ڈاکٹر منور حسن کمال
شاعری ایک دل آویز آہنگ کا نام ہے، جو ذہن و دل کی مشترکہ جدوجہد سے پیدا ہوتا ہے۔ شاعری کو دل سے جدا کیے بغیر دماغ سے آہنگ مستعار لیا جائے، ذہن کے دریچوں سے معنویت کے خوش گوار جھونکے درآئیں اور زندگی کی سچائیوں کا آئینہ رو برو ہو تو جو شاعری صنف سخن کے منظر نامے پر ابھرتی ہے، وہ خوابوں کی دنیا میں مگن رہنے والے انسان کو بھی حقیقت آشنا کردیتی ہے اور جب شاعری میں معنویت کے خوش گوار جھونکے پہلو در پہلو زندگی کی سچائیوں کی آگہی کا آئینہ پیش کرتے نظر آئیں تو وہ خدائے سخن میر تقی میر، استاد ذوق دہلوی، سید الاحرار حسرت موہانی، رئیس المتغزلین جگر مرادآبادی یا دنیائے غزل کے امام داغ دہلوی اور سیماب اکبرآبادی جیسی نابغہ روزگار شخصیتوں کی شاعری کہلاتی ہے اور جس کی شاعری کے تانے بانے انھیں استادان فن سے مل رہے ہوں، اس کی شاعری وہی ہوگی جو علامہ ابوالمجاہد زاہد (۱۹۲۸ء-۲۰۰۹ء) کی شاعری ہے۔ علامہ ابوالمجاہد زاہد کا سلسلہ تلمذ علامہ سیماب اکبرآبادی کے توسط سے داغ تک پہنچتا ہے۔ چناںچہ داغ اسکول کی تمام تر خوبیاں ان کے ہاں صالح روایات اور تعمیری اقدار کے ساتھ جا بجا نظر آتی ہیں۔
شاعر بنیادی طور پر رومان پسند ہوتا ہے، اس کی فطرت میں چاہت کی رنگینیاں، عشق کی نیرنگیاں اور محبت کی جولانیاں سمائی رہتی ہیں، جو موقع پاتے ہی اشعار کی شکل میں شاعر کی زبان سے ادا ہوجاتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کہیں یہ رنگینیاں، نیرنگیاں اور جولانیاں رومانیت پر اپنا سفر ختم کردیتی ہیں اور کہیں اس سے دو قدم آگے روحانیت کا سفر اختیار کرکے عشق مجازی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ پھول، خوش بو، رنگ، شفق، شبنم، آب جو، بلندیاں، گہرائیاں اور فطرت کے جمال کی تمام رعنائیوں کو شاعر اپنے تصورات میں یکجا کرکے شعری پیکر میں ڈھال کر شاعری کے ایسے اجسام عطا کرتا ہے، جن کی تابناکیاں روحوں تک کو سرشار کردیتی ہیں۔
ابوالمجاہد زاہد نے اپنی شاعری کو انھی تخیلات سے سجاکر رومانیت کے ارتفاع تک پہنچادیا۔ وہ کہتے ہیں:
اس کی آنکھیں کلام کرتی ہیں
اس کے رخسار مسکراتے ہیں
———
وہ تو رشک بہار تھا زاہدؔ
پھول کھلتے گئے جدھر نکلا
———
تصور ہی سے جس کے بجلیاں سی کوند جاتی ہیں
خدا جانے جب اس کا سامنا ہوگا تو کیا ہوگا
———
کھلی جو آنکھ تو افسونِ خواب ٹوٹ گیا
ابھی ابھی کوئی چہرہ مری نظر میں تھا
———
آنکھوں کا کلام کرنا، رخساروں کا مسکرانا، رشک بہار کی گزرگاہوں پر پھول کھلنا، تصور سے ہی بجلیوں کا کوند جانا اور آنکھ کھلتے ہی خوابوں کا بکھر جانا یہ علامتیں، استعارے اور تلمیحات اس شعری پیکر کے خالق کی طرف اشارہ کررہی ہیں، جس کا شعری ذوق داغ و سیماب کے خمیر سے اٹھا ہے، وہ اردو زبان کی سادگی و پرکاری کا معترف ہے، اسی لیے اس نے بھاری بھرکم اور ادق الفاظ سے اپنی شاعری کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ وہ اس حقیقت کا شاہد ہے کہ اردو شاعری کی شیرینی اور حلاوت اس کے دائمی امتیازات کا محور ہے اور جب یہ امتیازات ابوالمجاہد زاہدؔ کی روشن خیالی، انسان دوستی، احساس اخوت، عصر حاضر کی نابرابری، اوہام پرستی اور اقدار کی پامالی کے سامنے فروکش ہوجاتے ہیں تو اس کے قلم سے ایسے اشعار صفحۂ قرطاس کی زینت بنتے ہیں:
ہم جو سلجھانے پہ آجائیں تو کچھ مشکل نہیں
زلف ہستی ہی سہی، گیسوئے دوراں ہی سہی
———
کلی کلی کو دیا ہے شگفتگی کا پیام
چمن میں جب بھی چلے ہم، چلے صبا کی طرح
———
مسئلے زندہ قوموں کی پہچان ہیں
مردہ قوموں کے کوئی مسائل نہیں
———
ابوالمجاہد زاہدؔ نے چونکہ اپنی عمر عزیز کا سب سے بڑا حصہ رام پور میں گزارا ہے اور رام پور دہلی اسکول اور لکھنؤ اسکول کے درمیان واقع ہے، اس لیے ان کے ہاں دونوں دبستانوں کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا ہے۔ انھوں نے دونوں دبستانوں کی خصوصیات کو انتہائی فن کارانہ مہارت سے سمجھا اور برتا ہے۔ ان کے ہاں دہلوی اسکول کی زبان اور لکھنوی اسکول کے محاورے جا بہ جا نظر آتے ہیں۔ مضامین میں اثر آفرینی، سادگی اور برجستگی دہلوی اسکول کی نمائندگی کرتی ہے تو شعری محاسن، مستی و سرشاری اور آورد کے فتراک سے نکلے اشعار میں لکھنوی اسکول کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ مثلاً ’’قل ھو اللّہ احد‘‘ کا یہ بند:
اس کی چاہت نورِ جاں، معراجِ شوق اس کی رضا
دوزخ اس کی ناخوشی، خلد بریں اس کی خوشی
ہے وہی حقدار ہر حمد و مناجات و دعا
آبروئے زندگی، اس کی مکمل بندگی
کہا جاتا ہے کہ یہ دور اردو غزل کی قدیم روایتوں کو ملحوظ نہیں رکھتا، لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر ہم نے قدیم دیرینہ روایتوں سے انحراف کیا تو رعایت لفظی کے ساتھ ساتھ تشبیہات اور استعارات کے خزانوں تک ہماری رسائی کیسے ہوپائے گی۔ ہم ان محاسن کو اپنی شاعری میں کیسے برتیں گے اور کس طرح شاعری کی زندہ علامتوں کو منظرعام پر پیش کرسکیں گے۔
ابوالمجاہد زاہدؔ کے شعری اور تخلیقی محاسن جب پوری طرح نمودار ہوئے تو وہ (۱۹۵۴ء) ترقی پسند شاعری کا دور تھا۔ان کی شاعری پر اس کے اثرات مرتب ہونا فطری امر تھا، لیکن وہ اس میں ڈوب نہیں گئے، بلکہ انھوں نے اپنی الگ شناخت بنائی اور نئی جہتوں کے ساتھ اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کامیابی ان کے ان بے پناہ مشاہدات کا عطیہ ہے جن کی بھٹی میں تپ کر انھوں نے اپنی شاعری پر آبِ زر چڑھادیا اور فن کارانہ ندرت، خوش سلیقگی اور آفاقی موضوعات نے ان کے اشعار کو تعمیری قدروں اور صالحیت کا خزانہ بنادیا، لیکن انداز کچھ ایسا ہے کہ شاعری شاعری ہوتی ہے، وعظ و نصیحت کا جامہ اختیار نہیں کرنے پاتی، مثلاً:
تیری تلوار ہے ترا کردار
اپنی تلوار کی نہ دھار گرا
———
حسنِ کردار کو پہچان بنالے اپنی
تیری عزت اسی پہچان سے وابستہ ہے
———
آرزوئوں کے چکنے پہاڑ الاماں
پائوں رکھتے ہی ہم تو پھسلنے لگے
———
دنیا میں کیسے کیسے حقیقت پسند لوگ
آنکھیں ہوئیں جو بند تو افسانہ ہوگئے
ابوالمجاہد زاہد نے حیاتِ انسانی کے مضراب پر حقیقت پسندی کا راگ تو الاپا ہے، لیکن اس کی نغمگی کی حلاوت کو سبوتاژ نہیں ہونے دیا، گویا ان کی شاعری برگزیدگی کے ساتھ ساتھ شیفتگی کا سامان بھی فراہم کرتی ہے:
لوگ چن لیں جن کی تحریریں حوالوں کے لیے
زندگی کی وہ کتابِ معتبر ہوجائیے
———
گھونگھٹ ہی کیا نقاب اڑانے لگی ہوا
گائوں میں اب تو شہر کی آنے لگی ہوا
زندگی کا درس دینے والی شاعری کے ساتھ ساتھ گائوں پر شہری زندگی کے پڑنے والے اثرات پر بھی ابوالمجاہد کی گہری نظر تھی۔
مجموعی طور پر علامہ ابوالمجاہد زاہدؔ کی پوری شاعری مکمل ضابطہ اخلاق کی پابند نظر آتی ہے، ان کی شاعری کے روشن امکانات نئے ذہنوں کو ایک سبق دیتے ہیں، لہجے کا انوکھاپن اور لفظیات کے نئے سانچے ان کی شاعری کو تابندگی عطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں