ابراہیم اعظمی
لکھنؤ
آج صبح ناشتے کے بعد اخبار بینی کرتے ہوئے ایک بات کا احساس بڑی شدت سے ہوا کہ اب اخبار میں خبریں صرف اشتہار کے لئے چھاپی جاتی ہیں۔پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک آپ اخبار پڑھتے جائیں تو اندازہ ہوگا کہ اب خبروں سے زیادہ اشتہار کی ضرورت ہے۔ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعے اخبار کہ آمدنی میں اضافہ ۔ہو مگر اس کے زریعے خواتین کی تصاویر کا استعمال اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے یا پھر عورت کی قیمت اب خبروں سے زیادہ ہو گئی ہے۔یا پھر بے قدری کا سب سے اچھا نمونہ بن گئی ہے۔ایک وقت تھا کہ عورت کو باپردہ رہنے کی عادت تھی۔معاشرے میں عورت کو تہذیب کی زینت سمجھا جاتا تھا۔شوشل میڈیا میں پچھلے تین دہ سے انقلاب برپا ہوا ہے۔اس کے بعد سے عوام میں بیداری چارگنی داخل ہوئی ہے یہ اچھی بات ہے۔
ایک طرف ہم اس کے ذریعے سے خبر رسانی سے متفید ہورہے ہیں تو دوسری طرف اس کے منفی اثرات بہت تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔حالات اب اس قدر نازک ہوتے جا رہے ہیں کہ تہذیب و ثقافت تو در کنار اب عزت و ناموس کی للک نے ہمیں اندھا،بہرہ اور گونگا بنا دیا ہے۔گھر میں موبائل فون کا استعمال قدرے زیادہ ہونے لگا ہے۔شراب سے زیادہ نشہ اب موبائل کا ہو گیا ہے۔ کیونکہ ایک شرابی جو پیسے کی بنیاد پر نشہ کرتا ہے اور وہ نشہ کچھ دیر کے بعد اتر جاتا ہے۔لیکن یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ ہم گھروالون کے سامنے بیٹھ کرتے دن رات کرتے ہیں۔یہ وہ نشہ ہے جس سے ہماری نسلیں برباد ہورہی ہیں،یہ وہ نشہ جس میں ماں باپ بیٹی بہن سب ملوث ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے موبائل میں اچانک نیٹ چلنا بند ہو گیا ہو یا پھر بلینس ختم ہو گیا ہو پھر دیکھیں کیا حال ہوتا ہے۔یقین مانئے آپ کھانا پینا سب چھوڑ دیتے ہیں اس بات کی فکر ہوتی کہ نیٹ چل کیوں نہیں رہا ہے۔پیسے کہاں سے لاوں کی جلدی موبائل ریچارج کروں۔اور جب تک آپ کا موبائل چالو نہیں ہوتا اس وقت تک آپ سکون کا سانس نہیں لیتے ہیں ۔اس کے بعد دن رات صبح آنکھ کھلتے ہی اور رات کو آنکھ بند ہونے تک یہ نشہ ہو ہماری نسلوں کی رگوں میں سرایت کرگیا ہے۔اس سے چھٹکارا حاصل کرنا اب ناممکن لگ رہا ہے۔ صاحبو!مردوں سے زیادہ خواتین میں اس کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔کرونا لاک ڈاؤن کے بعد ہمارے بچوں کو تعلیم کے نام پر موبائل دیا گیا ۔ اور پھر ان سے واپس لینے کی ہماری ہمت ختم ہو گئی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم کم ہوتی گئی۔فحاشی نے اپنا سر فخر سے بلند کرلیا ہے۔والدین کی نگرانی میں گھر کے تمام افراد شوشل میڈیا پر ساتھ فوٹو کی تشہیر کرتے ہیں۔گھر کی بیٹیاں جو باحجاب گھروں سے باہر نکلتی تھی اب وہ باقاعدہ کھلے چہرے میں واٹسپ فیس بک پر اپنی تصویر بلا جھجک شیئر کرتی ہیں۔عورت کو اشتہار کا ذریعہ بنا دیا گیا۔جب اس طرح عورت تصویر بنانے میں کوئی کمی محسوس نہیں کررہی تو تو دوسرے لوگ بھی کسی بھی عورت کی تصویر پر کچھ اضافہ کرکے اپنے مواد کے ساتھ لگادیتے ہیں۔پرنٹ میڈیا اور شوشل میڈیا کا اگر موازنہ کیا جاے تو پڑنٹ میڈیا پر کم اور شوشل میڈیا پر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
’’کیا عورت اس لئے بنائی گئی تھی۔جس معاشرے میں ماچس سے لیکر موٹر سائیکل تک ہر چیز کے اشتہار، ہر اخبار،میگزین میں،خبروں میں اور انٹرنیٹ کھولوں تو ہر سیکنڈ کے بعد عورت کی تصویر اورویڈیوز ہر لڑکی کی پروفائل پر بغیر دوپٹہ کی عورتوں کی تصویر اب آپ بتائیں جس عورت کو بطورِ نمائش پیش کیا جائے۔تو پھر اس معاشرے کے نوجوان سے یہ توقع کرنا خام خیالی ہے کہ وہ عورت کو دیکھ کرحیا سے نظریںجھکالیں گے۔۔۔!
بے حیائی کی انتہائی اب یہاں تک آن پہونچی ہے کہ بنا تصویر کے کوئی پوسٹ نہیں کی جاتی ہے۔گویا اب عورت کی کوئی قیمت نہیں ہے جو جیسے چاہے استعمال کرے اور پھر اسے ردی سمجھ کر پھینک دے۔ان تمام عناصر کی بنیاد پر ازدواجی زندگی کے رشتے بھی کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔رفتہ رفتہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عورت بھی خود کو آزاد محسوس کرنے لگی ہے وہ بھی کسی سے دب لر نہیں رہنا چاہتی ہے۔وہ جب چاہے جہاں چاہے بلا اجازت جا سکتی ہے۔کسی سے کوئی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے گھر میں والدین موجود ہوں نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔آزاد خیالی کی انتہا یہ ہو گئی اب لڑکیا ایک فوٹو شیئر کرنے کے بعد کتنے لائک ملے اس کی بھی تشہیر کرتی ہے اور والدین کو فخر محسوس کرتے ہوئے باخبر کرتی ہے کہ آج میری پوسٹ کو اتنے سارے لوگوں نے پسند کیا ہے۔
فیس بک پر جہاں بھی نظر ڈالیں جس کی کی پروفائل پر دیکھو اگر عورت کی تصویر لگی ہے تو لوگ بھی سب سے زیادہ اسی کو پسند اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں ہیں۔اخبار میں کوئی اشتہار لگایا جاتا ہے تو مرد سے زیادہ خواتین کی تصاویر چسپاں کی جاتی ہیں ۔پہلے لوگ اخبار میں رشتہ کا اعلان دینے سے گریز کرتے تھے۔مگر وقت نے کروٹ لی گھر پر بیٹیاں بڑی ہونے لگیں۔عمرہ زیادہ ہونے لگی۔والدین فکر مند ہونے لگے تو اخبار میں رشتہ کے اعلانات دیئے جانے لگے۔اس اشتہار میں پہلے تو صرف عورت کی عمر،قد،خاندان،اور تعلیمی لیاقت اور رابطہ نمبردیا جاتا تھا۔
مگر اب ان تمام چیزوں کے ساتھ تصاویر بھی لگائی جانے لگی۔نیز اس میں یہ قید بھی لگائی جانے کی لڑکا سنی یاشیعہ ہونا ضروری ہے انصاری یا خان ہونا ضروری ہے۔نوکری یا کاروبار ہونا ضروری ہے۔یہ لالچ کی انتہاء ہے۔ہمارے اندر سے انسانیت مر چکی ہے۔آپ خود سوچیں جو اس طرح سے اشتہار میں قید وبند لازم کریں گے عین ممکن ہے وہ اشتہار صرف اشتہار بن کر رہ جاے گا۔اور لڑکی جو پہلے سے عمر دراز تھی عمر دراز کے سمندر میں داخل ہو جاے گی۔پھر وہ خود شوشل۔میڈیا کے زریعے سے اپنا رشتہ خود تلاش کرنے لگتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ بہت مردوں کے رابطے میں آجاتی ہے۔تذبذب کا شکار ہوتی ہے۔فیصلہ کرنا اس کے مشکل ہو جاتا ہے۔ہر کوئی اسے اپنا بنانے کی فراق میں ہوتا ہے۔
حالانکہ اصل تصویر کے بجائے نقلی تصویر پر سب مائل ہوجاتے ہیں۔گویا عورت اب صرف اشتہار بن گئی ہے ہر کوئی اپنے کاروبار،آفس،اسکول،کالج،وغیرہ میں خاتون کا رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔اس کے بھی دو فائدے ہیں ایک تو یہ کہ وہ کم پیسے میں کام کرے گی۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ سارا کام بحسن خوبی انجام دے گی۔اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ گراہک عورت کو دیکھ گرتے پڑتے آجاتے ہیں سامان کی خریدی کرنا ہے یا نہیں وہ الگ مسلہ ہے۔
اسکولوں میں عورت کے توسط سے اسکول کے ذمہ داران بھی اپنے سارے امور ان سے ہی انجام دلواتے ہیں۔عورت بھی ان سے قربت حاصل کرنے کی غرض ست سارے کام اپنے سر لیتی ہے اگرچہ کی اس کو سارا کام گھر لے کر کرنا پڑے۔آفس میں باوس کی نور نظر بننے کی غرض وہ روزانہ اچھے اچھے کپڑے پہن کر آتی ہے بوس کی قربت سے ان کہ تنخواہ میں جلد اضافہ ہوجاتا ہے۔فرنٹ ڈیسک پر اس خاتون کو بیٹھا دیا جاتا ہے۔بات کرنے کے گر سیکھا دئے جاتے ہیں ۔گھروں میں کام کرنے والی عورتیں جو اپنی غریبی دور کرنے کی غرض سے آس پڑوس کے گھر میںجا کر جھاڑو پوچھا کا کام کرتی ہیں۔یہ بھی اپنے مالک کی خواہش کو پورا کرنے سے نہیں چوکتی ہیں۔
اس طرح کے بہت سارے امور ہیں جن میں عورت کو اشتہار بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب عورت صرف نمائش کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔گویا عورت ایک بازارو چیز ہے جسے خریدا بھی جا سکتا ہے پھر استعمال کرکے واپس کیا جا سکتا ہے۔کچھ خواتین ایسی بھی جو اپنا الگ سے ویدیوبنانے مشغول ہیں۔اسلامی باتیں شیئر کرنا ان کو ثواب دارین زمرے میں گمان کرتی ہیں۔اپنے دل کی بات سب کے سامنے کھلے انداز میں اظہار کرتی ہیں۔اور لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں۔اس ویڈیو میں خود کے ساتھ اپنے بچوں اور دوستوں کو بھی شامل کرتی ہیں۔انھیں اس بات کا یقین ہوتا ہے اس ہمارے ناظرین بڑھیں گے اور ہماری ویڈیو خوب وائرل ہوگی۔اور یہ مسلم خواتین برقعے میں ملبوس بھی ہوتی ہیں ان کو یہ یقین ہے ہم نقاب میں ہیں تو اسلامی دائرے میں ہیں۔ہمارے اور کوئی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔
یہ سب مسلم خاتون کا حال ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس دنیا میں ہر قوم میں عورت پائی جاتی ہیں لیکن شہرت حاصل کرنے کا جو شوق ہم مسلمانوں کے یہاں دیکھا جا رہا ہے وہ کسی قوم میں نہیں ہے۔بعض دفع یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ اب یہ پردے سے بھی آزاد ہونا چاہتی ہیں۔ویسے بھی اس نقاب کو اب پردے کی ضرورت ہے رنگین نقش و نگار والے حجاب بھی اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ان عورتوں کا استعمال اسکول والے بڑے منفرد انداز کرتے ہیں۔یہاں بھی عورت کو اشتہار کا سب سے بڑا زریعہ بنا دیا گیا ہے۔لیکن عورت یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ تو ہماری نوکری ہے اور میرا فرض ہے میں اسے پورے انہماک کے ساتھ انجام دوں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں