ڈاکٹر رؤف خیر
ہرنابغہء روزگار عموماً دوسرے نابغہء روزگار کی ہم نوائی ضرور کرتا ہے ۔علامہ اقبال بلاشبہ نابغہء روزگار رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شمس الرحمن فاروقی بھی جینیسGenius تھے۔ اپنی انفرادیت منوانے کے لیے انھوں نے از کار رفتہ روایات کے خلاف آواز اٹھائی۔ انھیں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور انگریزی زبان و ادب پر دسترس تھی۔ وہ اپنی بات کی دلیل میں فارسی اشعار کے علاوہ مستند ادیبوں کے حوالے بھی پیش کرتے تھے۔خاص طور پر انگریزی زبان کے شاعروں ادیبوں نقادوں کے مقولے ان کی تحریر وں کی زینت ہوا کرتے تھے جن سے وہ مرعوب تھے اور جن سے مرعوب کرنے کے جتن بھی کرتے تھے۔ پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ شمس الرحمن فاروقی بجائے خود مستند ٹھیرے۔
نقد و نظر میں ان کا اسلوب نہ صرف دل کش ہوا کرتا تھا بلکہ دل میں اُتر تا بھی تھا۔ ان کے نقطہء نظر سے اختلاف کی گنجائش نکالنے کی ہمت کسی میں کم ہی ہوتی تھی۔ ان کی علمیت کے آگے قاری کو سر تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہ تھا ،انھوں نے’’ لفظ و معنی‘‘ کے ارتباط پر جامع انداز میں روشنی ڈالی (1968ء)شعرو ادب کی مختلف کتابوں پر بھر پور’’ تبصرے‘‘ کرکے خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرکے نہ صرف اپنی علمیت کی دھاک بٹھائی بلکہ قاری کو ہم نوائی پر مجبور بھی کیا (1968ء)فاروقی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’’شعر، غیر شعر اور نثر‘‘ کے ذریعے شعر و ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا کے رکھ دیا۔) 1973ء(نہ صرف شعر و غیر شعر کا مابہ الامتیاز سمجھایا بلکہ افسانے کی حمایت میں بھی خامہ فرسائی کی (1982ء)ان کے علاوہ اپنے’’ تنقیدی افکار ‘‘کے ’’اثبات و نفی‘‘ سے بھی اپنی ہم نوائی کا ثبوت دیا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے خلاف ہیں (1984ء و 1986ء )۔ یوں تو مرزا غالب کے مشکل کلام کی تفہیم کے لیے کئی شرحیں لکھی گئیں۔ شمس العلما مولانا خواجہ الطاف حسین حالی سے لے کر نظم طبا طبائی تک یہ سلسلہ دراز رہا۔ مسٹر شمس الرحمن فاروقی نے بھی تفہیم غالب میں اپنا حصہ ڈالا (1989ء)۔ محمد تقی میر نے علی الاعلان فرمایا تھا کہ تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا ۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میر ا فرمایا ہوا
شمس الرحمن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز ‘‘ کی چار چار جلدوں کے ذریعے میرؔ کے اژدر ہونے کی تصدیق و تائید کی۔ یہ الگ بات کہ خدا ے سخن کی انانیت کو خاطر میں نہ لانے والوں نے ’’سورج‘‘ کو گہن لگتے بھی دیکھا۔
روایتی ادب کے بالمقابل جدیدیت کی فوج ظفر موج کی سپہ سالاری کرنے والے شمس الرحمن فاروقی داستان ِ امیر حمزہ سنانے پر (1998ء)آتے ہیں تو ساحری، شاہی صاحب قرانی کے اساطیر الاولین کا طومار کھڑا کردیتے ہیں (2000ء)خوش عقید گی پر آتے ہیں تو جاسوسی دنیا کے بے مثال ناول نگار ابنِ صفی کے مشہور و معروف بعض ناولوں کا انگریزی میں ترجمہ کر کے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ترقی پسند ادب کے رد پر اترتے ہیں تو کرشن چندر ،سردار جعفری تو کجا فیض احمد فیض بھی فاروقی کی نظر میں نہیں جچتے۔ البتہ منٹو کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں (2013ء)۔داغ ؔ دار چھوٹی بیگم و زیر خانم کی داستانِ حیات لکھنے پر آتے ہیں دفتر کے دفتر تقریباً آٹھ سو صفحات لکھ ڈالے(2006ء)۔فارسی آمیز اردو میں ناول لکھنے سے جی نہیں بھرا تو خود ہی اس ضخیم ناول کا انگریزی ترجمہ کر ڈالا(2010ء)۔
شمس الرحمن فاروقی ہر فن مولا قلم کار تھے۔ ان کی عروض دانی کا ثبوت ’’عروض آہنگ (1977ء )‘‘ اور ان کی زبان دانی کی دستاویز ’’درس ِ بلاغت ‘‘ (1981ء )میں منظر عام پر آئی۔
بول و برازِ چرکیں نامہ کا ’’پیش دست ‘‘ بھی بہ فضلہ ِ فاروقی کے ’’طبع ِ ملیّن‘‘ کا نتیجہ ء فاضلانہ ہے۔
1966ء میں رسالہ ’’شب خون‘‘ جاری کیا اور جدیدیت کے نام پر الا بلا لکھنے والوں کو بڑھا وا دیا جدید فکشن کے نام سے ایسی ایسی تحریر یں شائع کی گئیں جو کسی کی سمجھ ہی میں نہیں آتی تھیں ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے نام نہاد جدید ادب سے قاری بدظن ہو کر دور ہو گیا۔ خود شمس الرحمن فاروقی کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آئے گنج سو ختہ (1969ء )سبز اندر سبز ( 1974ء)چار سمت کا دریا(1977ء) آسماں محراب (1996ء )اور مجلس آفاق میں پروانہ بن (2018ء )۔ان پانچ مجموعوں میں سے اگر کسی کو ایک ایک شعر بھی یاد ہو تو اُسے ساہتیہ کا بہت بڑا انعام دیا جا سکتا ہے۔
جہاں تک فکشن کا معاملہ ہے شمس الرحمن فاروقی نے سوار اور دوسرے افسانے (2001ء )بھی لکھے مگر پہلے فرضی نام سے چھپوائے جب کچھ ’’ہم نوائوں ‘‘ نے تعریفی خطوط کے ذریعے داد دی تو وہ اصلی روپ میں سامنے آئے اور ان افسانوں کو اپنایا اور 2001ء میں کتابی شکل دے دی۔ انگریزی فکشن کے طور پر فاروقی کی دو کتابیں The mirror of beauty پھر The sun that rose from the earthاور منظر عام پر آئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان پر فکشن کا یہ سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوا۔
آئیے موصوف کے اس تعارف کے بعد ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیںاور اقبال سے ان کی ہم نوائی کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوسٹل سروسیز کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو نے کی وجہ سے شمس الرحمن فاروقی لکھنئو ،کان پور، دہلی، پٹنہ میں تعینات رہے جب وہ لکھنئو میں بر سر خدمت تھے تو آل انڈیا ریڈیو لکھنئو سے ادبی پروگرام کے تحت علامہ اقبال کے فکر و فن پر مباحث میں حصہ لیا جو 1991ء میں صد ابند کے گئے تھے جناب عارف ہندی نے انھیں کاغذ پر منتقل کیا تو یہ ساری گفتگو شب خون شمارہ 274بابت نومبر 2003ء میں شائع کی گئی تھی۔
شمس الرحمن کی شعر اقبال پر کچھ تحریر یں ’’خورشید کا سامان ِ سفر‘‘ کے نام سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے زیر اہتمام 2007ء میں منظر عام پر آئیں۔132صفحات کی اس کتاب کی قیمت ایک سو پچانوے Rs.195/-تھی اس میں جناب فاروقی نے یے ٹس، اقبال اور الیٹ کا تقابلی جائزہ لیا کہ وہ یے ٹس اور ایلیٹ کے فکرو فن سے کافی متاثر تھے اور علامہ اقبال کو ان کے پہلو بہ پہلو رکھنا چاہتے تھے۔ مشرقی فکر میں غالب و اقبال میں اشتراک کے پہلو تلاش کرنے لگے۔ فاروقی چوں کہ ’’لفظ و معنی‘‘ سے گہری دل بستگی رکھتے تھے اور عروض کے ماہر بھی تھے، اقبال کا لفظیاتی نظام، اقبال کا عروضی نظام کے ذریعے تفہیم اقبال میں اپنا ہنر دکھایا۔ علامہ اقبال کی نظموں کے جائزے کے علاوہ’’ اردو غزل کی روایت اور اقبال‘‘ پر فاروقی کی جامع گفتگو ، اقبال کی غزلوں کی روانی ،فکری بلندی، لفظوں کے درو بست پر سیر حاصل روشنی ڈالتی ہے۔ ’’خورشید کا سامانِ سفر ‘‘ اقبال کی ہم نوائی کی دستاویز ہے۔ فاروقی لکھتے ہیں:
اقبال کے سوا کوئی شاعر مجھے پوری بیسویں صدی میں ایسا نظر نہیں آیا جو ڈبلیو بی یے ٹس W.B Yeatsکی طرح سیاسی موضوعات کو شاعری میں بدل دیتا ہو (لیکن یہ محض اتفاق ہے کہ ۔۔۔) اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے سیاسی خیالات ہمیں متاثر نہیں کرتے لیکن نظم پھر بھی کامیاب رہتی ہے‘‘۔۔۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ اقبال کی خوبی ہے یا فاروقی کا اختلاف رائے۔
اس مرحلے پر جوش ملسیانی کی ایک کتاب ’’اقبال کی خامیاں‘‘ کا تذکرہ بھی نامناسب نہ ہوگا۔ یہ تنقید لالہ کرم چند کے ہفتہ وار اخبار ’’پارس‘‘ میں 1927ء میں جراح کے نام سے قسط وار شائع ہوتی رہی۔1928ء میں یہ کتابی شکل میں چھپ کر آئی تو جوش ملسیانی کے ایک شاگرد نوہر یارام درد نکودری (نریش کمار شاد کے والد)اسے لے کر علامہ اقبال کے پاس آگئے۔اقبال نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پیشانی پر بل لائے بغیر کہا ’’جوشؔ میرے خواجہ تاش ہیں۔ اُن کا میری طرف سے شکریہ ادا کیجئے اور کہئے گا کہ میں اس کتاب سے استفادہ کروں گا۔ یہ واقعہ 1928ء کا ہے۔
یہ کتاب کالی داس گپتا رضا نے 1994ء میں اپنے ساکار پبلی کیشنز بمبئی 400020سے پھر شائع کی۔ اس تیسرے ایڈیشن پر ماہ نامہ ’’شب خون‘‘ الہ آباد میں محترم شمس الرحمن فاروقی نے ’’اقبال کی خامیاں ‘‘ کو رد کرتے ہوئے مدلل جواب اگست 1995ء میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کے اعتراضات کو مختلف اساتذہ اردو فارسی کے حوالے سے فاروقی نے ناقابلِ اعتنا ٹھیرایا۔ خود علامہ اقبال نے بھی اس کتاب کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ کالی داس گپتا رضا نے اپنے استاد جوش ملسیانی کے دفاع میں شمس الرحمن فاروقی کا جواب الجواب لکھا جسے فاروقی صاحب نے بڑی فراخ دلی اور اعلی ظرفی کے ساتھ اپنے رسالہ شب خون ستمبر 1996ء میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کی نشان زدہ اقبال کی خامیاں، ان کا شمس الرحمن فاروقی کی طرف سے مدلل رد اور پھر کالی داس گپتا رضا کا دفاعی مضمون بجائے خود ایک مبسو ط جائزے کا متقاضی ہے جس کی فی الحال اس مضمون میں گنجائش نہیں‘‘۔ ڈاکٹر شمس بدایونی نے بھی اقبال کی خامیاں کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے اس کا مسکت و مدلل رد کیا۔
ہمارا خیال ہے اگر علامہ اقبال نے نظم و غز ل میں لفظ و معنٰی کی حد تک کہیں اجتہاد سے کام لیا ہے تو وہ بجائے خود استناد کا درجہ رکھتا ہے۔
جہاں تک عقائد کا معاملہ ہے اقبال کے فکری اجتہاد سے اتفاق کرنا قطعی ضروری نہیں ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نہ صرف علامہ اقبال کے وکیل صفائی تھے بلکہ اردو ادب کی حقانیت پر حملہ آور ہونے والی باطل زعفرانی ذہنیت کا قلع قمع کرنے میں بھی وہ پیش پیش رہے چناں چہ گیان چند جین نے جب ’’ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب ‘‘ جیسی زہریلی کتاب لکھی تو اس کا مدلل رد کرکے فاروقیت دکھائی۔
17جنوری 2006ء کی بات ہے ماہرین اقبالیات محترم محمد سہیل عمر ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان اور محترم احمد جاوید ،نائب ناظم ادبیات ، اقبال اکاڈمی ایجرٹن روڈ لاہور حیدرآباد دکن تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کے استقبال کے لیے روز نامہ ’’سیاست ‘‘ میں اہتمام کیا گیا تھا۔اُن دنوں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں لکچرر س کے لیے ریفریشرس کورس چل رہا تھا۔ میں یونیورسٹی سے راست دفتر روزنامہ’’ سیاست ‘‘پہنچ گیا تاکہ ماہرین اقبالیات سے استفادہ کرسکوں۔ میں نے اپنی دو کتابیں ان ماہرین کی خدمت میں پیش کی تھیں۔ ایک شعری مجموعہ ’’سخن ِ ملتوی‘‘اور دوسرا علامہ اقبال کے 163قطعات لالہء طور (پیام مشرق) کا منظوم اردو ترجمہ ’’قنطار‘‘(مطبوعہ 2001ء)۔ محترم احمد جاوید نے ازراہِ نوازش جن تاثرات سے سرفراز فرمایا تھا وہ میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں:
’’مجھے اپنے چند روزہ قیام حیدرآباد کے دوران جو چند مسرتیں اور سعادتیں حاصل ہوئیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جناب رئوف خیر صاحب کے مجموعہ ء کلام ’’سخن ملتوی ‘‘ اور پیام ِ مشرق کے حصہ لالہء طور کے ترجمے ’’قنطار ‘‘ کے حصول اور مطالعے کا موقع ملا۔ دونوں کتابیں بلاشبہ اپنے قاری کو ایک ایسے تجربے سے بہر و مند کرتی ہیں جس میں تخلیقی گہرائی،فکر ی صلابت اور حسن ِ اظہار کی متنوع بلند یاں یک جاہیں اور یک جان ہیں۔’’سخن ِ ملتوی‘‘ میں جو خاص الخاص وصف کا ر فرما نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک رچی ہوئی مذہبیت جمالیاتی طرز احساس میں ڈھل گئی ہے۔
منظوم ترجمہ ایک نہایت مشکل کام ہے تاہم رئوف خیر صاحب نے اس مشکل راستے کو سلامتی سے طے کر دکھایا ہے۔ منظوم تراجم اصل متن کے پوری طرح تابع نہیں رہتے ۔خیر صاحب اپنے ترجمے میں اسی دائرے میں رہتے ہیں جو اصل متن کا بنایا ہوا ہے۔ اسی لیے ان کا ترجمہ صحت کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔ ماشاء اللہ ۔ ۱۷۔
جنوری ۲۰۰۶ء
احمد جاوید
نائب ناظم ادبیات
اقبال اکادمی۔ریوآنِ اقبال ۔ایجرٹن روڈ لاہور ۔پاکستان
اُسی دن جو دوسرا گراں قدر تحفہ محترم محمد سہیل عمر ڈائرکٹر اقبال کا ڈمی پاکستان نے مجھے عنایت فرمایا ۔وہ تھا جناب شمس الرحمن فاروقی کا لکچر (بہ زبان ِ انگریزی)’’ How to read Iqbal?‘‘جو یکم مئی 2004ء کو اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں دیا گیا تھا اور جسے اقبال اکادمی نے 2005ء میں شائع کیا تھا۔ تین جز کا 47صفحات پر مشتمل یہ لکچرشمس الرحمن فاروقی کی ہمہ دانی کی دستاویز ہے ۔انگریزی داں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے جناب فاروقی نے ضمنی اشارے کے طور پر ایک مفروضہ اندیشے کا اظہار کیا کہ ایک غیر دل چسپ شاعرکو اپنے مطالعے کے لیے کوئی کس طرح چن سکتا ہے؟ اقبال کا مافی الضمیر واضح کرنے کے لیے پروفیسر یوسف سلیم چشتی سے لے کر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی تک کئی شارحین کو اپنی علمیت کا مظاہرہ کرنا پڑا۔
اقبال کو ’’شاعرِ مشرق ‘‘ اور ’’حکیم الامت ‘‘ کے القاب سے جو نوازا جاتا ہے اس پر گفتگو کرتے ہوئے فاروقی کہتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی کو دیو بندی جماعت حکیم الامت قرار دیتی ہے۔ (واضح ہوکہ فاروقی کی ددھیال دیو بندی مسلک کی حامل ہے تو ننھیال بریلوی عقائد کی پیرو ہے)۔ اقبال کے شاعرِ مشرق کہلائے جانے کا جواز یہ ہے کہ انھوں نے گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں’’ پیام مشرق‘‘ پیش کیا۔ اپنے اس لکچر میں شمس الرحمن فاروقی نے کئی نقادوں کی فکری کا وشوں کا جائزہ بھی پیش کیا جیسے سلیم احمد ،احتشام حسین ،مجنوں گورکھپوری ،آل احمد سرور، اسلوب احمد انصاری وغیرہ ۔
’’سلیم احمد فرماتے ہیں کہ اقبال کا مرکزی مسئلہ نہ خودی ہے،نہ عشق ،نہ عمل ،نہ قوت و حرکت بلکہ ان سب کے برعکس ’’موت ‘‘ ہے۔ اور یہ کہ اقبال پر لکھنے والے زیادہ تر لوگ ایسے رہے ہیں جنھیں اردو ادب کچھ زیادہ عزت اور وقعت کے ساتھ نہیں پہچا نتا ہے‘‘۔
’’نئی نظم اور پورا آدمی ‘‘کے سلیم احمد کا رد کرتے ہوئے فاروقی نے ثابت کیا کہ اقبال کے ہم نوا عزت و وقعت کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں۔
فاروقی نے اپنے لکچر میں ازرا پائونڈ، رچرڈز، بودلئیر وغیرہ کی ادبی روایت کا ذکر بھی کیا جو تاریخ کے تسلسل سے عبارت ہے۔
فاروقی نے یہ بھی بتایا کہ علامہ اقبال کا ارادہ نہ صرف رامائن کو اردو میں لکھنے کا تھا بلکہ زمانے نے مساعدت کی تو گیتا کا اردو ترجمہ کرنے کا وہ قصد رکھتے تھے۔اس مرحلے پر ناچیز رئوف خیر کا ایک نعتیہ شعر ملاحظہ فرمایے:
دل میں اُتر کے رہ گیا اُترا جو آپ ؐ پر
اب کیا پڑھیں صحیفہ ء دیگر رسول ِ پاک
’’سلسلہء روز و شب ‘‘ کے تناظر میں فاروقی نے اپنے لکچر میں ابھی ناوا گپتا Abhinava Guptaاور کمارا سوامی CoomaraSwamyکے خیالات بھی پیش کیے۔
نہ صرف مرزا غالب پر بیدل ؔ کا اثر پایا جاتا ہے بلکہ علامہ اقبال بھی بیدل سے متاثر رہے ہیں۔ فاروقی فرماتے ہیں کہ ’’غالبؔ نے بیدلؔ کی نقالی ضرور کی لیکن بیدلؔ کے معانی سے اس کا دامن تہی رہا۔ بیدلؔ فکر کے لحاظ سے اپنے ہم عصروں سے آگے تھا۔اس امر کے ثبوت میں شہادت پیش کی جاسکتی ہے کہ ہند اور بیرون ہند کے معاصرین اور دیگر دل داد گان ِ نظم فارسی بیدلؔ کے نظریہء حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں‘‘(صفحہ45)
اس موقع پر فاروقی نے مرزا بیدل کے ایک شعر پر کہی ہوئی اقبال کی تضمین بھی پیش کی:
ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد یہ زمیں یہ دشت یہ کہسار یہ چرخِ کبود
کوئی کہتا ہے ،نہیں ہے کوئی کہتا ہے کہ ہے کیا خبر، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود
میر زا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ اہل ِ حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود
دل اگر می داشت و سعت ، بے نشاں بود ایں چمن
رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود
(اگر میرے دل میں وسعت ہوتی تو یہ عالم رنگ و بو کہاں دکھائی دیتاشراب چھلک پڑی کہ اس کے لیے شیشہ چھوٹا پڑگیا تھا)
مختصر یہ کہ صرف 47صفحات پر مشتمل اپنے اس انگریزی لکچر How to read Iqbalمیں فاروقی نے بتایا کہ علامہ اقبال کے فکر و فن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انگریزی ، اردو فارسی و سنسکرت کے دانشوروں کے خیالات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
اردو ادب کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شاعر علامہ اقبال تھے جو کئی زبانیں جانتے تھے یہی حال شمس الرحمن فاروقی کا تھا ۔اس طرح ایک نابغہء روزگار نے دوسرے نابغہء روزگار Geniusکی ہم نوائی کی۔ 1935ء میں جنم لینے والے فاروقی کو 2020ء (1442ھجری)میں کورونا کی وبا نے اپنا شکار بنالیا۔ ’’شب خون‘‘ کے سپہ سالار جدیدیت کے علم بردار ،علم عروض و زبان و بیان کے شہسواریاروں کے یار 25دسمبر 2020ء کو یم دوت سے ہار گئے۔ ظفر اقبال کو غالب سے بڑا شاعر ، احمد مشتاق اور ناصر کاظمی کو فراق گورکھ پوری سے بہتر شاعر قرار دینے والے اور خود کو ڈبلیو بی یٹس W.B Yeatsاور ایلیٹ کے پہلو میں بٹھانے والے شمس الرحمن فاروقی مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں غروب ہوگئے۔روشن خیال ایسے کہ اپنے پیچھے اک ایسا ابر باراں چھوڑ گئے جو کبھی پر یاگ راج کے دو آبے کو سیراب کرتا ہے، کبھی پنجاب کو خوش آب کرتا ہے تو کبھی سمندر پار اپنے جلوئہ مہرتاب سے دیدہ و دل لبھاتا ہے۔شب خون مارنے والے طوعاً و کرہاً کبھی مہر و مروت کی دھوپ میں سرشار تو کبھی ابر ِ باراں میں شرابور ہوتے رہے ۔
2020ء مطابق 1442ہجری میں نابغہء روز گار شمس الرحمن فاروقی کے گزر جانے پر ناچیز رئوف خیر نے ایک قطعہء تاریخ ِ وفات کہا تھا جس میں فاروقی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کی عکاسی کی گئی ہے قرآن مجید کی آیت (وقنا ربّنا عذاب النار) کے اعداد 1465میں سے لفظ (پاک) کے 23اعداد منہا کردیں تو فاروقی کی وفات کا سنہ ہجری 1442ء بر آمد ہو تا ہے۔
شمس رحمن عرف فاروقی
تھے جو شب خون کے سپہ سالار
ہاتھ میں لے کے ذوالفقارِ قلم
سو مناتِ ادب پہ کی یلغار
دہریوں کو نکالا قلعوں سے
کردیے ان کے حوصلے مسمار
زعفرانی تھا گیانؔ یرقانی
اس سے دنیا کو کردیا ہشیار
میرؔ و غالبؔ کے شعر۔ شور انگیز
اور باقی کے شعر بے معیار
چاند چہرہ وزیر خانم کا
تھا سرِ آسمان رونق بار
نثر کا امتیاز سمجھایا
شعر اور غیر شعر کا معیار
درس دیتے رہے بلاغت کا
لکھ کے بوطیقہء جدید آثار
آپ کے تبصرے بھی تھے بھرپور
اور تنقیدِ نَو بھی خوش اقدار
رد کیا جوشؔ ملسیانی کا
بن کے اقبال کا سپہ سالار
دشمنوں کی خبر وہ لیتے تھے
تھا ’’خبر نامہ‘‘ ان کا اک ہتھیار
تھے وہ علمِ عروض کے ماہر
تھے زبان و بیاں کے شاہ سوار
بے گماں دشمنوں کے دشمن تھے
جاں نثاروں کے اور یاروں کے یار
ناصرِؔ کاظمی کبھی مشتاقؔ
ان کی نظروں میں تھے فراقؔ سے پار
بڑھ کے غالبؔ سے ہے ظفرؔ اقبال
کبھی ایسا بھی کردیا اظہار
لے لیا یہ بیان پھر واپس
اور ان اسناد کو کیا بے کار
وہ بدلتے رہے ہیں ترجیحات
اپنے الفاظ پر نہ تھا اصرار
خود میں اک انجمن تھے فاروقی
زیبِ سر کرکے علم کی دستار
قلعہ شعر و ادب کا تاریخی
اس دسمبر میں ہوگیا مسمار
خیرؔ تاریخ کوئی ’’پاک‘‘ نکال
وقنا ربّنا عذاب النار
ھ1465-23=1442
٭٭٭
مآخذ:۔
۱۔ ’’جدیدیت کے علم بردار شمس الرحمن فاروقی ‘‘ اجے مالوی۔ جے بھارتی پرکاشن ۔الہ آباد211003۔سنہ اشاعت 2021ء
۲۔ چند ہم عصر اقبال شناس۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم پاکستان ادب اکادمی ۔سرگودھا ۔سنہ اشاعت 2018ء
۳۔ خیر بہ چشم ِ اہل ِ خیر۔پروفیسر مقبول فاروقی ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوز نئی دہلی ۔سنہ اشاعت 2019ء
۴۔ اقبال کی خامیاں۔ کالی داس گپتا رِضا ساکار پبلشرز پرائیویٹ لمیٹڈ ۔ممبئی سنہ اشاعت 1994ء
۵۔ How to read Iqbal – Shams ur Rahman Faruqi Iqbal Academy Pakistan Lahore- Edition 2005
Dr. Raoof Khair
Moti Mahal, Golconda Hyderabad 500008
Cell : 9440945645
email: raoofkhair@gmail.com
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں