مہر فاطمہ
اخترالایمان کا نام اردوشاعری کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ بیسویں صدی کی نظمیہ شاعری کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ان کی شاعری کا آغاز ہوا تو اس وقت راشد،میراجی اور فیض جیسی معتبر وتوانا آوازیں اردو نظم کی دنیا میں گونج رہی تھیں۔ اخترالایمان کے تعلق سے یہ کہا جا تا ہے کہ انہوں نے تینوں کی پیروی بھی کی اور اپنی انفرادیت کا نقش بھی جمایا۔
اخترالایمان کے تقریبا دس مجموعے ’’گرداب (۱۹۴۳)،سب رنگ(۱۹۴۶)،تاریک سیارہ(۱۹۵۲)،آب جو(۱۹۵۹)،یادیں(۱۹۶۰)،بنت لمحات(۱۹۶۹)،نیا آہنگ(۱۹۷۷)، سروساماں(۱۹۸۳)،زمین زمین (۱۹۹۰) اورزمستاں سرد مہری کا(۱۹۹۷)‘‘منظر عام پر آئے۔ان کی نظموں میں ان کے عہد کے تمام مسائل مثلاً اخلاقی ومذہبی قدروں کا زوال ،معاشرے کا بکھراؤ،بھری انجمن میں انسان کی تنہائی وبے بسی، غیر یقینی اورمستقبل کا خوف وغیرہ سبھی کچھ نظر آتاہے۔ اخترالایمان کی زیادہ تر نظموں کا موضو ع انسانی اقداربھی ہے اور یہ خصوصیات ابتدا ہی سے ان کے یہاں موجود ہیں۔ مثال کے طو ر پر’’ تاریک سیارہ،خاک وخون،محبت اور ایک لڑکا ‘‘ وغیرہ۔ان کی نظم ’ایک لڑکا‘ بہت مقبول نظموں میں سے ایک ہے۔ اس نظم میں یہ لڑکا ضمیر انسانی کا استعارہ ہے۔اسی طرح نظم ’مفاہمت ‘میں انسان کی دو بنیادی کیفیات خوشی اور غم سے متعلق بیان ملتا ہے۔’یادیں‘ عہد حاضر کی آفاقی غم کی داستان ہے۔’شیشہ کا آدمی ‘ میں صبح کی چائے کی پیالی کے ساتھ قتل و غارت گری کی خبریں پی جانے والے آدمی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔’اپاہج گاڑی کا آدمی‘ میں اس انسان کی تصویر ہے جو کہ عہد حاضر میں کئی خانوں میں بٹ کر رہ گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کے اندر جو انتشارپیدا ہوا ہے اس کوبڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔ ’سحر ‘اور’وقت کی کہانی ‘ اور’عہد وفا ‘ کا موضوع وقت ہے۔’عروس البلاد ‘اور ’نیا شہر‘ آج کے شہروں سے متعلق مسائل پر مبنی ہے ۔بنت لمحات کا موضوع وہ گزرے ہوئے لمحات اور یادیں ہیں جو لوٹ کر نہیں آسکتے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ’پرانی فصیل‘ اور’مسجد‘ وقت کی شکست و ریخت کا نوحہ ہیں۔ نظم مسجد کا بھی شمار ان کی بہترین نظموں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کے پہلے مجموعہ گرداب کی نظم ہے:
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب
اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں
داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی
اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے وہ بھی ڈر کر
ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلٰی ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیل
چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھلی چادر اپنی
اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی
ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
اس نظم کی قرات سے جن باتوں کا اندازہ ہوا اس میں سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ یہ نظم قْطعہ بند کی ہیئت میں ہے اور ظاہر ہے کہ ہیئت کے اعتبار سے قطعہ بند اور غزل مشابہ ہی ہوتے ہیں،بس غزل کی طرح اس میں مطلع نہیں ہوتا اور ایک فرق معنوی بھی ہے کہ اس میں غزل کے برعکس تمام مصرعے آپس میں مربوط و پیوست ہوتے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا بند وں سے بھی اندازہ ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اس نظم میں شاعر نے مسجد کی عمارت کو بطور آئینہ استعمال کرکے اس میں مذہبی قدروں کے زوال کی تصویر دکھائی ہے کہ کس طرح ہماری تہذیب وثقافت اورمذہبی قدریں دھیرے دھیرے ختم ہوتی جارہی ہیں:
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش وملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی وحال، گنہگار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رولیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجدکا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کوتکاکرتاہے
اورٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑدیا کرتاہے
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اورجاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آکے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام وسحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سناکرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اورٹوٹا ہوا دل تھا م لیاکرتی ہے!
’’برگد کی گھنی چھاؤں،خاموش فضا، رات کا تاریک مسجد کا شکستہ سا کلس، ٹوٹی دیوار پرچنڈول،گردآلود سورج کے وداعی انفاس، پریشاں دعائیں،ٹوٹے ہوئے دل ،طاق پر شمع کے آنسو،خانہ کی پھیکی سی ہنسی، نگار دل، جنازے ‘‘کے ذریعے شاعر نے ایک فضا بنائی جو کہ مٹتی ہوئی قدر اور وقت کی بے مہری کو بڑی خوبصورتی سے پیش کررہی ہے۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر آیا کہ رنگ و آہنگ کے اعتبار سے یہ نظم غزل سے قریب ہے لیکن ـ’’گدھا اور چنڈول ‘‘ وغیرہ کا استعمال غزلیہ فضا میں عام نہیں،ہاں،اس سے انکار ممکن نہیں کہ اس میں ان الفاظ کا بھی استعمال ملتا ہے جن کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے اس کے پیچھے غزلیہ ذہن کارفرما ہے اور یہی نہیں بلکہ بعض بعض مصرعوں پر تو غزل کے مصرعہ کا گمان گزرتا ہے۔۔
ایک میلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھو ں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو، کبھی آئے بجھاتے بھی ہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتاہے
تیزز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دورسے، فانی فانی
مل بہالوںگی تجھے توڑکے ساحل کی قیود
اورپھر گنبد ومینار بھی پانی پانی
دراصل یہ تیز ندی وقت کی علامت ہے جو ہر شے کو اپنی رو میں بہا لے جاتا ہے۔شیکسپیئر کا ایک مشہور سانیٹ ہے جس میں انہو ں نے کہا ہے کہ وقت ایک درانتی کے مانند ہے،جو گالوں کے گلابوں اور قدوں کے بوٹوں کو کا ٹ پھینکتی ہے۔اس کی زد میں جو آجائے فنا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاہے۔اقبال نے بھی کہا ہے کہ وقت وہ صیرفی ٔ کائنات ہے جو مجھ کو پرکھتا ہے یہ،تجھ کو پرکھتاہے یہ۔اور اس کی کسوٹی پر جو کھوٹا اترتاہے موت اس کا انجام ہے۔
اخترالایمان کی اکثر وبیشتر نظموں میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے۔وقت کے بارے میں انہوں نے خود اعتراف کیاہے کہ:
میری نظموں میں وقت کا تصور اس طرح ملتا ہے جیسے یہ بھی میری ذات کا مقصد ہے اوریہ طرح طرح سے میرے ساتھ رہتاہے۔ کبھی گزرے وقت کا علامیہ بن جاتاہے، کبھی خدا بن جاتاہے اورکبھی نظم کا ایک کردار۔یہ ایک ایسی زندہ وپائندہ ذات ہے جواننت ہے۔
نظم کا اسلوب سادہ، سلیس زبان اور خوبصورت منظر نگاری پر مشتمل ہے۔لفظوں کا ایک بہاؤ ہے۔ ایک کے بعد ایک عبارت رواں ہے اور تراکیب جن کا انہوں نے استعمال کیامثلاً سورج کے وداعی انفاس، حسرت شام وسحر ، محراب شکستہ ،دشت فراموشی ،نگاردل یزداں کے جنازے، رعشہ زدہ ہاتھ، موج تلاطم بردوش وہ منفرد اورنادر ہیں۔
انہوں نے تلمیحات کے ذریعے سے بھی کلام میں خوبصورتی اور زور پیدا کیاہے مثلاٰ یہ بند:
آچکے صاحب افلاک کے پیغام وسلام
کوہ ودر ایسا نہ سنیں گے صدائے جبریلؑ
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
کھوگئی دشت فراموشی میں آواز خلیلؑ
نظم کے آخری بند میں ڈرامائیت کی جھلک بھی ہے اور اس میں فانی،فانی اور پانی، پانی کی تکرار کچھ لوگوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے اوربقیہ کی سماعت پر گراں گزرتی ہے مثلا:
یہ نظم خوبصورت بن سکتی تھی ۔آخری بند سے نظم کا تاثر ختم ہوجاتا ہے۔آخری بند میں فانی فانی کی آواز عجیب لگتی ہے۔یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔فانی فانی
اور گنبد و مینار پانی پانی کہنے سے کہیں بہتر یہ تھا کہ اس ندی کو بھی اپنے احساس میں جذب کرنے کی کوشش کی جاتی۔دو علامتیں’’مسجد‘‘اور ’’رعشہ زدہ ہاتھ‘‘ اہم ہیں۔تیسری علامت ’’ندی‘‘ علامت نہیں بن سکی۔‘‘
(شکیل الرحمان،اخترالایمان:جمالیاتی لیجینڈ،ص۱۱۰)
شکیل الرحمان صاحب کے اس اقتباس کو آصف زہری نے بھی اپنے مضمون میں نقل کرکے اظہار خیال کیا ہے کہ:
’’شکیل الرحمان صاحب کے اس بیان سے میں جزوی طور پر متفق ہوں یعنی ندی ایک متحرک اور کامیاب علامت نہیں بن سکی لیکن اس خیال سے متفق نہیں ہوں کہ آخری بند غیر ضروری ہے۔وہ اس لئے کہ ابتدائی بند سے لے کر آخری بند سے قبل تک شاعر نے قدروں کی پامالی کا ذکر کیاتھا،ان کی ظاہری صورت یا ان کا نشان بہرحال باقی تھا،،لیکن یہ ندی یعنی وقت اس کی خارجی صورت اور نشان محض کو بھی نٹانے کے درپے ہے۔صوتی اعتبار سے بھی فانی فانی اور پانی پانی کی تکرار مسجد کی زبوں حالی اور قریب الفنا ہونے کا تاثر کو مزید گہرا کرتی ہے نیز یہ آخری بند کسی تصویر کے نیچے،شعر کی شکل میں درج عنوان کی طرح بھی ہے،جس کو اصطلاحا
علامتی تصویر(Emblem)کہا جاتا ہے۔واضح رہے کہ Emblem ایسی تصویر ہوتی ہے جس کے نیچے تصویر کاتاثر یا عنوان کسی شعر کی شکل میں درج ہو ۔اس اعتبار سے نظم کا آخری مصرعہ Emble کے نیچے مرقوم شعر ہے‘‘(اخترالایمان کی دس نظمیں،ص۲۶)
دونوں اقتباس یعنی شکیل الرحمان صاحب اورآصف زہری صاحب دونوں کا خیال یہاں پرنقل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سکے کے دونوں پہلو ہمارے سامنے آسکیں،آپ نے دیکھا کہ اس آخری بند کو کسی نے نظم کی خوبی تصور کی تو کسی کو یہ خامی محسوس ہوئی۔ان دونوں باتوں سے قطع نظر بعض نقادوں نے اس آخری بند کو مہمل اس لئے بھی قراردیاہے کہ ان کا کہنا ہے کہ اس میں قنوطیت کا غلبہ ہے۔ حالانکہ اس تعلق سے خود اخترالایمان ’’آب جو‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ان دونوں نظموں (مسجد اور وقت)کا ماحول مغموم ،گھٹا ہوا اور موت سے پر معلوم ہوتا ہے،ہے بھی۔‘‘(دیبا چہ آب جو، اخترالایمان ،ص:۵)
اورمزید یہ کہ :
’’ان نظموں کے جس ماحول اور فضا نے سر سری پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا کیا ہے کہ یہ نظمیں قنوطی ہیں ،وہی دراصل ان کا حسن ہے۔‘‘(دیبا چہ آب جو، اخترالایمان ،ص:۳)
اس نظم کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ شاعر نے بزبان خودبھی اس پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس صورت میں یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ہم ساتھ ساتھ شاعر کا خودکے مقصد و خیال کو بھی مد نظر رکھیں، کہ شاعرنے کیا فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے؟اور اپنے مقصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہے؟اس لئے ان کے اس بیان سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ:
’’مسجد مذہب کا علامیہ ہے اور ویرانی عام آدمی کی مذہب سے دوری کا مظاہرہ ہے۔رعشہ زدہ ہاتھ مذہب کے آخری نمائندہ ہیں اوروہ ندی جو مسجد کے قریب سے بہتی وقت کا دھارا ہے ۔جو عدم کو وجود اور وجود کو عدم میں تبدیل کرتارہتاہے اوراپنے ساتھ ہرچیز کو لے جاتاہے جس کی زندگی کوضرورت نہیں رہتی۔‘‘
(آب جو، اخترالایمان ،ص:۵)
شاعر کے اس بیان سے خود عیاں ہے کہ اس نظم کے پیچھے کیا تصور کارفرما ہے۔شاعر کا مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پرانی چیزوں کی جگہ نئی اشیا لے لیتی ہیں یا دوسرے لفظوں میں کہ اس دنیائے فانی میں کسی شے کو دوام حاصل نہیں ہے۔ہر چیز فنا ہونے کے لئے ہی بنی۔وغیرہ
محمد حسن نے اس نظم کا موازنہ اقبال کی نظم’’مسجد قرطبہ‘‘ سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اخترالایمان کی نظم’’مسجد‘‘ کا مقابلہ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ سے کیجئے تو فرق اور زیادہ واضح ہوگا ۔دونوں تقریباً ایک ہی قسم کی مسجد کو دیکھتے ہیں۔دونوں مسجدیں ویران ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ مسجد قرطبہ کے پیچھے قرطبہ کی تاریخ اور مسلمانوں کے عظیم ماضی کی وراثت بھی تھی۔ اخترالایمان کی مسجد کو غارت کرنے والے صلیبی مجاہدین نہیں وقت کی بے مہری ہے اور جہاں اقبال کی نظم ماضی کے سلسلوں سے ہوتی ہوئی ایک حوصلہ بخش آہنگ پر ختم ہوتی ہے اقبال کی نظم کے پیچھے مربوط فلسفۂ حیات کا حوصلہ ہے ۔ اخترالایمان کے پیچھے درد مندی ہے۔‘‘(شناسا چہرے)
واقعی یہاں پر اخترالایمان کا سوز ہمیں بہت متاثرکرتاہے جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاضرورت اس بات کی ہے اس نظم کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔نظم کے بارے میں مجموعی تاثریہ کہ یہ نظم فکری وفنی دونوں اعتبار سے اہم ہے۔نادر استعارات و تشبیہات ،علامات وتراکیب کے ساتھ ڈرامائیت سے بھرپور ہے۔یعنی مختصرایہ کہ شعریت بھر پور ایک کامیاب نظم ہے اوراردو نظم کے سرمائے میں ایک اہم اضافہ ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں