی ترغیب دی ہے۔اُن کا جذبۂ اصلاح ہی تھاکہ ۱۹۷۰ میں جب وہ صرف ۲۴ سال کے تھے انہوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شایع سرسید احمد خاں کی فکر اور ان کے اصلاحی پروگراموں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔شادؔ نے سرسید کے اصلاحی مشن کا استقبال کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’جب سرسید ولایت کے سفر سے واپس آئے اور پرچہ تہذیب الاخلاق مسلمانوں کی دینی اور دنیوی بہتری کا بیڑہ اٹھا کربنارس سے نکلااور چند ہی روز میں موافق اور
مخالف صدائوںسے ہندستان گونج اٹھا۔اس عالم میں اپنی جگہ پر میں دم بخود ہو کر دیکھ رہا تھا کہ دیکھیے زمینِ چمن کیا گل کھلاتی ہے اور آسمان کیا رنگ بدلتاہے‘‘
اور جب اپنے مشن کے سلسلے میں سرسید احمد خاں پٹنہ (یعنی عظیم آباد) تشریف لائے تو شادؔ سے ملاقات ہوئی اور شاد ؔ جو پہلے سے ہی سرسید کے مشن کے طرفدار تھے،اب ان سے ذہنی طور پر مزید قریب ہوگئے۔وہ اس سفر سے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہی زمانہ تھا کہ خزینتہ البضاعت کی طرف سے سید احمد خان کا دورہ شروع ہوااورہمارےغم کدے میں بھی اُن کے آنے کا اعلان ہوا۔سرسید نے پٹنہ کالج میں جو اسپیچ دی وہ بدل نشتر اور ہمارے حالات کو سچ سچ اورصاف صاف بیان کرنے والی تھی۔سرسید کے بعض خیالات کی وجہ سے ان اطراف میں جو بیزاری اور نفرت اُن کے ساتھ بھڑکی ہوئی تھی،اس اسپیچ نے فی الجملہ ان پر پانی چھڑکا۔‘‘(شاد کی کہانی شاد کی زبانی)
ان اقتباسات سے پتہ چلتاہے کہ شادؔبہت حدتک واضح طور پر سرسید اور ان کے مشن سے متفق تھے۔انہوں نے سرسید کے اس خیال کی اپنی نظموں میں بھی تائید کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے حالات بدلنے کے لئے میدان عمل میں اترنا ہوگا۔اپنے بچوں کو دینی تعلیمات کے ساتھ جدید تعلیم اور اس کی برکات سے آشنا کرنا ہوگا۔سرسید سے اُن کی قربت اُس وقت مزید بڑھ گئی جب وہ ۱۸۹۷ میں مولانا حالیؔ کی دعوت پر میلادالنبی میں شرکت کی غرض سے علی گڑھ گئے۔وہاں سرسید سے ان کی ملاقات اور گفتگو ہوئی اور جلسے میں انہوں نے اپنا ایک نعتیہ مسدس بھی پڑھا جو ’’ظہور رحمت‘‘ کے نام سے معروف ہے۔اس مسدس میں بھی انہوں نے مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے ان کی ترقی و بیداری کی دعا مانگی ہے۔مثلاً ایک بند دیکھیے:
امت کا اپنی دیکھیے احوال یا رسول غفلت ہرایک کام میں ہر کام میں ذہول جو لاجواب آپ نے قائم کیے اصول کرتے ہیں جان بوجھ کے اس میں غضب کی بھول اے ٔ سرگروہ مجلس وحدت ! دہائی ہے ٹولی جدا ہر ایک نے اپنی بنائی ہے
شادؔسرسید سے متاثر تو تھے ہی،ان کا اپنانقطۂ نظر بھی اصلاحی تھا۔ اسی لیے وہ اس ادب کے قائل تھے جو مردہ دلوں کو زندہ اورقوائے خفتہ کو بیدار کردے۔انہوں نے محض تیس سال کی عمر میں ایک مسدس لکھنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اس نظم سے فقط یہ غرض ہے کہ اپنے بھائیوں کو چونکائوں اور ان کے مردہ دلوں کو تحریک میں لائوں۔وہ علم وفن کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی حالت درست کریں۔‘‘ گویا شادؔ سماج کی طرح ادب میں بھی اصلاح چاہتے تھے ۔شاید اسی لیے سرعبدالقادر نے انہیں شاعر وادیب کے ساتھ مصلح ادب بھی قرار دیاتھا۔
سرسید تحریک کے زیر اثر سماجی و فکری اصلاح کے لیے حالیؔ نے مسدس نظم کیا اوراکبر ؔ نے طنزیہ اشعار کہے تھے۔شادؔ نے بھی ’’چشمۂ کوثر‘‘ اور ’’ثمرۂ زندگی‘‘ جیسی اخلاقی مثنویا ں،مراثی،رباعیاں اور نظمیں لکھ کر اس اصلاحی مشن کو فروغ دینے میں حصہ لیا۔شادؔ کی متعدد نظمیں ایسی موجود ہیں جن میں انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو گل وبلبل ،شمع وپروانہ،لیلیٰ مجنوں،شیریں فرہاد کی عاشقی کے بجائے علم وفن ،اخلاقیات اور مثبت قدروں کی تعلیم دینے کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر ان کی مختلف نظموں سے کچھ بند ملاحظہ کیجیے: لازم ہے بال بچوں کی تعلیم و تربیت وہ فن سکھا کہ جس سے ہو ان کو مناسبت جو کام ہو حلال اور اس میں ہو منفعت دیکھ اس کو ترک کرکے نہ کر اپنی منفعت مزدور بن ، مگر کبھی سائل بکف نہ ہو رُخ اس سے تو بھی پھیر جو تیری طرف نہ ہو (مسدس۔۱۸۹۱) ہم آگئے ہیں دنیا میں پئے کسب سعادت تحصیل میں اس کی ہمیں لازم ہے مشقت ہو لاکھ فرائض کے ادا کرنے میں محنت الزام ہے گردن پہ،جو ہم سے ہوئی غفلت چپ بیٹھ رہے راہ کی سختی سے نہ ڈرکے گویا یہ فرائض بھی فرائض ہیں سفر کے (اسلام اور انسان۔۱۹۰۲) جو قوم ہو بے علم وہ رہتی نہیں آزاد سرمایۂ اسلاف کو کردیتی ہے برباد جس گھر میں نہ ہو علم وہ ہوتا نہیں آباد اسلام کا آغاز تو ہوگا تمہیں کچھ یاد یہ ایک کلی شاخ میں مرجھا گئی افسوس اس باغ میں کیا جلد خزاں آگئی افسوس (خواب وطن۔۱۹۱۰)
اس کے علاوہ شادؔ نے اپنی کئی مثنویوں اور نظموں میں معاشرتی و اخلاقی برائیوں کو بھی نشانہ بنایاہے مثلاً نفاق،بغض وحسد،افترا و بہتان،بدزبانی و دل آزاری،بدگوئی و غیبت،بے حسی و غفلت وغیرہ۔ان برائیوں کو انہوں نے احکام رسول ،اقوال ائمہ اور اخلاق حسنہ سے دور کرنے اور اپنے کردار کو سنوارنے کی تلقین کی ہے۔
شاد جب حالیؔ کی دعوت پر علی گڑھ گئے تھے تو ان کی ملاقات سرسید کے علاوہ رفقاء سرسید سے بھی ہوئی تھی۔ وہ شبلی، حالی، نذیر احمد وغیرہ کی ان تحریروں سے بھی متاثر تھے جو سرسید مشن کو فروغ دینے میں ان کے قلم سے وجود میں آرہی تھیں۔ میرا خیال ہے شا د ؔ نذیر احمد کے ناولوں سے متاثر ہوکر ہی اصلاحی ناول لکھنے کی طرف راغب ہوئے ہوں گے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ نذیر احمد کے ناول مراۃ العروس اور بنات النعش شائع ہوتے ہی نہ صرف مقبول عام ہوگئے تھے بلکہ انہیں انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ اور ان کی تقلید میں ناول لکھنے والوں کی ایک معتد بہ تعداد سامنے آگئی تھی۔ دوم یہ کہ شادؔ شاعر کے علاوہ بہت اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ان کے دل میں بھی جذبہ اصلاح معاشرہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ’’کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کے لیے‘‘ کے مصداق انہوں نے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ نثر میں بھی یہ کام کیا جائے، شاید وہ سب جو شاعری سے نہ حاصل ہوسکا، نثر کی بدولت حاصل ہوجائے۔ تیسرے یہ کہ عظیم آباد جیسے دور افتادہ علاقے تک نذیر احمدؔ کے ناولوں کی عمومی رسائی آسان نہ تھی، اگر یہاں اس قسم کے ناول لکھے جائیں تو مرکز سے دور اس علاقے میں ناول جیسی صنف کے آغاز کا سہرا ان کے سر بندھ سکتا تھا۔ بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں اردو ناول نگاری کا آغاز شادؔ کے ہی ناول ’’صورۃ الخیال‘‘ (۱۸۷۶) سے ہوتا ہے۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے شادؔ کی اس نئی کاوش کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے کہ:
’’نذیر احمد اور حالی کی کاوشیں اپنی جگہ، مگر بہار جیسے دور افتادہ علاقے میں طرز کہن کے ساتھ پروردہ ایک بزرگ شاعر کے لیے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں جس طرح شاعری اور زبان میں اصلاح کا جذبہ اس کی ’’آئین نو‘‘ سے دلچسپی کا پتہ دیتا ہے۔ اسی طرح ناولوں میں سماجی اصلاح کا جذبہ پیش کرنا بھی ایک امتیاز ہے‘‘۔ (۱)
یہی وجہ ہے کہ شاد کے لکھے تمام ناولوں صورۃالخیال، بدھاوا، صورت حال، افیونی اور پیر علی میں قصہ گوئی، کردار نگاری اور اسلوب واظہار سے زیادہ زور اصلاحی پہلو پر ملتا ہے۔ انہوں نے صورت الخیال کے دیباچے میں تو اپنے اس مقصد کا کھل کر اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’نصیحت کی کتابیں دنیا میں اس قدر موجود ہیں کہ اگر ان کے نام لکھے جائیں تو پوری ایک حجیم کتاب ناموں ہی سے مرتب ہوسکتی ہے، لیکن یہ بھی انسانی خاصہ ہے کہ جب تک پند ووعظ کے ساتھ تمثیلیں بیان نہ ہوں تب تک جلدی سے دل میں اترتی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی اپنی دانست میں حتی الوسع کوشش وکاوش کرکے اپنے خیال کے مطابق اس قصہ کا منصوبہ باندھا ۔۔۔۔ اس قصے میں نہ کسی طلسم کے باندھنے اور توڑنے کا خیال ہے نہ جنات و دیو و پری کا ڈھکوسلا ہے، نہ کسی ایسے انوکھے ملک و انوکھی خلقت کا بیان ہے کہ اس کا پتہ نہ زمین میں ملے نہ آسمان پر۔ حتی الوسع اس خیالی قصہ میں فطرتی حالات پر بہت کچھ توجہ کی گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔ خداوندا سے دعا ہے کہ میری ناچیز کتاب سے میرے ہم وطن بھائیوں کو فائدہ پہنچے اور میری شب و روز کی محنت رائیگاں نہ جائے‘‘۔ (۲)
’’صورت الخیال ‘‘یعنی ولایتی کی آپ بیتی کی اشاعت ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ یہ کل تین حصوں پر مشتمل ہے۔ دیگر دو حصے ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال کے نام سے شایع ہوئے۔ اس کے پہلےحصے یعنی ’’صورت الخیال‘‘ پر یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ یہ بنگلہ ناول ’’اندیرا‘‘ کا چربہ ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر آصفہ واسع نے اپنی کتاب ’’بہار میں اردو ناول نگاری‘‘ میں بہت تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے صورت الخیال اور اندیرا کے واقعات و پلاٹ، کردار اور مکالموں میں مشابہت بھی ثابت کردی ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’دونوں ناولوں کی مشابہت یہ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے کہ شادؔ نے بنگلہ ناول ’’اندیرا‘‘ صرف سنا ہی نہ ہوگا بلکہ باضابطہ ان کے پاس اس کا کوئی ترجمہ ہوگا۔ ۔۔۔ پھر بھی صورۃ الخیال کے مصنف نے ’’اندیرا‘‘ کے قصہ کو جوں کا توں قبول نہیں کیا ہے۔ اس میں مسلمانوں کی مخصوص معاشرت کے پیش نظر اردو انتخاب سے کام لیا گیا ہے۔ اس لئے کچھ نئے واقعات بھی تخلیق کئے گئے ہیں‘‘۔ (۳)
ناول ’’اندیرا‘‘ کا ترجمہ شادؔ کے پاس کس طرح پہنچا، اس کی تحقیق کے بعد پروفیسر وہاب اشرفی، ڈاکٹر آصفہ واسع، ڈاکٹر اشرف جہاں اور پروفیسر اعجاز علی ارشد نے مختلف دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ ’’صورت الخیال‘‘ واقعتا صد فی صد شادؔ کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ یہ حصہ منشی اعظم علی اور حسن علی کے ذریعہ بغرض اصلاح شادؔ تک پہنچا تھا۔ شادؔ نے اس کی نوک پلک، زبان و بیان اور پلاٹ میں ترمیم و اصلاح کرکے اپنے نام سے چھپوا لیا، مگر اپنی آپ بیتی میں صرف ’’اندیرا‘‘ کے اثرات کا اعتراف کیا ہے۔ ہم آج یہ کہہ سکتے ہیں صورت الخیال یعنی ولایتی کی آپ بیتی کا پہلا حصہ تین اشخاص شادؔ، اعظم علی اور حسن علی کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
ناول کی تصنیف میں خواہ کتنے ہی اعتراضات کے گئے ہوں، مگر اس کے موضوع و مقصد کے تعلق سے شادؔ کی اصلاحی فکر کا بہرحال تمام ناقدین نے اعتراف کیا ہے۔ یہ فکر اپنے عہد کے اعتبار سے نئی ہے اور اس میں شادؔ کے جذبے کا اخلاص نمایاں ہے۔ صورت الخیال میں کم اور ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال میں زیادہ۔
صورت الخیال یعنی ولایتی کی آپ بیتی کا پلاٹ بس اتنا ہے کہ ولایتی کی شادی ۱۴ سال کی عمر میں ایک عیاش زمین دار نوجوان کرم حسین خاں سے ہوتی ہے۔ خسر کی موت برات ہی کے دن ہوجاتی ہے، اس لئے رخصتی نہیں ہوپاتی۔ نوجوان کرم حسین باپ کی دولت لٹا دیتے ہیں تو ولایتی ایک خط سے انہیں غیرت دلاتی ہے اور راہ راست پر لاتی ہے۔ ولایتی سسرال کے لئے روانہ ہوتی ہے تو راہ میں ڈاکو پکڑ لیتے ہیں۔ داروغہ نہال سنگھ، انگریز اور آغا جیسے اوباش و عیاش مردوں سے کسی طرح اپنی عزت بچاتی ہوئی ایک شریف آدمی کے ہمراہ کلکتہ پہنچتی ہے، جہاں اس کے شوہر کرم حسین خاں موجود ہوتے ہیں، مگر وہ ولایتی کو پہچان نہیں پاتے اور اس سے معاشقہ شروع کردیتے ہیں۔ ان کے ساتھ پٹنہ کے لئے روانہ ہوتی ہے مگر وارنٹ کے ذریعہ گرفتار ہوکر عدالت پہنچتی ہے، تب کرم حسین کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی منکوحہ ہے۔
یہ صورت الخیال یعنی پہلی جلد کی کہانی ہے، جس میں مرکزی قصہ کے علاوہ ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کے بغیر بھی ناول مکمل ہوسکتا تھا۔ پروفیسر اختر اورینوی نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ :
’’صورت الخیال میں بہت سی ذیلی باتیں ایسی بیان کی گئی ہیں جن کا پلاٹ کے عام دھارے سے دور کا تعلق بھی نہیں بلکہ وہ برسبیل تذکرہ اس لئے لائی گئی ہیں تاکہ گھریلو تعلیم و تعلم اور واقفیت عامہ بڑھانے میں مفید ثابت ہوں۔ صورت الخیال ایک تعلیمی، اصلاحی اور اخلاقی ناول ہے‘‘۔ (۴)
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے اور تیسرے حصے کے مقابلے میں پہلے حصے میں مرکزی مقصد سے غیر متعلق باتیں بہت کم ہیں۔ ان میں اختصار کا پہلو سامنے رکھا گیا ہے۔ مثلاً اس حصے میں اصلاح کے نقطہ نظر سے جن موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے، ان میں علوم و فنون سے رغبت، سفارش کی مذمت، پان کھانے کی برائی، مخرب اخلاق کتابوں سے اجتناب، حیا اور بے حیائی میں فرق، غلط رسوم و رواج سے احتراز اور جدید علوم کی تعریف و توصیف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں پر نہایت اختصار کے ساتھ چند جملوں میں بات کی گئی ہیں، اس لئے قصے کی روانی اور پلاٹ کے گٹھاؤ پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا ہے۔ پند ونصائح کی باتیں گراں نہیں گزرتی ہیں کہ ناصحانہ یا واعظانہ رنگ نہ گہرا ہے اور نہ بہت دیرپا۔
’’صورت الخیال‘‘ کے اختتام پر قصہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی، مگر شادؔ پر صورت الخیال کی تصنیف کے تعلق سے الزامات عاید ہوچکے تھے، اس لئے انہوں نے ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال میں ولایتی پر مزید مصیبتیں نازل کرکے قصے کو شعوری طور پر آگے بڑھایا ہے۔ اس لئے ان دونوں حصوں کے واقعات اور پلاٹ میں تصنع و پیچیدگی کا پیدا ہوجانا غیر فطری بھی نہیں۔
اصلاحی نقطہ نظر سے دوسرے اور تیسرے حصے (ہیئۃ المقال اور حلیۃ الکمال) میں نسبتاً افراط ہے۔ ان دونوں حصوں میں ہر موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ جو کہیں کہیں تین یا چار صفحات تک پھیل گئی ہے۔ ان دونوں حصوں پر نذیر احمد کے اولین ناولوں کا ناصحانہ انداز چھایا ہوا ہے، کہیں کہیں تو موضوعات کی تکرار بھی کوفت کا باعث بنتی ہے۔ مثلاً دوسرے حصہ میں جن امور کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے ان میں علم جغرافیہ کی اہمیت، تعلیم کی قدر وقیمت، عورتوں کا لباس، طریقہ گفتگو، شائستگی، امانت، شاعری، پان کھانے کی برائی، بے جا اسراف سے بچنے کی تلقین وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ تیسرے حصے حلیۃ الکمال میں صفائی، روزہ، کچہری، طبابت، بیماری وغیرہ کے متعلق نصیحت آموز باتیں تفصیل سے کی گئی ہیں۔ ان تینوں حصوں کے تقابلی مطالعے کے بعد یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ فنی طور پر پہلا حصہ زیادہ جامع ہے، مگر اصلاحی اور ناصحانہ گفتگو آخر الذکر دونوں حصوں میں افراط کے ساتھ موجود ہے۔ یہ افراط ہی ناول کو فطری طور پر آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ ان میں منطقی ارتقا کا فقدان نظر آتا ہے۔ پہلے حصے کے مقابلے میںدوسرے تیسرے حصے کا اسلوب بھی جدا ہے۔مثلاً ایک ہی کردار حسینی پہلے حصے میں بولتاہے’’ ہجورسب کھیر سلاّ ہے،گلام کل سام کو حاضر ہوا مگر دلہا میاں سے ملکات تک نہیں ہوئی‘‘ یہی کردار حسینی تیسرے حصے میں یوں بولتاہے۔’’ بوا ہم نے تو دوسیر آٹا گوندھ کر روٹی پکائی تھی،مگر یہاں تو اچھا خاصا ڈاکا ہے۔پکاتے پکاتے سیر بھر سے زیادہ کی روٹی تو یہ قافلہ والے عرب کھاگئے۔‘‘ اسلوب کا فرق واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔شادؔ نے اس ناول میں خط کی تکنیک کا استعما ل بھی کیاہے جو قابل تعریف ہے مگر اس میں بھی اسلوب کی یکسانیت برقرار نہیں رکھ پائے۔ناول میں ولایتی کے دو خطوط شامل کیے گئے ہیں جو ولایتی کے ذریعہ اپنے والد اور شوہر کو لکھے گئے تھے۔
ناول’’ولایتی کی آپ بیتی‘‘ کی سب سے بڑی خوبی اس کی زبان اور کردار نگاری ہے، بلکہ نثر اور کردار کے اعتبار سے تو یہ کہیں کہیں نذیر احمد کے ناولوں پر بھی فوقیت حاصل کرگیا ہے۔ مثلاً ناول کے مرکزی کردار ’’ولایتی‘‘ میں نذیر احمد کی اصغری سے زیادہ جذب و کشش ہے۔ وہ پوری زندگی مصیبتوں سے نبرد آزما رہتی ہے، اس کے باوجود ہنستی بھی ہے روتی بھی ہے اور دل لگی بھی کرتی ہے۔ قصے کے پس منظر میں اس عہد اور معاشرے کی تصویر بھی بہت واضح نظر آتی ہے۔ شاد کو زبان پر عبور حاصل ہے۔ عظیم آباد کی بیگماتی زبان بڑی روانی کے ساتھ لکھ گئے ہیں۔ ان میں طبقاتی شعور بھی گہرا ہے، اس لئے نوکر، چاکر، اہل حرفہ، ایرانیوں، انگریزوں اور دیہاتیوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور کرداروں کی الگ الگ شناخت کی مظہر ہیں۔ زبان و اسلوب کے اعتبار سے یہ حالی کی مجالس النسا اور نذیر احمد کے مراۃ العروس و بنات النعش سے اہم ناول ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ اسے اپنے عہد میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اہل علم نے اسے سراہا۔
شادؔ کے سماجی اصلاح کا جذبہ ’’ولایتی کی آپ بیتی‘‘ کے مقابلے ان کے دیگر ناولوں ’’بدھاوا‘‘ اور ’’صورت حال‘‘ میں زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ صرف ۸۴ صفحات پر مشتمل یناول ’’بدھاوا‘‘ بنکم چٹرجی کے بنگلہ ناول ’’رادھارانی‘‘ سے ماخوذ ہے مگر پلاٹ میں کچھ ترمیم و اضافہ کے بعد بھی اول تا آخر مربوط و مکمل ہے ناول’بدھاوا‘ کی اہمیت بس اس لئے ہے کہ اس میں شادؔ کا تصور اصلاح معاشرہ نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے عہد کے تہذیبی، مذہبی اور سماجی تصورات و توہمات اور توہم پرستی سے ہونے والے نقصانات کا ذکر مفصل و مدلل طور پر کیا ہے۔ شادؔ کے عہد میں شادی بیاہ، موت اور تہواروں کے موقع پر جو بے جا رسمیں ہوتی تھیں یا معمولی تقریبات میں جس طرح فضول خرچی کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، ان سے شادؔ بہت نالاں رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح فضول اخراجات تقریبات اور تیوہاروں میں ہوتے ہیں، جس طرح کے توہمات اور عقائد راج ہیں اور جس طرح کے مشغلوں میں ہمارے روز وشب کٹتے ہیں، ان کا لازمی نتیجہ مفلسی ہے۔ ان تمام برائیوں کی اصلاح کئے بغیر قوم کی ترقی ناممکن ہے۔ شادؔ کا یہ نقطہ نظر ان کے ناول ’’بدھاوا‘‘ اور ’’صورت حال‘‘ میں نمایاں طور پر ملتا ہے۔ ُُ’’صورت حال‘‘ ۱۸۹۳ میں شایع ہوئی اور محض ایک کردار’بوا خیرن ‘ کی مماثلت کی وجہ سے اسے بدھاوا کا ہی حصہ سمجھا گیا۔جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔شادؔ نے اپنی آپ بیتی میں ’بدھاوا‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی ’’صورت حال‘‘ کا کوئی تعلق ’’بدھاوا ‘‘ سے ظاہر
کیاہے۔شادؔ معاشرے میں موجود بے جا رسوم ورواج اور توہم پرستی کی بیخ کنی کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے یہ ناول نما قصہ لکھا۔اس میں ’بوا خیرن‘ کو وہ معاشرے کی صورت حال اور اس کے مضر اثرات سناتے ہیں اور جہاں جہاں تفصیل سے بیان کرنا چاہتے ہیںبوا خیرن ان سے سوالات کرتی ہیں۔اس طرح ایک کہانی کی فضا قائم ہوتی ہے مگر چوں کہ بوا خیرن چند ہی جگہوں پر سوالات کرتی ہیں اس لیے یہ فضا تادیر قائم نہیں رہ پاتی۔زیادہ تر جگہوںپر شادؔ نے عورتوں کو مخاطب کرکے معاشرتی خرافات کے سدباب کی کوشش کی ہے۔مکالمات کی تکنیک میں لکھے گئے اس قصہ میں تین موضوعات واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔اول رسوم ورواج،دوم توہم پرستی اور سوم شادیات میں اصراف بیجا۔شادؔ نے کتاب کی ابتدا میں ہی اس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ
’’صورت حال میں موجودہ رسم ورواج،بے جا توہمات اور فضول اخراجات کی برائیاں نہایت وضاحت سے دلچسپ پیرایہ اورسلیس روزمرہ میں بیان کی ہیں ‘‘
شادؔ نے’ رسم ‘کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’رسم انسان کی بنائی ہوئی اُس گڑھت کا نام ہے جس میں کچھ فائدہ سمجھ کر عقلمندوں نے نکالاہو یا چندلاخیروں نے فقط کھیل تماشا کے لیے اس رسم کو گڑھا ہو‘‘
اس کے بعد تقریباً تیس صفحات میں انہوں نے مروج غلط رسوم و رواج کی تفصیلات مع مثال پیش کی ہیں۔اس ضمن میں ماماؤں کے ناقص کردار،فال دیکھنے کی روایت،جاہل عورتوں کے مشورے،پنڈت جی کے بے معنی اشلوک،بروج کے من گڑھت اوصاف،صدقہ اتارنے کی رسم،ملاّؤں کے کرتب،فتیلہ جلانے کی لعنت،بھوت پریت اور چڑیلوں سے متعلق لایعنی ہدایات اور ان کے مضر اثرات پر انہوں نے سیر حاصل تبصرے کیے ہیں۔
اسی طرح شادی میں ہونے والی بے ہودہ رسومات اور فضول اخراجات کو بھی انہوں نے نشانہ بناتے ہوئے جزئیات نگاری کا مظاہرہ کیاہے۔ناچ گھر کا قیام،مردان خانے اور زنان خانے کی الگ الگ خریداری،رانڈوںکی موجودگی،شادی کے لیے قرض اور اس پر سود کی رقم،ابٹن ملنے سے لے کر ٹوٹکے،کنگن کی رسم،میراثنوں کی گالیاں،براتیوں کی بدتہذیبیاں،گلگلے اور رحم جیسے مہمل کھانے،ڈانواڈوئیاں اور میل کاڑھا جیسی بے معنی رسومات وغیرہ پرشادؔ نے بڑے مفکرانہ انداز میں نگاہ ڈالی ہے اور آخر میں ایک نصیحت آموز بیان پر ناول ختم کیاہے۔
شادؔ کا جذبۂ اصلاح اور تہذیب ومعاشرت کی زندہ تصویر کشی وہ دوخوبیاں ہیں جن کی وجہ سے ’’صورت حال‘‘ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔اگر اس کی ماجرہ سازی اور کردار نگاری پر تھوڑی توجہ دی جاتی تو یقینا یہ ناول اپنے عہد کا نمائندہ ناول کہلاتا ۔مگر ظاہر ہے صرف جزئیات نگاری یا نیک مقصد کسی قصے کو فنی لبادہ پہنانے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔میرا خیال ہے کہ شادی بیاہ کی رسموں کی جزئیات نگاری اور شاد کا اسلوب بیان اس ناول نما قصے کو دلچسپ اور اہم بنانے کے لیے کافی ہے۔بقول پروفیسر وہاب اشرفی:
’’ہمارے خیال میں شادی سے متعلق اتنی جزئیات کہیں دوسری جگہ نہیں مل سکتیں۔شادؔ نے ایک ایک رسم کو ذہن میں رکھاہے اور اس تفصیل سے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ آنکھوں کے سامنے تصویر جھلکتی ہے۔‘‘ (۵)
غلط رسوم ورواج کی بیخ کنی کے علاوہ ’’صورت حال‘‘ میں تعلیم نسواں کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔سرسید تحریک نے عورتوں کی تعلیم کی جانب خصوصی توجہ دی تھی۔نذیر احمد کے تمام ناولوں میں عورت اور اس کی تعلیم وتربیت خصوصی مضمون کی حیثیت سے موجود رہی ہے۔اس لیے شادؔ بھی اس خیال کے حامی ہیں اور ’’صورت حال‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اچھی بیوی بننے کے لیے عورت کا تعلیم وتربیت سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔
’صورت حال‘ کی تیسری اوربڑی خوبی شادؔ کا اسلوب بیان ہے۔اس میں یوں تو مختلف افراد کی گفتگو،ان کی معاشرتی زندگی کے پس منظر میں رواں دواں اسلوب میں پیش کی گئی ہے مگر سب سے دلکش نمونے متوسط شریف گھرانوں کی عورتوں کی بول چال میں ملتے ہیں۔انہوں نے طبقہ،مذہب ،جنس اورعمر ہر عنصر کو ملحوظ رکھتے ہوئے مکالمے لکھے ہیں۔مثلاً صرف عورتوں کے دوتین مکالمے دیکھیے اور خود محسوس کیجیے:
’’ارے اس کی تو آنکھ کہتی تھی کہ حاشا اللہ بیماری نہیں ہے۔رات کی اڑ بڑ تم نے نہ سنی تھی،وہ ہاتھ پاؤں کا دھُننا،وہ دیدوں کے کھنچے ہوئے لال ڈورے،شکل دیکھو تو ڈرائونی ڈرائونی۔۔۔اسی لیےمنع کرتے تھے کہ دونوں وقت ملتے انگنائی میں نہ نکل۔‘‘
’’اوئی میّو،ہمارے گھروں میں کون سی رسم ایسی خراب اور بگاڑو ہے جن کے اُکھاڑپھینکنے کو یہ نئے زمانے کے مردوئے اُپلائے پھرتے ہیں۔‘‘
’’اُبٹنا،تو پہلے ہی پسیریوں بنا رکھاہے۔ایک کٹوری میں گھولا گیا،دولہا یا دلہن کو اسی چوکی پر بٹھایاگیا،ذراسا تیل ڈال کر یہ زرد لیپ سارے بدن پر تھوپا جانے لگا،ہوا کیسی سنّاٹے کی ہے کہ توبہ ہی بھلی ہے۔سردی کہے کہ کلیجا کانپ رہاہے،دلہن کے دانت کڑکڑارہے ہیں۔۔۔۔اب وہ زرد لیپ بدن پر رگڑا جارہاہے اور گیت ہو رہے ہیں۔‘‘
فنی طور پر ’صورت حال‘ میں خواہ جتنی کمی ہو اسلوب واظہار ،معاشرت کی تصویرکشی اور جزئیات نگاری کے نقطہ ٔ نظر سے اس کی قدروقیمت بیش بہاہے۔ایک خاص طبقے کی آئینہ داری اور ایک خاص عہد کی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی کے حوالے سے میرے خیال میںاسے شادؔ کی ایک عمدہ اور کامیاب تصنیف قرار دیا جاسکتاہے۔
شادؔ کی دو اور کتابیں ’افیونی‘ اور ’پیر علی‘ بھی ناول کے نام سے پیش کی جاتی ہیں۔یہ دونوں کرداری ناول ہیں اور دو الگ الگ کرداروں کے گر د بنے گئے قصوں پر مشتمل ہیں۔’افیونی‘ کا مرکزی کردار ایک میر صاحب ہیں جو عیاشی،توہم پرستی اور افیون کے نشہ میں جائداد گنواکر کھانے اور افیون کے عوض مصنف کے مکان کی درباری کرنے لگتے ہیں۔بقول وہاب اشرفی افیونی ناول سے زیادہ ایک خاکہ ہے اور خاکہ کی حیثیت سے کامیاب ہے۔مگر عام طور پر اسے ناول کی حیثیت سے ہی شمار کیا جاتاہے۔
’’افیونی‘‘ میں تمام قصہ میرصاحب کی زبانی دہرایا گیاہے۔شادؔ نے اس ناول کے ذریعہ بے جا عیاشی،توہم پرستی کے علاوہ افیون کے مضر اثرات کی جانب توجہ دلائی ہے اور سماجی اصلاح کی ایک کوشش اس حوالے سے بھی کی ہے۔زبان و اسلوب رواں و سلیس ہے اور تہذیب و معاشرت کے تاریک پہلوئوں پر طنز یہ مکالمے جابجا درج کیے گئے ہیں۔اس ناول کے مرتب جناب نقی احمد ارشاد نے اس کے دیباچے میں لکھاہے کہ:
’’یہ ایک طرح کا ڈاکو منٹری ناول ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلو اور کشمکش حیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس میں نفسیاتی بصیرت کے شواہد بھی ملتے ہیں ،قوم کے لیے درس ِعبرت بھی ہے اور ایک بگڑے ہوئے رئیس کی کہانی بھی‘‘ (۶)
کردارنگاری اور قصہ گوئی کے اعتبار سے ’پیر علی‘ کو پروفیسر اعجاز علی ارشد نے نسبتاً بہتر ناول قرار دیاہے۔مگر نقی احمد ارشاد کے حوالے سے پروفیسر وہاب اشرفی نے لکھاہے کہ شادؔ نے کوئی ناول ’پیر علی ‘ کے نام سے لکھاہی نہیں ہے۔دراصل شادؔ کی تصنیفات میں جہاں جہاں پیر علی کا ذکر آیاہے اسے ترتیب دے کر نقی احمد ارشاد نے ’’پیر علی‘‘ بہ زبان ِ شاد پیش کردیاہے۔مورخین نے بتایاہے کہ ۱۸۵۷ کے غدر کے جاں باز افراد میں ایک اہم نام ’پیر علی ‘ بھی تھا۔انگریزوں کے خلاف بغاوت کے جرم میں جن افراد کو دار پر چڑھایاگیا ان میں پیر علی بھی تھے،جنہوں نے موقع ملنے کے باوجود انگریز کمشنر کے سامنے دار پر چڑھنا تو قبول کرلیا مگر اس کے سامنے خود کوسرنگوں نہیں کیا۔بدھومیاں،مولابخش،کمشنر،حاجی احمداللہ،احمدحسین،میم،ولایت علی ،ہزارسنگھ جیسے کرداروں کے مکالمات پر مشتمل سادہ اور رواں اسلوب میںلکھا گیا یہ ناول شادؔ کی ناول نگاری کو نمایاں شناخت عطا کرتاہے۔
مجموعی طور پر شادؔ کے تمام ناول فنی طور پر ناول نگاری کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔کیوں کہ پلاٹ سازی اور کردارنگاری پر ان کا جذبۂ اصلاح حاوی ہے۔مگر اس عہد اور اس کے تقاضوں کو نگاہ میں رکھا جائے تو شادؔ کا یہ جذبہ بھی کم اہم نہیں ہے۔بقول پروفیسر اعجاز علی ارشد:
’’دو تین باتیں تو یقین سے کہی جاسکتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ شادؔ کا جذبۂ اصلاح صادق ہے اور نیت بخیر(غور کیجئے تو یہ فکر اپنے عہد کے اعتبار سے کافی نئی
ہے)۔دوسرے یہ کہ انہوں نے جزئیات نگاری کا عمدہ نمونہ پیش کیاہے اورسب سے اہم یہ کہ ان کا انداز بیان بہت دلکش ہے‘‘(۷)
ناول میں کردار ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتے ہیں۔کہانی کی دلچسپی کا دارومدار بہت حدتک کرداروں پر ہی ہوتاہے۔شادؔ نے اپنے ناولوں میں کچھ کردار ایسے تراشے ہیں جو ان کے ناولوں کو دلکشی عطا کردیتے ہیں۔ولایتی،کرم حسین،سوپّن،دلہن بیگم،میر صاحب،پیر علی،زبیدہ،خیرن اور نہال سنگھ وغیرہ ان کے نمائندہ کردار ہیں۔عورتوں کے کردار پر انہوں نے نسبتاً زیادہ توجہ دی ہے مگر فطری عورت کے بجائے آئیڈیل (مثالی) کردار بنانے پر زور صرف کیاہے۔ولایتی ،زبیدہ،سوپّن اور خیرن وغیرہ اپنی فکر وعمل کے اعتبار سے ایک مکمل اور باشعور عورت دکھائی دیتی ہیں۔ولائتی کو ہی دیکھ لیجیے ۔اس کی تعلیم گھریلو ہے مگر اس کے پاس جنرل نالج،فارسی زبان اور حالات حاضرہ کا علم ایساہے کہ حیرت ہوتی ہے۔وہ فارسی بول سکتی ہے،اچھے برے کی تمیز کرسکتی ہے،غلط رسوم رواج پر مدلل گفتگو کرسکتی ہے،ہر حادثے سے اپنی ہمت وحوصلے کے ساتھ نبردآزما ہوتی ہے۔اس کا علم ،تدبر اور عقل و خرد دیکھ کر قاری حیران و پریشان ہوتاہے کہ کیا واقعی اُس معاشرے کی عورت اس قدر مضبوط تھی؟اس کردار کے آگے ناول کے مرد کردار بونے دکھائی دیتے ہیں۔بقول وہاب اشرفی’ولایتی کی شخصیت ایک بھاری پتھر ہے جس سے اس کے شوہر کرم حسین خاں کی بھی شخصیت دب کر رہ گئی ہے‘‘۔ان کے مقابلے میں میر نیاز علی،پیر علی اور رحمت علی خاں جیسے کردار زیادہ حقیقی اور زندہ معلوم ہوتے ہیں۔مرد کرداروں میں منفی یعنی ولن کردار وںکو شاد ؔ نے زیادہ عمدہ طریقے سے تراشاہے اس لیے ’صورت الخیال ‘ کے داروغہ نہال سنگھ،آغا سلیمان اور انگریز اپنی ذہنیت،بدمعاشی اور عصمت دری کی کوشش جیسے گھنائونے جرم میں ناکامی کے باوجود ذہن سے محو نہیں ہو پاتے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی بدنیتی سے نبرد آزما ہونے میں ولائتی کی جرأ ت و ہمت زیادہ کام آتی ہے۔
شاد ؔ کے ناولوں کا دوسرا وصف جو انہیںمطالعیت عطا کرتاہے وہ ان کا اسلوب بیان ہے۔شادؔ کی زبان پاک صاف اور سادہ ہے۔مکالمے فطری اور رواں دواں ہوتے ہیں۔موضوع،حالات ،طبقات اور کردار کے اعتبارسے ان کی زبان واسلوب میں تبدیلی بھی پیدا ہوتی رہتی ہے۔پروفیسر اختر اورینوی نے شادؔ کے اسلوب پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھاہے کہ:
’’ شادؔ کا اسلوب بیان صاف،سادہ ،فطری اور خوش گوار ہے۔ناول کی نثر رواں،سلیس ،فصیح اور بامحاورہ ہے۔مکالمے بہت ہی فنکارانہ اور پر اثر تو نہیں تاہم اکتا دینے والے بھی نہیں۔پڑھنے پر توجہ قائم رہتی ہے۔ سانحات اور حادثات زیادہ ہیں لیکن ان سے پڑھنے والے کا جذبۂ تجسس بیدار رہتاہے۔‘‘(۸)
سچائی یہ ہے کہ شادؔ بہت اچھے انشا پرداز تھے،زبان وبیان پر ان کی گرفت کا اندازہ دیگر موضوعات پر ان کی تصانیف سے ہو جاتاہے۔مگر یہ ناول جس نقطۂ نظر سے لکھے گئے تھے ان کا مطالبہ تھا کہ وہ ایسی زبان استعمال کریں جو عام فہم،سادہ اور سریع الفہم ہو۔گنجلک ،پیچیدہ اور معرب و مفرس زبان میں اصلاح وتبلیغ کے فرائض انجام نہیں دیے جاسکتے۔اس لیے نذیر احمد ،راشدالخیری اور حالیؔ کی طرح انہوں نے بھی کبھی اپنے مقصد کو فراموش نہیں کیا۔ناول ’’صورت حال‘‘ اس مثال کے لیے کافی ہے جس میں ایک لفظ بھی بھاری بھرکم استعمال نہیں ہواہے۔انہوں نے عام عورتوں ،مردوں کو ہی نہیں موقع محل اور مضامین کا بھی خیال رکھاہے اور اپنی زبان و اسلوب کو علم وانشا کے معیار سے نیچے لے جاکر ایسی سیدھی سادی اور سہل زبان لکھی ہے جو نہ صرف عام فہم ہے بلکہ صنف ناول کے ارتقا میں جس نے بنیادی کردار بھی ادا کیاہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے اسے کمال سے تعبیر کیاہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’شادؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ انتہائی عام فہم زبان میں حالات و واقعات کی جاندار تصویر کھینچ دیتے ہیں۔وہ الفاظ کے پابند نہیں ،الفاظ ان کے پابند ہیں۔اس لیے سامنے کے وہی الفاظ ان کی گرفت میں آجاتے ہیں جن کی ضرورت اظہار مدعا کے لیے ہوتی ہے۔‘‘(۹)
شادؔ کے ناول ،ناول کی زبان و اسلوب کے لیے ہی نہیں،اس عہد کی تہذیبی و معاشرتی آئینہ داری کے لیے بھی یاد رکھے جائیں گے۔اس خاص عہد کے عظیم آباداور اس کی تہذیب و ثقافت کو اگر بہتر طور پر سمجھنا ہے تو تاریخ کی کتابوں سے زیادہ شادؔ کے یہ ناول کام آئیں گے جن میں خلوت و جلوت شادی و غمی اور تاریخی و تہذیبی نشیب وفراز کے مناظر زندہ صور ت میں موجود ہیں۔جس طرح دہلی اور لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کے لیے ہم باغ وبہار ،فسانہ ٔ عجائب ، فسانۂ آزاد اور امرائو جان اداوغیرہ کا مطالعہ کرتے ہیں اسی طرح ’بہار ‘ کی تہذیب و معاشرت کی تصویریں دیکھنی ہوں تو رشید النسا ء اور خیال عظیم آبادی کے علاوہ شادؔ عظیم آبادی کے ناول اور کتابیں بنیادی اہمیت کی حامل ثابت ہوں گی۔’’فن ناول نگاری‘‘ کے اصول و ضوابط کے اعتبار سے اگرچہ شادؔ کے ناول اہم اور معیاری ثابت نہ ہوں مگر پڑھنے والوں کے سامنے جو تصویریں وہ پیش کرنا چاہتے ہیں، پندو موعظت کے جو تاثرات قاری کے دل ودماغ پر مرتسم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی کتابوں سے اصلاح معاشرہ کا جو کام لینا چاہتے ہیں اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔اسی لیے ادبی طورپر نہ سہی تاریخی طور پر شاد کے ناول ہمیشہ ہمارے لیے سرمایۂ افتخار رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
۱۔ شادعظیم آبادی،فردنامہ،از اعجاز علی ارشد مطبوعہ ۲۰۱۹ منجانب اردو ڈائرکٹوریٹ ،حکومت بہار۔ص۹۴
۲۔ دیباچہ صورت الخیال از شاد عظیم آبادی
۳۔شادعظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی۱۹۷۵،کلچرل اکیڈمی،رینا ہائوس،گیا ۔ص۔۶۹
۴۔ مقدمہ صورت الخیال (مختصر ایڈیشن)از پروفیسر اختر اورینوی۔اردو مرکز،پٹنہ ۔ص۔ک
۵۔شادعظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی۱۹۷۵،کلچرل اکیڈمی،رینا ہائوس،گیا ۔ص۔۱۱۳
۶۔دیباچہ از نقی احمد ارشادمرتب ناول ’افیونی‘از شاد عظیم آبادی۔نسیم بک ڈپو،لکھنؤ،۱۹۷۰،ص۔۷
۷۔ شادعظیم آبادی،فردنامہ از اعجاز علی ارشد،مطبوعہ ۲۰۱۹ منجانب اردو ڈائرکٹوریٹ ،حکومت بہار ص۔۹۵
۸۔ مقدمہ صورت الخیال (مختصر ایڈیشن)از پروفیسر اختر اورینوی۔اردو مرکز،پٹنہ ۔ص۔گ
۹۔ شاد عظیم آبادی اور ان کی نثر نگاری از پروفیسر وہاب اشرفی۱۹۷۵،کلچرل اکیڈمی،رینا ہائوس،گیا ۔ص۔
۳۸۹
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں