(افسانہ)
آس پاس کہیں
ہندی سے ترجمہ: رضوان الدین فاروقی
کل رات ایک خواب دیکھا۔ میں اپنے جسم کے اندر قید ہوگیا ہوں۔ میرا جسم سو رہا ہے۔ میں اسے اندر سے ٹھوکریں مار مار کر جگانے کی کوشش کررہا ہوں۔ جسم سویا پڑا ہے اور میں اپنے ہی جسم کے اندر تڑپ رہا ہوں؛ سانس کی نلی کے آس پاس کہیں۔
بابا نے کہا تھا کہ جب بڑا ہوگا تو میں تجھ سے کچھ بھی نہیں کہوں گا۔ تب جو مرضی آئے وہ کرنا۔ میں نے سوچا تھا بس ایک بار بڑا ہوجاؤں پھر دیکھنا دن بھر کھیلتا رہوں گا۔ پتنگ اڑاتا رہوں گا۔ کوئی پڑھائی کی بات بھی کرے گا تو اسے ایک لات ماروں گا؛ کولہے کے آس پاس کہیں۔
اماں بہت دیر تک نیل کنٹھ کو تلاشتی رہتی تھیں۔ صبح اٹھتے ہی پیڑ پیڑ تلاشتی رہتیں۔ نیل کنٹھ نظر آتے ہی اس پیڑ کے چکر کاٹتیں اور بڑبڑاتی جاتیں، ’نیل کنٹھ تم نیلے رہیو، میری بات رام سے کہیو۔ رام سوئے ہوں تو جگا کر کہیو۔‘ کبھی نیل کنٹھ بات کے درمیان میں اڑ جاتا تو کبھی وہ دیر تک اماں کو تکتا رہتا۔ کچھ دن پیڑ پیڑ نیل کنٹھ کی تلاش میں، میں بھی اماں کے ساتھ گیا ۔ میں نے اماں سے ایک بار کہا کہ ایسی کون سی بات ہے جو آپ رام سے کہنا چاہتی ہیں؟ اماں نے ایک زور کی چپت لگائی ؛ کان اور گال کے آس پاس کہیں۔
میں اگر نیل کنٹھ ہوتا تو کیا کرتا؟ اماں کی بات سن کر میں رام کے پاس جاتا اور کہتا کہ ایک بوڑھی عورت جو لگاتار بوڑھی ہوتی جارہی ہے، وہ ایک بات مجھ سے کہتی ہے کہ میں آپ کو آکر کہہ دوں۔ لیکن ہر بار وہ بات مجھے نہیں بتاتی کہ میں اس کی کون سی بات آپ کو آکر بتا دوں۔ لیکن اگر میں نیل کنٹھ ہوتا تو پیڑ پر نہیں بیٹھتا۔ پیڑ پر بیٹھنے سے بار بار رام کے پاس جانے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ۔ میں مکانوں پر بیٹھتا؛ کایا کے مکان کے آس پاس کہیں۔
کایا کے مکان کی چھت سے بازار نظر آتا ہوگا، کیوں کہ میں جب بازار میں گھومتا ہوں تو مجھے بازار سے کایا کے مکان کی چھت نظر آتی ہے۔ کایا کا مکان بہت سارے مکانات سے گھرا ہواہے جیسے کایا بہت سارے لوگوں سے گھری رہتی ہے۔ کایا کے مکان تک پہنچنے میں بہت سے بازاروں اور گھروں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ تب بھی وہ مکان کبھی تنہا نہیں ملتا۔ وہ بہت سارے مکانات سے گھرا ہوا مکان ہے جیسے کایا۔ کایابہت سے لوگوں کے قلعے میں قید ہے۔ اس تک پہنچنا ناممکن ہے۔ مجھے پیپل کا پیڑ بہت اچھا لگتا ہےجو ندی کے کنارے قلعے کے اوپر اُگا ہوا ہے۔ میں نے کئی بار خواب دیکھا ہے کہ میں پیپل کا پیڑ ہوں اور کایا میری پرچھائیں کے اندر کہیں بیٹھی ہوئی ہے۔ اور جب وہ میرے پیڑ کی چھاؤں تلے سوجائے گی تب میں اس کے گھر میں داخل ہوؤں گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھپ جاؤں گا؛ اس کے بستر کے آس پاس کہیں۔
دن میں بازار گھومتے ہوئے اچانک جیون نظر آیا۔ جیون خانہ بدوش ہے۔ جیون اپنا گھر بہت پہلے چھوڑ چکا ہے۔ اس کی قمیص سے پسینے کی بدبو آتی ہے۔ وہ جب بھی ملتا ہے مجھ پر تھوڑا ہنس لیتا ہے۔ میں کئی بار بیچ سڑک چھوڑ کر گلیوں میں چھپ جاتا ہوں۔ جیون کا سامنا کرنے سے میں گھبراتا ہوں۔ جیون کی عمر میری عمر کے آس پاس ہی کہیں ہے۔ وہ ہمیشہ اچانک مجھ سے ٹکرا جاتا ہے، کہتا ہے کہ چلو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ میں اس کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھتا ۔ میں اس سے کھڑے کھڑے بات کرتا ہوں۔ کھڑے کھڑے بات کرنے میں نقل و حرکت ہوتی رہتی ہے جس سے میں ہمیشہ پرسکون رہتا ہوں۔ بیٹھ کر بات کرنے میں ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ بیٹھ کر بات لمبی چلتی ہے، پھر کھڑے ہونے کی راہیں تلاشنا پڑتی ہیں۔ بیٹھ کر بات کرنے میں بہت دیر کھڑے ہوکر بھی بات ہوتی رہتی ہے۔ بیٹھے بیٹھے آپ سیدھے جا نہیں سکتے جب کہ کھڑے کھڑے بات کرنے میں آپ سیدھے کہیں جاسکتے ہیں۔ جیون بٹھا کر بات کرنا چاہتا ہے اور میں کھڑے کھڑے چل دیتا۔ جیون نے ملتے ہی سیدھے بات چیت شروع کی۔
’چلو بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔‘
میں کھڑا رہا۔ ’میں نہیں بیٹھوں گا‘ کی ضد سمجھ کر جیون کھڑے کھڑے بات کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ کھڑے کھڑے بات کرنے میں وہ ہکلانے لگتا تھا۔
’تو زندگی کیسی گزر رہی ہے؟‘ اس نے پوچھا۔
’کٹ رہی ہے۔‘ میں نے کہا۔
’تم کہیں جانے والے تھے؟‘
’ہاں، ارادہ بدل گیا۔‘
’جسم میں من ٹھیک ٹھیک کہاں ہوتا ہے جانتے ہو؟‘
’دل کے آس پاس کہیں۔‘
’نا۔‘
’پھر کہاں ہوتا ہے من؟‘
’جس جگہ سے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوتے ہیں، اس کے آس پاس کہیں۔‘
میں حیرت زدہ اسے دیکھتا رہا۔ ’کسی کام سے کہیں جلدی پہنچنا ہے‘ کے بہانے میں ڈھونڈنے لگا۔ پھر اچانک ایک سوال یاد آیا۔
’اور رونگٹے کھڑےہونے کی جگہ کہاں ہے جسم میں؟‘ میں نے پوچھا۔
’جس جگہ سے جسم میں لرزہ طاری ہوتا ہے ،اس کے آس پاس کہیں۔‘
میں چپ ہوگیا۔ میں جانتا تھا کہ اس طرح کی باتوں کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔ جیون میرے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو جیب میں ڈال لیا۔ میں سچ میں کپکپاہٹ محسوس کررہا تھا، اپنی پیٹھ کے آس پاس کہیں۔ پھر میں سوچنے لگا کہ یہ جسم کے کس حصے سے اٹھ رہی ہے؟
’تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہا؟‘ جیون بولا۔
’کس بارے میں؟‘ میں نے پوچھا۔
’کہ تم کہیں جانے والے ہو؟‘
’میں ہمیشہ سے کہیں چلے جانا چاہتا ہوں۔‘ اس بار میں سچ بولنے پر آمادہ تھا۔
’تو؟‘
’تو کیا؟‘
’تو گئے کیوں نہیں؟‘
’جسم نے ساتھ نہیں دیا۔‘
’تم تو کہہ رہے تھے ارادہ بدل گیا۔‘
’من جسم ہے۔‘
’ابھی بھی کہیں جانا چاہتے ہو؟‘
’ہاں، ابھی ٹھیک اسی وقت میں کہیں چلے جانا چاہتا ہوں۔‘
’کہاں؟‘
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس بار مجھے کوئی بہانہ نہیں بنانا پڑا، جیون میرے سامنے سے مسکرا کر چل دیا۔ میں بازار میں تنہا کھڑا رہا۔ جیون جا چکا تھا۔ ’کہاں جاؤں گا‘ کا جواب میں نہیں دے پایا۔ میں آگے بنا کسی سمت کے چلنے لگا۔ کہاں جانا چاہتا ہوں میں۔ میں اس وقت کہاں جا رہا ہوں مجھے یہ بھی نہیں پتہ۔ بازار پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو قلعے کے پاس، پیپل کے پیڑ کے نیچے پایا۔ نیچے ندی بہہ رہی تھی۔ تبھی مجھے جواب مل گیا، میں جانا چاہتا ہوں؛ ندی کے آغاز کے آس پاس کہیں۔
اماں صبح صبح نیل کنٹھ کی تلاش میں چلی جاتیں، بابا گھر کی دیوار کے پیچھے پیشاب کرنے۔ مجھے ان کو سہارا دینا ہوتا تھا۔ سو میں نیل کنٹھ کی سالوں کی تلاش میں کبھی کبھی اماں کا ساتھ نہیں دے پاتا تھا۔ بابا پیشاب کرتے ہوئے خستہ حال اور قابل رحم لگتے تھے۔ سو میں ان کی طرف کم ہی دیکھتا تھا۔ میں اس وقت آسمان تکتا تھا جہاں صبح ہونے کا جشن ہوتا تھا۔ بابا کہتے، ’اوپر کیا دیکھتا ہے ! زمین پر سے نگاہ کبھی مت ہٹانا ورنہ کب ٹھوکر کھاکر گروگے پتہ بھی نہیں چلے گا۔‘ بابا کی ساری نصیحتیں جیسے ہم جی نہیں رہے ، کوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہارے تو موت۔ بابا بہت ڈرے ہوئے رہتے تھے۔ وہ گھر میں آئے ہر آدمی کو دشمن کا آدمی تصور کرتے تھے۔ کچھ لوگ جب گھر کے سامنے سے تیزتیز باتیں کرتے ہوئے گزرتے تو بابا ہوشیار ہوجاتے۔ انھیں لگتا کہ ان لوگوں کی بات میں کوئی کوڈ چھپا ہے۔ وہ گھر کی دیوار پر کان لگا کر سنتے۔ دور سے دیکھتے ہوئے لگتا کہ بابا دیوار سے کان کھجا رہے ہیں۔ ’وہ بہت چالاک ہے‘ یہ وہ کسی بھی نئے آنے والے کو، اپنے دوسرے یا تیسرے جملے میں ہی بتا دیتے تھے۔ نیا آنے والا زیادہ تر میرا کوئی دوست ہوتا جو مجھے تکتا رہتا۔ اکلوتا ہونا کئی بار بہت بھاری پڑ جاتا تھا۔ بابا مجھے چالاک بنانا چاہتے تھے اور اماں نیل کنٹھ۔ اماں بابا دونوں کی توقعات کا بوجھ اٹھانے کے لیے ہمیشہ کندھے کمزور پڑ جاتے۔ جب بھی کندھوں کو سیدھا کرنے کا جی چاہتا میں چل دیتا؛ کایا کے گھر کے آس پاس کہیں۔
ایک دن کایا اکیلی بازار میں نظر آئی۔ میں بہت دیر تک اس کے آس پاس تلاشتا رہا کہ وہ کسی کے ساتھ ہوگی۔ اکیلی کایا! میں ہمیشہ تصور میں یہ سب سوچتا تھا۔ مجھے پیپل کا پیڑ یاد آگیا اور یاد آیا کایا کا اس کے نیچے سوجانا۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ شلوار سوٹ کی دکان میں گھس گئی۔ میں باہر اس کا انتظار کرنے لگا۔ تبھی پیچھے سے مجھے جیون کی آواز آئی۔
’ارے! تم یہاں! چلو بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘
میں نے جیون کو غصے سے دیکھا۔ جیون کچھ دیر میرا غصہ میری آنکھوں میں پڑھتا رہا۔ آخر میں نے ہی آنکھیں ہٹا لیں۔ کایا کو دیکھا وہ ابھی بھی بہت سے شلوار سوٹ میں اپنی پسند تلاش رہی تھی۔ تبھی میرے کان میں کسی کے سانس لینے کی آواز آئی۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا۔ جیون میری بغل میں کھڑا تھا اور سرگوشیوں میں مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا۔
’تم ایک پتھر چھوڑتے ہو تو دوسرا اٹھا لیتے ہو۔ بھاری پتھروں کو ڈھوتے رہنا تمھاری عادت ہے جس سے تم باز نہیں آتے ۔ ہلکے رہو۔ چھوڑو پتھر۔‘
’ تم وہ بچے ہو جو آخر میں اپنی ماں کو بچا لینا چاہتا ہے۔ اپنی قبر میں لیٹے رہنے کے خواب دیکھتے ہو، مگر اِدھر اُدھر کے گڈھوں سے بچتے پھرتے ہو۔‘
تبھی کایا اس دکان سے باہر نکلی۔ میں جیون کو چھوڑ کر الگ کھڑا ہوگیا جیسے اسے جانتا ہی نہ ہوں۔ کایا دو قدم دکان سے نیچے اتری تھی کہ اس کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ وہ رک گئی۔ وہ مجھے دیکھے جارہی تھی جیسے بہت پہلے سے جانتی ہو۔ تبھی مجھے اس کے پیچھے ابھی ابھی اُگا پیپل کا پیڑ نظر آیا۔ وہ اچانک شرما گئی اور نگاہیں نیچے کیے بازار کی گلیوں میں گھس گئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو جیون غائب تھا۔ میں وقت گنوائے بغیر کایا کے پیچھے ہو لیا۔ کایا کچھ دیر بعد بازار سے الگ ہوگئی اور ایک سنسان گلی میں داخل ہوگئی۔ میں اب تک کایا کے بہت پیچھے تھا۔ میں نے اپنی رفتار بڑھائی۔ اس سنسان گلی کے موڑ پر کایا رک گئی۔ میں رکتے رکتے اس کے قریب کہیں رک گیا۔ کایا پلٹی۔
’کیا ہے؟‘ کایا نے پوچھا۔
’تمھارا نام کایا ہے نا؟‘ میں نے پوچھا۔
’نہیں۔‘ اور وہ ہنسنے لگی۔ فلموں میں جیسے ہیروئن کی سہیلیاں ہنستی ہیں، ٹھیک اسی طرح۔
’مجھ سے دوستی کروگی؟‘
’نہیں، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ امتحان سر پر ہیں۔ بہت پڑھنا پڑتا ہے۔‘
’ٹھیک ہے۔‘ میں فوراً مان گیا۔
’تمھارا نام کیا ہے؟‘ اس نے پوچھا۔
’جیون۔‘ میں نے جیون کیوں کہا۔ میرا نام جیون نہیں ہے۔ اوہ! اوہ!
’جیون۔ اچھا نام ہے۔‘
یہ کہہ کر وہ چل دی۔ میں نے سوچا بس یہی ہے اپنے پیار کی پہلی ملاقات؟ بس اتنی ہی؟ نہیں، کچھ اور بھی ہے اس میں ۔ میں کایا کے پیچھے ہو لیا۔
کچھ گلیوں تک کایا مجھے پیچھے پلٹ کر دیکھتی رہی۔ پھر وہ ایک بازار میں نکل آئی۔ میں بازا میں کایا کے بہت قریب آگیا اور بھیڑ کی آڑ میں اس کا ہاتھ چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ کایا میرے ہر لمس پر فلم کی ہیروئنوں کی طرح ہنسنے لگتی۔ اس چھونے چھانے کے درمیان میں بہت دیر تک اس مفہوم کو تلاشتا رہا جسے پیار کہتے ہیں مگر اس پیار نام کے خیال کی جسم میں کہیں بھی ہلچل نہیں ہورہی تھی۔ پھر پتہ نہیں کب کایا اپنے گھر کے قریب پہنچ گئی ۔ تبھی اس نے اپنی چال کی رفتار بڑھائی اور دو مسٹنڈے نوجوانوں کو بھائی بھائی کہہ کر مخاطب کیا۔ میں اپنی ڈرپوک ہوشیاری پر دنگ رہ گیا۔ کایا کی پیٹھ میری طرف یعنی بازار کی طرف تھی لیکن اس کے دونوں بھائیوں کی آنکھیں بھیڑ میں کسی کو تلاش رہی تھیں۔ میں شروع سے ہی خطرے کو بھانپ لیتا تھا۔ کایا پلٹی اور اس نے سیدھے مجھے دیکھا، اور ایک شریر مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آگئی۔ کایا نے ہاتھ کے اشارے سے اپنے بھائیوں کو بازار کی بھیڑ کی طرف دھکیل دیا۔ کایا نے ٹھیک میری طرف اشارہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بھائی بھیڑ کو چیرتے ہوئے گھسے اور جو بھی جوان لڑکا نظر آیا ،اس کو تھپڑ رسید کرنے لگے۔ دو تین تھپڑ مجھے بھی پڑے۔ دونوں بھائی’جیون کون ہے؟‘ نام کی رٹ لگا رہے تھے۔ میرے کان اور گال سن تھے۔ دماغ کے اندر کوئی سائیں سائیں لفظ کی تسبیح پڑھ رہا تھا۔ کچھ وقت بعد میں نے خود کو اپنے بستر میں پست پایا۔ کایا، کایا نہیں مایا نکلی۔ ان سب میں محبت کہاں تھی! کشش تھی… ہاں کشش۔ جب کایا بہت غصے سے میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی تو میں سب سے زیادہ اس کے لیے کشش محسوس کررہا تھا۔ تبھی، ٹھیک اسی وقت میں نے پہلی بار ہلچل محسوس کی اپنی دونوں جانگوں کے درمیان کہیں۔
میرے بابا نے کئی بار پیشاب کرنے جانے کے لیے گھنٹی بجائی اور ہر بار میں ہی انھیں پیشاب کرانے پیچھے لے گیا۔ بیت الخلا میں وہ ایک بار گر چکے تھے جس کی وجہ سے ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ اس وجہ سے وہ بیت الخلا میں پیشاب کرنے سے گھبراتے تھے۔ ہر گھنٹی پر میری دید ان کی عادت میں شمار نہیں تھی۔ چوتھی بار جب وہ پیشاب کررہے تھے اور میں بنا بادل کے آسمان میں کایا کو تلاش رہا تھا تو انھوں نے کہا،’جوانی میں باپ کی اتنی خدمت خطرناک ہے۔‘
’کس کے لیے؟‘ میں نے پوچھا۔
’کس کے لیے مطلب؟‘
’کس کے لیے مطلب، میرے لیے یا آپ کے لیے؟‘
بابا غرائے۔ ان کے منھ سے جھاگ نکلنے لگا۔ وہ جب بھی غصے میں ہوتے تھے تو ان کے منھ سے جھاگ نکلنے لگتا تھا۔ میں نے ان کی جیب سے رومال نکالا اور جھاگ صاف کیا۔ ان کا غصہ ان سے بہت کچھ کہلوانا چاہتا تھا مگر عمر کے کئی پڑاؤ پار کرنے کے بعد وہ اب ایک سمت میں چلنا بھول چکے تھے، ایک بات پر بہت دیر تک قائم رہنا بھی۔ وہ کبھی کبھی غصے میں مجھ سے کہتے تھے، ’بیٹا بہت مشکل زندگی تھی۔ آج سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘ پھر میرے چہرے پر کوئی بھی تاثر نہ پاکر مجھ پر برس پڑتے۔ آج میں سوچتا ہوں تو میرے پاس کتنے ہزاروں قصے ہیں ان کے بارے میں، جو لوگ بہت غربت اور بے کاری میں زندگی جی رہے تھے۔ نندو کا باپ پہلے ٹھیلا لگاتا تھا، آج اس کی دکان ہے۔ چیرو کا باپ مل میں مزدور تھا، آج وہ ہول سیل کا بڑا بیوپاری ہے۔ رامو کا باپ، رامو کاکا ہمارے گھر میں نوکر تھا، آج رامو ہمارے گھر میں نوکر ہے۔ یہ جدو جہد تھوڑٰی مختلف ہے اور اس جدو جہد کا چشم دید گواہ میں خود ہوں۔ رامو (یعنی رامو کاکا کا بیٹا) دونوں آوازوں پر حاضر ہوتا ہے ۔ اگر آپ ’رامو‘ چلاؤ تب بھی اور اگر ’رامو کاکا‘ چلاؤ تب بھی۔ گھر والوں کو رامو کاکا پکارنے کی عادت ہے۔ رامو اس عادت کو سمجھتا ہے۔ خود کو اپنے نام سے پکارے جانے کی ضد نہیں کرتا ہے۔ اصل میں رامو کاکا کا نام بلویندر سنگھ تھا۔ لیکن نوکروں کے اس وقت کے پاپولر ناموں میں سے رامو سب سے اونچے پائیدان پر تھا سو بلویندر رامو ہوگیا۔ رامو کاکا کو شاید آجکل کے نوکروں کے نام پسند نہیں آتے تھے۔ اس لیےانھوں نے اپنے بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس کا نام رامو رکھ دیا۔ رامو کی عمر اور میری عمر تقریباً برابر ہے۔ بابا کو مجھ سے زیادہ رامو کی شادی کی فکر کھائے جاتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ گاؤں کی ایک ایسی عورت ڈھونڈ کر لائیں جو رامو کا دماغ خراب نہ کرے، اور رامو اپنا بچہ ہونے پر اس کا نام رامو ہی رکھے۔ بچپن میں رامو گھر کا سارا کام نپٹا کر شام کو میرے ساتھ کھیلنے کی لیے تھوڑا سا وقت نکال لیتا تھا۔ وہ میرے ساتھ کھیلتا بھی کسی کام کی طرح تھا۔ اگر تھک جاتا تو رکتا نہیں تھا،کھیلتا رہتا۔ غلطی سے اگر جیت جاتا تو معافی مانگ لیتا۔ ایک بار رامو اور میں ’بڑے ہوکر کیا بنیں گے کا خواب‘ والا کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے اس وقت سارے پاپولر خواب رامو کو گنوا دیے اور رامو نے کہا کہ وہ ٹرین چلانا چاہتا ہے۔ میں خاموش رہا۔ بس اس کا یہی خواب تھا۔ خواب سناتے وقت اس کی آنکھوں میں ایک گہری چمک تھی جس سے مجھے آج تک جلن محسوس ہوتی ہے۔ میں نے اس کے بعد اس کے ساتھ کھیلنا بند کردیا۔ میں آج تک اپنے خواب جیسا کچھ بھی نہیں بن پایا، پھر بھی میں نے رامو کو ہرا دیا مگر آج بھی جب میں ٹرین دیکھتا ہوں تو اندر کہیں کوئی چیختا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ یہاں سے کہیں دور چلا جاؤں جہاں ٹرین نہ چلتی ہو اور جہاں رامو کبھی نہ دکھے۔ اپنے آپ سے یہ میں کہتا بھی اس لیے ہوں کہ خود کو رامو سے بڑا محسوس کر سکوں۔ رامو خاموش رہتا ہے اور اس کی خاموشی چبھتی ہے؛ آنکھوں اور کانوں کے درمیان کہیں۔
میں جیون سے بھاگ رہا تھا کیونکہ جیون کو کایا کے دونوں بھائیوں نے مل کر بہت مارا تھا۔ جیون نے مجھے کایا کو تاکتے دیکھا تھا۔ جیون اندازہ لگانے کے بعد، اپنے پٹنے میں میرے ہاتھ ہونے کے فیصلے تک پہنچ چکا تھا۔ جیون کی ایک آنکھ کالی ہوچکی تھی اور گہری چوٹ لگی تھی؛ کہنی اور کندھے کے درمیان کہیں۔
میں دونوں چیزوں سے بھاگ رہا تھا۔ ایک جیون، جو میرا خانہ بدوش اور مفلس دوست تھا اور دوسری میری زندگی جو تنگ دستی و مفلسی میں گزر رہی تھی۔ میرے خود کے خوف نے میری ہی زندگی کو کچھ اس طرح کا بنا دیا تھا کہ میں خود میں قید ہو کر رہ گیا تھا اور زندگی باہر میری منتظر تھی۔ من ہی من میں بھی منتظر تھا، کسی انہونی کا۔ کچھ ایسا ہوجائے ، چاہے غم ناک ہی سہی جو زندگی کی اس رفتار کو بدل دے۔ میں اپنی زندگی کی اس رفتار کا عادی ہوچکا تھا۔ اتنی سہولت سے یہ زندگی اپنا بوجھ مجھ پر لادتی گئی کہ میں ہر دن ایک مصروف دن کی طرح گزارتا گیا۔ پھر ایک دن بابا نے پوچھا، ’کیا کرنا چاہتے ہو زندگی میں؟ کچھ سوچا ہے؟‘
میں سوال کا مفہوم ہی نہیں سمجھ پایا۔ کیا کیا جاسکتا ہے زندگی میں! میں نے کہا، ’میرے پاس وقت ہی کہاں ہے!‘ میرے پاس اس وقت نہیں تھا مگر اب میں زندگی کے ڈر کی وجہ سے گھر میں قید ہوں، اس لیے وقت ہے…بہت وقت۔ گھر کے باہر والے سارے کام رامو کاکا کا بیٹا رامو کرنے لگا تھا۔ تو اب زندگی میں کیا کرنا ہے، سوچا جا سکتا تھا۔ میں نے ہر بار کہیں چلے جانے کے بارے میں سوچا تھا۔ کہیں چلے جانا یا تو کسی کرشمے کے باعث ممکن ہے یا کسی انہونی کے باعث۔ میں دونوں کے انتظار میں برسوں سے تھا۔ کرشمہ ہوتا ہوا کہیں نظر نہیں آتا تھا اور انہونی جیسے ایک کتا ہو، جو گھر کے بغل والی گلی میں چکر لگاتا رہتا تھا۔ کبھی دیر رات رونے لگتا تو کبھی بھونک بھونک کر دن کھا جاتا۔ میں محسوس کر سکتا تھا کہ میری زندگی انہونی اور کرشمے کے آس پاس کہیں تھی۔
ایک دن اماں نیل کنٹھ کی تلاش سے واپس لوٹیں تو سیدھے کچن میں گھس گئیں۔ ان کی روزمرہ زندگی میں نیل کنٹھ کے بعد بابا تھے، پھر رامو کاکا۔ پھر رامو اور بعد میں، میں تھا۔ وہ نیل کنٹھ کی تلاش کے بعد اسی رفتار سے سبھی سے پوری پوری گفتگو کر لینے کے بعد گھر کے کبھی نہ ختم ہونے والے کاموں میں خود کو مصروف کر لیتی تھیں۔ لیکن آج وہ نیل کنٹھ کی تلاش کے بعد سیدھے کچن میں گھس گئیں۔ میں بہت دیر تک ان کے باہر آنے کا انتظار کرتا رہا۔ وہ وہ باہر نہیں آئیں۔ میں کچن کے دروازے کے پاس پہنچا تو اماں کی ہچکی بندھنے کی آواز آنے لگی۔ میں اندر کچن میں گیا تو دیکھا وہ گیس کی ٹنکی کے پاس بیٹھی رو رہی تھیں۔ میں چپ چاپ ان کی بغل میں بیٹھ گیا، بنا ان کو چھوئے ہوئے۔ میں نے پانی کا گلاس انھیں پکڑا دیا تھا جسے وہ ایک سانس میں پورے کا پورا گٹک گئی تھیں مگر ان کا رونا پھر بھی جاری تھا۔ آنسو نہیں آرہے تھے مگر ان کا ہچکی لینا جاری تھا۔ میں سمجھ گیا اگر میں کچن میں نہیں آتا تو اب تک اماں اپنا رونا بند کرکے گھر کے کاموں میں مصروف ہو چکی ہوتیں۔ لیکن چونکہ اب انھیں ایک تماشائی مل گیا ہے سو وہ اب اپنے رونے کو ضائع نہیں ہونے دیں گی۔ آخر میں مجھے بہت سی منتیں کرنی پڑیں۔ کافی دیر بعد انھوں نے کہا کہ نیل کنٹھ نے انھیں برسوں دھوکہ دیا ہے۔ مجھے دھوکے جیسی باتیں سننا ہمیشہ سے اچھا لگتا رہا ہے، چاہے وہ دھوکہ خود میں ہی کیوں نہ کھا رہا ہوں۔
’ اس نے کبھی بھی میری باتیں پربھو رام سے نہیں کہیں۔‘ اماں نے کہا۔
’آپ کو کیسے پتہ؟‘ میں نے پوچھا۔
’پچھلے کچھ دنوں سے مجھے روز نیل کنٹھ نظر آجایا کرتا تھا۔ میں اس پیڑ کے نیچے جاتی جس پپڑ پر وہ بیٹھا ہوتا، جیسا کہ تجھے پتہ ہی ہے، ایسا ہی تو کرنا ہوتا ہے۔‘
میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ اماں نے آگے کہا۔
’میں اس روز اس سے اپنی بات کہتی اور انتظار کرتی کہ وہ اڑ جائے پر وہ ٹس سے مس ہی نہیں ہوتا۔ مجھے لگا ناراض ہے، کچھ دیر میں اڑ جائے گا مگر کہاں۔ تھک کر مجھے ہی گھر واپس آنا پڑتا۔ آج پھر وہ مجھے وہیں نظر آگیا۔ میں سمجھ گئی اس نے میری کوئی بھی بات پربھو رام تک نہیں پہنچائی۔ میں نے پھر اپنی بات کہی، پیڑ کے تین چکر لگاتے ہوئے، مگر وہ وہیں بیٹھا رہا۔ میں نے پتھر اٹھائے، اور لگی مارنے نیل کنٹھ کو۔ وہ اڑ کر بغل والے پیڑ پر بیٹھ گیا۔ میں سمجھ گئی یہ نہیں جانے والا پربھو رام کے پاس۔ میں اس کے قریب گئی۔ اس سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی کہ اے نیل کنٹھ، اڑ کر چلے جاؤ پربھو رام کے پاس، تب اس نے اس کمبخت نیل کنٹھ نے میرے اوپر بیٹ کردی۔‘
یہ سنتے ہی میرے اندر ایک ہنسی کا غبارہ پھوٹا مگر اس وقت ہنسنا ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے میں ہنسی دبا کر رہ گیا۔
اتنا بڑا بد شگون! اب میں کبھی کسی نیل کنٹھ کی طرف نہیں جا سکتی۔ اب کبھی بھگوان رام تک میری بات نہیں پہنچے گی۔
اس بات پر میرے پاس بہت سوال تھے میری اماں سے، مگر مجھے پتہ ہے کہ میرے سارے سوالوں کے جواب ایک جھڑکی، ’تجھے کیا پتہ!‘ پر ختم کردیے جائیں گے۔ اس لیے، میں کچن سے اٹھ کر باہر چلا آیا۔ اماں شام تک اپنے رام کو بھول چکی تھیں۔ وہ روزمرہ کے کاموں میں مگن ہوگئی تھیں۔ ان کی مصروفیت دیکھ میں خود کی مصروفیت کے بارے میں سوچنے لگا۔ میں مصروف ہوں مگر اپنی پچھلی مصروفیات کے بارے میں اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ ’تم ٹھیک ٹھیک کس کام میں مصروف ہو؟‘ تو میں اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ میں اپنے سبزی لانے کو ’اپنی زندگی میں مصروف ہوں‘ کے خانے میں نہیں رکھ سکتا۔ تو میں کہاں ہوں کیا کر رہا ہوں؟ اچانک میں نے اپنی زندگی کو اپنے گھر کی چار دیواری کے آس پاس کہیں رینگتا ہوا پایا۔
کایا کے گھر کے پاس سے گزرتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی۔ بہت دنوں سے وہ نظر نہیں آئی تھی مگر پھر نظر آئے گی کی کارروائی میں، میں مصرف تھا۔ تبھی مجھے میری فضول مصروفیات سے مجھے نفرت ہونے لگی۔ مجھے لگا کہ میں رینگتا ہوا ایک غلیظ جانور ہوں جس کے ہونے پر اس جانور کو خود کو ابکائی آتی ہے۔ میں تیزی سے چلتا ہوا چوک کی طرف پہنچا۔ مجھے وہاں کایا کے دونوں جوان بھائی نظر آئے۔ میں ان کے سامنے گیا اور ان سے کہا، ’میں نے اس دن تمھاری بہن کو چھیڑا تھا، جیون نام سے۔ بولو کیا کرلوگے میرا؟‘
وہ دونوں پان کی دکان پر پان منھ میں دبائے مجھے دیکھتے رہے ۔ پھر ایک بھائی نے میرے کندھے پر دھکا دیا اور کہا، ’چل جا نکل لے ورنہ بہت پٹے گا۔ چل نکل!‘
میں وہیں کھڑا رہا۔ دونوں بھائی واپس پان کھانے میں مصروف ہوگئے۔ میں پٹنا چاہتا تھا بری طرح۔ ایک انہونی ایک اچنبھے کی تلاش میں، میں نے دوسرے بھائی کو کندھے سے پلٹایا اور ایک طمانچہ اس کے گال پر دے مارا۔
اس کے بعد سب کچھ موسیقی میں تبدیل ہوگیا۔ بہت سے گھونسے، بہت سی لاتیں، چوٹیں۔ میں پٹتا ہوا سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچا جا رہا تھا۔ ایک طرح کا رقص تھا جسے میں لوٹ پوٹ ہوکر کیے جارہا تھا۔ اچانک سب کچھ بہت سست رفتاری سے چلنے لگا۔ میں دونوں بھائیوں کے سارے وار بڑے آرام سے دیکھے جا رہا تھا۔ وہ مجھ پر وار نہیں کر رہے تھے، یہ تو میں تھا شاید جو جیسا چاہ رہا تھا ویسا وار کھا رہا تھا۔ مجھے سست رفتاری سے اپنی طرف آتے ہوئے مکے دکھائی دیے۔ لات دھول اڑاتی ہوئی میرے کولہے کے آس پاس کہیں چپک گئی۔ ان دونوں بھائیوں کے چہرے رام اور لکشمن کی طرح چمک رہے تھے۔ ان کے منھ سے غراہٹ نکل رہی تھی۔ یہ اطمینان تھا۔ نہیں، اطمینان نہیں شادمانی، بے پناہ شادمانی۔ پھر ایک کراری لات جو میرے سینے پر چپکی، میں گھسٹتا ہوا سڑک کے کنارے تک پہنچ گیا۔ وہ دونوں سڑک کے بیچوں بیچ رک گئے، دونوں تھک چکے تھے۔ موسیقی بیچ میں ہی بند ہوگئی تھی۔ میں لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔ رینگتا ہوا ان کے پاس گیا اور ایک بھائی کو پھر زور سے تھپڑ رسید کردیا۔ پھر موسیقی شروع ہوگئی۔ میں اتنا خوش کم ہی ہوا ہوں زندگی میں۔ میں چاہ رہا تھا کہ موسیقی کبھی بند نہ ہو۔ میں پٹتا جاؤں، پٹتا جاؤں۔
بابا کے لاکھ پوچھنے پر بھی میں نے نہیں بتایا کہ کس نے مجھے مارا۔ اماں چپ تھیں۔ مجھے ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگا۔ میں بہت ہی ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ چیزیں مجھے صاف نظر آ رہی تھیں۔ جب میں ٹھیک ہوا تو ایک دن بابا کے کمرے میں گیا۔ ان کے پیر چھوئے۔ وہ گھبرا گئے۔
’کیا ہوا؟‘ انھوں نے پوچھا۔
’میں جا رہا ہوں۔‘ میں نے کہا۔
’ٹھیک ہے۔‘
وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ انھیں لگا کہ شاید میں بازار سے کچھ خریدنے جا رہا ہوں مگر اس کے لیے پیر چھونے کی کیا ضرورت تھی۔ جب تک میں انھیں نظر آتا رہا، وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر میں اماں سے ملا۔ رامو سے اور اپنے گھر سے۔ کچھ چھوٹ رہا تھا۔ ایک ایسا جہاں جو میرے ہونے کی وجہ سے مجھ میں محو تھا۔ کچھ دنوں سے میں اپنے اس جہاں میں نہیں ہونے کے بارے میں سوچ رہا تھا، تو لگا جیسے اس جہاں میں نہیں ہوں کی طرح یہ جہاں نہیں چلے گا، یہ جہاں چلے گا کہ میں ہوا کرتا تھا۔ ’تھا‘ میں مجھے میرے گھر والے یاد کریں گے اور میں کہیں اور ہوؤں گا۔ میں کہاں ہوؤں گا، اس میں تعجب اور حیرانگی تھی۔ اس لیے وہ مجھے بہت متوجہ کررہا تھا۔ میں اس بار اس کشش کا خواب نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ میں اس کی سمت بڑھ چلا تھا۔
جیون مجھے اسٹیشن تک چھوڑنے آیا تھا۔ میرے پٹنے پر وہ چپ تھا جیسے اس کے پٹنے پر میں۔ اسٹیشن چھوڑتے وقت اس نے کہا،’کہاں جاؤگے؟‘
’شہر۔‘ میں نے کہا۔
جیون کےلیے اتنا جاننا کافی تھا۔ پھر اس نے کہا، ’مجھے خوشی ہے۔‘
’میں جانتا ہوں۔‘ میں نے کہا۔
’ایک وقت ہوتا ہے جب تم جا سکتے ہو۔ میں جس دن جا سکتا تھا اس دن میں مصروف تھا۔‘
’میں بھی اب تک مصروف تھا۔‘
’جب تم وہاں پہنچ جاؤگے تو وہ بھی مصروفیت ہوگی۔ لیکن بہت مصروف مت ہوجانا۔‘
’کیوں؟‘
’چھوٹٰی چھوٹی مصروفیات آدمی کو کاکروچ بنا دیتی ہیں۔ پھر اسے لگتا ہے کہ وہ کبھی بھی نہیں مرے گا۔‘
جیون تھوڑا تلخ ہوگیا تھا۔ ٹرین آنے میں ابھی وقت تھا۔ میں اسٹیشن کے باہر جیون کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ اسٹیشن کے اندر نہیں جائے گا مجھے معلوم تھا۔ میں اندر جانے کو ہوا۔
’کچھ دیر رک جاؤ۔ ابھی تمھاری ٹرین آنے میں وقت ہے۔‘
میں نے اپنا سوٹ کیس واپس رکھ دیا۔
’چائے پیوگے؟‘
’نا۔‘
’کچھ کھاؤگے؟‘
’بھوک نہیں ہے۔‘
جیون کے من میں پتہ نہیں کیا چل رہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ اس سے سیدھا پوچھ لوں کہ کیا بات ہے؟ مگر میں اس کے سامنے پُرسکون کھڑا رہا۔ میں سچ میں پُرسکون تھا۔ جیون بے چین تھا جو چھوٹنے والا تھا۔
میں نے سوٹ کیس اٹھایا اور اسٹیشن کی جانب چلنے لگا۔ جیون مجھے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی مجھے روک لینا چاہتا تھا مگر میں رکا نہیں۔ میں نے اسے آخری بار پلٹ کر دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا تھا مجھے دیکھتا ہوا۔ مجھے اس کی کاکروچ والی بات یاد آگئی اور میں پلٹ گیا۔
میں اسٹیشن پر اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس لیے بیٹھا تھا۔ ٹرین دائیں طرف سے آئے گی اور بائیں طرف کو مجھے لے جائے گی۔ ٹرین دیر سے نہیں چل رہی تھی اور اس بار میں ٹھیک وقت کے آس پاس کہیں تھا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں