پروفیسر غضنفر
زبانیں دوسری ز بانوں سے صرف لفظ ہی نہیں لیتیں، لمس بھی حاصل کرتی ہیں۔ رس اور جس بھی کشید کرتی ہیں، نفس اور لَس بھی پاتی ہیں اور اس لمس، رس ، جس،نفس اور لَس میں صوتیاتی آہنگ، صرفیاتی نیرنگ، معنیاتی ترنگ، نحویاتی ڈھنگ، اسلوبیاتی رنگ، ادبیاتی امنگ اور عمرانیاتی منظرِ شوخ و شنگ بھی ہوتا ہے۔ یعنی زبانیں جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو وہ آپس میں مصافحہ اور معانقہ تو کرتی ہی ہیں، رگِ گلو کا بوسہ بھی لیتی ہیں اور اس اتّصالی عمل سے ان میں ایک دوسرے کی معاشرتی و ثقافتی قدریں در آتی ہیں۔ ایک دوسرے کے حر ف و صوت میں لفظ و معنی کی تصویریں ابھر آتی ہیں۔ اردو زبان میں بھی دوسری زبانوں کے لسانی فیوض، ادبی عکوس،تہذیتی نقوش، معاشرتی خطوط اور اقداری رموزدیکھے جاسکتے ہیں۔ چونکہ اردو ایشیائی زبانوں کی صحبت میں زیادہ رہی ہے، اس لیے اس میں یہ رنگا رنگی مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں، میں آپ کے سامنے دورِ جدید کا جامِ جم ر کھتا ہوں۔ آپ اس پیالے میں منعکس ہونے والے پیکروں پر نگاہیں مرکوز کرتے جائیے اور دیدہ و دل دونوں میں تہذیبی رنگ بھرتے جائیے ؎
اردو ہے جس کا ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ساری دنیا میں د ھوم مچانے والی ہماری زبان کو شناخت زبانِ ترکی سے ملی۔ ترکی اگر اس کا نام اردو نہیں رکھتی تو یہ اب بھی ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دکنی، ریختہ وغیرہ کے چکر میں پڑی رہتی۔
ترکی نے صرف ہماری زبان ہی کا نام نہیں رکھا بلکہ ہمارے بعض رشتوں کے نام بھی رکھے اوران رشتوں کو بلند مقام بھی عطا کیے۔ ترکی اگر یہ لسانی شجرکاری نہیں کرتی تو ہمارے گرو اتالق، رسوئیے باورچی، دوت ایلچی، قبیلوں خاندانوں اور گھرانوں کے چودھری خانِ خاناںاور بیگ نہیں کہلاتے۔ اِستری خاتون اور دائی انّا میں تبدیل نہیں ہوتی۔ ہماری بہنیں’’ آپا‘‘ اور ’’باجی‘‘ نہیں بنتیں۔ ہماری بیویاں ’’بیگم‘‘ کا درجہ نہیں پاتیں اور کوئی شاعر ا پنی بیوی کو اس انداز سے مخاطب نہیں کرتا ؎
چڑھ گیا آپ کا کس بات پہ پارہ بیگم
اَماں، کچھ جرم بتاؤ نا ہمارا بیگم
کاں سے بیٹھیا تھا نصیباں میں یہ شاعر اجڑو
کیا کلیجے کو میرے جی کو جلا دیتا ہے
باتاں باتاں میں اصل بات اڑا دیتا ہے
پیسے پوچھو تو فقط شعر سنا دیتا ہے
یہ بھی انداز بیاں کتنا ہے پیارا بیگم
اسی انداز بیاں نے ہمیں مارا بیگم
تم پہ قربان سمرقند و بخارا بیگم
واہ! کیا خوب مکرر ہو دوبارہ بیگم
اتنا ہی نہیں بلکہ ہمارے دسترخوانوں پر ہاتھ دھونے کے برتن بھانڈے اور تسلے کی جگہ چلمچی نہیں ہوتی۔ چھری چاقو کا روپ نہیں لیتی، پلنگوں پر گدڑی کی جگہ توشک نہیں بچھتی۔ دروازوں پر ٹاٹ کی جگہ چِق نہیں ٹنگتی۔ اسلحہ خانوں سے توپ نہیںچھوٹتی۔ہمارے اندھیروں میں چقماق نہیں جلتی۔ لباسوں میں اَچکن چوغہ نہیں بنتی۔ہماری محفلوں میں ٹنٹا کی جگہ چپقلش نہیں لیتی۔
ہمارے رشتوں کو خوش گوار، پر وقار، با اعتبار، محترم، معزز، مؤدب اور مقرّب بنانے میں عربی اور فارسی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ عربی نے باپ کو والد، ماں کو والدہ، جورو کو زوجہ بنا دیا اور فارسی نے سسر کو خسر، ساس کو خوش دامن، میاں کو خاوند، بہن کو ہمشیرہ، ساڑھو کو ہم زلف، بیٹی کو دختر، بیٹے کو فرزند، لخت جگر نورِ نظر جیسے خوش آہنگ ناموں سے سجا کر مسند قدر و منزلت پر بٹھادیا۔
ترکی، عربی اور فارسی ا ن تینوںزبانوں نے ہمارے طرز معاشرت میں ایک انقلاب برپا کردیا ۔ چٹائی پر تھالیوں میں بھات، ڈ لیوں میں روٹی، ہانڈیوں میں مانس مچھّی، ڈونگوں میں بھرتا، بھاجی،کٹوروں میں کھیراور کھیس، کھانے والوں کو چٹائی سے ا ٹھا کر دستر خوان پر بٹھادیا اور ان کے سا منے قابوں میں قورمہ، قیمہ، کوفتہ، طباقوں میں کباب، مرغ مسلم، متنجن، مزعفر، زردہ، پیالوں میں یخنی، حلیم، شیر، کشتیوں میں بریانی، طشتریوں میں پلائو، خشکہ ، قبولی اور رکابیوں میں فرنی، شیرینی طرح طرح کا طعام سجادیا۔ دیکھیے، دوسرا پیکربھی اُبھررہا ہے ؎
نرگس تو دکھا کدھر گیا گل
سوسن تو بتا کدھر گیا گل
سنبل مرا تازیانہ لانا
شمشاد اسے سولی پر چڑھانا
تھرّائیں خواصیں صورتِ بید
اک اک سے لگیں پوچھنے بھید
چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن
کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمین
کہیں جعفری اور گیندا کہیں
سماں شب کا دائودیوں کا کہیں
کھڑے شاخِ شبّو کے ہر جا نشان
مدن بان کی اور ہی آن بان
———
بگھیاں نور کی تیار کرے بوئے سمن
کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانانِ چمن
نسترن بھی نئی صورت کا دکھاوے گا رنگ
کوچ پر ناز کے جب پائوں رکھے گا بن ٹھن
اہلِ نظاّرہ کی آنکھوں میں نظر آئے گی
باغ میں نرگس و شہلا کی ہوائی چتون
’’بے نظیر چمن زارِ پر بہار میں بو قلموں اشجار، سرسبز برگ و بار شاخِ ثمر دار اور گلہائے زرنگار کو دیکھتا، صد رنگ گلاب، گلِ آفتاب، گلِ اشرفی، گلِ عباسی، گلِ جعفری، گلِ دائودی، گلِ رعنا، گلِ لالہ، گلِ ہزارہ، گلِ سوسن، گلِ نسریں، گلِ نسترن، گلِ یاسمیں، گلِ مشکی، گلِ خطمی، گلِ شبّو، گلِ شب ا فروز، گلِ صد برگ اور گلِ اورنگ سے گل رنگ ہو تا خوشبوئوں میں بستا، گلبانگِ طیورِ خوش گلو، خوش نوائیِ عندلیب و قمری کی کو کو اور نغمہ سنجیِ طوطی سے مدہوش ہوتا ہوا نواحِ کوثر و تسنیم میں پہنچ گیا۔‘‘
ان ادبی پیکروں میں جو یہ گلہائے رنگا رنگ سجے ہیں، جن کے رنگ و نور سے ہمارے دیدوں میں بوقلموں قمقمے جلے ہیں، جن کے لمس سے ہمارے چہرے کے خد و خال کھلے ہیں، اور جن کی خوشبوئوں سے انفاس میں عطر و عنبر گھلے ہیں، گلستان ادبِ ایران سے لائے گئے ہیں اور اب جو اس جامِ جہاں نما میں یہ شجر ہائے اشعار اُبھر رہے ہیں ؎
اڑالی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری
———
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزلخواں ہوگئیں
———
کبک و قمری میں جھگڑا کہ چمن کس کا ہے
کل بتا دے گی خزاں یہ کہ وطن کس کا ہے
———
کس لیے ہر شب یہ ہوتا ہے گرفتارِ فراق
ہجر میں کیا اپنا مرغِ نامہ بر سرخاب تھا
———
زندگی مانندِ مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم، چہچہایا، اڑ گیا
———
نہ ملے گا کبھی شکارِ یقیں
گر عقابِ گماں بلند ہوا
———
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
———
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
اور ان اشجار کی شاخوںپر بیٹھے جو مرغِ خوش نوا، طائرِ رنگِ دل کشا اور پرندۂ بے بہا چہچہارہے ہیں اور نغمہ سنجی کے ساتھ ساتھ بلند پروازی کے قصے بھی سنارہے ہیں اور ان قصوں میں انسانی مشابہتوں کی علامتیں دکھا رہے ہیں، دراصل یہ بھی انھیں چمن زاروں سے اڑ کر وادیِ اردو میں اترے ہیں جو عرب و فارس کی گل رنگ فضائوں میں نغمہ سرائی کرتے رہے ہیں۔
اور شاخوںپر بیٹھے ہوئے ان پرندوں کے اوپر خلائوںمیں جو یہ طیور شاہی ہما، عنقا اور ققنس پرواز بھررہے ہیں اور ان کی اڑانوں کے یہ مختلف انداز ؎
جستجو رہتی ہے دولت کا پتا ملتا نہیں
سر پھرا کرتا ہے پر ظلّ ہما ملتا نہیں
واہ وا شورِ محبت خوب ہی چھڑکا نمک
استخواں میرے ہما کس کس مزے سے کھائے ہے
کوئی اے صیاد تیرے عشق میں زندہ نہیں
طائرِ جاں جس کو کہتے ہیں وہ عنقا ہوگیا
دردِ دل پوچھنے والا کوئی میرا نہ رہا
ہوگئی صورتِ عنقا میرے غم خوار کی شکل
گر تو کرے نہ صید تو ققنس کی طرح سے
جل کر ہو اپنی آگ میں خود ہی شکار خاک
نہ ہو ققنس کا اس خطر سے آب
شب نہ ہووے ہر اس سے سرخاب
ہمیں بھی مائل بہ پرواز کررہے ہیں، خلائے عرب و فارس سے اتر کر ارضِ اردو پر تشریف لائے ہیں، آپ انھیں غور سے دیکھیے اور توجہ سے سماعت فرمائیے یہ مافوق الفطری اور ماورائی پرندے صرف اپنی پروازکی کرامات ہی نہیں دکھا رہے ہیں بلکہ اپنی ذات سے جڑے تصورات کی محاکات بھی پیش کر رہے ہیں۔
’ہما‘ فرمانا ہے کہ دنیا مجھے پرندوں کا با دشاہ مانتی ہے۔ لوگوں کاعقیدہ ہے کہ میں جس کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہوں،وہ بادشاہ ہوجاتا ہے۔
’عنقا ‘اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ میں تیس پرندوں کا رنگ پایا جاتا ہے۔ میری گردن کے پر سنہرے ہیں اور جسم کا رنگ ارغوانی ہے۔ میری دم سفید اور سرخ ہے اور آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک ہے۔ جب میں بوڑھا ہوجاتا ہوں تو لکڑیوں اور خوشبودار چیزوں سے اپنا مرقد بناتا ہوں اور اس میں گھس کر مر جاتا ہوں۔ میری ہڈیوں اور چربی سے ایک کیڑا پیدا ہوتا ہے اور یہی کیڑا آگے چل کر میرا ہم ذات بن جاتا ہے یعنی میں مر کر پھر جی اٹھتا ہوں۔
’ققنس‘ اپنا قصہ یوں سناتا ہے کہ میں ایک نہایت خوش رنگ اور خوش آواز پرندہ ہوں۔ میری منقار میں تین سو ساٹھ سوراخ ہیں اور ہر ایک سوراخ میں سے ایک ایک راگ نکلتا ہے۔ جب مجھے بھوک لگتی ہے تو کسی بلند پہاڑ پر ہوا کے رخ ہو بیٹھتا ہوں۔ میرے خوش کن سروں کی آواز پر بہت سے پرندے میرے پاس اکٹھا ہوجاتے ہیں اور میں ان میں سے دو چار کو پکڑ کر چٹ کر جاتا ہوں۔ میری عمر ہزار سال کی ہوتی ہے۔ جب پورے ہزار برس گزر جاتے ہیں اور میری عمر طبعی اخیر کو پہنچ جاتی ہے تو میں بہت سی سوکھی لکڑیاں جمع کرتا ہوں اور ان پر بیٹھ کر مستی کے عالم میں گانااور اپنے پروں کو پھٹپھٹانا شروع کرتا ہوں۔ جس وقت دیپک راگ میری چونچ سے نکلتا ہے تو ان لکڑیوں میں آلگ لگ جاتی ہے اور میں جل کر راکھ ہوجاتا ہوں۔ خدا کی قدرت سے اس راکھ پر مینہ برستا ہے اور اس راکھ سے میں پھر پیدا ہوجاتا ہوں۔
یہ پرندے یعنی ہما، عنقا اور ققنس جب فضائے ادب میں اپنے پر پھیلاتے ہیں تو کہانیاں سمٹ آتی ہیں۔ ان کے ارد گرد داستانوں کی پریاں اُڑنے لگتی ہیں،محیر العقول کردار رقص کرنے لگتے ہیں، بیش بہا افکار و خیالات اڑان بھرنے لگتے ہیں، ان کے سوراخوں سے نکلے ہوئے سُر حیات و کائنات کے سر بن جاتے ہیں۔ یہ طائر کبھی تشبیہیں بن جاتے ہیں، کبھی استعارے ہوجاتے ہیں، کبھی مجاز مرسل تو کبھی علامتوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور اپنی تبدیل شدہ صورتوں سے ایسے ایسے پیکر، ایسے ا یسے منظر اور ایسے ایسے مرقعے بنا دیتے ہیں جن سے باصرہ میں رنگ، سامعہ میں آہنگ اور لامسہ میں جوشِ ترنگ بھر جاتا ہے ، شامہ مہک اٹھتا ہے اور ذائقہ چٹخارے لینے لگتا ہے۔
اور اب اس جدید جامِ جم میں جو مرقعے ابھر رہے ہیں اور ان مرقعوں میں ادبی کیاریوں کے کنارے ترکیبوں کی جوباڑ دکھائی دے رہی اور شعری و نثری شاخوں پر مرکبات کے جو شگفتہ گل بوٹے نظر آرہے ہیں، ان کی چمن بندی بھی زبان فارسی سے ہوئی ہے۔اس سے پہلے کہ چمن بندی اور چمن آرائی کے طور طریقوں پر روشنی ڈالی جائے آپ ترکیبوں کا کمال اور مرکبات کے جمال و جلال سے پوری طرح لطف اندوز ہولیجیے؎
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیرکا
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے
دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
سلسلۂ روز و شب، نقش گر حادثات
سلسلۂ روز شب، اصلِ حیات و ممات
کشتیِ مسکین و جانِ پاک و دیوارِ یتیم
علمِ موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیل
————
وہ دامنِ دشتِ شوق کا خار
یعنی تاج الملوکِ دل زار
اِک جنگل میں جا پڑا جہاں گرد
صحرائے عدم بھی تھا جہاں گرد
مرغانِ ہوا تھے ہوشِ راہی
نقشِ کفِ پا تھے ریگِ ماہی
وہ دشت کہ جس میں پر تگ و دو
یا ریگ رواں تھی یا وہ رہ رو
———
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیا سحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہِ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنا کے خدا کرو
اٹّھو فریضۂ سحری کو ادا کرو
———
’’ان یارانِ صادق و دوستانِ موافق بارانِ بادہ نوش و بذلہ سنجانِ عشرت کوش میں دن بھر تو وہ چہل پہل، قہقہے اور چہچہے رہے۔ سر شا م سے ناچ رنگ کی دھماچوکڑی مچی، خانہ و باغ میں حس کے درودیوار سے صحرائیت برستی تھی، شامیانۂ عیش کا شانہ بہ صد حشمتِ شاہانہ نصیب ہوا۔ ایک بتِ پندار، شوخ و ستم گار نے یہ غزل عجب لطف و اندازِ برنائی اور شانِ خود آرائی سے ادا کی‘‘۔(فسانۂ آزاد)
مرزا غالب، علامہ اقبال، دیا شنکر نسیم، میر انیس اور رتن ناتھ سرشار نے زبان و بیان میںجو ترکیبیں کی ہیں ان سے صرف صوتی آہنگ ہی نہیں پھوٹاہے بلکہ زبان کا طلسم بھی جاگا ہے۔ وہ طلسم جو گنجینۂ معانی کا دَر کھولتا ہے۔ مضامینِ نو پیدا کرتا ہے،خیال و افکار کے جوہر مرحمت کرتا ہے، معنی آفرینی کا نیرنگ دکھاتا ہے۔ ایک ایک مرکب میں مرکباتِ عجائباتِ زمانہ سمیٹ دیتا ہے۔
اردو کے ان شعری اور نثری مرقعوں میں جو یہ مختلف طرح کی ترکیبیں مثلاً:
بے اختیارِ شوق، خونِ دل، سازِچمن، حسرتِ دیدار، دودِ چراغ، دامنِ دشت، شامِ گردوں، اخترِ سیماب، مسافتِ شب، ریگِ رواں، بارانِ صادق، دوستانِ موافق، بتِ پندار، کشتیِ مسکین، جانِ پاک، دیوارِ یتیم۔
جذبۂ بے اختیار، سینۂ شمشیر، خامۂ مژگاں، خوں شدۂ کشمکش، نالۂ دل، سلسلۂ روز و شب، فریضۂ سحری، شامیانۂ عیش۔
اور
بوئے گل، صحرائے عدم، سوئے فلک، ثنائے خدا
دکھائی دے رہی ہیں اور اضافتِ زیر، اضافتِ ہمزہ اور اضافت یائے مہموز کے جن قاعدوں سے یہ مرکبات بنائے گئے ہیں وہ خالص فارسی قاعدے ہیں۔ ان قواعدی گروں کو اُردو نے اگر فارسی سے نہیں سیکھا ہوتا تو ہماری زبان میں جو بلند آہنگی اور نغمگی سنائی دیتی ہے، نہیں سنائی دیتی، ایجاز و اختصار کی جو خوبصورتی دکھائی دیتی ہے، نہیں دکھائی دیتی، سمندر کو کوزے میں سمیٹنے والی جو جادو گری نظر آتی ہے، نہیں نظر آتی۔ یہ وہ لسانی ترکیبیں ہیں جن میں ا ضافی، توصیفی، عطفی، تقلیبی، سبھی طرح کی قواعدی ہنرمندیوں کا رنگ، ڈھنگ اور نیرنگ دیکھا جاسکتا ہے اور اب جو مرقعے ا بھرنے والے ہیں ان سے نہ صرف یہ کہ عرب و فارس کے تاریخی واقعات، سیاسی معاملات، معاشرتی حالات، مذہبی بیانات منعکس ہوںگے بلکہ اجتماعی زندگی کے تجربات کا نچوڑ، تصورات کا عطر، مذہبی معجزات و کرامات کا ایجاز، انسانی افکار وخیالات کا ست اور حیات و کائنات کا سا ر بھی منعکس ہوگا۔ لیجیے مرقعے ابھرنے لگے ہیں ؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
اب کسے رہنما کرے کوئی
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
کشتیِ مسکین و جانِ پاک و دیوارِ یتیم
علمِ موسیٰ بھی ہے تیرے سا منے حیرت فروش
ایک جلوہ تھا کلیمِ طور سینا کے لیے
تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے
سب رقیبوں سے ہیں نا خوش پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہوگئیں
حسین ابنِ علی کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں
معجزہ شق القمر کا ہے مدینے سے عیاں
مینہ نے شق ہو کر لیا ہے دین کو آغوش میں
واقعات کااختصار، حیات وکائنات کا ست اور ساربتانے والے اور تجربات و مشاہدات کا جوہر دکھانے والے الفاظ تلمیح کہلاتے ہیں۔ عام طورشعر میں کسی مشہور قصے یا واقعے کے باندھنے کو تلمیح کہا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تلمیح تمام مروجہ تصورات پر محیط ہے۔ شعر میں ان تصورات کو محض بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ان کے تناظر میں دوسرے معنی مقصود ہوتے ہیں۔ گویا تلمیح اپنے اندر ایک آفاقی مفہوم رکھتی ہے۔اردو زبان و ادب میں زیادہ تر تلمیح عربی و فارسی سے آئی ہیںجن کی بدولت اردو زبان تو مالا مال ہوئی ہی ہے ،اردو کی تہذیب و تمدن میں بھی چار چاند لگے ہیں۔
تلمیح ہی کی طرح ایک اورلسانی عنصر بھی اردو معاشرے پراثر انداز ہوا ہے۔ اب اسی عنصر کے منعکس ہونے کی باری ہے۔ لیجیے اس کا انعکاس شروع ہوگیا:
نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہے۔آبِ حیات تاریکی میں ہے۔ مالِ مفت دل بے رحم۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ روپے کو روپیہ کھینچتا ہے۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔عقل مند کو اشارہ کافی ۔ بلی کو پہلے ہی مارنا چاہیے۔ زلیخا تو ساری پڑھ گئے پر یہ نہ جانا کہ وہ عورت تھی یا مرد۔ عالم بالا کی سخن فہمی معلوم ہوگئی۔ ابھی دلی دور ہے۔
مذکورہ بالاسارے فقرے /جملے ضرب ا لامثال ہیں جو فارسی کہاوتوں کا اردو ترجمہ ہیں۔ آپ ان کی فارسی شکلیں بھی دیکھ لیجیے:
دشمن دانا بہ از دوست ناداں۔ آب حیواں درونِ تاریکی است ۔مالِ مفت دل بے رحم۔ رقص کردند خود نداند صحن را گویا کج است۔ زر را زر می کسد۔ صبر تلخ است و لیکن بر شیریں دارد۔ عاقل را اشارہ کافی است۔ گر بہ گشتن روز اوّل۔ زلیخا زنِ بود یا مرد۔ سخن فہمی عالم بالا معلوم شد۔ ہنوز دلّی دور است۔
اس طرح کے سیکڑوں امثال ہیں جو براہِ راست اردو میں فارسی سے داخل ہوئے ہیں۔ وہ مختصر جملے یا فقرے جو طویل تجربات کے بطن سے پیدا ہوئے ہوں اور جن میں قدما نے قوانین کی طرح زندگی کو سمو دیا ہو اور جو دانش مندی کے مظاہر اور دانش مندوں کے اقوال کی تفسیر ہوں، ضرب الامثال ہیں۔ مثل کو اردو میں کہاوت بھی کہتے ہیں، مثل یا کہاوت کے لیے چھ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
۱- اختصار ۲- جامعیت ۳- کثرتِ استعمال ۴- تجربات یا مشاہدات کا نچوڑ ۵- قبول عام
۶- معنوی زور اور حقائق کی عکاسی
ایک جملے میں اگر مثل کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ا یسے عملی اصول جو بہت سے لوگوں کے تجربے میں آکر زبانِ زد خلائق ہوجاتے ہوں، ضرب المثل ہیں۔
فارسی سے اردو میں آئی ہوئی کہاوتیں یا ان کے طرز پر بنائی گئی کہاوتیں ،وہ کہاوتیں ہیں جو طائر قلب و نظر کو پر لگاتی ہیں۔ بصیرتوں کو پرواز عطا کرتی ہیں۔ ذہن انسانی کو بلندیوں تک پہنچاتی ہیں، چاند سورج اور ستاروں کی سیر کراتی ہیں، زندگی کا جوہر سامنے رکھتی ہیں، تاریک راہوں میں مشعل کا کام کرتی ہیں، زندگی کے فیصلوں میں رہنمائی کرتی ہیں اور معاملاتِ دنیا کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔
صرف یہی نہیں جن کا اوپر ذکر ہوا بلکہ کچھ اور بھی لسانی اور ادبی عناصر ایسے ہیں جو ہمارے یہاں عربی اور فارسی سے آئے ہیں اور جن سے ہماری معاشرت اور ہماری تہذیب میں بے پناہ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ہماری زبان سے بھی فارسی اور عربی زبان اور ان کی تہذیب و تمدن میں بہت کچھ داخل ہو ا مگر ان کا ذکر ابھی نہیں، کہ یہ مقام ان کا نہیں، اردو کا ہے۔
٭٭٭
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں