معز ہاشمی
ایک مشہور سائنسداں ایک ایسا انوکھا مشینی انسان بنانے میں کامیاب ہوگیا جو دوسری ایجادوں سے زیادہ حسین اور خوبصورتی کا انمول شاہکار تھا۔وہ ایک نسوانی روبوٹ تھا۔سائنسداں اپنی اس حسین تخلیق کا ایسا گرویدہ ہوگیا کہ اس کا زیادہ وقت اس کے قدموں میں گزرتا۔ وہ رات دن یہ دعا کرتا کہ اس کے بنائے ہوئے اس مشینی انسان میں خدا روح پھونک دے تاکہ اس فانی دنیا میں اس کا نام روشن ہو جائے۔ اس نے اپنی اس ایجاد میں نسوانیت کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔اس کی خوبصورت سر پر پھولوں کا تاج پہنایا اس کے بازوؤں پر جواہرات سے مر صع زیورات پہنائے اس کے حسین پیکر کو خوشنما لباس سے آراستہ کیا ۔اس نے اپنی اس ایجا د کو ایک مکمل حسین مجسمہ میں تبدیل کردیا۔ اور پھر وہ اس کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔اس میں اس کی نفسانی خواہشات کا بھی دخل تھا۔گوشت پوست کے انسانی جسم نے زندگی بھر اس کے ساتھ بے وفائی کا ڈھونگ رچایا۔اپنی اس ایجاد میں اس نے بیوفائی کے جذ بات کو شامل نہیں کیا۔اس نے اس مشینی ایجاد میں پیار محبت اور فرمانبرداری کے عناصر کثیر مقدار میں استعمال کیے۔وہ سوچنے لگا کہ اس کی بیوی نے اسے کیا دیا۔سوائے زمانے بھر کی مشکلات ،فکریں اور پریشانیاں ۔جب تک وہ کنوارہ تھا عیش وآرام کی زندگی گذارتا تھا۔نہ کھانے کی فکر تھی نہ سونے کی ۔ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد اس نے اپنی آزادی کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے پایا۔وقت پر اٹھنا وقت پر کھانا وقت پر واپس لوٹ آنا۔وہ وقت کا غلام بن گیا۔اس کی حالت ایک کیلنڈر جیسی ہوگئی ۔ایک سے اکتیس کبھی پانچ اتوار کبھی چار ۔ورق الٹنے پر پھر وہی سلسلہ ۔امور خانہ داری میں اپنی منکوحہ کا ہاتھ بٹانا بھی شامل ہوگیا۔ناز برداری کے خول میں وہ روپوش ہوگیا۔ پیار محبت سے نا آشنا اس کی بیوی نے اس کے ذہن کو ہپنٹائز کردیا۔ اٹھ بولے تو اٹھ والی مثال کا وہ زندہ مرقع بن گیا۔ بیوی کی بدمزاجی اور روٹھنے منانے کے فلسفوں نے نیک اور صالح اولاد کی کمی کو بے ڈھنگی اکثریت سے پورا کردیا۔ اس کے باوجود کہ وہ ایک سا ئنسداں ہے تو کیا سائنسداں انسان نہیں ہوتا ؟
وہ بھی ایک ایسا انسان کہ ہر نئی تخلیق پر صبر کے گھونٹ پی لیتا ۔وہ صبر کرتا رہا ۔پھر اسے وقت کی اہمیت کا احساس ہوا۔وہ اس جھمیلے سے فرار چاہتا تھا ۔اس خول کو اتار پھنکناچاہتا تھا آخر وہ کب تک کسی کی غلامی کرے گا ۔ایک دن تو آزاد فضا میں اسے سانس لینا ہی پڑے گی۔اس دن کے انتظار میں اس نے نے گھٹن بھرے ماحول میں چند لمبی سانسیں کھینچیں۔فضائی آلودگی سے اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا ۔وہ بے اختیار کھانسا اور کھانستا ہی چلاگیا۔پر کسی نے بھی اس کی تکلیف کا احساس نہیں کیا ۔ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک تاریک سردرات کو سدھارتھ کی طرح پیار محبت خلوص اور سکھ،چین کی بنسری بجانے کے لئے نکل پڑا۔رات دن کی کڑی محنت کے بعد اس نے گیان حاصل کرلیا۔وہ مہارشیوں کی صف میں کھڑا ہوگیا۔وہ سوچنے لگا اس مشینی انسان میں خلوص اور فرمابرداری کتنی ہے۔حکم کی غلام یہ عورت اس کے اشاروں پر کس طرح ناچتی ہے۔وہ اپنی اس انوکھی ایجاد پر بہت خوش تھا۔مگر اس کی خوشی دائمی ثابت نہ ہوسکی ۔مشینی عورت نے بھی اس کی خصلت کو پہچان لیا۔اسکی بے جاتانا شاہی سے وہ بھی تنک آگئی ۔مردوں کی برتری کا بھرم اس پر آشکاراہوگیا۔ چند ثانیے کی مسرت روح کی غذا نہیں ۔اسکی حسین ایجاد نفسانی خواہشات کی تکمیل کاسبب نہ بن سکی ۔وہ دونوں ایک دوسرے سے متنفر ہوگئے۔نفرت کی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی ۔
موجد اور ایجاد میں سردجنگ کا آغاز سائنسداں کی شکست بن گیا ۔نشیب وفراز سے پرپیچ راہیں،مدوجذر سے بھری زندگی کی لہریں کبھی لڑائی کبھی صلح۔وہ مشینی عورت کے ایک جیسے رویہ سے بیزار ہوگیا۔بچوں کی معصوم ہنسی اور بیوی کے روٹھے چہرے نے اسے تڑپادیا۔ایک ہی ڈگر پررواں دواں زندگی سے وہ اکتا گیا۔اس سے تو اچھا ہے وہ موت کو گلے لگالے پر اس کی بے وقت موت پر کون آنسو بہائے گا۔یہ مشینی عورت تو رونہیں سکتی۔اسکی سیمابی کیفیت ابھر آئی۔وہ لوٹ کر گوشت پوست کے ماحول میں آناچاہتا۔ لیکن اسکی حسین تخلیق نے اسے وفا کے حصار میں جکڑلیا۔اسکی پیار بھری بانہوں کا حلقہ تنگ ہونے لگا۔اسکی سانسیں گھٹنے لگی۔اور اسی طرح ایک دن اس کی تخلیق نے خلوص کے ساتھ اسے موت کی آغوش میں ڈھکیل دیا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں