مہر فاطمہ
احمدجمال پاشاکے تعلق سے یہ جملہ کئی بار دہرایا جاتارہاکہ وہ اور مزاح دونوں ایک دوسرے کے لئے بنے تھے۔احمد جمال پاشا کی تحریروں کی انفرادیت یا ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی زندگی سے ہی موضوع اٹھاتے ہیں۔ان کی تخلیق میں منظر نگاری ، بات میں بات پیدا کرنے کی مہارت اور شگفتہ بیانی خود بخود ظرافت کی لہریں پیدا کرتی چلی جاتی ہیں۔ اپنی تحریروں کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
’’اگر کسی مضمون کے مطالعے کے دوران آپ کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ جائے تو اسے مزاحیہ فرض کر لیجئے گا۔ اگر سر سے گزر جائے تو اس کا شمار طنز میں کیجئے گا۔ ورنہ سمجھ جائیے کہ یہ محض انشائیہ ہے۔،،(پیش لفظ،لذت آزار،ص۵)
احمد جمال پاشا اسکولی سرٹفکیٹ کے مطابق یکم جون۱۹۳۶ء اور مصدقہ خانگی تاریخ کے مطابق ۱۹۲۹ء میں الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام آغا محمد نزہت پاشا تھا۔ان کی عرفیت یا پیار کا نام جمال تھا۔ادبی دنیا انہیں احمد جمال پاشا سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ ان کے والد آغا شجاعت حسین پاشا الہ آباد میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو فارسی کے شاعرو ادیب اور صوفی بزرگ تھے۔ ان کے مریدوں کا بہت بڑا حلقہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ احمد جمال پاشا کے والد آغا شجاعت حسین ۱۹۴۰ء میں اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوکرالہ آباد سے لکھنؤ منتقل ہوئے۔ امین آباد میں انہوں نے ایک مکان کو خرید لیا۔ جس میں کبھی مجازؔ رہ چکے تھے۔ آغا صا حب نے مکان کی تجدید کرائی اور اس کا نام اہلیہ کے نام پر’’ سروری منزل ‘‘ رکھا۔اسی ’سروری منزل ‘میں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی۔ان کے خاندانی حالات بہت کم دستیاب ہیں۔آبا و اجداد اور شجرہ نسب کا ذکر انہوں نے چند جملوں میں اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا سلسلہء نسب صوفی شاعر ناصر علی سرہندی سے جا ملتا ہے جو ولی دکنی کے معاصرین میں سے تھے۔
۱۹۵۰ء میں احمد جمال پاشا نے میٹرک، ۱۹۵۳ء میں انٹر میڈیٹ، ۱۹۵۶ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے بی۔ اے اور ۱۹۵۸ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۰میں اپنی مزاحیہ مضمون ’’من چغد بیا بانم‘‘سے کیا جو کہ جالندھر سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’راہی‘‘میں شائع ہوا تھا۔
علی گڑھ میں انہیں قاضی عبدالستار، قمر رئیس، محمود الٰہی، تنویر احمد علوی، اقبال مجید، راہی معصوم رضا، شہریار، سید امین اشرف ، شہاب جعفری اور سید شاہد مہدی جیسے ساتھیوں کی صحبت ملی۔جس نے ان کے ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ ان کے اساتذہ میں معین حسن، جذبیؔ، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمیؔ، پروفیسر محمد حسن اور مجاز ؔکے بہنوئی ڈاکٹر ابو سالم جیسے اکا برین علم و ادب تھے۔ جن کی تربیت سے ان کے ذہن و شعور کو روشنی ملی ۔وہ جامعہ اردو جریدے ” درس ” کے نائب مدیر ہوئے جو بعد میں ماہنامہ ادیب ہو گیا۔ سرسید ہال میگزین اسکالر کے ایڈ یٹر بھی رہے۔ انہوں نے رشید احمد صدیقی کے طرز نگارش پر ’’ طرزِ نگارش میری‘‘ کے عنوان سے جو نثری پیروڈی ایک کا نفرنس میں پڑھی۔ اس پر رشید احمد صدیقی نے خوش ہو کر انہیں اپنی کتا بیں انعام میں دی تھیں۔
۱۹۵۹ء میں انہوں نے لکھنؤ سے ماہنامہ’’اودھ پنچ ‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔ اودھ پنچ کے صرف تیرہ شمارے نکلے جن میں ’’کنہیا لال کپور نمبر‘‘ مزاحیہ ادب و صحافت میں یادگار کارنامہ اور احمد جمال پا شاکی صحافتی لیاقت کا ثبوت ہے۔۱۹۶۱ء میں حیات اللہ انصاری نے انہیں قومی آواز کے ادارے میں شامل کر لیاگیا۔ جہاں ۱۹۷۶ء تک وہ قومی آواز سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد وہ سیوان منتقل ہوگئے۔ اور وہاں ذکیہ آفاق کا لج میں اردو کے لیکچر ر ہو گئے۔۲۸ ستمبر ۱۹۸۷ء کو پٹنہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ سیوان میں شہر میں تدفین ہوئی۔
ان کی کتابوں کو مغربی بنگال، بہار، اتر پردیش کی اکادمیوں نے انعامات سے نوازا۔ہندی کی ایک ادبی تنظیم نے ۱۹۸۶ء میں یوگ مایا ساہتیہ پر سکار، ترقی پسندادیبوں کی تنظیم کی طرف سے الہ آباد کا نفرنس میں ” نشان سجاد ظہیر، اور ۱۹۸۶ء میں غالب اکیڈمی دہلی نے ساگر سوری غالب انعام بعد از مرگ نوازا ۔
ان کی کتابوں میں’’ عزت آزار، مضامین پاشا، اندیشہ شہر، آئینے،فن لطیفہ گوئی چشم حیراں، ستم ایجاد،لذت آزار، شوکت تھانوی کی مزاحیہ صحافت، ظرافت اور تنقید اورپتیوں پر چھڑکاؤ ،غالب سے معذرت کے ساتھ،طلسمی کتا،اور ہجویات میر‘‘وغیرہ اردو کے اس صاحبِ طرز مزاح نگار کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے کافی ہیں۔
پاشا صاحب کے انشائیہ نما مضامین یا فکاہیوں کے مجموعے’’ اندیشہ شہر میں‘‘ میںان کی بہترین مزاحیہ تخلیقات شامل ہیں۔مثلا مقدمہ کا مقدمہ، ادب میں مارشل لاء، مرزا ظا ہر داربیگ، آموختہ بیانی میری، میری بہن کی سہلیاں، غدر ۱۸۵۷ء کے اسباب، رسم امتحان میں، یونیورسٹی کے لڑکے، کتے کا خط پطرس کے نام،اور گدھے کا خط کرشن چندر کے نام وغیرہ سدا بہار تحریریں ہیں۔احمد جمال پاشا کا مطالعہ کئی حوالوں یا حیثیتوں سے کیا جاسکتا ہے ۔مثلا بحیثیت انشائیہ نگار،تحریف نگار،خاکہ نگار،تنقیید نگار،محقق ،صحافی اور بچوں کے ادیب وغیرہ وغیرہ نامور دانشور ڈاکٹروز یر آغا لکھتے ہیں:
’’ ان کے یہاں طنز کم اور مزاح زیادہ ہے۔ جہاں کہیں طنز ہے ان کی ہمدردانہ نظر، ان کی شگفتگی اور ظرافت میں لپٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ ان کا سارا ارد عمل ایک ایسے شخص کا رد عمل ہے جو مسرت اور شادمانی مٹھی بھر بھر کے لٹاتا ہے۔اور جسے زندگی کی تمام ناہمواریاں بے حد عزیز ہیں۔ اس لئے ان کا اصل منصب ایک مزاح نگار کا ہے۔‘‘
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’ پاشا صاحب اس لحاظ سے مزاح نگار ہیں کہ ان کے یہاں ہمدردانہ اندازِ نظر موجود ہے۔ اور وہ نفرت نہیں جو طنز نگار کے یہاں بہت نمایاں ہوتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ طنز کے استعمال سے شرمانابھی نہیں جانتے۔ بس یہ سمجھئے کہ وہ مخاطب کی چٹکی لیتے ہیں اور جب وہ’’سی‘‘ کر کے ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو بڑے پیار سے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگتے ہیں۔ اور وہ بھی خفیف ہو کر ان کی ہنسی میں شریک ہو جاتے ہیں۔‘‘ (مقدمہ اندیشہ شہر،ص۸)
احمد جمال پاشا کا مشاہدہ جتنا قوی اور تیز تھا ،اس سے کہیں زیادہ قوی اور تیز ان کی وہ صلاحیتیں تھیں،جو کسی بھی مشاہدے کو بآسانی طنز و مزاح میں بدل دیتی تھیں۔ان کی ظریفانہ انشاپردازی کے نمونے کے طور پر ہم نے ریسرچ کی، کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ انہوں نے نہایت اطمینان سے ہمارا مرثیہ سنا، اس کے بعد پوچھا: تمہارے تھیسس کا عنوان کیا ہے؟ عرض کیا: ڈاکٹر صاحب عنوان نے ’’اردو شاعری میں تال و سر کی اہمیت‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے اندر گئے اور تھوڑی دیر میں ہم پر ہنستے ہوئے واپس آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک نہایت بوسیدہ جلد تھی۔ جورسالہ’’ گیت کار‘‘ کی سال بھر کی فائل تھی اور بولے یہ دیکھو، ۱۸۵۷ء میں عذر کے زمانے میں نکلتا تھا۔ اس کی دوسری جلد کہیں نہ ملے گی۔ قطعی نایاب ہے۔ اس میں استاد اللہ رکھا کا ایک مسلسل مقالہ’’ تال و سر کی شعریت کی اہمیت‘‘ چھپا تھا۔تم اسے اسے ابواب میں تقسیم کر کے اپنا Synopsis کے مطابق نقل کرتے جائو ۔ اور جہاں لفظ ’’شعریت ‘‘آئے وہاں شاعری لکھ دینا۔ بس پھر تم کو دنیا میں ڈاکٹر ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ہم نے رسالے کی جلد اپنے پورٹ فولیو میں رکھی۔ اور گھر پہنچ کر کمرہ اندر سے بند کر لیا۔ ایک مہینہ تک ہم انڈرگرائوند رہے۔ مہینہ بھر بعد ہم تھیسس لے کر برآمد ہوئے تو ڈاکٹر بندے علی نے نہایت ایمانداری کے ساتھ رسالہ ’’گیت کار‘‘ کی جلد کو ماچس دکھا دی۔ہم نے تھیسس ٹائپ کروا کر داخل کی اور یونیورسٹی نے ہمیں ڈاکٹریٹ عطا کرکے نہ صرف گائون میں تصویر کھینچوانے کا موقع عطا کیا بلکہ ہمارے بندے علی کی کوشش اور ہیڈ آف ڈی پارٹمنٹ صاحب کی مہربانی سے کچھ ہی دن میں ڈاکٹر کے ساتھ ہمارے نام کی تختی میں پروفیسر کا بھی اضافہ ہوگیا۔ اب ڈاکٹر بندے علی صاحب ہمارے لنگوٹئیے بزروہوگئے۔ جن کے ساتھ ہم ٹھاٹھ سے یونیورسٹی جاتے ، اسٹاف کلب میں برج کھیلتے ہیں اور پالیٹکس لڑاتے ہیں۔‘‘ (ہم نے ریسرچ کی،مضامین پاشا،۱۵۹،۱۶۰)
احمد جمال پاشا کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کی زندگی سے ہی موضوع اٹھاتے ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس ہر ریسرچ اسکالر کواس کی آنکھوں دیکھی کہا نی معلوم ہوگا۔اسی طرح سے ان کا مضمون ’’ادب میں مارشل لا‘‘بالکل آج کی روداد معلوم ہوتی ہے۔جس سے ہر ادیب و دانشور بخوبی واقف ہے۔اسی مضمون کا ایک اقتباس دیکھئیے:
اگر مقالہ نگاروں کے نام اڑا دیے جائیںتو وہ سب کسی ایک ہی نومشق طالب علم کی تحریریں معلوم ہوں،ایک ہی بات کو بار بار کہنے کا مرض عام ہوگیا تھا،اس استادانہ پینترے بازی میں ممتاز نقاد نے تو کمال ہی کردیا۔ان حضرات نے کسی زمانے میں مومن پر ایک مقالہ لکھا،جس کی بڑی واہ وا ہ ہوئی،کچھ عرصے بعد انہوں نے اسی مقالے کو پھر نئے عنوان سے شائع کرادیا اور پھر وا ہ واہ مچ گئی۔ فوجی حکام نے جب ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو ان کی کل کائنات ادب یعنی ’’مومن‘‘پر مقالہ بر آمد کرلیا گیا۔فوجی حکومت کے اعلانیے کے مطابق پہلے اس مقالے کا عنوان صرف ’’مومن خاں مومن‘‘تھا،جس کو انہوں نے حسب ذیل عنوانات سے متعدد بار چھپوایا جو ذیل کی فہرست سے بخوبی واضح ہوسکتا ہے:
’’حکیم مومن خاں مومن‘‘ ’’ مومن خاں مومن‘‘ ’’مومن کی شاعری ‘‘
’’مومن کی غزل گوئی‘‘ ’’مومن شاعری کے آئینے میں‘‘ ’’مومن بحیثیت شاعر‘‘
’’مومن اور ان کی شاعری‘‘ ’’مومن کی شاعری کا نفسیاتی تجزیہ‘‘ ’’ مومن ایک مطالعہ‘‘
’’مومن میری نظر میں‘‘ ’’مومن اردو شاعری کی نظر میں‘‘ ’’مطالعہ مومن‘‘
’’اردو شاعری کی نظر مومن پر‘‘ ’’مومن شخصیت اور شاعری‘‘ ’’مومن اور تصوف‘‘
’’مومن کا محبوب‘‘ ’’مومن کا لب و لہجہ‘‘ ’’مومن اور ہم‘‘ ’’مومن‘‘
’’مومن اور میں‘‘ ’’مومن -ایک سوال‘‘ ’’کیا مومن شاعر تھے؟‘‘
(ادب میں مارشل لا،مضامین پاشا،ص۷۱)
جمال پاشا کے ترکش میں ہر طرح کے تیر ہیں ،اس لئے یہ گمان کرنا غلط ہے کہ وہ نقادوں،شاعروں،طالب علموں،اداکاروں،سیاست دانوں اور دکان داروں وغیرہ کے لئے ہی مخصوص ہیں۔ ان کے یہاں طنز کی بہت فراوانی نہیں ہے بلکہ مزاح زیادہ محسوس ہوتا ہے۔کہیں کہیں جہاں طنز ہے بھی تو وہاں ان کی شگفتگی،ہمدردانہ رویہ اور ظرافت کی چادر میں لپٹا ہو ا ہے۔اس لئے اس کی کاٹ محسوس نہیں ہوتی۔اس تعلق سے پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی اشارہ کیاہے:
’’احمد جمال پاشا احتجاجی مزاحیہ نگار ہیں،لیکن ان کا احتجاج چیخ نہیں ہے۔ اشارے اور کنائے کے ساتھ ساتھ واقعات و سانحات کے شیریں کیپسول میں چھپا ہوتاہے،اور آئی۔ان جیک کی تعریف پر منطبق ہے کہ Satire is born of the instinct to protest;
it is a protest which becomes art. احمد جمال پاشا بھی اپنے احتجاج کو فن کی سطح پر لے جاتے ہیں،ورنہ وہ محض احتجاجی ادیب ہوتے فنکار نہ ہوتے۔‘‘
(مقدمہ پتیوں پر چھڑکائو،ص۸)
اسی مقدمے میں وہاب اشرفی نے بھی لکھا ہے کہ احمد جمال پاشا جو چہرے ہمارے سامنے رکھتے ہیں ،حمق کی جس کیفیت ہمیں آگاہ کرنا چاہے ہیں ،ہم ان سے آگاہ اور آشنا ہوجاتے ہیں،ان کے اس فنکارانہ رویہ سے کسی کا دل بھی نہیں دکھتا،پاشا اور کئی دوسرے طنز و ظرافت سے وابستہ ادیبوں میں حد فاصل بھی یہی ہے ،پاشا چاہے مسخ شدہ چہرے دکھائیںیا کسی واقعے کی سفاکانہ صورت سامنے لائیں قاری ہنستے ہنستے ہی سب کچھ دیکھ لیتا ہے،اب وہ اس کو سمجھ کر بھی اس پر کام نہ کرنا چاہے تو اس میں تخلیق کار کا کیا قصور۔لیکن ان کا مقصد صرف ہنسنا ہنسانا نہیں ہے۔ہنسنے ہنسانے کا کام تو چٹکلوں سے بھی لیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی فکر کی کلیدصرف حظ آمیز گفتگو یا محض ہنسانے تک ہی محدود نہیں ہے،بلکہ وہ معاشرے کے کمزور پہلووں کی نشاندہی بڑی مہارت سے کرجاتے ہیں،اور ان کا فن یہ بھی ہے کہ وہ شئے کو مسخ نہیں کرتے نا اس سے نفرت یا نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں،بلکہ اس پر جمی دھول کو صاف کرجاتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اس کو داغدار بنائیں،یادوسرے لفظوں یہ کہ اس شئے کا نقص دور کرکے اس کا روشن چہرہ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔عابدسہیل کا یہ اقتباس بھی کئی پہلووں پر روشنی ڈالتا ہے:
ان کے ابتدائی مضامین تبسم زیر لب سے خندہ دندہ نما کا سبب بنتے تھے۔
ان مضامین میں انہوں نے اٹھکھیلیوں،رعایت لفظی اور ہم قافیہ ہم صورت الفاظ سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔دوسرے دور میں مضحک صورت حال اور واقعات بھی ہم رکاب ہوگئے ہیں اور اسی مناسبت سے زبان کی اٹھکھیلیوں کی کمی متوجہ کرتی ہے۔لیکن جلد ہی انہوں نے محسوس کرلیا کہ الفاظ کی بازی گری سے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکتا اور انہوں نے اپنی فکر اور قلم کا رخ طنز نگاری کی طرف موڑ دیا،جس کے چند بہت عمدہ نمونے ان کے آخری مجموعہ مضامین’’پتیوں پر چھڑکائو‘‘میں ملتے ہیں۔ ان مضامین کے رنگ چوکھے ہیں اور طرز اظہار امکانات کی وسیع دنیا لئے ہوئے ہے لیکن اسے پوری طرح بروے کار لانے کی زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ جما ل زندگی کی اس منزل میں تھے ،جہاں تجربات،فنی ریاض اور علم کی آمیزش کے سبب شاہکاروں کی تخلیق متوقع تھی لیکن یہ نہ ہوسکا۔
(مقدمہ مضامین احمد جمال پاشا،مرتبہ عابد سہیل،ص۷،۸)
غرضیکہ اس سے انکار ممکن نہیں کہ احمد جمال پاشا کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے ،جنہیں عمر تو کافی مختصر ملی لیکن انہوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جس کا شمار ادب عالیہ میں کیا جاتا ہے۔ہمارے دانشوروں کے نزدیک یہ خیال عام رہا ہے کہ مزاحیہ ادب کو ادب عالیہ کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا،لیکن کچھ مزاح نگار وں کی تحریریں،جن میں احمد جمال پاشا کی تخلیقات بھی شامل ہیں وہ ناقدین کی اس خیال کی تردید کرتی ہیں۔ احمد جمال پاشا کے تعلق سے عابد سہیل کا یہ جملہ بھی غور طلب ہے کہ پاشا کا مزاح صرف ادب تک ہی محدود نہیں ہے،وہ کبھی کبھی اسے علم کے درجے تک پہنچا دیتے ہیںاور ان کا کمال فن یہ ہے کہ علم اور مزاح دونوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں۔احمد جمال پاشا کے تعلق سے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کے ادبی فتوحات کا جائزہ لینے کے لئے پورا ایک دفتر درکار ہے۔کچھ مضامین یا چند کتابوں پر اکتفا کرنا کافی نہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تحریروںکا بغور مطالعہ کرکے اس پر تفصیلی بحث کی جائے۔۔۔
٭٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں