اکرم نقاش
ایک منظر
دیکھا تھا کبھی …..
تو کہ بستر پہ
علالت کی تھکن اوڑھے ہوئے
نیم وا آنکھوں سے
پلنگ سے لگی
گلوکوز اور انجکش کی بوتلوں کو
بڑی بیزاری و پژمردگی سے دیکھ رہا تھا
کبھی تیمار دار کی طرف
اور کبھی مسیحا کی جانب
نظریں گھماتا ہوا …
بیماری کی گرد کو جھاڑنے کی کوشش میں
اعصاب مھکن سے چور لگتے تھے
بدن پر پڑی رضائی
بار تھی شاید
پیروں کی حرکت اور جنبش
رضائی کو
اوپر نیچے کیےدیتی تھی
سرخ رضائی کے نیچے
پیرہن سے قدرے بے نیاز پنڈلیاں
یوں لگ رہی تھیں جیسے
ٹھہرے پانی پہ چمکتی سورج کی کرنیں
رقص کر رہی ہیں
رضائی روشنی کے رقص کی رفتار کو
کبھی کم کر دیتی
کبھی اس درجہ تیز کہ اطراف سارا جگمگا جاتا
پنڈلیوں کی چاندنی
آنکھوں میں جانے کب سے جگمگ کر رہی ہے
رقص کر رہی ہے
کیا چاندنی ان سے زیادہ جگمگاتی ہے؟
اور یک بہ یک
اطراف سارا دھند کیوں کر ہونے لگتا ہے؟
*****
مرنے تلک جینا تو ہے
رنگ سارے دل کشا
روشنی کی جھلمل سب
موسموں کی آرجار
بے اثر گذر جائے
قصر سارے حسن کے
کاخ سب جمال کے
لحن بے مثال بھی
صوت کوئی پارینہ
مس کرے نہ روحوں کو
سانسیں چل رہی ہوں بس
آنکھ دیکھتی نہ ہو
کان سن نہ پائیں کچھ
پاؤں اجنبی لگیں
راستوں کے واسطے
دل تہی ہے خواہش سے
ہر طلب سے بے پرواہ
لیکن اس کے باوجود
جاں سے جا نہ پائیں گے
ہر نفس کو مرنے تک
جاں کے ساتھ چلنا ہے
مرنے تک ہر اک جاں کو
روز مرتے رہنا ہے
******
معمہ آنکھیں
تری نظریں
مری آنکھوں میں دیکھتی ہیں جب
مری نظریں
تری آنکھوں کے گہرے غار میں
کتنے ہی صحراؤں کی وسعت
اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کو ناپنے لگتی ہیں
عجب اسرار ہے ان میں
عجب گہرائیاں پنہائیاں ہیں
کبھی نہ کھلنے والے راز ہیں ان میں
کبھی نہ ہاتھ آنے والے بھید ہیں ان میں
نگاہوں کے سروں کو تھامتی مری آنکھیں
تری آنکھوں کی ان گہرائیوں میں
وسعتوں میں
خود کو ڈھونڈ نے میں ہلکاں ہو رہی ہیں
مدتوں
صدیوں سے
قرنوں سے
یوں ہی بس
جی رہی ہیں
مررہی ہیں
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں