ابراہیم اعظمی
لکھنؤ
شارب ردولوی کا اصل نام مسیب عباس ہے۔ یکم ستمبر 1935 کو پیدا ہونے والے شارب ردولوی نے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔ ان کا وطن ردولی ہے جسے بہت سے صوفیا نے تعلیمات اور روحانی تربیت کا مرکز بنایا۔ لکھنؤ اور فیض آباد دونوں سے قربت نے ردولی کو ایک تہذیبی مرکز بنا دیا۔ ایک دور تھا جب ردولی کے گھر گھر میں علم و ادب کا چرچہ تھا۔ شارب ردولوی کا تعلق ایک زمیں دار گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا غلام حسنین اور والد حسن عباس حاذق طبیب و حکیم تھے۔ دادا تو طب کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ جہاں تک خاندان کا تعلق ہے تو شارب ردولوی قاضیان سلطان پور کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مورث اعلی علی بلند دستار افغانستان کے صوبے بلخ سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنے دور کے بڑے عالم اور صوفی بزرگ تھے۔ 1193 عیسوی میں بلخ سے ہجرت کرکے اپنے چار بیٹوں کے ساتھ ہندوستان آگئے تھے۔
شارب ردولوی کے جد حسن محمود کو سلطان محمد غوری نے 595 ہجری میں قاضی القضات مقرر کیا تھا۔ سن626 ہجری بمطابق 1230 عیسوی میں غوری بادشاہ التمش نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے حسن محمود اور ان کے بھائی محمد حسن کی با ترتیب سلطان پور اور جائس کے قاضی کی حیثیت سے تقرری کی تجدید کی تھی۔ قاضی القضات علاقے کا حاکم ہوتا تھا اور تمام عہدیدار اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ شارب ردولوی کے اجداد یعنی قاضیان سلطان پور مجاہدین آزادی بھی رہے۔ انگریز حکومت کے خلاف پہلی جنگ آزادی میں انہوں نے بیگم حضرت محل کا ساتھ دیا تھا جس کی پاداش میں ان کے گھر کو توپ سے اڑا دیا گیا۔ ان کی جائدادیں ضبط کر لی گئیں۔ قاضیان سلطان پور کی ایک اہم فرد وزیر علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ دوران مقدمہ جیل میں ہی ان کی موت ہوئی۔ حالات کے دگرگوں ہونے کے سبب قاضی وزیر علی کی اولادیں اپنی نانہال ردولی آگئی تھیں۔
شارب ردولوی کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ محض دو ڈھائی برس کے تھے۔ ماں کی بیماری کے سبب شارب ردولوی کمسنی کے دوران بھی ماں کی شفقت سے محروم رہے۔ دادا دادی اور پھوپیوں کے زیر سایہ ان کی پرورش ہوئی۔ دادا غلام حسنین حاذق طبیب ہونے کے ساتھ نہایت اعلیٰ ادبی زوق رکھتے تھے۔ ان کا کتب خانہ نادر و نایاب کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ شارب ردولی کا ادبی ذوق اور کتابیں پڑھنے کا شوق ان کے دادا کا مرہون منت ہے۔
بچپن سے لے کر شارب ردولوی کی زندگی کشاکش، جذباتی صدمات، قریبی لوگوں کی بے مروتی اور محبت کرنے والوں کی جدائی سے عبارت رہی ہے۔ بچپن میں ماں کی شفقت سے محروم ہوئے۔ باپ کی ملازمت کے سبب بچپن میں تعلیمی دربدری کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی بہن کے پاس ہاتھرس میں رہے تو کبھی پھوپی کے پاس سلطان پور میں تو کبھی بڑے بھائی اور چچا کے پاس الہ آباد میں، تو کبھی بہن کے پاس کانپور میں تو کبھی خالہ کے پاس ردولی میں۔ 1956 میں بی اے آنرس کیا۔ 1957 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1965 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1961 میں دہلی یونیورسٹی کے دیال سنگھ کالج میں بحیثیت لیکچرار تقرر ہوا۔ ڈیپیوٹیشن پر وزارت تعلیم کے ادارے ترقی اردو بیورو میں پرنسپل پبلی کیشن افسر رہے۔ بعض ساتھیوں کے رویہ کے سبب استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔
1979 میں دیال سنگھ کالج میں پھر واپسی ہوئی اور سینیر لیکچرار ہو گئے۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ریڈر رہے۔ 1993 سے لے کر 2000 میں ریٹائرمنٹ تک جے این یو کے سینٹر آف انڈین لینگویجیز(ہندستانی زبانوں کے مرکز) سے وابستہ رہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ بعض تسلط پسند ادبی ہستیوں کی اڑنگے بازی کے سبب شارب ردولوی کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ کے عہدے تک نہیں پہنچ سکے، اردو ادب کی شان سمجھی جانے والی شخصیتوں پروفیسر محمد حسن، پروفیسرگوپی چند نارنگ اور پروفیسر قمر رئیس سے شارب ردولوی کے بہت اچھے مراسم رہے لیکن ان ہی شخصیات نے شارب ردولوی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ پروفیسر قمر رئیس اور گوپی چند نارنگ نے الگ الگ موقعوں پر جامعہ ملیہ میں ان کے تقرر کی مخالفت کی، تو پروفیسر محمد حسن نے دہلی یونیورسٹی میں ان کے تقرر کی مخالفت کی۔
2017 میں مضامین کے مجموعے ‘تنقیدی عمل’ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ 2018 میں ‘ترقی پسند شعری فکر اور اردو شعرا’ کے عنوان سے کتاب تحریر کی۔ 2018 میں ہی ‘جگر فن اور شخصیت’ کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ 2021 میں ‘نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم’ کے عنوان سے خود نوشت تحریر کی۔ شارب ردولوی کی خود نوشت ان کی روداد زندگی اور زندگی کے نشیب و فراز کو تو بیان کرتی ہی ہے۔ معروف ادبی ہستیوں کی تعلیمی اداروں پر تسلط اور اجارہ داری برقرار رکھنے کی تگ و دو، ادیبوں کی باہمی چپقلش اور مستحق افراد کو ترقی کے مواقع سے محروم رکھنے کی سازشوں پر سے بھی پردے ہٹاتی ہے۔
شارب ردولوی کی پہلی قلمی کاوش ‘مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر تھی’ جو 1959 میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت شارب ردولوی کی عمر محض 24 برس تھی۔ 1968 میں انہوں نے ‘جدید اردو تنقید، اصول و نظریات’ تحریر کی تھی۔ یہ کتاب جدید اردو تنقید کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کی افادیت اور مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ امر کافی ہے کہ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تنقید کے حوالے سے شارب ردولوی کی ‘تنقیدی عمل’ (مضامین کا مجموعہ) ‘تنقیدی مباحث’ (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) آزادی کے بعد دہلی میں اردو تنقید (مرتب) تنقیدی مطالعے (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) اور معاصر اردو تنقید (مرتب) بہت اہم ہیں۔
شارب ردولوی نے دو درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف اور ترتیب دی ہیں، خود ان کی ادبی خدمات اور شخصیت پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر عرشیہ جبیں نے ‘شارب ردولوی شخصت اور تنقید نگاری’ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔ رانچی یونیورسٹی کے اسکالر حسن مثنیٰ، جے این یو کے شاہد رضی اور ڈاکٹر ریحان حسن نے شارب ردولوی کی ادبی خدمات پر تحقیقی مقالے تحریر کئے ہیں۔ پاکستان کی سرگودھا یونیورسٹی کی رضوانہ صفدر نے ‘شارب ردولوی کی تنقیدی جہات’ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔
مختلف اکیڈمیاں شارب ردولوی کی ادبی خدمات کا اعتراف کر چکی ہیں۔ انہیں دہلی اردو اکیڈمی ‘کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ’ اتر پردیش حکومت ‘یش بھارتی ایوارڈ’ مغربی بنگال اردو اکیڈمی’ نیشنل ایوارڈ، ایوان غالب’ غالب ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید’ اور اتر پردیش اردو اکیڈمی اپنے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ‘مولانا ابولکلام آزاد ایوارڈ’ سے نواز چکی ہے۔ 87 برس کی عمر میں بھی شارب ردولوی ادبی طور پر سرگرم ہیں۔ ‘افسانہ سماج سے علامت تک’ کے عنوان سے کتاب ان کے زیر قلم ہے۔سہیل کے اس خاص نمبر میں جہاں اردو ادب کے ماہروں اور استادوں نے شارب ردولوی کی ادبی خدمات کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا ہے وہیں مجھے شارب کی یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے نظریات اور تحریروں میں صفاائی اور پختگی ہے۔ اور وہ ایک ایک لفظ کا سوچ سمجھ کر ایمانداری سے استعمال کرتے ہیں۔
آج تنقید نگاری کا معیار بعض لوگوں کی نظر میں بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ دن رات نئی نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور نقاد بیچارے کو تعریف میں قلمطرازی کرنا پڑتی ہے، چاہے اس نے کتاب کا بخوبی مطالعہ کیا ہو یا نہیں۔ اور پھر وہ بے چارہ اپنے ضمیر پر جبر کر کے دوسرے کی د ل جوئی کے لئے محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ کتاب میں صرف اسی کا مضمون ہوگا۔ مگر جب وہ کتاب منظر عام پر آتی ہے، تو اس میںمصنف کی عبارتوں سے زیادہ مداحوں کی قلم طرازیاں ہوتی ہیں اور اس کے مضمون سے زیادہ صرف مداحی کرنے والوں کے مضامین کو نمائش حاصل ہوتی ہے اور وہ بے چارہ تنقید نگار جو ایک مستند تنقید نگار ہے اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ نقادوں کی ایک دوسری قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو ایمانداری کے ساتھ مضامین میں صرف خوبیاں دیکھتے ہیں یا صرف عیب اور ہر چیز کو محض اپنے اونچے معیار پرپر کھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی مصنف کی تحریروں کا ہر پہلو سے جائزہ لینے اور ان پر رائے ظاہر کرنے کے بجائے تنقید نگاری کے بارے میں انھوں نے اب تک جو پڑھا اور سیکھا ہے اس کا بکھان شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم ایسے نقادوں کی بھی ہے جن کے اپنے پختہ فلسفیانہ، نظریاتی، سیاسی اور اخلاقی معیار ہیں اور اگر مصنف کی تحریں ان کی کسوٹی کے مطابق ہوتی ہیں تو اس کی تعریف میں پل باندھ دیتے ہیں، ورنہ اس کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیتے ہیں۔یہ بات میں اس لئے آزادی سے کہہ سکتے ہیں میں تو صرف اپنے مشاہدات اور تاثرات کا اظہار کر سکتے ہیں ۔
ایک جگہ پر جمایاتی تنقید کے تعلق سے کہتے ہیں کہ :
’’ادب اور فن پر انسانی زندگی میں آنے والی ہر تبدیلی اور اس کے ذہن میں آنے والے ہر نئے خیال نے اثر ڈالا ہے جیسے جیسے وہ نئے علوم کی تحقیق کرتا گیا ،نئے تجربوں ،نظریوں اور حالات سے دوچار ہوتا چلا ویسے ہی ویسے ادب میں ان نئی باتوں کا عکس نمایا ں ہوتا گیا ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ادب نسل آدم کے ارتقاء کی ایسی تاریخ ہے جس میں سنون کے علاوہ ہر چیز ملتی ہے ۔یہاں ادب پر ایک ایسے اثر کا مطالعہ کرنا ہے جس کا تعلق براہ راست فلسفہ سے ہے یا جسے علماء نے فلسفے کی ایک شاخ کہا ہے اور اسے جمالیات کا نام دیا ہے‘‘۔
(جدید اردو تنقید اصول و نظریات ،از شارب ردولوی۔ص۲۴۴)
لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض ایسے نقاد بھی ہیں،جو ان سب کمزوریوں سے بلند ہو کر ایمانداری سے مضمون کی تہہ میں پہنچ کر، مصنف کی تحریر، اس کے خیالات، جذبات، ماحول، تاریخی پس منظر، فنی پہلوئوں، اور افادیت کی گہرائیوں میں جا کر اور ہر پہلو سے تحریر کا جائزہ لے کر تبصرہ کرتے ہیں۔تاکہ ادبی معیار نہ گرنے پائے۔ ایسے ہی بلند پایہ نقادوں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر شارب ردولوی ہیں۔ جو پروفیسر احتشام حسین جیسے بڑے نقاد کے شاگرد رہ چکے ہیں او ر آج تنقید نگاری میں اپنا ایک الگ بلند مقام بنائے ہوئے ہیں۔
شارب ردولوی کی تخلیقات پر کہنے کے لئے تو بہت ہے، لیکن اس مقام پر ان کی ایک تحقیق ملاحظہ کیجئے جو پوری قوم کے لئے ایک بہت بڑی دین ہے۔ (افادیت کے اعتبار سے) وہ ہے ان کا مضمون ’’جنگ آزادی کے غیر معروف شعرا‘‘۔ یہ مضمون آج کے حالات میں، جبکہ نفرت و وحشت کے بادل ہر طرف منڈلا رہے ہیں اور اردو زبان و ادب کی اہمیت اور ملک کی آزادی، خوشحالی، سا لمیت اور قومی اتحاد کے لئے اردو شاعروں اور مصنفوں کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جھٹلایا جا رہا ہے، لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے ایک بڑی کاوش ہے۔اور ثابت کر دیتا ہے کہ آزادی کی تحریک میں اردو ادب کسی سے پیچھے نہیں تھا۔مثلاً یہ اردو شاعر ہی تھے جنھوں نے کہا تھا:
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوِ قاتل میں ہے
(بسملؔ)
شارب لکھتے ہیں:
’’یہ آوازیں تحریک آزادی کے ساتھ تیز تر ہوتی گئیں اور جہاں صرف ماتم اور تباہی کا ذکر تھا وہاں انقلاب کی تمنائیں کروٹیں لینے لگیں۔ اردو شعرا نے اپنی شاعری کو کارزار آزادی کا ترجمان بنا دیا اور ایک ایسی حکومت مخالف یا انگریز مخالف فضا پیدا کر دی جو کہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں معاون ہوئی‘‘۔ (نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔ ازشارب ردولوی ص ۴۲ )
اردو شاعری نے تحریک آزادی کو جوش اور سرفروشی کی تمنا سے بھر دیا۔ ان میںکتنے شعرا ایسے ہیں جنھیں بے خطا موت کی سزا ملی، کتنے ایسے ہیں جنھیں قید اور عبور دریائے شور کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن کسی وقت ان کے جذبہء حب الوطنی، آزادی کی تمنّا اور ملک کو خوش حال دیکھنے کی خواہش میں کمی نہیں آئی۔‘‘ شارب کہتے ہیں:
’’ان کی شاعری کی تاریخی اہمیت ہے اور تاریخ صرف قصّے اور واقعات کا بیان نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک عہد سانس لیتا ہے۔اس میں اس عہد اور وقت پر اثر انداز ہونے والے کردار ہوتے ہیں اور وہ جنون ہوتا ہے جس کے آگے زندگی بھی ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ تاریخ ادب کے اوراق میں سانس لیتی ہے۔ اس لئے اگر اس عہد کے شعرا کو دیکھا جائے تو ان کے کلام میں قدم قدم پر اس تاریخ کے نقوش نظر آئیں گے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس تاریخ کو رقم کرنے میں اردو شعرا پیش پیش رہے ہیں۔ انھوں نے صرف قلم سے نہیں میدان میں آکر دوسروں کے شانہ بشانہ اس جنگ میں حصّہ لیا ہے۔‘‘ (جدید اردو تنقید اصول نظریات ۔از شارب ردولوی ۔ص )
اس سلسلے میں شارب ردولوی نے لاتعداد اردو شعراء اور ان کے حب الوطنی، آزادی ، قومی اتحاد کی تڑپ ، انقلابی جذبات سے بھر پور کلام کی مثالیں دے کر اردو ادب کے ہراول رول کو واضح کردیا ہے۔ یہ مثالیں جو اردو زبان و ادب کی اہمیت کو نظر اندازکرنے والوں کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ مثلا نوبہار صابر ؔ کا یہ شعر جس کا حوالہ شارب نے دیا ہے:
پلا قاتل کہ ہم جامِ شہادت کو ترستے ہیں اسی مے کو پیا کرتے ہیں بادہ خوارِ آزادی
ذرا ٹہرو مجھے پھانسی کا پھندا چوم لینے دو یہی تو ہے شہیدوں کے گلے کا ہارِ آزادی
(نوبہار صابرؔ ٹوہانوی)
شارب ردولوی لکھتے ہیں:
’’جس قدر انگریزوں کے مظالم بڑھ رہے تھے اسی قدر مجاہدینِ آزادی میں جذبہ جانثاری زور پکڑتا جا رہا تھا۔آزادی کی ان نظموں نے ایثار و قربانی کے جذبہ کو اور بڑھایا۔ چونکہ یہ نظمیں اور غزلیں عوامی ترانے بن گئے تھے اور ہر جگہ گائے جاتے تھے۔ ان نظموں نے سب سے بڑا کام یہی کیا کہ لوگوں میں غیرتِ قومی کو بیدار کیا اور انھیں مذہب، ذات پات،علاقہ، عالم و جاہل، کسان و مزدور، سارے فرق سے بلند کر کے ایک جگہ جمع کردیا۔ اس طرح اردو شعرا نے تمنّاے آزادی کا ایسا مضبوط قلعہ تعمیر کردیا جسے انگریزوں کے بڑے سے بڑے مظالم بھی نہیں توڑ سکے اور جوشِ آزادی عوام کی آواز بن کر پھیلتا ہی گیا۔ان شعراسے کوئی واقف نہیں نہ ہمارے تذکروں اور کتابوں میں چند کو چھوڑ کر کسی کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے الفاظ آج بھی آزادی کی دستاویز پر درج ہیں۔
آج کے اس دور میں جب کہ ساری دنیا، خصوصاً بر صغیر میں تنگ نظری، فرقہ واریت، دہشت پسندی،نفرت و وحشت، رجعت پرستی کی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور قوموں کو پستی کے دلدل میں پھینک دینا چاہتی ہیں اردو شعرا اوران کے فہم و ادراک اور ترقی پسندانہ کلام کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شارب ردولوی نے اپنے اس تحقیقی کام سے وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ جس کے لئے وہ قابلِ مبارکباد ہیں۔ کاش وہ اس سلسلے میں اور زیادہ تحقیقی کام کریں اور ’تحریک آزادی کے غیر معروف اردو شعرا پر ایک دستا ویزی فلم اور ڈرامہ تیا ر کر کے قوم کے سامنے پیش کر سکیں، جو ان کی آنکھیں کھول سکے جو اب تک اپنی تاریخ اور ادب کے ان قیمتی جواہر پاروں سے ناواقف ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں