انٹرویو
(دوسری اور آخری قسط)
اکرم نقاش : اپنی پبلیکشنز کے تحت میں نے آپ کی دو کتابیں شائع کی ہیں ۔ کتاب کی کمپوزنگ کے دوران بھی آپ نے کئی نئی نظمیں مجھے بھجوائیں ادھر بہت قلیل وقت میں بہت زیادہ غزلیں (جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے ) آپ نے کہی ہیں لکھنے کی اس رفتار کے اسباب دو عوامل کیا ہیں ؟ کیا آپ کی نظمیں ایک ہی نشست میں مکمل ہو جاتی ہیں یا مختلف نشستوںمیں؟ آپ کے تخلیقی عمل کے بارے میں جاننا چاہوں گا ؟
خلیل مامون : میری لکھنے کی رفتار میری بے کاری اور میری بے زاری سے جڑی ہوئی ہے۔ جب تک مجھے نیند نہ آجائے مجھے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت ہے۔ میں بے کار نہیں بیٹھ سکتا۔ وظیفہ یابی کے بعد میرے پاس کوئی کام نہیں ۔ گو کہ میرا تھوڑا بہت وقت باغ بانی، زیبائش، مچھلیوں کی پرورش اور دیکھ بھال اور کتے کی دیکھ ریکھ میں اور روز مرہ کے کاموں میں نکل جاتا ہے لیکن اس کے باوجود میرے پاس کچھ کرنے کے لیے بہت سارا وقت بچ رہتا ہے اس خلا کو پر کرنے کے لیے پڑھتا لکھتا رہتا ہوں۔ پڑھتا کم ہوں لکھتا زیادہ ہوں ۔ میرے لیے تخلیقی عمل ہمیشہ سے بہ قول غالب:
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
کے مصداق رہا ہے۔ میری اکثر نظمیں یا غزلیں ایک ہی نشست میں پوری ہو جاتی ہیں۔ انھیں نظر ثانی کے بعد دوبار دیکھتا ہوں۔ میری کوئی بھی تخلیق ایک سے زائد نشستوں میں پوری نہیں ہوتی ۔ خیالات کیسے آتے ہیں نظم کا اظہار لفظوں میں کس طرح آتا ہے یہ میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔ ایک زمانہ تھا جب مجھے نظمیں خواب کی صورت میں دکھتی تھیں ۔ مثال کے طور پر ایک نظم جس کا مجھے اب صرف ایک مصرعہ یاد ہے خواب میں ایک خاتون نے سنائی تھی۔ اس کا پہلا مصرعہ یوں تھا:
ع رات نیزے کی طرح سینے میں پیوست ہوئی
میں نے صبح اُٹھ کر پوری نظم لکھ بھی لی تھی۔ لیکن اسے کہیں چھپنے کے لیے نہیں بھیجا۔ بعد میں وہ کہیں گھوگئی اب صرف ایک مصرعہ یاد ہے۔ یہ بات غالبا 1972 یا 1973 کی ہے۔ میرے لکھنے کا عمل لاشعوری زیادہ ہے۔ شعوری کوشش سے میں کچھ نہیں لکھ سکتا۔
اکرم نقاش : پچھلے دونوں آپ کی ایک نظم ’’بے نام‘‘ موضوع بحث رہی بلکہ اعتراضات کا شکار رہی، یہ نظم طنز سے مملو ہے اس کا لہجہ اور طرز بیان درشت ہے جو ایک عام قاری کے لیے قابل قبول نہیں لگتا اور یہ نظم ایک ایسے مسلمان کا تقاضہ کرتی ہے جو ریا کا ر نہ ہو اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو جو دین کا صحیح شعور رکھنے والا ہو مختصر اگر کہا جائے تو وہ ایک آئیڈیل مسلمان ہو بلکہ مومن ہو ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے کے سارے مسلمان اس طرح مصفا و نیک طینت ہو جائیں بشری تقاضے بھی تو ہوتے ہیں کیا یہ انتہا پسندانہ تقاضہ نہیں ہے۔ کیا اللہ کے لیے ہر شخص کو مومن بنانا مشکل کام تھا ؟
خلیل مامون : نظم ’’بے نام‘‘ کسی مسلمان سے کوئی تقاضا نہیں کرتی۔ کسی شاعر کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ہندو یا مسلمان بننے کی تلقین کرتا پھرے۔ کوئی بھی ادیب یا شاعر مسلمان یا ہندو بن کر کوئی تخلیق نہیں کر سکتا ۔ گو کہ اُس کے عقائد اس کی تخلیقات کے پس منظر میں ہوتے ہیں۔ میری نظر میں کوئی صحیح شاعر یا ادیب مذہب و ملک سے بلند ہو کر ہی کوئی ادب تخلیق کر سکتا ہے۔ کوئی بھی اہم لکھتے ہوئے میری صورت حال یہی تھی۔ نظم مجموعی طور پر مسلمان عوام کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس بے بسی کے نتیجہ میں شاعر آخر میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں جلا کر مار دیے جانے کی آرزو کرتا ہے، میرے لیے اسلامی اساطیر جن کا کہ نظم میں حوالہ ہے ایسے اساطیر ہیں جو آج کے انسان کے لیے بے معنی ہیں ۔ میرے نزدیک روایت سے بغاوت ہر اچھے ادب کا حصہ ہے۔ پر اس نظم میں بغاوت نہیں ہے۔ یہاں شاعر اپنے آپ کو ان اساطیر سے جدا کر کے اپنی شناخت بنارہا ہے۔ یہ ایک بچی کیفیت کی عکاسی ہے۔ اعظم کسی مسلمان یا مومن سے بڑی نہیں ہے۔ اللہ کس کو کیا بنا سکتا ہے کلیتا غیر ادبی بات ہے۔ نظم کو اس کے پس منظر میں پرکھنا چاہئے نہ کسی مذہب یا ملک کے آئینہ میں۔
اکرم نقاش : میں نے بغاوت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ سارے کے سارے مسلمان دین کے بنیادی تقاضوں سے متصف ہو جائیں ۔ کیا یہ ممکن ہے؟ خیر اگلا سوال ۔
اکرم نقاش : ن م راشد اور میراجی کے مکتبہ خیال کے ناقدین کا کہنا کہ فیض کی شاعری کا مزاج سراسر رومانوی ہے زندگی کے بنیادی جذ بے مثلاً غصہ ، نفرت ، حقارت اور خوف کا اظہار فیض کی شاعری میں نہیں ہوا ہے۔ فیض کے ہاں صرف چیزوں کو Beautify کرنے کا عمل ملتا ہے اور یوں فیض کی شاعری کا کینوس بہت محدود ہے جب کہ مقبولیت کے اعتبار سے فیض اقبال کے بعد سب سے بڑا نام ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں فیض صاحب نے کہا تھا کہ راشد کی شاعری کا کینوس کون سا بڑا ہے ۔ ان کی شاعری میں سوائے ان کی ذات اور لاشعور کے ہے کیا ؟ اور میرا جی گیتوں کے شاعر ہیں اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کوئی Content نہیں ہے۔ مذکورہ دونوں باتوں کے سلسلے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گا کہ راشد اور میرا جی آپ کے پسندیدہ شعراء میں ہیں۔ ( مذکورہ بالاباتیں فیض صاحب کے ایک انٹرویو سے مقتبس ہیں )؟
خلیل مامون : فیض کی شاعری کے بارے میں جو کچھ ناقدین نے کہا ہے وہ بڑی حد تک صحیح ہے کیوں کہ میری نظر میں فیض کی شاعری رومانی ہے اور وہ فارسی کے چند شعرا اور غالب کی لفظیات کو استعمال کر کے شعر کہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ عمل ان کے ہاں لاشعوری ہو۔ اُن کی شاعری میں بہت کم ایسا ہے کہ جو یاد رکھا جائے گا۔ غزلوں کے لگ بھگ 25 تا 50 اشعار اور چند نظمیں ۔ اُن کی شاعری کا کینوس بے حد محدود ہے۔ مقبولیت اور اچھے ادب کا کوئی چولی دامن کا ساتھ نہیں۔ اقبال کی شہرت ان کی شاعری کا اسلام سے تعلق تھا۔ اور فیض کی شاعری کی مقبولیت ادب سے ہٹ کر سیاسی ، ان کا مزدور تحریکوں سے منسلک ہونا اور راولپنڈی کیس میں اُن کا ملوث ہونا وغیرہ ہے۔ فیض احمد فیض میری نظر میں ڈرائنگ روم کے شاعر تھے۔ جہاں شراب کے دور کے ساتھ ساتھ اُن کی شاعری چلتی تھی ، آپ بتائے و و انقلابی شاعر تھے لیکن کیا ہم انھیں پابلونرودا کے ہم پلہ پاتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ راشد کی شاعری اور میرا جی کی شاعری پر ان کے بیانات بے بنیاد اور غلط ہیں۔ میری نظر میں راشد کا نہ صرف کینوس بہت بڑا ہے بلکہ اُن کے فن پارے بھی بیش قیمت ہیں۔ راشد فارسی شاعری سے بے حد متاثر تھے اور انھوں نے فارسی کے جدید شعرا کے کلام کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ تراجم نثر میں ہیں۔ میں راشد کو اُردو میں اقبال کی توسیع تصور کرتا ہوں ۔ اُن کا بلند آہنگ ، غنائیت اور نو آبادیاتی نظام سے اُبھرنے والے جذبات انھیں ان کے عہد کے بڑے بڑے شاعروں میں ممیز کرتے ہیں۔ راشد اپنی طرز کے واحد شاعر ہیں۔ فیض پڑھے لکھے آدمی تھے ان سے یہ ہرگز امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ راشد کے بارے میں ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان صادر کرتے۔ میرا جی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ گیتوں کے شاعر ہیں اور یہ کہ ان کی شاعری میں Content نہیں سراسر غلط ہے۔ مجھے تو Content فیض کی شاعری میں نظر نہیں آتا۔ میرا جی نے تقریبا 250 سے زیادہ نظمیں کہیں اور ہر نظم ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ ان نظموں میں چل چلاؤ ابوالہول میں کہ روتا ہوں مسرت سے اونچا مکان”، "محروی جاتری تا جانی یا پرانی بات، ارتقا ، یعنی اور یگانگت بے حد کامیاب نظمیں ہیں۔ اس کے علاوہ میرا جی نے نظم میں ہیئت کے جو تجربے کیے ہیں وہ نادر ہیں نیز انھوں نے 100 سے بھی زائد گیت لکھے ہیں۔ میرا جی کی نظموں میں جو Content ملتا ہے اس کا عشر عشیر بھی فیض کے یہاں نہیں ملتا۔ میرا جی ایک بڑے شاعر تھے۔ قدرت نے انھیں ہم سے بہت جلد چھین لی اور نہ وہ اس عہد کے بہت بڑے شاعر ہوتے ۔
اکرم نقاش : آپ کی غزلوں کے نئے مجموعے’’ سانسوں کے پار ‘‘میں’’ غزل کی نفی میں“ کے عنوان سے پیش لفظ میں آپ نے لکھا ہے غزل کے لکھنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ میں دیکھوں کہ یہ صنف سخن اپنے خالق سے کس طرح کے جمالیاتی اور لسانی تقاضے کرتی ہے اور یہ بھی کہ تخلیق کار ان تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے کہ نہیں اپریل 2012 دسمبر 2012 تک ڈھیر ساری غزلیں خلق ہوئیں ان کی تعداد کچھ 800 کی قریب تھی۔ اور آپ نے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈھیر ساری غزلیں خلق ہوئیں۔ اس بیان میں دو متضاد باتیں آگئی ہیں ایک جس میں آپ نے غزلیں لکھنے کے مقصد کا ذکر کیا ہے اور دوسری طرف نہ چاہتے ہوئے بھی کا فقرہ بھی لکھا ہے وضاحت چاہوں گا ؟
خلیل مامون : اس میں تضاد کہاں ہے میں غزلیں کہنا چاہتا تھانہ چاہتے ہوئے بھی کا مطلب یہ ہے کہ اتنی ساری غزلیں لکھنے کا ارادہ نہیں تھا، اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
اکرم نقاش : اسی پیش لفظ میں آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جو شاعر سے وہی کہلواتی ہے جو وہ کہلوانا چاہتی ہے۔ غزل کا ہر اظہار اس کی بحر اس کے قوافی اور اس کی ردیف پر منحصر ہے۔ کیا یہ بات کلی طور پر درست کہی جاسکتی ہے؟ تفصیل سے بتائیں؟
خلیل مامون : یہ بات کلی طور پر کہی جاسکتی ہے۔ سب کچھ غزل کی ہیئت پر منحصر ہے۔ غزل ایسی صنف ہے جو کوئی زبردست بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہے اور اس میں وہی کچھ سما سکتا ہے جس کی وہ ہدایت دیتی ہے۔ شعر کے بامعنی ہونے کا دارو مدار الفاظ کی بندش پر ہے۔ اگر بحر اس سے موزوں نہیں تو شعر ہی نہیں ہوگا ۔ آپ ردیف قافیہ کو نظر انداز کر کے غزل نہیں لکھ سکتے اور پھر مصرعہ اولی اور مصرعہ ثانی کی معنوی بندش بھی بہت ضروری ہے ورنہ شعر مہمل ہو جائے گا۔
اکرم نقاش : سانسوں کے پار کے پیش لفظ کا عنوان’’ غزل کی نفی میں‘‘ ہے لیکن اس میں آپ غزل کا دفاع کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ پہلا دفاع تو یہی کہ یہ ’’سانسوں کے پار‘‘ غزلوں کا مجموعہ ہے۔ میرے خیال میں آج تک غزل کی تکنیکی حدود پر جتنی بحثیں اور اعتراضات ہوئے ہیں اس کی وسعتیں بھی اس سے کہیں زیادہ بیان ہوئی ہیں۔ آپ اس ضمن میں کیا کہنا چاہیں گے؟
خلیل مامون : غزل کی وسعت کیا ہے مجھے اس کا علم نہیں آپ مجھے بتائیں کہ کس طرح کی وسعت ہے جو غزل میں موجود ہے؟
اکرم نقاش : مجھے محمود ایاز کی ایک بات یاد آ رہی ہے وہ کہتے ہیں’’ آج بھی میں غزل گوئی کو نظم گوئی پرترجیح دیتا ہوں غزل کا ایک شعر کہ کر مطمئن ہو جاتا ہوں تو مجھے اس کوزے میں بند دریا کوپھیلا کر نظم کا روپ دینے میں کوئی دل چسپی نہیں‘‘۔ خیر یہ ایک طویل مباحثہ کا موضوع ہے۔
اکرم نقاش : کرنا ٹک اردو اکادمی کی تاریخ میں آپ کے دور صدارت کو اکادمی کا سنہرا دور کہا جائے تو بے جانہ ہوگا نہ صرف کرنا تک بلکہ ہندوستان بھر میں آپ نے اکادمی کے وجود کا احساس دلایا اور اکادمی کے دائرہ کار کی وسعت اور امکانات کی نشان دہی بھی کی اگر صدارت کا ایک اور Term آپ کو مل جاتا تو اردو کی ترویج و بقاء کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبے تھے؟
خلیل مامون : اکادمی کا ایک اور Term دیے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ نہ صرف یہ کہ اقلیتی امور کے وزیر ڈاکٹر ممتاز علی خان میرے خلاف تھے بلکہ الامین کے ڈاکٹر ممتاز احمد خان کو بھی انھوں نے میرے خلاف کر رکھا تھا۔ باخبر ذرائع سے مجھے معلوم ہوا تھا کہ کسی وقف جائیداد کے تعلق سے اُن دونوں حضرات میں کچھ ساز باز ہوئی تھی ۔ یہی نہیں وزیر موصوف نے اس وقت کے رجسٹرار کو اور کچھ اراکین کو بھی میرے خلاف اپنی سازش میں شریک کر کے انھیں گورنر بھاردواج کے پاس بھیجا تھا۔ اکادمی جب تحلیل کر دی گئی تو حکومت کے خلاف ایک بھی آواز نہیں اٹھی ۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کا مسئلہ در اصل سیاسی اور سماجی ہے۔ جب تک اس مسئلہ کا حل نہیں نکالا جاتا آپ لاکھ پروگرام کر لیجیے اردو زبان وادب کا فروغ ناممکن ہے اور پھر میرے جیسا آدمی موجودہ نظام میں کسی بھی طرح فٹ نہیں ہوتا ۔
اکرم نقاش : آج جو نظمیہ شاعری ہو رہی ہے اس کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ اور ہندوستان میں شاعری کی موجود وصورت حال کیا ہے؟
خلیل مامون : ہندوستان میں شاعری بالخصوص نظم کی موجودہ صورت حال بہت ہی خراب ہے۔ ہندوستان میں غزلیں تو ڈھیر ساری لکھی جارہی ہیں کچھ لوگ نظمیں بھی لکھ رہے ہیں لیکن صورت حال اچھی نہیں ہے کسی کا کوئی تجربہ نہیں کوئی مشاہدہ نہیں۔ اظہار نیا نہیں ، ایسا لگتا ہے کہ شعرا کے یہاں کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ جو نظمیں لکھی جارہی ہیں اُن میں ہندوستان کی صورت حال کہیں نہیں جھلکتی ہے۔ ہندوستان میں نظم تعطل کی شکار ہے اور اسے بحال کرنے والا کوئی نہیں ۔ نقاد اپنے شخصی بغض و عناد اور انعامات کی دوڑ میں مبتلا ہیں۔ انھیں اُردو کے لکھنے والوں سے کوئی علاقہ نہیں۔ لہذا نئی نظم ایک ایسے بحران کی شکار ہے جس کا فوری طور پر کوئی حل نظر نہیں آتا۔
اکرم نقاش : ادب میں تنقید کا رول کیا ہونا چاہئیے ؟ اور آزادی کے بعد ہندوستان میں تنقید کی سمت در فتار کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا آج کی تنقید تخلیق کی راہوں کو روشنکرنے میں کامیاب ہو سکی ہے؟
خلیل مامون : ادب میں تنقید کا رول محض تشریحاتی یا تو ضیحاتی نہیں ہونا چاہئے۔ میں نے ابھی جو باتیں جدید نظم کے تعلق سے کہی ہیں اس پر آج کے بڑے نقاد کچھ لکھتے کیوں نہیں ۔ آزادی کے بعد چند مغربی نظریات سے متاثر ہو کر کچھ تنقید لکھی گئی لیکن اس کی نوعیت زیادہ تر تشریحاتی ہے۔ اس کے علاوہ ماضی کے مشاہیر ادب پاروں کی تفہیم کے سلسلے میں بہت ساری تنقیدی کتا بیں منظر عام پر آئیں۔ نیز نثر اور نظم کی اصناف پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بلا شبہ اس طرح کی تنقید سے نئے لکھنے والوں کی رہنمائی ہوتی ہے لیکن کتنے نقادوں نے آج کے ادب کی ہیئت اور اس کے مواد کی کمیوں کی جانب اشارہ کیا ہے اور یہ کہا ہا ہے کہ ادب میں ہر اعتبار سے جمود طاری ہے اور اس کے لیے کیا کرنا چاہئے ۔ یہ ایک طرح کی دور اندیشی کی تنقید ہے جو کسی بھی فن کے تعلق سے سامنے آنی چاہئے ۔ اور یہ کہا جانا چاہئے کہ اب کسی بات کی ضرورت ہے۔ اس نوعیت کی کوئی بھی بات میری نظر سے نہیں گزری ہے نہ ہی اس بابت میں نے کچھ سنا ہے۔ اچھے اور انقلاب انگیز ادب کی تخلیق کی جانب ایسی تنقید ایک قدم کے مصداق ہوگی ۔ جو آج وجود نہیں رکھتی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ ڈنڈے کے زور پر اچھی نظمیں نہیں لکھا سکتے۔ لیکن آپ ایک ایسا ماحول تو پیدا کر سکتے ہیں کہ جہاں اچھا ادب لکھنے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ نہ ہمارے رسالوں کے مدیروں میں یہ صلاحیت ہے نہ اردو کے اساتذہ میں اور نہ ہمارے نام نہاد ناقدوں میں ۔ میر پر آپ کو پچاسوں کتا بیں مل جائیں گی ، غالب پر ملیں گی منٹو پر ملیں گی لیکن آپ کو تنقید کی کتابوں میں کوئی ایسی انقلاب انگیز کتاب نہیں ملے گی جو یہ بتاتی ہو کہ آج کے اُردو ادب اور ادیب کو کسی چیز کی ضرورت ہے۔ اچھے ادب کی تخلیق کے نہ ہونے میں یہاں تنقید کا نہ ہونا مانع ہے وہاں اکادمیوں اور دیگر قومی اور نجی اداروں کی طرف سے انعام واکرام کی بارش ہے جو لکھنے والوں کو غلط راہ پر ڈال رہے ہیں ۔ آج کل تو ادیب و شاعر محض انعام حاصل کرنے کے لیے ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ دو اس لیے نہیں لکھ رہے ہیں کہ لکھنا ان کی ذاتی ، فطری اور سماجی مجبوری ہے۔ اور صورت حال یہ ہے کہ ادب اور شاعر پیچھے چلے گئے ہیں۔ اور ناقد اور مدیر آگے آگئے ہیں۔ جب کہ صورت حال اس کے بر عکس ہونی چاہئے ۔ اس صورت حال کے پیدا کرنے میں بڑی حد تک ہمارے ناقد ذمے دار ہیں کیوں کہ جب تک شاعر یا ادیب کسی ناقد کی انگلی پکڑ کر نہیں چلے گا ۔ اچھا ادیب نہیں بن سکے گا۔ ہر لکھنے والے کو آج ناقد کی سند کی طلب ہے یا نہیں تو اد با وشعر اکسی ایوارڈ کے لیے ناقد پر منحصر ہیں۔ ہمیں اس صورت حال سے نکلنا چاہئے صحیح طور پر ادب لکھنے والے ہر ادیب کو اخلاقی جرات مندی کا ثبوت دینا چاہئے اور اپنی شاعری یا افسانے کا اپنی اچھی تحریر سے نقیب ہونا چاہئے ۔ بجائے اس کے کہ وہ کچھ لکھنے کے بعد کسی ناقد کی تلاش میں نکل پڑے۔ آج تنقید کا مطلب کسی کتاب کے شروع میں موجود تقریظ ہے یا پھر فلیپ پر کسی ناقد کی رائے کچھ ناقدوں نے تو اپنی تقریظات کو مجتمع کر کے کتابی شکل بھی دے دی ہے اور معصوم ادیب و شاعر ایسی کتابوں کو مقدس کتابوں کا درجہ دے رہے ہیں۔ کچھ ناقد رسالوں میں اپنے خاص نمبر نکلوا رہے ہیں۔ خود پر سیمینار کردار ہے ہیں جب کہ اچھے سچے اور غریب شاعر وادیب زندگی میں اور اس کے بعد اپنی اپنی قبروں میں کسی اچھے دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال قعر مذلت میں گرنے سے بدتر ہےاور ایک بڑے اخلاقی انحطاط کی تصویر پیش کرتی ہے۔
(مطبوعہ اذکار 2015-29 ، بنگلور)
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں