سلمان عبدالصمد
اسلوبیاتی تناظر میں اردوتخلیقات کا مطالعہ عام نہیں ہے،چہ جائے کہ فکشن خصوصاً ناولوں کا اسلوبیاتی مطالعہ کیا جائے۔ مسعود حسین خاں ہوں کہ ڈاکٹر محی الدین زور،یا پھر پروفیسر گوپی چند نارنگ ہوں کہ پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ یاپروفیسر مغنی تبسم ؛ان ماہرین نے اسلوبیاتی مطالعے کے لیے اکثر شاعری کو ہی محور بنایا ہے۔ اس لیے سوال ہوتا ہے کہ اسلوبیاتی بحث سے طویل اصناف ادب کا رشتہ اس قدر کمزور کیوں ہے؟ ماہرین نے اسلوبیاتی بحث کے لیے شاعری یا حد سے حد افسانوں کا انتخاب کیا ہے۔اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ طویل اصناف کے مطالعے کے لیے خاصا وقت اوربے پناہ محنت درکار ہے، اس لیے فکشن کی طرف التفات نہیں کیا گیا اور آج بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ پھر یہ، کہ فکشن تنقید کا مسئلہ اردو میں المیے سے کم نہیں ہے،اس لیے اسلوبیاتی تناظر میں اگر ناولوں کا جائزہ کم لیا گیا ہے تو کوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔
عموماً فکشن کے اسلوبیاتی جائزے کے ضمن میں بھر پور دو کتابیں سامنے آتی ہیں۔ اول، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی کتاب ’’اردو ناول کے اسالیب ‘‘۔ دوم، ڈاکٹر طاہرہ اقبال کی کتاب ’’ منٹو کا اسلوب:افسانوں کے حوالے سے‘‘۔ ان کے علاوہ اِکّا دُکّا مضامین اوروں کے بھی نظر آئے جن کا ذکر یہاں لازمی نہیں۔ رہی بات طاہرہ اقبال کی کتاب کی تو وہ ایک افسانہ نگار منٹو پر محیط ہے۔ جب کہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ناولوں کا مبسوط مطالعہ پیش کیا ہے،وہ بھی اس طرح کہ ان کی کتاب میں متعدد ناولوں کی خصوصیات اور اسلوبیات کے بدلتے رویے واضح ہوتے ہیں۔ مطالعے کا یہ انداز اپنے آپ میں خود دقت طلب تو ہے ہی، پھر اتنے ناولوں کی قرأت بھی ایک مشکل امر ہے مگر انھوں نے اسلوبیات اور قرأت کا سمندر عبور کرتے ہوئے ایک قابل قدر کتاب سے دامن اردو کو آب دار بنایا ہے۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی کتاب’’اردو ناول کے اسالیب‘‘پانچ ابواب میں منقسم ہے۔ ماقبل ابواب پروفیسر وہاب اشرفی، ڈاکٹر اعجاز علی ارشد اور مصنف کی باتیں اور مابعد ابواب، کتابیات ہے۔ پہلے باب میں تشکیل ِ اسلوب اور ناول کی مبادیات پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں دورِ ترقی پسند سے قبل کے ناولوں کا اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔جب کہ تیسرے باب میں ترقی پسند ناولوں کے اسلوب کا تجزیہ موجود ہے اور چوتھا باب مابعد ترقی پسند ناولوں کے اسالیب کے جائزے پر محیط ہے۔پانچویں باب میں محاکمہ کرتے ہوئے اساسی طور پر اسالیب کے چار ادوار کا نظریہ پیش کیا گیا۔ ان ابواب پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اعظمی نے غیر ترقی پسند ناولوں پر زیادہ توجہ مبذول کی ہے۔ زمرہ ٔ ترقی پسند میں فقط چار ناول نگاروں کا ہی جائزہ موجودہے۔ گویا پہلا اور تیسرا باب قدرے مختصر ہے اور دوسرا وچوتھا باب انتہائی طویل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جس دور کے ناولوں نے انھیں اسالیب کے تناظر میں زیادہ متاثر کیا ہو،اس عہد کے ناولوں کو انھوں نے فوقیت دی ہو مگر ہر عہد کے ناولوں کا تناسب برابر ہوتا تو شاید اور بھی اچھا ہوتا۔
وادی ابواب سے نکلنے کے بعداسلوبیاتی مطالعے کے ضمن میں یہ چند باتیں ضروری طور پر کہی جاسکتی ہیں:
اول : اسلوبیاتی مطالعے کے دوران بسا اوقات مطالعہ کرنے والا لسانیاتی معاملات میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ صوتی آہنگ، معکوسی وہکاری الفاظ ، مصوتے اور مصمتے کی بحث سے وہ باہر نہیں نکل پاتاہے ۔
دوم:کبھی شعری مصرعوں کی طرح ہی ہر نثری جملے کو تولنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
سوم: کبھی اسلوبیاتی مطالعے میں موضوعاتی مباحث حاوی ہوجاتے ہیں اور اسلوبیاتی معاملات غائب ۔
چہارم :اسلوب ومعنی(نہ کہ موضوع) کاانضمام۔
پنجم :کبھی موضوعاتی مطالعے کو ہی اسلوبیاتی مطالعہ کہہ کر پیش کردیا جاتا ہے ۔
موخرالذکر پہلو تو سرے سے ہی خارج از بحث ہے۔ کیوں کہ اسلوبیاتی مطالعے کے نام پر مطالعے کا ایسا طریقہ کار دھوکہ ہی ہے۔رہی بات زمرۂ سوم کی تو اردو میں اسلوبیاتی مطالعے کا ایسا سرمایہ زیادہ ہے جس میں اسلوبیات پر سرسری بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر طائرہ اقبال نے اپنی کتاب میںمنٹو کا اسلوبیاتی مطالعہ کچھ اسی انداز سے کیا ہے کہ اسلوب کی بحث غائب ہوجاتی ہے اور منٹو اپنے موضوعاتی آن بان کے ساتھ ا ن کے یہاں نظر آتے ہیں۔ بیش تر مقامات پر وہ ایسا ہی طریقہ اختیار کرتی ہیںجو شاید اسلوبیاتی مطالعے کے ضمن میں بہتر نہیں۔اب ذرا مسئلۂ دوم پر نگاہ کریں کہ اشعار کے مصرعوں کی طرح نثری جملوں کو تولنا کیسا ہے؟ اس ضمن میں پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے فکشن کا اسلوبیاتی مطالعہ کچھ اس طرح پیش کیا، جو نیا بھی ہے اور اس میں جملوں کو تولنے کا عمل بھی نظر آتا ہے۔ تجنیس صوتی، صوتی رمزیت، تکرار اور تقلیب اور عکس ِتقلیب نامی اصطلاحوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بہترین تجزیے کرتے ہیں۔ اس طریقۂ کار سے اندازہ ہوتا ہے کہ مطالعے کا یہ رویہ فقط لسانیات سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی فقط موضوعاتی سروکار سے۔پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ نے اس انداز سے معدودے چند افسانہ نگاروں کا مطالعہ کیا ہے۔ اب رہا مسئلہ چہارم کہ اسلوب ومعنی کو باہم مربوط کرتے ہوئے اسلوبیاتی مطالعہ کا طریقہ کیسا ہے۔ میرے لحاظ سے اسلوبیاتی مطالعے کا یہ طریقہ کار سب سے بہتر ہے۔ کیوں کہ اس طریقے میں اسلوب کا مسئلہ اکہرا نہیں رہتا۔ اسلوب کبھی موضوعاتی تنوع سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ کبھی معنیاتی نظام میں مدغم ہوجاتا ہے۔ کبھی اسلوب کا ڈانڈا لسانیات سے مل جاتا ہے۔ گویا اسلوب ومعنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلوبیاتی مطالعہ کریں ہم تو بہتر طور پر اسلوبیاتی مباحث پیش کرسکتے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ ہر قدم پر اسلوب ومعنی کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، چاہے وہ میر کا مطالعہ کریں یا پھر بید ی کا۔
کتاب ’’ اردو ناول کے اسالیب ‘‘ میں اسلوبیاتی مطالعے کا انداز اکہرا نہیں ہے۔ کیوں کہ شہاب ظفر اعظمی نے اسلوبیاتی معاملات کو ادبی تنقید میں مدغم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں ’’اسلوبیات کو ادبی تنقید میں ضم کرکے پیش کرنا پسند کرتا ہوں۔ اس لیے زیر نظر مقالے ’’اردو ناول کے اسالیب‘‘ میں اسلوبیات اور ادبی تنقید کو ملا کر گفتگو کی گئی ہے‘‘۔ان جملوں سے ڈاکٹر اعظمی کا طریقۂ مطالعہ از خود سامنے آجاتا ہے۔ انھوں نے پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ سے تھوڑا اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’نتیجہ یہ ہے کہ ان کا اسلوبیاتی مطالعہ زیادہ تر لسانیاتی مطالعہ کی صورت میں سامنے آتا ہے جو ناول جیسے بسیط فن پارے کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ناول محض زبان اور الفاظ کے استعمال کا نام نہیں اور نہ ہی ناول نگار یہ سوچ کر لکھنے بیٹھتا ہے کہ میں اس ناول میں یہ زبان استعمال کروں گا،اتنے مصمتے لاؤں گا، مصوتوں کی تعداد اتنی ہوگی،ہاکاری اور غیر ہاکاری الفاظ یوں ہوں گے اور جملوں کی نحوی یا صرفی ترکیبوں پر یوں پہرے بٹھاؤں گا‘‘۔ ( اردو ناول کے اسالیب ، ص 23)
راقم کا بھی یہی خیال ہے کہ اسلوبیات کو محض لسانیات کی شاخ تسلیم کرلینا بہتر نہیں۔ ادبی تنقید اور لسانیاتی معاملات کے درمیان سے مطالعے کا ایک نیا طریقہ دریافت کرنا ہی دراصل اسلوبیاتی مطالعہ ہے۔ اس لیے خالص ادبی تنقید کے رویوں کو اسلوبیاتی مطالعہ کہنا بہتر ہے اور نہ ہی لسانیاتی بحث کو۔اسی طرح یہاں یہ معروضہ بھی قابل ذکر ہوسکتاہے کہ تشکیل اسلوب میں تخلیق کار کی زندگی کے معاملات دخیل ہوتے ہیں۔ یعنی فقط سامنے کے الفاظ کے مدنظر اسلوب کی بحث مناسب نہیں ۔ جس طرح ایک نفسیاتی ناقدکو تخلیق کار کی زندگی میں اترنے کی اجازت ہے، اسی طرح اسلوبیاتی ناقدین کو بھی تحلیل نفسی کی اجازت ہونی چاہیے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے متعدد مقامات پر اس سے انکار کیا ہے ،حالاں کہ انھوں نے خود مولانا ابوالکلام اور دیگر تخلیق کاروں کے اسلوب کے تعین میں ان کی داخلی زندگی کو محل استشہاد کیاہے۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے مطالعے کا جو طریقہ اختیار کیا،وہ ان کے اصول سے مطابقت رکھتا ہے کہ انھوں نے ادبی تنقید اور اسلوبیات کو باہم مدغم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ ناولوں کے موضوعاتی معاملات کو پیش کر تے ہیں،وہیں اسلوبیاتی مباحث پر اپنے مطالعے کو مرکوز رکھتے ہیں۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ناولوں کے غیر اسلوبیاتی تجزیے پر جتنی توجہ دی،اُتنی ہی اسلوبیاتی تجزیے پر۔ اس لیے کبھی ان کے یہاں توضیحی اور تاریخی تجزیے کا رنگ ابھرتا ہے تو کبھی خالص اسلوبیاتی معاملات کا۔ کبھی اسلوبیاتی مطالعے کا رنگ پھیکا ہوگیا ہے تو کبھی دیگر تجزیاتی معاملات کا۔لیکن ان کا معاملہ ڈاکٹر طاہرہ اقبال سے بالکل منفرد ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اکثر مقامات پر موضوع کو اسلوب میں گڈ مڈ کردیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں اسلوبیاتی مطالعہ کا رنگ واضح ہوپا تاہے اور نہ ہی موضوع و توضیح کا۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے ناولوں کے ادبی تجزیے کے بعد لازمی طور پر اسلوبیات کی بحث کی ہے۔ اس لیے ان کے تجزیوں میں ہر رنگ کو الگ الگ دیکھا جاسکتا ہے۔اگر ان کے یہاں تجنیس صوتی، عکس ِ تقلیب، صوتی رمزیت اور دیگر اصطلاحوں کو جملوں پر منطبق کرنے کا عمل شامل ہوتا تو شاید ان کا مطالعہ اور بھی زیادہ پرکشش ہوتا۔
یوں تو ڈاکٹر اعظمی نے قدیم وجدید پچھتّر ناولوں پر بحث کی ہے اور ان کے اسالیب کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔یہاں پر ان تمام ناول نگاروں کے اسالیب کی جھلکیاں بھی پیش نہیں کی جاسکتیں۔ اس لیے فقط چند معاصر فکشن نگاروں کے اسالیب کے تعلق سے انھوں نے جو رائے پیش کی، اس پر نگاہ ڈالی جائے گی۔ڈاکٹر اعظمی نے لکھا ہے ’’دو گز زمین‘‘ کا اسلوب شاعرانہ کیف وکم سے بالکل خالی اورسادہ وسلیس ہے ۔ کیوں کہ عبدا لصمد بناوٹی سجی سجائی یا شعری زبان کو فکشن کے لیے سم قاتل سمجھتے ہیں۔ ‘‘اسی طرح انھوں نے پیغام آفاقی کے ’’مکان ‘‘کی خامی یہ بتائی کہ کرداروں کا اندرونی ہیجان اسلوب کو کچھ کمزور کردیتا ہے۔ حسین الحق کے تعلق سے لکھا ’’حسین الحق نے ناولوں کی نثر کو دلکشی اور تاثیر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے شعری زبان کے علاوہ خوبصورت اشعار یا مصرعوں سے بھی کا م لیا ہے۔‘‘رہی بات غضنفر کی تو ان کی اجتہادی روش، مترادفات اور علامات واستعارات کو انھوں نے ان کی خوبی بتایا ہے۔
جن لوگوں نے ان تخلیق کاروں کے فکشن کا مطالعہ کیا ہے وہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی مذکورہ رائے سے بڑی حد تک متفق ہوں گے۔ سچی بات ہے کہ سادگی میں پر کاری پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگر شاعری کی بات کریں تو میر تقی میر کی سادگی میں پرکاری کی دنیا آباد ہے۔ اسی طرح غالب کے خطوط کی سادگی بڑی معنی خیز ہے۔ معاصر فکشن میں پیغام بھی بالکل سادہ زبان استعمال کرتے ہیں اور عبدالصمد بھی،یا پھر غضنفر بھی بیش تر مقامات پر سادگی اختیار کرتے ہیں۔پیغام آفاقی کی سادہ زبان میں کرداروں کی خود کلامی یا فلسفیانہ جملے ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کی سادگی بہاؤ کے ساتھ ان کے فکشن کو دل کش اسلوبیاتی پیراہن عطا کرتی ہے لیکن بیش تر مقامات پر عبدالصمد کی سادگی میں کوئی خصوصیت نظر نہیں آتی، بلکہ صحافتی انداز واضح ہوتا ہے اور اردو کے عام قاعدے سے ان کی زبان مختلف نظر آتی ہے۔ ایک اقتباس دیکھیں:
’’کانگریس کے مسلمانوں کی حالت عجیب ہوگئی تھی۔۔۔ لطف کی بات یہ تھی مسلمان لیڈر اور کارکن صرف ہندو علاقے میں ہی جاسکتے تھے، کیوں کہ جب بھی انھوں نے مسلمان علاقوں میں جانے کی کوشش کی،ان کا استقبال لاٹھیوں اور بھالوں سے کیا گیا۔‘‘(دو گز زمین، ص16)
اس مختصر اقتبا س میں ہم عبدالصمد کے جملوں کی ساخت اور قاعدے سے انحراف کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اگر کسی کلیے اور قاعدے سے انحراف کے بعد زبان میں جدت،زور یا حسن پیدا ہوتو اس انحراف کا استقبال کیا جاسکتاہے ۔ جب کہ عبدالصمد کے یہاں ایسی کوئی کیفیت نظر نہیں آتی۔ مثلاً:’’کانگریس کے مسلمانوں‘‘ کو ’’کانگریسی مسلمان‘‘لکھنا بہتر تھا۔ اسی طرح مسلمان لیڈر اور مسلمان علاقہ کے بجائے ’’ مسلم علاقے‘‘ اور ’’مسلم لیڈر‘‘ لکھنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ بھی ایک قاعدہ ہے کہ ’’جب‘‘ کے ساتھ کسی جملے کی شروعات کی جائے تو اکثر ’’تب یا تو‘‘ کے بعد دوسرا جملہ لکھا جائے گا۔اس طرح دو جملے مل کر ایک جملہ تیار ہوگا مگر عبدالصمد کے مذکورہ اقتباس میں یہ اصول اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ ایک ہی صفحے سے مذکورہ تینوں مثالیں ماخوذ ہیں۔ اگر گہرائی سے اس ناول کا مطالعہ کیا جائے تو قدم قدم پر ایسے جملے نظر آئیں گے۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کے مقالے میں بہت سے ایسے اقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ناول کا تجزیہ کیا ہے۔
الغرض عبدالصمد کی زبان بالکل سپاٹ یا صحافتی زبان محسوس ہوتی ہے۔ صحافتی بیانیہ سے فقط ترسیل ہی مقصود ہوتا ہے ، نہ کہ کوئی تخلیقی معاملہ۔ عبدالصمد بھی شاید ترسیلی معاملات سے عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ تخلیق میں صحافتی رویوں کو شامل کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں تہہ داری اور لسانی خصوصیت نہیں اسی لیے وارث علوی نے لکھا کہ اگر ایسی زبان کوئی آٹھویں جماعت کا بچہ بھی لکھے تو بینت سے پھٹکار دوں۔ ڈاکٹر شہاب ظفرنے اسلوبیاتی سطح پر ناول نگاروں کی جو خصوصیات پیش کیںان میں سچائی اور ادّعایت نظر آتی ہے مگر عبدا لصمد کے متعلق قائم کی گئی رائے سے کم از کم مجھے اتفاق نہیں۔یہ ضرور ی نہیں کہ جو رائے مجھے پسند نہیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں! اب یہاں ہم شہاب ظفر اعظمی کا ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس سے ان کا اندازِ مطالعہ ہمارے سامنے آئے گا:
’’مکان ‘‘ بوجھل پن کے باوجود زبان وبیان کی ایسی خوبیاں رکھتا ہے،جو قاری کو متاثر کرتی ہیں اور مصنف کی زبان وبیان پر قدرت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ اس میں نثر کے مختلف اسالیب کا سہارا لیا گیا ہے اور روایتی بیانیہ ،خود کلامی ، شعور کی رو ، مابعد الطبیعات،اساطیر اور فکر وفلسفے کی مدد سے ایسا متن تیار کیا گیا ہے، جس میں فن کاری ہے۔انفرادیت ہے اور انسان اقدار کی بازیافت کا ایک روشن منور راستہ ہے۔‘‘(اردو ناول کے اسالیب ، ص 19)
پیغا م آفاقی کا ناول ’’ مکان ‘‘ جس نے بھی پڑھا ہے وہ مذکورہ جملوں سے کلی اتفاق کرے گا۔ کیوں کہ شہاب ظفر اعظمی نے پیغام کے لسانی معاملات اور دیگر انفرادی پہلوؤں کی طرف قابل ذکر اشارے کیے ہیں۔اس ناول کے علاوہ انھوں نے ناول ’’فائر ایریا‘‘ کی مقاومیت اور لسانی تناظرات پر جو بحث کی وہ بھی قابل قدر ہے ۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اسالیب میں جہاں تخلیق کار کی داخلی کیفیتوں کو دخیل تسلیم کیا؛وہیں عہد کی نیر نگیوں، خانہ جنگیوں،سیاسی شکست وریخت اورزمانے کے دیگر محرکات کو اسلوب کی تشکیل میں اہم گردانا ہے۔ظاہر ہے اگرتشکیل ِ اسلوب میں مذکورہ عوامل ومحرکات اہم ہیں تو اسلوب میں نفسیاتی عمل دخل سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ تخلیق کار جس طرح شعوری اور لاشعوری طور پر موضوعات کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح اسلوب اور لفظیات کو استعمال میں لاتا ہے ۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے یہاں اسلوبیاتی مطالعے کے نام پر فقط موضوعاتی تجزیہ موجود نہیں ہے۔ انھوں نے جہاں ادبی تنقید کے دیگر رویوں کو بروئے کار لایا،وہیں تجزیوں میں اسلوبیاتی معاملات سے رشتہ استوار رکھا۔اگر وہ اسلوبیاتی معاملات کو اور واضح کرتے؛یا پھر موضوعاتی بحث/ ادبی تنقید کے رویوں سے کم سروکار رکھتے تو ان کے اسلوبیاتی مطالعے کی مزید اہمیت ہوتی۔لیکن یہی کیا کم ہے کہ انھوں نے دیگر اسلوبیاتی ناقدوں سے زیادہ اولعزمی کا مظاہرہ کیا اور ناول جیسے بسیط فن کو اسلوبیاتی مطالعے کے لیے منتخب کیا۔ کوئی پچھتّر ناولوں کا اسلوبیاتی مقام متعین کرناکوئی آسان کا م نہیںمگر ڈاکٹر اعظمی نے سلیقہ مندی سے ایک اہم فریضہ انجام دیا ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں