معز ہاشمی
CELL – 9372696300
اور پھر ہمارے شہر کی فضاء اچا نک ہی ادبی و باء کا شکا ر ہو گئی۔ انتظامیہ اپنی سی سعئی کر کے رہ گیا۔ اس وباء نے بستی کے گلی کوچوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سڑکیں ویران ہو گئیں چاروں طرف ہو کا عالم طا ری تھا۔ ہر گھر میں ایک نہ ایک ادبی مریض پایا جانے لگا۔ طرح طرح کی تشوشیناک افو اہوں سے لوگوں کے دلوں پر دہشت طاری ہو گئی۔ انتظامیہ نے یہ اعلان کروا دیا کہ ’’یہ و بائی مر ض اس بستی کے لیئے نیا نہیں ہے بلکہ سینکڑوں برس قبل اس مرض نے اسی بستی سے وبائی شکل اختیار کی تھی۔ اس لیئے عوام سے پُر زور اپیل کی جاتی ہے کہ وہ ان افواہوں پر دھیان نہ دیں اور مرض کے تعلق سے تشو یش میں مبتلا نہ ہوں، انتظامیہ بہت جلد اس کا ٹیکہ ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جا ئے گا ۔ امید ہے آپ ہم سے پورا پورا تعاون کریں گے اور افواہیں پھیلانے والوں کی نشاندھی کر کے ایک اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیں گے۔‘‘
اس اعلان سے ہم نے چین کی سانس لی و اقعی انتظامیہ ایسے مو قع پر اپنے فرض سے کوتاہی نہیں برتتا۔ مرض کی دہشت ہمارے دل میں بھی تھی ہم سو چنے لگے آخریہ مرض ہوتا کیا ہے اور کس طرح یہ ایک عام انسان کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، یہ سب جاننے کے لیئے ہم نے بستی کے نامور حاذق حکیم و عامل دانش قلندر کو مناسب خیال کیا اس سے قبل ہمیں کبھی ان سے اس طرح کا سابقہ نہیں پڑا تھا۔ لیکن حالات ہی کچھ ایسے تشو یشناک ہو گئے تھے کہ ان سے رابطہ قائم کرنا نہایت ضروری تھا ۔ کہنہ مشق حکیم و عامل ماہر امراض پیچیدہ و تشو یشناک معاملات پر اچھا خاصہ عبو ر رکھتے تھے۔ اس لیئے اُن سے ملنے کے لیئے ہم نے اُن کے مطب کا رُخ کیا۔ مطب اچھا خاصہ پوسٹ مارٹم روم دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف عمل جر احی کے زنگ آلود اوزار بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں کی ردّی کے ڈھیر تلے دبے ہوئے نامور حاذق حکیم دانش قلندر نے ہمیں دور ہی سے پہچان لیا بعجلت تمام وہ ڈھیرے سے برآمد ہو ئے ۔ہم نے کہا محترمی اطمینان سے ہم کوئی مریض نہیں ہیں ۔ بڑی تگ و دو کے بعد حکیم صاحب نے گرد سے اٹے کپڑوں کو جھاڑا ۔اپنی منحنی کمر کو بمشکل تمام خطِ مستقیم کی شکل دی ۔ ایک دائرہ ہمارے اطراف کھینچ کر وہ ایک بوسیدہ کرسی پر براجمان ہو گئے ۔آثار قدیمہ کے نوادر حکیم صاحب نے سلسلہ کلام کیا ، ’’ مطلب بیان کرو برخور دار!۔ ‘‘
’’ آنجناب کے علم میں تو یہ بات آئی ہوگی کہ اس وقت بستی ایک خطرناک وباء کا شکار ہے ۔‘‘
’’کیوں نہیں۔ ‘‘اُنھوں نے ہماری طرف دیکھا، ’’حکیموں عاملوں سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی ہے یہ بات۔‘‘
’’تب اس کے معالجے کی آپ نے کوشش نہیں کی۔‘‘
’’کر تو رہے ہیں برخوردار ۔۔۔ اس سلسلہ میں مرض کی تاریخ جاننا بہت ضروری ہے۔‘‘
ہم نے حیرت سے کہا، ’’جناب والا یہ مرض کوئی ڈھائی تین سو سال پُرانا ہے۔‘‘
حکیم صاحب نے جواباً ارشاد فرمایا، ’’تاریخ صحیح ہے؟‘‘
’’جی ہاں اس میں کو ئی مبالغہ نہیں۔‘‘اپنی معلومات پر ہم بھی بے حد خوش ہوئے۔
’’جس وقت یہ مرض عالم وجود میں میں آیا تھا اس وقت ستارے کون سی چال چل رہے تھے ۔‘‘
’’ پتہ نہیں۔‘‘
’’ یہی جا ننے کے لیئے ہم زائچہ تیار کر رہے ہیں ۔ ‘‘حکیم صاحب نے حکیم لقمان بننے کی کوشش کی، ’’جیسے ہی ستاروں کی چال معلوم ہو جا ئیگی ہم مرض کاعلاج دریافت کرلینگے۔‘‘
’’ کیازائچہ دافع مرض کے لیئے مددگار ثابت ہو گا ۔‘‘
’’ ہم ہر مرض کی تشخیص اور علاج بذریعہ زائچہ ہی کرتے ہیں تاکہ اس کی بیچ کنی کر نے میں آسانی ہو۔‘‘
’’ حکیم صاحب مر ض کیسے لاحق ہو تا ہے اس بارے میں آپ کچھ بتا ئینگے۔‘‘
’’ آج تک جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں۔ ‘‘حکیم صاحب نہایت سنجیدگی کے ساتھ سمجھانے لگے، ’’اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی موروثی مرض نہیں ہے بلکہ ادبی وائرس (VIRUS) باہم گفتگو یا کسی ادیب و شاعر کی صحبت سے ایک دوسرے میں منتقل ہو تے ہیں، بچوں میں یہ مرض بڑوں کے مقابلے میں کم پایا جاتا ہے۔ یہ صرف عقل و فہم سے آراستہ بالغوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔‘‘
’’ اس کی علامتیں کیا ہوتی ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ مریض عارضۂ ادب میں مبتلا ہو گیا ہے ۔‘‘
حکیم صاحب نے ہمیں نیچے سے اوپر تک دیکھا، ’’سب سے اہم علامتیں یہ ہیں، مریض تبخیر معدہ کا شکار ہوتا ہے خو ابیدگی کے عالم میں خوا ہ مخواہ خواہشوں کے سپنے دیکھتا ہے خو یش و اقارب سے بلا وجہ دوری اختیار کر لیتا ہے ۔ہر ایک کو تکتا ہے امُور خانہ دار ی میں اُلجھا رہتا ہے۔ دروْن خانہ اس کی حالت بھیگی بلی سی ہوتی ہے۔ بیرون خانہ اپنے ہم جنسوں میں چڑ چڑ ا پن عود کر آتا ہے اختلاج ادب کا مریض ہمیشہ اپنی تعریف سُننا چا ہتاہے۔ دائمی ادبی مریضوں کے تذکرہ پر پھڑک اٹھتا ہے۔ خود کو عارضہ ادب کا پہلا شکار تصور کر تا ہے۔‘‘
ہم نے بھی نیچے سے اوپر تک اپنا جائزہ لیا اور دریافت کیا، ’’حکیم صاحب کیا ایسی مہلک علامتوں سے یہ بات واضح ہو جا ئے گی کہ مریض عارضہ ادب میں مبتلا ہو گیا ہے؟‘‘ ہمارے چہرے پر خوشی چھلکنے لگی تھی ۔
’’بالکل۔۔۔۔! ‘‘حکیم صاحب نے پورے اطمینان کے ساتھ ہماری آنکھوں میں جھانکا۔
’’ اب اس کا مداوا کیسے کیا جائے؟ آپ نے اس بار ے میں کچھ سو چا ہے۔‘‘
’’دیکھئے۔۔۔ ‘‘حکیم صاحب نے اپنے لکھے ہوئے نسخوں کے پلندے کو سلیقے سے جماتے ہوئے کہنا شروع کیا ، ’’ عنقر یب عاملوں، حکیموں کی تین روزہ کانفرنس ’’عا رضہ ادب اور سد باب’’ اس عنوان سے منعقد ہونے جارہی ہے، ہمیں پوری اُمید ہے کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔‘‘
لیکن حکیم صاحب ۔۔۔فی الحال ایسے مریضوں کو کس دوا سے افاقہ ہوگا ؟ ‘‘
’’ابھی دوا نہیں۔۔۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ ایسے مریضوں کو ادبی جلسوں،رسالوں اور اخباروں میں اچھا مقام دلا سکیں تاکہ مرض میں کچھ تحفیف ہو ، اس سے انھیں تسکین ہوگی۔‘‘ حکیم صاحب نے ہمارے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھا اور سلسلہ کلام جا ری رکھتے ہو ئے کہا، ’’عا رضۂ ادب میں اکثر دیکھا یہ جاتا ہے کے بے ادبی سے اگر مریض کو وہ مقام نہ مل سکا تو اس کی حرکتِ ادب بند ہو سکتی ہے ۔‘‘
ہم نے اضطراب سے کہا ، ’’ آپ اس سلسلہ میں کوئی قدم فوری اٹھائیے۔‘‘
’’دیکھو میاں ‘‘حکیم صاحب نے ایک شانِ بے نیازی سے ہماری طرف دیکھا،’’ اگر تمہارے گھر اس وباء کا کوئی شکار ہے تو میں آزمائش کے لیئے چند تعویذ اور گنڈے دیتا ہوں تاکہ مرض میں کچھ افاقہ ہو لیکن اعتقاد شرط ہے۔ پرہیز وغیرہ کی کوئی شرط اس آزمائشی علاج میں نہیں ہے۔ صرف تعویذ کھول کر مریض کو دور ہی سے دکھانا اور گنڈہ بطور میڈل اس کے گلے میں ڈال دینا ساتھ ہی صبح و شام’’لغت کشوری‘‘ اور دیوان غالب‘‘ کا پانی دم کرکے پلاتے رہنا تاکہ وہ مرض کی شدت میں الفاظ کا مبہم استعمال ترک کر سکیں اور ہر جمعرات کو بابائے اُردو حضرت مولوی عبدالحق صاحب ؒکی فاتحہ دلا کر معصوم مریضوں میں شرینی تقسیم کر دینا ۔کبھی کبھی بزرگان علم وا دب کے مزارات پر بغرض زیارت لے جایا کرنا ۔‘‘
حکیم صاحب کے عنایت کردہ تعویذ کو جب ہم نے کھول کر دیکھا تو اس میں شاعری کی گردان فاعلاتن فاعلاتن فاعلن تحریر تھا اور گنڈے پرغالباً ’’ادب برائے عمل ‘‘ کا ورد کیا گیا تھا۔ حکیم صاحب نے خاص تاکید کی ’’دورانِ علاج مریض کے سامنے کسی نئے مریض کے بارے میں قطعی کچھ نہ کہنا ورنہ نیا مریض ان کے بستر ادب پر دراز ہو جائے گا مرض کو پرانے مریضوں کی تحریری تجربات پڑھنے کی کھلی چھوٹ دیدی جا ئے تاکہ وہ اُن سے استفادہ کر سکیں۔‘‘
’’لیکن حکیم صاحب ۔۔۔! ‘‘ ہم نے اپنے شبہات کی وضاحت چاہی ، ’’اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ مرض پوری طرح حاوی بھی ہونے نہیں پاتا ہے کہ مریض اپنے تجربات تحریر کر دیتا ہے اس تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟ ‘‘
حکیم صاحب نے برہم ہو کر کہا ، ’’یہ تو ان کی نادانی ہے، جب تک مریض اچھی طرح نڈھال نہ ہو جائے اس وقت تک اُسے ایسی کسی بھی حرکت سے باز رکھنا چا ہئے و رنہ مرض خطرناک صورت اختیار کر لے گا اور اس پر قابو پانا مشکل ہو جا ئیگا۔ ایسے مریض جنہیں تحریری تجربات کی چاٹ لگ جاتی ہے وہ تیمار داروں کے لیئے مصائب کھڑے کر دیتے میں۔ مریض کی تحریری کوشش پر شروع ہی سے نگاہ رکھنی چاہیے۔‘‘
ہم نے حکیم صاحب کی جانب توصیفی نظروں سے دیکھا ، ’’حکیم صاحب آپ کے مفید مشوروں پر عمل کیا جا ئیگا۔ آپ کا قیمتی وقت لیا ہوں اس کے لیئے معذرت خواہ ہوں۔۔۔ اب اجازت دیجیے۔‘‘
’’جانے سے پہلے ایک بات اور سنتے جاؤ ‘‘ ہمارے قدم وہیں رُک گئے اور ہمارے کانوں میں حکیم صاحب کے الفاظ گونجنے لگے ، ’’ واقعی اگر تم سنجیدہ ہو تو اس وباء سے نجات پانے کا ایک اور طریقہ بتاتا ہوں۔
’’ضرورضرور حکیم صاحب۔ ‘‘
‘‘ہاں۔۔۔!میرا تو یہ خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ وہ ادیب و شاعر جن کے کلام یا تخلیقات کو اب تک کسی رسالے نے شائع نہیں کیا ہو، بلکہ لوگ باعث تمسخر اُن کی چیزیں پڑھتے ہوں ، اُن ہی کی پھیلائی ہوئی اس آفت سے بچنے کی خاطر کسی نامور ادیب یا شاعر کو ایصا ل ثواب پہنچانے کے لیئے ایک بڑے جشن یا سمینار کا اہتمام کیا جائے ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے آپ کا شہر اس وباء سے نجات پا جائے۔‘‘
‘‘منا سب خیال ہے آپ کا ۔ ‘‘ہم نے حامی بھری ، ’’ حکیم صاحب اب اس جشن یا سمینار کے سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے کی اجازت دیجیے ۔‘‘
’’ اور سنو برخوردار ۔۔۔۔ ‘‘حکیم صاحب نے کہا، ’’ ایک بہت ہی خاص بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اس جشن یا سمینار میں ذی حیثت افراد کی شمولیت بہت اہم ہے ورنہ مرحوم ادیبوں اور شاعروں کی ارواح اپنی شان میں گستاخی تصور کرینگی ۔ ان کے شایان شان جشن مناکر ہی اس وبائی قہر سے نجات مل سکتی ہے۔‘‘
حکیم و عامل دانش قلندر کے مطب سے باہر آتے ہی ہمارے قدم من من بھاری ہو گئے۔ جشن منانے کا ایک بوجھ لیئے ہم اپنے دیر ینہ دوست آں میاں کے گھر پہنچے ۔ دستک پر سسکیاں سنائی دی۔ خدا جانے اب کونسی پر یشانی ہمارے استقبال کے لیئے تیار تھی۔ دروازہ کھلتے ہی ہمارے چو دہ طبق روشن ہو گئے ہمارا یار،ہمدرد،غمگسار اس مہلک وباء کا شکار ہو چکا تھا۔ ابھی ہم اس کی کیفیت دریافت کر بھی نہ پائے تھے کہ دوست کی والدہ محترمہ ہمارا گربیاں پکڑ کر ہمیں ہلانے لگی ،’’دیکھو بیٹے کیا حال ہو گیا ہے تمہارے دوست کا آدھاآدھا مصرعہ پڑھ رہا ہے اور بار بار اپنے والد کا نام لے رہا ہے ۔۔ارشاد ۔۔۔ ارشاد ‘‘۔
ہم نے کہا، ’’خاطر جمع رکھئیے خالہ جان سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ابھی یہ پہلے اسٹیج پر ہی ہے، میں اسے آج ہی کسی ادبی اسٹیج پر چڑھا دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ دو ایک دن میں نارمل ہو جائے گا۔‘‘
ہم نے اپنے دوست پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ اسٹیج کے نام پر اس کے یرقان زدہ چہرے پر سُرخی دوڑ گئی۔ ہم نے کہا ، ’’میرے دوست چل آج شام ’’ادبی محفل‘‘ منعقد ہو رہی ہے حتی الامکان کو شش کرکے تجھے وہاں پڑھنے کا موقع دلا دیتا ہوں ۔‘‘
دوسرے ہی لمحہ وہ ایک لمبی جست لگا کر ہمارے قریب پہنچ گیا تب ہمیں ڈارون کی تھیوری کی صداقت پر یقین آگیا۔
اس کی اس حرکت پر سارے گھر نے اطمینان کی سانس لی ۔ پتہ چلا کہ وہ تین دن سے ایک ہی جگہ دھونی جمائے بیٹھا تھا نہ کھا رہا تھا نہ ہی پی رہا تھا صرف خلاؤں میں آنکھیں پھاڑتا رہتا تھا۔
بڑی تگ ودو کے بعد ہم نے اپنے دوست کو اسٹیج پر چڑھا ہی دیا۔ اب جو ہمارے دوست نے منظر دیکھا وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ نامور چو ٹی کے ادیب اپنی باری کے انتظار میں دو زانوں بیٹھے تھے چند ایک تو چار زانوں تھے وہ جا نتے تھے کے اُن کا نمبر بہت دیر بعد آئے گا۔ اس لیئے کہ جو صاحب اپنی کار گذاری دکھا رہے تھے وہ لمبی پاری کھیل رہے تھے، پہلے شعر پھر قطعہ اور پھر چھوٹی بڑی بحر کی غزل یعنی پہلے دو رن پھر ایک چوکا اور آخر میں چھکا مار کر لانگ لیگ پر کیچ آوٹ ہو گئے لیکن نثری ادب میں طویل کہانی یعنی سنچری باقی ماندہ کھلاڑیوں کو اخیر تک موقع نصیب نہیں ہوتا، اسی لیئے مشاعر ے ون ڈے ہو تے ہیں جبکہ ادبی پروگرام پانچ دن کے اکتا دینے والا ٹیسٹ۔
ہمارے دوست نے بھی بعجلت تمام پیڈ باندھ لیئے تھے۔ لیکن ہائے قسمت ان کی باری آنے سے قبل ہی سامعین نے جماہیاں لینی شروع کردی تھی۔ کار گذار صاحب اپنی طویل کہانی میں تمہیدی بیل گاڑی کو پُر پیچ راستوں سے لے جا رہے تھے پتہ نہیں بیل کمزور تھے یا راستہ خستہ حال نا ہموارتھا تنگ آکر ہمارے دوست آں میاں نے جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اُن کی چلتی بیل گاڑی میں چھلانگ لگا دی یہ سوچ کر کے گھر واپسی کے لیئے یہ موزوں ترین سواری ہے۔
سہانا سفر اور یہ موسم حسین الاپتے ہوئے یہ صاحب کار گذار اس آفت بلائے ناگہانی سے چونک پڑے ساتھ ہی اُن کے لاغرو کمزور بیل بدک گئے اب جو اسٹیج پر سماں بند ھا تو پیڈ اپ ادیبوں میں بھگدڑ مچ گئی سامعین کہاں پیچھے رہنے والے تھے وہ قیامت صغریٰ برپا ہوئی کہ الاماں۔بڑی مشکل سے آں میاں کو تلاش کیا ہمیں یقین تھا کہ وہ انہی بیل گاڑی والے صاحب کے ہمراہ ہوں گے بحفاظت تمام انہیں بیل گاڑی سے نیچے اتارا اور ان کے گھر پہنچایا ۔ بستر پر لٹاتے ہوئے ان کے والدین کو تاکید کی کہ فوری دیوان غالب کے دَم کیئے پانی کے چھینٹے مارئیے اور کانوں کے قریب رزمیہ اشعار کا ورد کریں تاکہ صبح یہ بیدار مغز شاعر کے روپ میں اپنی آنکھیں کھولے۔
اس پر یہ بات آشکارا ہو گئی کہ ادیب سے بہتر شاعر ہوتا ہے جس کے ہر اچھے شعر پر وی آئی پی اسٹینڈ سے ایک شور اٹھتا ہے ہماری بارہا تا کید نے اس کے والدین پر کافی اثر کیا۔ ان کے چہروں سے یہ ظاہر ہونے لگا کہ وہ ہماری بات سے متفق ہیں اس کے والد نے کہا بیٹے ہماری پچھلی سات پشتوں نے دیوان غالب کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور اب اس کے لیئے ہمیں غالب جیسے رند کے دیوان کا سہارا لینا پڑ یگا کیا کریں یہ ہمارے خاندان کا واحد چشم و چراغ ہے دوسرے دن بیمار دوست کی خیریت دریافت کرنے ہم اس کے مکان پہنچے، داخلی دروازہ پران کے والد بزرگوار سے مڈ بھیڑ ہو گئی، وہ عجلت میں نظر آئے پتہ چلا کہ دیوان غالب کے پانی سے افاقہ ہو ا ہے۔ لیکن حکیم صاحب نے مکمل دیوان معہ عکسی تر جمہ کا پانی پلانے اور چھڑکا ؤ کرنے کے لیئے کہا ہے ۔پاکٹ سائیز کے دیوان کا پانی پلانے کے فوری بعد اس نے اپنے خود کے دواشعار کہے لیکن اس میں ردیف اور قافیہ کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اس لیئے حکیم صاحب نے بڑے سائیز کے مکمل اور مجلد دیوان کا کہا ہے خدا کرے قدیم نسخہ دستیاب ہو جائے۔ہم نے کہا قبلہ قسمت بارآور ہو ئی تو میرا دوست جلدہی اچھا اور مکمل شاعر بن جائیگا، آپ ایسا کیوں نہیں کرتے پاکٹ سائیز کی دو جلدیں گھول کر پلادیں ۔ہماری رائے سے وہ متفق نہیں ہو ئے، بو لے نہیں بیٹے بقول حکیم صاحب پاکٹ سائیز میں کتابت کی غلطیوں کے ساتھ پرنٹنگ کا مسئلہ بھی درپیش آتا ہے اگر خدانخوا استہ ایک شعر بھی الٹا سیدھا ہو گیا تو جان لو تمہارا دوست ردیف اور قا فیے کے تناؤ کا شکارہو کر لمبی اور چھوٹی بحر میں شاعری شروع کر دیگا اور اس کی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ اس لیئے کہیں سے بھی اور کیسے بھی ہمیں قدیم نسخہ ہی تلاش کرنا ہے۔کافی تگ و دو کے بعد ایک ردی فروش کے پاس ہمیں قدیم نسخہ نظر آیا ۔ نسخہ کیا تھا بوسیدہ کاغذات کا ایک پلندہ، حاشیے میں جگہ جگہ غالب کا انگریز شاعرسے مو ازنہ کیا ہوا تھا ہم نے کہا قبلہ یہاں تو اُردو انگریزی کا چکر ہے جو بھی ملا قدیم نسخہ ہے ۔گھر پہنچ کر فوراً نسخہ کو ہانڈی میں چلو بھر پانی ڈال کر چولھے پر رکھ دیا گیا دوست کی حالت ابتر تھی لیکن وہ خطرہ سے باہر تھا عرقِ دیوان پلاتے ہی اس نے جھرجھری لی بدن اینٹھنے لگا کچھ دیر بعد ہی حالات معمول پر آگئے لبوں میں جبنش ہو ئی۔ مبہم سے الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہو نے لگے تلفظ صاف نہیں تھا زبان میں لکنت تھی پھر بھی کچھ کچھ سنائی دے رہا تھا جیسے عرررض کر ررتا ۔ عرررض کر ررتا ۔پد ر بز رگو ار کے چہرے پر سُر خی دوڑ گئی یا اللہ تیرا لا کھ لاکھ احسان ہے یہ شاعر تو بن گیا۔ ہم نے مشورہ دیا قبلہ تھوڑا ساپانی اٹھا کر رکھ دیجئے تاکہ اس سے غسل صحت بھی ہوسکے۔
دوسری صبح مسرت کا پیام لے آئی،عالم استراحت میں ہمارا دوست غزل سرا تھا۔ مانو مرزا نوشہ مشاعرہ لوٹ رہے ہیں ۔لیکن اشعار میں اُردو تلفظ انگریزی میں ادا ہو ررہے ہیں ہم نے حیرت سے والد صاحب کی طرف دیکھا چہرے پر برسوں کی اداسی طاری تھی، کہنے لگے یہ سب حاشیہ کی کارستانی ہے جو ہوا اچھا ہوا جان تو بچ گئی غزل پر غزل صبح سے شام اور پھر شام سے رات ہو گئی داد دیتے دیتے، چہروں پرتھکن نظر آنے لگیں۔ہم نے کہا قبلہ کہیں اوور ڈوز تو نہیں ہو گیا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں