اکرم نقاش
کوئی تصویر بھیج دی ہوتی
اپنی تحریر بھیج دی ہوتی
قید کرنا اگر ضروری تھا
اپنی زنجیر بھیج دی ہوتی
رمز سب بھید سارے بھیج دیے
ان کی تفسیر بھیج دی ہوتی
شہر بند باب بند دریچہ بند
یہ ہی تعذیر بھیج دی ہوتی
لاکھ سمجھایا مانتا ہی نہیں
تھوڑی تاثیر بھیج دی ہوتی
خواب ہی خواب ہیں مقدرہے
کوئی تعبیر بھیج دی ہوتی
راستے ہو رہے تھے گڈمڈ سب
چشمِ تنویر بھیج دی ہوتی
ثروتِ غالب آپ رکھ لیتے
دولتِ میر بھیج دی ہوتی
******
دل وہ اڑیل کہ جسے راہ پہ لاتے گذری
ایک روٹھے ہوئے بچے کو مناتے گذری
رنگ ہی ایسے تھے تصویر نہ بن پائی کبھی
ہاں مگر ایسے ہی رنگوں سے نبھاتے گذری
ہاتھ شانے پہ نہ رکھّا کبھی اس بے دل نے
داستاں جس کو شب و روز سناتے گذری
جو بھی گذری ہے تری راہ میں گذری اے دل
ہوش کو دوسری اک راہ سجھاتے گذری
گرد سب بیٹھ گئی دشت بھی سنسان ہوا
یادِ امید فقط آنکھ بچاتے گذری
******
اک افق سے گذر رہی ہے شام
اک افق میں اُتر رہی ہے شام
رات کچھ دیر بعد آئے گی
جامِ تمہید بھر رہی ہے شام
دن سے کارِ نمو نہیں ہوگا
اس کی شاخیں کتر رہی ہے شام
سانولے ہو رہے ہیں سب منظر
شام ہر شئے کو کر رہی ہے شام
گھونسلے بھر گئے پرندوں سے
آ کہ سر سے گذر رہی ہے شام
دور تک روشنی نہیں ہوگی
ہاتھ شانوں پہ دھر رہی ہے شام
******
سحر کا جیسے ہے اشارا بدن
حسن کا ایک استعارہ بدن
تاج کی مرمریں عمارت میں
ڈھل گیا ہے کہیں تمھارا بدن
روشنی کو مہک کو دوں آواز
رات چمکے نہ جب ہزارا بدن
برف جب جم گئی تکلّم پر
بات کرنے لگا شرارہ بدن
ہر طرف ایک دشتِ بے بدنی
کھو گیا ہے کہیں ستارہ بدن
خاک کو کیمیا بنا ڈالے
کوہ کو کر دے پارہ پارہ بدن
آئینے پر کرے نشہ طاری
پانیوں کو کرے شرارہ بدن
ڈوبتی کشتیٔ ہوس کے لیے
پہلا اور آخری کنارہ بدن
دل کو اقساط میں ملے ہے وہ
جب کہ اس کی طلب ہے سارا بدن
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں