نام کتاب: نواے شروش
مترجم: احمد حسین
صفحات: 164
قیمت: 350 روپئے
ملنے کا پتہ: الہام پبلی کیشنز،لکشمی نگر، نئی دہلی
مبصر: اسعداللہ،ریسرچ اسکالر ،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔
موبائل: (9918427753)
ای میل: asadullahjnu@gmail.com
زیر تبصرہ کتاب ’نوائے سروش‘لبنانی نژاد امریکی مصنف جبران خلیل جبران کے نظموں کاسلیس ،شستہ اور رواںاردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب عربی اورانگریزی دونوں زبانوں میں’النبی‘کے نام سے موجودہے جسے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرجناب احمد حسین نے اردو کے قالب میں ڈھال کر اردوداں طبقے کے لئے پیش کیا ہے ۔مترجم موصوف اس کتاب سے پہلے بھی کئی آرٹیکل ،مضامین اور نصابی کتابوں کے ترجمے پیش کر کے دادوتحسین وصول کر چکے ہیں ۔خلیل جبران مہجری ادیبوں کی دنیا میں زہرہ کے مانند ہے ۔زہرہ سیارے سے تشبیہ دینے کا ایک اہم سبب یہ ہے جس طرح زہرہ سیارہ کومحبت ،رقص وموسیقی اور حسن کی ملکہ سمجھا جا تا ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ زہرہ کی بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کا نہ صرف جڑواں سیارہ ہے بلکہ اپنے اندر وہ کشش اور رنگینی رکھتا ہے کہ اگر کسی انسان پر مائل ہوجائے تو اس کی دنیا بھی تبدیل ہوجاتی ہے ۔یہی حال خلیل جبران کا ہے کہ اس کی تحریریں خواہ وہ نثری پیرائے میں ہوںیا نظم کی صورت میں اس میں ایک دلکشی،رعنائی ،خیالات کی ندرت اورکلاسیکی رچاؤ ہوا کرتا ہے جو اپنے قاری کو سحر زدہ کردیتا ہے۔ خلیل جبران کو انگریزی اور عربی دونوں پر یکساں عبور تھا۔دونوں زبانوں میں وہ لکھتے تھے انہیں یوروپین قلمکاروں میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے ۔دن بہ دن ان کی تحریروں کی جاذبیت بڑھ ہی رہی ہے۔وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی اپنی تحریروں میں نہ صرف زمین اور زمیںزاد کی باتیں کرتا تھا بلکہ آفاقیت اس کے قلم کاعین محور تھا ۔
مذکورہ کتاب میں 29نظموں کے ترجمے کہیں آزاد تو کہیں نثری نظم کی صورت میں فاضل مترجم نے پیش کیا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ مصنف کی منشااو راس کی تحریر کی روح کو من وعن پیش کردینا محال تو نہیں لیکن کما ل ضرور ہے۔اور ایسا ہوا بھی ہے شعر العجم اس کی مثال ہے ۔شبلی نے کوشش کی اوراپنے قارئین کے سامنے کامیاب مثال پیش کی ہے ۔اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی یہ احساس برقرار رہتا ہے کہ ہم خلیل جبران کے خیالوں کے ساتھ جی رہے ہیں وجہ یہ کہ مترجم نے اصل متن کا، رواں ترجمہ پیش کیاہے۔اُنہیں خلیل جبران کی تحریروں سے محبت ہے جو ان کے اس ترجمہ کا آئینہ دار ہے۔
زندگی،موت،شادی بیاہ ،دنیاوی رسم ورواج، سماجی پابندیاں،انسانی جبلت،رواداری،عالمی اخوت،مال و اولاد، جودسخا،کھانا پینا،جہد مسلسل ،خوشی وغم،بودوباش گویا کہ ایک انسان کی زندگی میں آنے والے تما م حالات وکیفیات کے متعلق خلیل جبران کا ایک الگ اور مستقل نقطۂ نظر تھا جس پر اس نے پوری زندگی عمل درآمد کرنے کی کوشش کی اور اسی تگ ودو میں رہا کہ اس روئے زمین پربسنے والے تمام انسانوں کے لئے وہ اپنے تجربے کی چادر کو ،قلم کے ذریعہ پھیلا کر انسانیت کی خدمت کرسکے یا کچھ بہتر متبادل پیش کر سکے ۔اس میں وہ کتنا کا میاب رہا اور کتنا ناکام؛ یہ وقت نے سورج کے طرح روشن کر دیاہے اور اس کے ذریعہ لکھی گئی کتابوں کے نقاب اٹھانے والوں نے دنیا کے سامنے اس کی فلسفیانہ پوزیشن کو مزید مضبوط کر دیا ۔
کتاب میں شامل اس کی نظم’جہاز کی آمد‘ صفحہ نمبر23,24کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس میں اس نے جہاز کو محور بنا کر اس فانی دنیا کی بے بسی ظاہر کی ہے ۔جہاز یہاں پر ایک استعارہ ہے ۔ایک انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کئی لوگوں کی خوشیوں کا مرکز ہوتا ہے جس میں اس نو مولودکے نہ صرف والدین خوش ہوتے ہیں بلکہ قریبی رشتے داروں کے ساتھ ساتھ دوست احباب بھی اس کی آمد کے شادیانے تلے جھومتے ہیں لیکن زندگی کے تھپیڑے جب اسے بچے کو کچھ سالوں بعد بوڑھا کر دیتے ہیں تب تک اس کی آمد پر خوش ہونے لوگوں کی اکثریت خود اس دنیا سے جاچکی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی مذکورہ نظم میں کہتا ہے ؎
’’میں مزید یہاں رک نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!سمندر! جو ہر شئی کو اپنے اندر سمولیتا ہے ،مجھے بھی دعوت شرکت دے رہا ہے،اور مجھے اس کی دعوت پر لبیک کہنا ہوگا۔میرا یہاں مزیدر کنا، مجھے برف کی سِل بنادے گا۔میں ایک جامد و ساکت پتھر بن کر رہ جاؤں گا،گرچہ گھڑیاں اور لمحات پگھل کر رات، اور رات سے صبح میں بدل رہی ہیں، اور زمانہ پیہم گردش میں ہے۔میری خواہش تو یہ ہے کہ، میں اپنے ہمراہ یہاں کی ہر چیز لے جاؤں ،لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘مذکورہ اقتباس سے معلوم ہوتا کہ انسان مرنے سے زیادہ جینے کا متلاشی ہوتا ہے لیکن چونکہ موت کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ۔جس سازوسامان کو اس نے یہاں اپنی آسائشوں کے لئے جمع کیا تھا اب تو وہ یہیں رہ جائے گا اور چاہ کر بھی اُسے یہاں سے نہیں لے جا سکتا۔دنیا کی بے بسی کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں ہو سکتاجو خلیل جبران نے اپنی اس شاہکار نظم میں پیش کی ہے۔
محبت اور شادی بیاہ کے تعلق سے اس کا یہ خیا ل کتاب کے صفحہ نمبر 36اور39میں تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیںبطور نمونہ ۔’’محبت کو خوابوں میں غرق ہو کر، دو پہر کی آرام دہ نیند سے محظوظ ہونے دو، جب تک وہ سرور کی انتہا کو نہ پہنچ جائے، اور تم جب شام کو اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹو، تو تمہارے دل میں شکر و امتنان کا جذبہ ہو پھر تم سو جاؤ اس حال میں کہ، دل میں محبوب کی یادیں ہوں اور لب اس کی تعریف میں محو ہوں۔‘‘ ’’دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔!کس طرح سارنگی کے تار ایک دوسرے سے جدا رہ کر بھی ایک ہی نغمے کی دھن گاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنا دل بھی دو، لیکن وہ دل ایک دوسرے کا رہین منت ہر گز نہ ہو، اس لیے کہ دلوں کو ان کے خالق کے ہی دسترس میں ہونا چاہیے۔‘‘ اولاد اس دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ۔والدین کی خواہش ہوتی ہے ان کی اولادیں نہ صرف ان کی ہم صفیر ہوں بلکہ ان کے ہم خیال بھی ہوں لیکن اس تعلق سے خلیل جبران کے نظریئے کو فاضل مترجم نے کس خوبصورتی کے ساتھ، من وعن ترجمے کی کیاری میں سجانے کی کوشش کی ہے۔چھوٹا سا اقتباس پیش ہے،تفصیل کے لئے صفحہ نمبر41دیکھا جائے۔
’’تم انہیں اپنی محبت اور شفقت سے نواز و لیکن تم ان پر اپنی فکر مسلط نہ کرو۔ اس لیے کہ ان کی اپنی ایک فکر ہوتی ہے۔تم ان کے جسموں کو گھر اور رہائش دے سکتے ہو لیکن ان کی روح پر تمہارا کا کوئی اختیار نہیں ہے۔اس لیے کہ ان کی روح آئندہ کل کے مکان میں رہائش پذیر ہے ،جہاں تک تمہاری رسائی نہیں ہے، بالکل بھی نہیں۔خوابوں میں بھی وہاں تک تم نہیں پہنچ سکتے۔تمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ تم ان کی طرح بنو، مگر یہ تصور خیال میں بھی نہ لاؤ کہ تم ان کو اپنی طرح بناؤ گے۔اس لیے کہ زندگی کبھی بھی پیچھے نہیں جاتی۔‘‘مذکورہ اقتباس پڑھئے اور اردو محاروہ والا سر دھنئے۔’جو دسخا ‘ کرنے والے ہمیشہ سے اس دنیا کے محبوب اور خدا کے یہاں بھی مقرب سمجھے جاتے ہیں۔سبھی دھرموں نے اس بابت اپنے متبعین کو راغب کیا ہے۔ کہا جا تا ہے کہ سخاوت دشمن کے ساتھ بھی روا رکھنا چاہئے اور کسی بھی حالت میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے گرچہ کہ جس پرسخاوت نچھاور کیا گیا ہووہ کبھی تلوار بھی آپ پر سونت لے۔یہ اقتباس دیکھا جائے۔
’’کچھ لوگ سخاوت کرتے ہیں،اور اس میں انہیں کوئی مشقت نہیں ہوتی ،نہ ہی انہیں کسی قسم کی خوشی ہوتی ہے، یہاں تک کہ ثواب کی بھی امید نہیں ہوتی،نہ اسے کار خیر تصور کرتے ہیں،در حقیقت وہی لوگ حقیقی دینے والے ہیں،اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے پھول فضا کو معطر کئے ہوئے ہوں،کسی صلہ وستائش کی امید کے بغیر،ایسے دینے والوں کے دست سخا سے خدا کلام کرتا ہے،اور ان کی آنکھوں کے راستے خالق کائنات روئے زمین پر اپنی مسکراہٹ بکھیرتا ہے۔‘‘(مزیدتفصیل کے لئے کتاب کا صفحہ نمبر 46دیکھا جائے)
انسان اس دنیا میں اپنی محنت اور مشقت کے ذریعہ بہت کچھ حاصل کرلیتا ہے ۔ترقی کے ضمن میں یہ اولین شرط ہے ۔بغیر محنت کے ہمارے شوق اور امنگ بھی بس خواب سراب ہی رہتے ہیں ۔اس ضمن میں کتاب کے صفحہ نمبر53کا یہ اقتباس دیکھا جائے ۔’’تمہاری محنت اور جدو جہد کی مثال اُس بانسری کی سی ہے ،جس کے سینے سے زمانے کی صدا ،ایک مسحور کن موسیقی بن کر نکلتی ہے،تم میں سے کسے یہ پسند ہو گا کہ، وہ ہونٹ پر ہونٹ دھرے، خاموش زندگی گزارے! جب ساری دنیا ہم آواز ہو کر نغمہ سرا ہو!؟‘‘۔خوشی اور غم دونوںکو خلیل جبران، معکوسی زاویہ سے دیکھنے کا قائل ہے وہ کہتا ہے کہ ’’میں تم سے کہتا ہوں کہ،خوشی اور غم ایک دوسرے کا جز ولا ینفک ہے، دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں،دونوں یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں، یا د رکھنا! دونوں میں سے کوئی ایک جب تمہارے ساتھ ہو تو دوسرا،تمہارے بستر پر تمہارا انتظار کر رہا ہوتا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اپنی خوشی اور غم کے مابین معلق ہو جیسے ترازو کے پلڑے معلق ہوتے ہیں۔‘‘(ص61)خلیل جبران کے یہاں زندگی کا حقیقی لطف سورج کی روشنی اور کھلی فضا میں پوشیدہ ہے نہ کہ پر لطف مکان اور خوردونوش میں،اسے وہ ضروریات زندگی میں شمار کرتا ہے لباس کے متعلق اس کا نقطہ ٔ نظرنہایت شفاف اور واضح ہے وہ کہتاہے’’لباس صرف تمہارے حسن کو چھپا سکتا ہے، وہ تمہارے عیوب کی پردہ پوشی نہیں کر سکتا ،لباس کو تم تحفظ کا سامان سمجھتے ہو، حالانکہ وہ حقیقت میں ایک طرح کا طوق اور زنجیر ہے۔‘‘اس اقتباس سے بہت سارے دنیاوی مفروضات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔وقت کی بابت وہ کہتا ہے کہ’’ وہ ایک بہتی ندی ہے جس کے کنارے بیٹھ کر اس سے لطف اندو ز ہوا جاسکتا ہے ۔وقت اور زمانہ محبت کی طرح ہیں جسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا،گذشتہ کل آج کے لئے صرف ایک یا د ہے اور آئندہ کل آج کا خواب ۔‘‘نیکی اور بدی پر بھی خلیل جبران کو یقین کامل ہے ۔دعا کو وہ ایک آلہ تصور کرتا ہے عبادت اس کے یہاں اہم درجہ پر ہے ۔حسن کو وہ اپنے اندر تلاش کرنے کاخواہش مند ہے اور اسے قوت وطاقت کا سرچشمہ سمجھتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب کا صفحہ نمبر137کا یہ اقتباس دیکھاجائے’’حسن ضرورت نہیں،ایک احساس کا نام ہے،حسن پیاس سے خشک لب نہیں ہے،نہ ہی ضرورت کے لئے پھیلا ہوا ہاتھ،حسن ایک سلگتا دل ہے،ایک روح ہے جو وجد میں ہو۔حسن کہیں منقوش نہیں ہے کہ، تم اسے چھو اور دیکھ سکو، نہ ہی حسن کوئی نغمہ ہے، جسے تم سن سکو۔حسن ایک ایسی تصویر ہے، جسے تم صرف آنکھیں بند کر کے ہی دیکھ سکتے ہو،اور ایسا نغمہ ہے ،جسے تم اپنی سماعت بند کر کے ہی سن سکتے ہو۔‘‘مذہب پر بھی اسے یقین ہے لیکن وہ عقیدے ،ایمان ،عمل،اخلاق،اور باکردارشخصیت کا حامی ہے۔ فاضل مترجم نے صفحہ نمبر 139سے142تک، اس کے مذہبی خیالات کے پھول کوقاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے، جسے تحقیق کی دیوی کے پجاری اپنے قلم کی جولانی کے ذریعہ تلاش کر سکتے ہیں ۔اسی طرح موت ایک اٹل سچ ہے اِس کو اُس نے زیست میں تلاش کرنے اور نہر کے سکوت افزا روانی میں جھانکنے کے لئے قارئین سے گذارش کی ہے۔کتاب کے صفحہ نمبر146سے 164 میں کہتاہے کہ’ الوداع‘ اور اسی نظم کے ساتھ وہ اپنی اس کتاب کو مکمل بھی کردیتا ہے۔خلیل جبران نے اپنی ’شام‘ کو دیکھ لیا ہے جہاں اس کے آبا واجداد مدفون ہیں گور غریباں دیکھ کر کہتا ہے کہ یہی وہ سر چشمہ ہے جو میرا حاصل اور میری آبرو ہے،اور وہ اسی سے اپنی زندگی کی پیاس بجھانا چاہتا ہے ۔کیوں کہ اس کی زندگی دنیا کے اسٹیج پر رقص کرکے تھک ہار چکی ہے ۔وہ دنیا کی وسعتوں کو تلاش کرتے ہوئے اپنے صاحب ایمان ہونے ،علم ومعرفت کی سیر کرنے کے بعد ،خود سے سرگوشیاں کرتااور ذہنی خاکوں کے ساتھ زمین کے آغوش میں ہلکی سی استراحت کا متمنی ہے اور خواہش کرتا ہے کہ ’’کوئی دوسری خاتون مجھے اپنے کوکھ سے جنم دے۔‘‘
کل ملا کر یہ کہا جا سکتاہے خلیل جبران کے قلم کو مترجم نے اپنے ترجمے کے ذریعہ سے قریب تر کر دیا ہے جب کہ فاضل مترجم کی یہ پہلی کاوش ہے ۔پروفیسر مجیب الرحمن نے مترجم کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے کیا پتہ کی بات کہی ہے وہ لکھتے ہیں ’’اگر چہ ترجمہ نثر میں ہے لیکن یہ نظم کی چاشنی لئے ہوئے ہے جو بذات خود ایک حسن ہے ۔‘‘کتاب کا ٹائٹل انتہائی دیدہ زیب اور دلکش ہے۔طباعت کے معیار پر پورا ترتا ہے ۔ایک بات جو مجھے محسوس ہوئی وہ یہ کہ پروف ریڈنگ کی کمی نظر آئی۔ فاضل مترجم سے گذارش ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کا نہ صرف خیال رکھا جائے بلکہ کتاب کی قیمت بھی تھوڑی کم کی جائے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خلیل جبران کے چاہنے والوں کے لئے یہ کوئی بڑی قیمت نہیںتاہم؛ہم جیسے لوگوں کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے جو کتابیں خرید کر پڑھنا چاہتے ہیں۔آخر میںیہ عرض کرتا چلوں کہ اس کتاب کو خرید کرنہ صرف مطالعہ کے میز پر رکھا جائے بلکہ دوست واحباب کو بھی ہدیہ پیش کیا جائے ۔دلجمعی کے ساتھ ترجمہ کیا گیا جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور کتاب کے مطالعہ کے بعد دل ودماغ کے دریچے روشن ہو جاتے ہیں ۔ کسی بھی کتاب کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس کے مطالعہ کے بعد محسوس ہو کہ ہم نے کچھ حاصل کیا ہے ۔یاد رہے کہ اچھی صحت کے لئے اچھی غذا کا اور اچھے ذہن کے لئے اچھی کتابوں کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔
شکریہ !
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں