شہاب الدین شفیق
ریسرچ اسکالر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
پوسٹ باکس نمبر 203 نالا سوپارا،، ہندی ادب میں انفرادی حیثیت کی حامل مشہور ناول نگار چترا مدگل کا ناول ہے ،چترا مدگل ناول کے علاوہ کئی ڈرامے، کہانیاں اور افسانے لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہے ،پوسٹ باکس نمبر 203 نالا سوپارا ان کا ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتہ ناول ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر احسن ایوبی نے کیا ہے اور اس خوبصورت ترجمہ پرحالیہ دنوں میں ان کو بھی ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے زمروں میں شامل کیا گیا ہے، احسن ایوبی کی نگارشات آئے دن رسائل و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں، فن ترجمہ نگاری پر ان کو جو غیر معمولی عبور حاصل ہے اس کا احساس قاری کو اس ناول کے مطالعہ کے درمیان بخوبی ہوجاتا ہے۔ ناول میں جملوں کی ترتیب، الفاظ کا حسب ضرورت استعمال، کرداروں کی زبان اور ان کا لہجہ، مترجم کی فنی مہارتوں کی دلیل ہے۔ سترہ خطوط پر مشتمل ناول کا تانا بانا اس انداز سے بنا گیا ہے کہ قاری کا ذہن لمحہ بھر کے لیے انتشار کا شکار نہیں ہوتا ہے۔ ہر خط کے بعد دوسرے خط کے بارے میں جاننے کی للک اور تجسسانہ کیفیت قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔
ناول کا پلاٹ عام اور سادہ ہے جس کی تفہیم میں قاری کو دشواری نہیں ہوتی ہے، ناول بنیادی طور پر ایک کنر(ٹرانس جینڈر) کے ارد گرد گردش کرتا ہے جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے، اس کا نام ونود عرف بنی ہے، اس کی ماں اسے دیکرا کہہ کر پکارتی ہے ونود دوسرے کنروں سے الگ ہے اس میں کنروں جیسی عادت قطعی نہیں ہے، بچپن سے ہی دوسرے بچوں کی طرح وہ پڑھ لکھ کر اپنے خواب کو شرمند تعبیر کرنا چاہتا ہے لیکن کنروں کی سردار چمپا کو جب ونود کے بارے میں علم ہوتا ہے تو وہ زبردستی اس کے گھر سے اپنے ٹھکانے پر لے آتی ہے، جہاں وہ ایک جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔،ماں اور بچے کے درمیان ممتا کا وہ باریک رشتہ ہوتا ہے جس سے محبت کی روشنی جلتی ہے اسی روشنی سے کہانی کے مرکزی کردار ونود کو محروم کر دیا جاتا ہے۔
ناول میں سماج کے اندر پنپنے والی کئی برائیوں اور غلط سوچ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کنروں کے تئیں پائی جانے والی نفرت اور انہیں اچھوت سمجھنے کا چلن لوگوں کے دلوں میں جوگھر گیا ہے اس کے خلاف ایک آواز ہے۔ ناول میں اس بات کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عضو تناسل سے محروم انسان کو بھی سماج میں اسی طرح سر اٹھا کر جینے کا حق ہے جیسے دوسرے لوگوں کو،ایک نقص کی وجہ سے بچے کو والدین کی محبت سے ہمیشہ کیلئے محروم کرنا، خاندان کے افراد میں شامل نہ کرنا اور ہزاروں خوبیوں کے باوجود اس پر نااہلی کا لیبل چسپاں کرنا ایک غیر انسانی سوچ و عمل ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایک انسان جو فطری طور پر خدا کی ایک نعمت سے محروم ہے اس کو مزید نعمتوں سے دور رکھنا کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔
ناول میں بہت ساری جگہوں پر ماں بیٹے کے درمیان جذباتی لگاؤ کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے جیسے ایک جگہ ناول کا مرکزی کردار ونود تعلیمی فارم پر کر تے وقت اپنی ماں سے اجازت لینا چاہتا ہے اور ماں سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
ایک اجازت چاہتا ہوں با تجھ سے
احسان کریں گی نا اپنے اس بیٹے پر؟
اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی سے ڈسٹینس کورس کے ذریعے بورڈ کے امتحان میں بیٹھنا چاہتا ہوں۔ تیرے بیٹے کے روپ میں اپنا نام بھردوں؟
تو منع کرے گی تو کوئی بات نہیں۔ دکھ بہت ہوگا مگر ہوتا رہے۔
ویسے رائٹ ٹو ایجوکیشن نے پڑھنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے بہت سے راستے کھول دیے ہیں۔
لیکن چاہتا ہوں با کہ میرے سر ٹیفکیٹ پر تیرا نام درج ہو، آگے کے بڑے امتحانات میں بھی۔ گھبرانا مت، کسی کو بھی اس بات کی بھنک نہیں لگے گی۔ سرٹیفکیٹ، ڈگریاں اور پورٹ فولیو وغیرہ صرف وہی لوگ دیکھ پائیں گے جہاں میں نوکری کے لیے اپلائی کروں گا۔
کہانی میں ودھایک جی کے روپ میں ایک سیاسی چہرہ بھی ہے جو بظاہر ایک صاف ستھرا اور سیاسی غلاظتوں سے پاک انسان دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کو کبھی فراموش نہیں کرتا ہے، اس کے ہر عمل میں خود غرضی پنہاں رہتی ہے۔ وہ ونود کا سہارا لے کر کنروں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے، ودھایک جی کے کردار سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سیاست کی بیشتر آوازوں کے پس پردہ ذاتی مفاد پوشیدہ رہتا ہے۔
ماں کے تئیں بیٹے کی محبت لازوال ہوتی ہے، اس رشتے میں خود غرضی اور مطلب پرستی کا شائبہ تک نہیں ہوتا، آپسی تعلق کی رسی مظبوط ہوتی ہے۔ اگر کسی ایک کو دوسرے سے الگ کیا جائے تو دونوں کی بے چینی ساتویں آسمان پہ چلی جاتی ہے ایک جگہ اسی نفسیاتی پہلو کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
’’با تیرا خط پڑھتے ہی تن من میں طوفانی بھنور میں تنکا ہوگیا تھا۔ بوتھ پہنچ کر گھر کا نمبر ڈائل کیا، کسی نے فون اٹھایا تھا لیکن ادھر خاموشی کی گونج سنائی دے رہی تھی، ادھر میرے ہونٹ بھی کھل نہیں پائے، تیرا حکم کیسے ٹالتا، سانسوں کے اتار چڑھاؤ ہمارے بیچ تھے، سانسیں اجنبی نہیں ہیں میرے لیے وہ تو ہی تھی۔۔تو ہی
تو چھوٹ دے با۔ کہ میں تجھے فون کرسکتا ہوں۔ یہ التجا کتنی بار دہرا رہا ہوں، تو خوب سمجھ رہی ہو گی کہ میں اس ایک بات کی رٹ کیوں لگائے ہوئے ہوں اور میرے لیے اس بات کے کیا معنی ہیں۔،،
انسانی زندگی میں بسا اوقات ایسے کربناک حالات درپیش آتے ہیں جہاں ایک انسان کے زندہ رہتے ہوئے اس کی موت کی خبر لوگوں میں عام کردی جاتی ہے، تاکہ لوگ مزید اس کے بارے میں گفتگو نہ کرے، اور قصہ کا خاتمہ جلد ہو جائے، ناول میں ونود کے والد اگر اپنے بچہ کی موت کے تعلق سے من گھڑت واقعہ نہ بناتے تو لوگوں کے ان گنت چبھتے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا اور جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ سے روبرو ہونا پڑتا کوئی کہتا’’اتنے بے رحم والدین ہے کہ ایک چھوٹا بچہ کو اپنے سے دور کردیا ’’یا عضو تناسل نہ ہونے کی سچائی بتانے پر شب و روز لوگوں کا طعنہ سننا پڑتا، کئی نسل تک لوگ ان کے گھر رشتہ کرنے سے گریز کرتے،ان تمام جھمیلوں سے آزاد اور محفوظ رہنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے زندہ بیٹا کو اپنوں سے دور کرکے اس کی موت کی افواہ لوگوں میں پھیلائی جائے ،تاکہ رشتہ داروں اور دوستوں میں سوالات کے بوچھاڑ مزید الجھن میں نہ ڈالیں جس میں اس کے والد بخوبی کامیاب بھی ہوگئے۔ ناول میں ایک جگہ اس سیچوئشن کی منظر کشی کی گئی ہے جس میںیہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ماں کو زندہ بیٹا کی موت کی چھوٹی اطلاع دیتے ہوئے کتنی کلفتوں سے گزرنا پڑتا ہے، ونود کے گھر جب اس کے ماما کی آمد ہوتی ہے تو اپنے بھانجے کی موت کی خبر ملتے ہی وہ بے چین ہو جاتے ہیں، اور اس کے تعلق سے جتنے خواب دیکھے تھے وہ تمام زمین بوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں ان تمام حالات سے ونود کی ماں اس کو واقف کراتے ہوئے ایک خط میں جذباتی انداز میں یوں لکھتی ہیں:
’’دیکرا! تیرے بھانو ماما جب ممبئی آئے تو تیری تصویر کے سامنے کافی دیر تک جذباتی انداز میں کھڑے ہو کر آنکھوں کے کناروں سے آنسو پونچھتے رہے۔ مجھ سے اکثر کہتے تھے اور میں سن کر ان سنی کر دیتی تھی،
وندنا بین! منجھلے کو ہمیں گود دے دے، جتنا پڑھنا چاہے گا، پڑھاؤں گا، وکالت البتہ اسے ضرور پڑھنی ہوگی کیونکہ جائیداد کے جھمیلوں سے نمٹنا آسان نہیں، ان کی ڈیڈ بائی آنکھیں جب مجھے ڈبونے لگیں تودیکرا، منہ پھیر کر میں نے باتھ روم میں خود کو بند کر لیا اور پوری طاقت سے بالٹی میں نل کھول دیا۔ کچھ دیر بعد لال آنکھوں سمیت باہر آئی اور انھیں تلاش کیا تو دیکھا تیرے پیا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر انھیں دلاسہ دے رہے ہیں۔ صحیح کیا بہنوئی، گھر بدل لیا، آدمی دکھ سے لڑے کہ گھر سے، گھر دکھ کو نم کیے رہتا ہے، سوکھنے ہی نہیں دیتاہے۔
پر یہ وندنا بین کو سمجھاؤ نہ آپ، نئے گھر میں بنی کی تصویر لگانا تو ٹھیک ہے، پر یہ دروازے کے پیچھے پانی کی بوتل اور اسکول بیگ کیوں ٹانگ رکھا ہے۔” بنی دیکرا عجیب ہے یہ انسان، سمجھ سے پرے، سمجھتا ہی نہیں،
جس نے کھویا نہیں ہے، وہ کھونے کے درد کو کیسے محسوس کر سکتا ہے، کیسے محسوس کر سکتا ہے وہ اس لمس کو جو دروازے کے پیچھے لٹکی ہوئی چیزوں کو چھوتے ہی زندہ ہو جاتا ہے۔ تیرے پیا کا اداس، خاموش اور بجھا ہوا چہرہ بھانو ماما کو بے چین کر رہا تھا،جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے سیکڑوں بار حوصلہ بٹانا پڑتا ہے۔ سچ کو قبول کرنے کے لیے صرف ایک بار۔ وہ ایک بار زندگی میں پچھڑ کیوں جاتا ہے۔،،
سماج کے ایک طبقہ کو ناول کا محور بنا کر یہ دکھایا گیا ہے کہ انسانی زندگی میں ایسے بہت سارے طبقے اور کمیونٹی ہیں جو بیجا رسوم کی پاسداری کی وجہ سے بنیادی اور ضروری سہولیات سے محروم ہیں۔ برسوں سے چلے غلط اصول و نظریات پر مبنی مروجہ نظام کو سماج و معاشرے سے ختم کرنا ضروری ہے تاکہ سسکتی اور ڈوبتی زندگی کو سہارا مل سکے۔
ناول میں بلکتی ماں کا درد ہے، احساس محرومی کا کرب ہے، اس رشتہ کی بے چینی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت الگ نہیں کرسکتی، اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور یاد ہے جو ہر پل انسان کو تڑپاتی ہے، کنروں سے جڑی وہ کسک اور کہانی ہے جو عام انسان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، سیاست کی وہ شکل ہے جوبظاہر صاف ستھری اور چمکتی دکھائی دیتی ہے لیکن اندر سے بہت ہی غلیظ ہوتی ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں