پروفیسر غضنفر
’’بات کرکے دیکھتے ہیں‘‘ ڈاکٹر رمیشا قمر کی تازہ ترین کتاب ہے۔ وہی رمیشا جنھوں نے ارژنگ قلم تحریر کی، رفعت قلم قلم بند کیا۔ خاکسار کے نو ناولوں کا کلیات ’’آپیاژہ ‘‘ مرتب کیا۔ اردو کی تیرہ مقبول کہانیاں اور غضنفر شناسی ترتیب دیں۔
عنوان بتاتا ہے کہ یہ ایک نئے تیور کی کتاب ہے۔ عنوان اس بات کی طرف بھی غمازی کرتا ہے کہ صاحبِ کتاب یعنی رمیشا قمر کچھ لوگوں سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ صرف بات کرنا ہی نہیں چاہتیں بلکہ بات کرکے انھییں دیکھنا بھی چاہتی ہیں۔ یہ لفظ دیکھنا بڑا ہی بلیغ ہے ۔ اس لفظ کی معنویت میں وسعت بھی ہے اور گہرائی بھی۔محبوبیت بھی ہے اور نشتریت بھی۔ رمیشا بات کرکے کن لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہیں یہ جاننے کے لیے جب ہم کتاب کھولتے ہیں تو یہ نام سامنے آتے ہیں :
سلام بن رزاق، نورالحسنین، عبدالصمد، غضنفر، صغیر افراہیم، طارق چھتاری، اقبال حسن آزاد، سید محمد اشرف، محمد حمید شاہد ، حافظ کرناٹکی، خواجہ محمد اکرام الدین اور الطاف یوسف زئی۔
یہ نام بتاتے ہیں کہ مصنہ مختلف میدانوں کے شہسواروں کو جاننا چاہتی ہیں ۔ ان کے قلم کی رفتار، دھار اور جنبشِ منقار کے آہنگ واسرار کو ملاحظہ کرنا چاہتی ہیں ۔ شاید یہ بھی دیکھنا چا ہتی ہیں کہ یہ قلم کار ویسے ہی ہیں جبیسا کہ اپنی تحریروں میں نظر آتے ہیں یا ان سے مختلف ہیں ۔ ان کے باطنی رنگ و رامش ظاہری رنگ روپ سے کیا الگ ہیں ۔ وہ اس راز کا بھید پانا چاہتی ہیں کہ ایک ہی شہر، ایک ہی وقت اور ایک ہی ادارے میں پروان چڑھنے والے فنکار غضنفر، طارق چھتاری، سید محمد اشرف اور صغیر افراہیم کا قلم ایک دوسرے مختلف کیوں ہے ۔ان کے انفرادی رنگ کا سبب کیا ہے۔ شاہد حمید کو فکشن تخلیق میں زیادہ دلچسپی ہے یا فکشن تنقید میں۔حافظ کرناٹکی بچوں کا ادیب کہلوانا پسند کرتے ہیں یا یہ پسند انھیں نا پسند ہے ۔ پٹنہ اور پاٹلی پترا کے پوربی ماحول میں پروان چڑھنے والے عبدالصمد کی زبان غضنفر کے زبان وبیان سے کیوں کر مختلف ہے جبکہ غضنفر بھی ہندستان کے اسی پوربی فضا میں پلے بڑھے ہیں ۔ وہ جاننا چاہتی ہیں کہ صغیر افراہیم نے فکشن کی تخلیق میں دلچسپی کم اور فکشن تنقید نگاری میں زیادہ کیوں لی؟
وہ اس لیے بات کرنا چاہتی ہیں کہ بات کرتے وقت وہ باتیں بھی باہر نکل آتی ہیں جو تخلیق میں نہیں نکل پاتیں۔ وہ گرہیں بھی کھل جاتی ہیں جنھیں فن کار کھولنا نہیں چاہتا۔ سوالوں کی چکنائی سے وہ گانٹھیں بھی سرک جاتی ہیں جو شعور کی ہنر مندانہ انگلیوں سے بندھی ہوتی ہیں۔
فہرست کے بعد والے پنٌے پر نظر پڑی تو اس عنوان نے اپنے پاس روک لیا :
’’باتیں ہماری یاد رہیں گی‘‘ تجسس جاگا کہ دیکھا جائے کہ مصنف کی کون سی ایسی باتیں جن کے یاد رہ جانے کا رمیشا دعویٰ کر رہی ہیں ۔ پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا :
’’کامیاب انٹرویو کے لیے ضروری ہے کہ سوال ایسے پوچھیں جائیں کہ انٹرویو دینے والا ان باتوں کو بھی بتا سکے جنھیں وہ چھپاتا رہا ہے اور اس انداز سے پوچھے جائیں کہ تلخ نوعیت کے سوالات بھی طبعِ نازک پر گراں نہ گزریں۔‘‘
یاد رہ جانے والی ایک بات یہ بھی لگی کہ ڈاکٹر رمیشا قمر نے ایک سوال تقریباً سبھی قلم کاروں سے پوچھا کہ اردو کے کیا مسائل ہیں اور ان ادیبوں کے پاس کیاحل ہے۔
اس سوال کو دہراتے رہنے کے پیچھے منشا یہ ہے کہ اپنی زبان کے تحفظ اور ترویج کے لیے ہمیشہ الرٹ رہنا چاہیے۔ کبھی بھی اس کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس طرف سے اگر چوک ہوئی تو قوم کا تشخص خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ شناخت مٹ سکتی ہے۔
پھر ایک ایک کر کے سارے انٹرویوز میں پڑھ گیا۔ فن کاروں کے فن کے متعلق ان کے زاویے نظر سامنے آئے۔ نقادوں کے کسی مخصوص تنقیدی مسلک سے وابستگی کے اسباب معلوم ہوئے۔ مختلف خِطوں میں اردو زبان وادب کی کیا صورتحال ہے اس سے واقفیت ہوئی۔ کسی کی تحریروں میں کسی خاص طرح کے ڈکشن کے استعمال کی وجوہات کا پتا چلا۔ معاصر ادب اور ادیبوں کی رائیں معلوم ہوئیں۔ ادیبوں کے رویے ابھر کر سامنے آئے۔ ان کی پسند اور ناپسند کے متعلق معلومات حاصل ہوئی۔ ان کی ان تخلیقات اور تحریروں کا علم ہوا جو ابھی منظر عام پر نہیں آ سکی ہیں۔
اور بھی بہت ساری باتوں اور بہت سارے حقائق کے اوپر سے پردہ اٹھا جو چھپے ہوئے تھے، سوالوں کی نوعیت سے مصنفہ کی فکر ، ان کے اپروچ اور ان کی بھی ترجیحات کا پتا چلا ۔ ساتھ ہی اس بات کا احساس ہوا کہ رمیشا قمر نے کتنی محنت اور تگ و دو کی ہے۔ اور سوالوں کو ترتیب دینے کے لیے انھوں نے کتنا مطالعہ کیا اور ایک ایک ادیب کو کتنی باریک بینی سے دیکھا اور انھیں جاننے کے لیے رمیشا قمر کو ان کےاندر کتنی گہرائی تک اترنا پڑا۔
کافی محنت، چاؤ، لگن، جتن اور محبت سے لکھی گئی یہ ایک عمدہ اورخوبصورت کتاب ہے جس کے لیے رمیشا قمر کو داد ملنی ہی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں