غزل
پروفیسر شہپر رسول
آنکھیں تو چیختی ہیں لیکن زبان چپ ہے
یہ کیا گھڑی ہے لوگو سارا جہان چپ ہے
اہداف سارے بس اک مٹھی میں آ گئے ہیں
ہر تیر بے زباں ہے ہر اک کمان چپ ہے
پاگل ہوا کے رخ پر شاید خوشی سے اپنی
ہر ناؤ بہہ رہی ہے ہر بادبان چپ ہے
کس گو مگو کی حالت نے سب کو آ لیا ہے
اس کا یقین چپ ہے میرا گمان چپ ہے
دیوار و در تو شایدکچھ کہہ رہے ہیں لیکن
جو بولتا بہت تھا اب وہ مکان چپ ہے
دیوان خانئہ دل بھی بولتا نہیں کچھ
حقّے ہیں سہمے سہمے اور پاندان چپ ہے
میں واقعئ زمانہ نا آشنا ہوں شہپر
ورنہ ہر ایک شاعر اس درمیان چپ ہے
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں