محمد حسن عسکری
(۱)
منٹو مر گیا۔ وہ میرا دوست تھا، اس کے مرنے پر میں روؤں یا نہ روؤں، یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کے متعلق ماتمی مضمون لکھتے ہوئے میں پوری سنگدلی سے کام لوں گا۔ یعنی منٹو ہی کی روایت پر عمل کروں گا۔ گاندھی جی، قائد اعظم، اختر شیرانی۔۔۔ تین آدمیوں کی موت پر میں نے منٹو کا عالم دیکھا ہے۔ ایسے موقعوں پر وہ رو بھی لیتا تھا۔ اس پر آدھ آدھ گھنٹے کے لئے سکتہ طاری ہوتا تھا، لیکن پھر وہ گھر سے نکل پڑتا۔ سارے شہر کا چکر لگاتا۔ ایک ایک آدمی سے پوچھتا کہ تمہارا رد عمل کیا ہے۔ پھر گھر آکے مختلف پہلوؤں سے اس واقعہ پرغور کرتا۔ اسے الٹ پلٹ کے دیکھتا۔ اس کے اسباب اور نتائج کا جائزہ لیتا اور کئی کئی دن تک اسے یہ فکر لگی رہتی کہ آخر اس بات کے معنی کیا ہیں۔
شاید منٹو دوسری دنیا میں بیٹھا فرشتوں کو اپنی موت کا مطلب سمجھا رہا ہوگا۔ پھر میں کیوں روؤں؟ میں اس دنیا میں بیٹھ کے اس کا کام کیوں نہ کروں؟ منٹو کے دل میں ایک آگ سی جلتی رہتی تھی۔۔۔ وہ ہر چیز کا مطلب سمجھنے کو مضطرب رہتا تھا۔ میں آنسو بہا کے یہ آگ بجھاؤں؟ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن کے مرنے پر آنسو بہا کے ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ منٹو ایسا آدمی نہیں تھا کہ ہم ’’خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں‘‘ کہہ کے اس کے سارے عیب نظر انداز کر دیں۔ اس کے افسانوں کے ساتھ، اس کی خوبیوں کےساتھ اس کا ایک ایک گناہ بھی زندہ رہنا چاہئے۔ منٹو معاف کرنے یا معاف کئے جانے کے لئے پیدا نہیں ہوا تھا۔ منٹو کوئی کتا یا بلی نہیں تھا کہ وہ آپ کے باورچی خانے میں سے دودھ پی جائے اور آپ اسے معاف کر دیں۔
منٹو مرد تھا۔ وہ دنیا میں اوروں کی طرف سے یا اپنی طرف سے عذر خواہیا ں کرنے نہیں آیا تھا، بلکہ اوروں سے ان کے گناہ قبولوانے اور خود اپنے گناہ قبولوانے اور اپنے گناہ، اس نے تو ہم سب کے گناہ بھی اپنے کندھوں پر اٹھا رکھے تھے۔ وہ بیچارہ تو مرا ہی اس بوجھ کے نیچے پس کے۔ میں اس کی نیکیاں یاد دلا کے اسے بزدل ثابت نہیں کروں گا۔ منٹو ذمہ دار آدمی تھا، نئی سے نئی ذمہ داریاں اپنے سر لیتا تھا۔ سب سے بڑی ذمہ داری تو اس نے سمجھنے اور سمجھانے کی مول لے رکھی تھی۔ یہ ہمت آج اردو کے کس ادیب میں ہے؟ یہ منٹو نہیں مرا، ایک طرز حیات مرا ہے۔
اور وہ آدمی کب تھا؟ منٹو تو ایک اسلوب تھا۔۔۔ لکھنے کا نہیں، جینے کا۔۔۔ واقعی منٹو بڑی خوفناک چیز تھا۔ وہ ایک بغیر جسم کی روح بن کے رہ گیا تھا جو گھبراہٹ مجھے دوستو فسکی کے ناول پڑھ کے ہوتی ہے وہی منٹو پڑھ کے ہوتی تھی۔ اگرآپ مجھ سے پوچھیں کہ تم نے کبھی بھوت دیکھا ہے تو میں کہوں گا، ہاں۔۔۔ منٹو سوچتا تو احساسات اور جسمانی افعال کےذریعہ ہی تھا۔ لیکن یہ وہ چیز تھی جس کے متعلق اسپین کے صوفیوں نے کہا ہے کہ جسم کی بھی ایک روح ہوتی ہے، یہ روح منٹو نے پالی تھی۔ وہ کسی اخلاقی یا ذہنی خول کے اندر نہیں رہتا تھا۔ عام طور سے لوگ اپنے اوپر کوئی خول اس بری طرح چڑھائے رکھتے ہیں کہ چیزیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں، خول سے ٹکرا کے رہ جاتی ہیں۔ وہ بس ٹکرانے کی آواز ہی سنتے ہیں۔
منٹو نے اپنی روح کو بالکل ہی بے حفاظت چھوڑ دیا تھا۔ ہر چیز منٹو تک پہنچی تھی اور اتنے زور کا تصادم ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ چکرا کے رہ جاتا تھا۔ بہر حال چیزیں اس تک پہنچی ضرور تھیں، چاہے وہ اس کا مطلب سمجھنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو۔ منٹو میں اگر کوئی خامی تھی تو یہ کہ اس کے پاس احساسات تو بہت تھے لیکن انہیں ترتیب دینے اور انضباط میں لانے کی صلاحیت قوی نہ تھی۔ لیکن اتنے مختلف اور متنوع احساسات کو سہارنے کی ایسی طاقت بھی ہمارے کس ادیب میں ہے؟ اسے ہر چیز محسوس کرنے کا شوق تھا بلکہ یہ تو اس کی مجبوری تھی۔ وہ چیزوں کو اس لئے نہیں دیکھتا تھا، انہیں کام میں لانا ہے یا انسانوں میں استعمال کرنا ہے، وہ تو احساس کی مشین بن گیا تھا جو خود بخود کام کرتی رہتی تھی۔
ایک دفعہ منٹو نے اپنے کسی افسانے کے بارے میں میری رائے مانگی۔ میں نے کہہ دیا بہت اچھا ہے۔ منٹو نے کہا ’’سچ سچ بتاؤ۔‘‘ میں نے پھر وہی بات دہرا دی۔ منٹو کی تسلی نہ ہوئی۔ کہا میرے افسانہ کی تعریف نہ کرو۔ کوئی خامی بتاؤ۔ میں نے جواب دیا، اس کا خاتمہ کچھ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ حالانکہ منٹو مجھ سے کسی معاملہ میں بحث نہ کرتا تھا لیکن اس وقت اسے میری بات پسند نہ آئی۔ کہنے لگا یہ افسانہ میں نے نہیں لکھا میرے کردار نے لکھا ہے۔ جس طرح اس نے کہا ویسے ہی میں نے ختم کر دیا۔ اصل قصہ یہی ہے۔ منٹو سے چیزیں ہی افسانہ لکھواتی تھیں اس لئے تو اس کا افسانہ کبھی اچھا ہوتا تھا، کبھی خراب، یہ تو میں ماننے کو تیار نہیں کہ منٹو میں اپنے دماغ کے ذریعہ اپنے احساسات کو قابو میں لانے کی اہلیت نہ تھی، اس کا حال تو بابو گوپی ناتھ سے معلوم ہو سکتا ہے۔ البتہ بعض اوقات چیزیں اس کے دماغ پر بری طرح غالب آ جاتی تھیں اور اسے اپنی طرف کھینچنے لگتی تھیں۔ اس کھینچاتانی میں اس کا افسانہ بگڑ جاتا تھا۔ لیکن ویسے ہر چیز اپنی جگہ نہایت ٹھوس ہوتی تھی۔ چیزوں کو اس طرح قبول کرنے کے لئے بھی جگرا چاہئے۔
منٹوکے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بڑا خودپسند تھا اوراپنے اوپر اعتراض برداشت کرنے کی تاب اس میں نہ تھی، بعض لوگوں نے تو ہمدردانہ نقطہ نظر سے ہی سہی، مگر یہاں تک کہا ہے کہ اس کی انانیت نے ہی اس سے افسانے لکھوائے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہےکہ انانیت کی مدد سے آدمی تنقید یا بری بھلی نظمیں لکھ لے تو لکھ لے، افسانے نہیں لکھ سکتا۔ افسانہ لکھنے کے لئے تو سڑک کے روڑوں تک کو اپنے اوپر فوقیت دینی پڑتی ہے۔ رہا منٹو تو اس کے متعلق تو میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی انانیت بس ایک ڈھونگ تھا، جو اس نے اپنی سچائی کی حفاظت کے لئے رچایا تھا۔ ادیبوں اور ادبی حلقوں کے لئے اس نے ایک الگ چہرہ تیار کر کے رکھا تھا۔ جسے وہ ایسے موقعوں پر فوراً اوڑھ لیتا تھا۔ یہ بھی در اصل منٹو کا ایک تجربہ تھا۔۔۔ دوسروں کے ساتھ اور خود اپنی شخضیت کے ساتھ اس کی خودستانی بھی ایک اعلان جنگ تھا۔ بے حسی کے خلاف یہ بھی ایک دعوت تھی۔ جن چیزوں کو اس نے سمجھا تھا انہیں سمجھنے کی وہ تعریف نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے انداز نظر کی۔
رہا اس کا انکسار تو اسے بھی منٹو نے چھپا کے نہیں رکھا تھا کہ اس سے دوستی کئے بغیر نظر نہ ہی آئے۔ یہ وہ ٹاٹ نہیں تھا جسے خدا پرست بادشاہ اپنے زریں لباس کے نیچے پہنا کرتے تھے۔ منٹو کے انکسار کے مظاہرے چلتے پھرتے بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ اس کا زیادہ وقت غیر ادبی لوگوں کے ساتھ گزرتا تھا اور وہ ان کے ساتھ اس طرح شامل رہتا تھا جیسے بالکل انہیں جیسا ہو۔ وہ لوگوں سے رابطہ ذہن کے ذریعہ قائم نہیں کرتا تھا بلکہ احساس کے ذریعے۔ جو لوگ ذہن کے بغیر منٹو سے تعلق پیدا کرنا چاہتے تھے انہیں کبھی کامیابی نہیں ہوتی تھی۔ پھر جن لوگوں نے صرف و محض اپنے ذہن کی پرورش کی ہو اوراپنی شخصیت کے خیالی عناصر کو دبایا ہو، ان سے مل کر منٹو کو آسودگی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ ذہانت کے اندر محدود رہنے والوں کے سوا ہر قسم کا آدمی منٹو کا دوست نہیں بن سکتا تھا، اور بس یہی دس پندرہ منٹ کے اندر۔
اس نے کبھی کسی کو اپنے سے ذہنی طور پر کم نہیں سمجھا۔ ہر آدمی کا تجربہ اس کے لئے اتنا ہی قابل قدر تھا جتنا خود اپنا۔ وہ کسی کو قبول کرنے سے پہلے شرطیں عائد نہیں کرتا تھا۔ منٹو کی محبت بھی شدید ہوتی تھی اور نفرت بھی۔ لیکن حقارت کا جذبہ اس کے اندر نہیں تھا۔ اچھا ہی ہوا کہ منٹو نے باقاعدہ طور پر زیادہ تعلیم حاصل نہ کی۔ اسی لئے تو عام آدمیوں سے ان کی سطح پر ملنے کی صلاحیت محفوظ رہی۔ اس کی نظر میں کوئی انسان بے وقعت نہیں تھا۔ وہ ہر آدمی سے اس توقع کے ساتھ ملتا تھا کہ اس کی ہستی میں بھی ضرور کوئی نہ کوئی معنویت پوشیدہ ہوگی جو ایک نہ ایک دن منکشف ہو جائے گی۔ میں نے اسے ایسے ایسے عجیب آدمیوں کے ساتھ ہفتوں گھومتے دیکھا ہے کہ حیرت ہوتی تھی۔ منٹو انہیں برداشت کیسے کرتا ہے۔ لیکن منٹو بور ہونا جانتا ہی نہ تھا۔ اس کے لئے تو ہر آدمی زندگی اور انسانی فطرت کا ایک مظہر تھا، لہٰذا ہر شخص دل چسپ تھا۔ اچھے اور برے، ذہین اور احمق، مہذب اور غیر مذہب کا سوال منٹو کے یہاں ذرا نہ تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ ہر قسم کے آدمی سے ربط و ضبط رکھ سکتا ہو، اس میں تو کمال یہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ ہر شخص میں میری ہی جیسی ذہنی صلاحیتیں ہیں۔
جن دنوں منٹو اور میں ’’اردو ادب‘‘ مرتب کر رہے تھے، منٹو کی یہ عادت روز نئی الجھنیں پیدا کرتی تھی جو بھی چلتا پھرتا منٹو کے یہاں آ نکلا، منٹو نے فوراً نصیحت کی کہ لکھنا سیکھو۔ اسے دوچار موضوع بتائے، لکھنے کا طریقہ سمجھایا اور مضمون کی فرمائش کر دی۔ دو تین دن بعد وہ صاحب افسانہ یا مضمون کے لئے چلے آ رہے تھے۔ ظاہر ہے یہ چیزیں کس قسم کی ہوتی تھیں۔ لیکن روز تجربوں کے بعد بھی منٹو کی یہ عادت نہ چھوٹی۔ وہ سمجھتا تھا کہ اگر میں لکھ سکتا ہوں تو سب ہی لکھ سکتے ہیں، آخر اس بات میں ایسی بات ہی کون سی ہے۔ غرض یہ کہ بس ادیبوں کے سامنے ہی ادیب بنتا تھا۔ ورنہ اس میں تو انسانوں کو قبول کرنے کی صلاحیت اتنی زبردست تھی کہ جیسا آدمی ساتھ ہو منٹو ویسا ہی بن جاتا تھا۔
میں نے اس خوبی کو انکسار کہا ہے مگر اس لفظ میں ایک تکلف ہے، تصنع جھلکتا ہے، اس میں بھی دوسروں پر اپنی فوقیت کا احساس پنہاں ہے۔ منٹو میں تو سچے فنکاروں کی نفی خود ہی آگئی تھی۔ وہ ہر وقت کچھ اور بنتا رہتا تھا۔ وہ جن لوگوں یا جن چیزوں کے متعلق لکھتا تھا پہلے خود بھی وہی بن جاتا۔ منٹو جیسے فنکار کو خود پرست کہنے سے پہلے آدمی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ البتہ مجھے اس سے شکایت ہے کہ میرے ساتھ اس نے خود پرستی سے کام لیا۔ یعنی میری اس طرح عزت کرتا رہا جیسے میں اور وہ دو بالکل مختلف قسم کی مخلوق ہیں۔ ممکن ہے میں نے اس کی بہ نسبت دس پانچ کتابیں زیادہ پڑھ لی ہوں گی مگر دس ہزار کتابوں سے زیادہ پڑھ کے بھی آدمی منٹو نہیں بنتا۔ در اصل میری عزت کر کے منٹو مجھ پر تنقید کرتا تھا۔ منٹو سر تا پا فنکار تھا۔ اس کی ساری زندگی اس کے احساسات میں تھی۔ میں یہ درجہ کبھی حاصل نہیں کر سکا۔ منٹو کی مجھ سے بیگانگی بالکل بجا تھی۔ چاہے اس کا ذریعہ اظہار عزت ہی کیوں نہ ہو۔
در اصل اس کے ساتھی بس اس کے احساسات ہی تھے۔ وہ انہیں کی صحبت میں رہتا تھا، چاہے اپنے گرد ایک مجمع جمائے رکھے۔ لوگ کہتے ہیں منٹو کا مشاہدہ بڑا زبردست تھا۔ خارجی دنیا کو تو وہ دیکھتا ہی تھا مگر اس سے زیادہ وہ اپنے اندر دیکھتا رہتا تھا۔ اس پر تقریباً ہر وقت ہی ایک مراقبے کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ خصوصاً رات کے وقت جب وہ گرد و پیش سے غافل ہونے لگتا تھا۔ ایسی حالت میں بالکل یوں معلوم ہوتا جیسے منٹو اپنے حواس خمسہ اور اپنے احساسات سے گفتگو میں مصروف ہو۔ صوفی لوگ تو اپنے گیان دھیان کے ذریعہ باہمہ و بے ہمہ کا درجہ حاصل کرتے تھے۔ منٹو نے یہ کیفیت اپنے احساسات کے ذریعہ حاصل کی تھی۔ میں تو اسے باددہ خوار ہونے کے باوجود ولی سمجھتا تھا۔ منٹوعارف کی بعض اہم خصوصیات سے خالی نہ تھا۔
منٹو کی آنکھیں تھیں تو بڑی بڑی، اور وہ گرد و پیش کی ہر چیز کو نہایت غور سے دیکھتی نظر آتی تھیں۔ لیکن مجھے تو ہمیشہ ایسا لگا ہے کہ منٹو کی آنکھیں اپنے اندر کی کوئی چیز ڈھونڈ رہی ہیں اور اس کے کان اس شور و طوفان کو سن رہے ہیں جو خود اس کے اندر بپا ہے۔ یوں تو جو ہر چیز بھی سامنے آئے منٹو اس سے فوراً تعلق پیدا کر لیتا تھا لیکن اس کی بے تعلقی ایک ہیبت ناک چیز تھی۔ بنیادی طور سے منٹو تنہا آدمی تھا۔۔۔ یعنی اپنے سارے ہنگاموں کے باوجود۔۔۔ اس کے اندر ایک ایسا مرکز تھا جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا اور منٹو کی جان یہی مرکز تھا۔
یوں منٹو کے پاس دماغ بھی تھا، لیکن اس نے اپنے سوچنے کا ذریعہ احساسات کو بنا لیا تھا۔ دوسرا ذریعہ تھا افعال۔ جب وہ کسی چیز کو سمجھنا چاہتا تھا تو کچھ نہ کچھ کرتا تھا۔ چاہے شراب پئے، چاہے سڑکوں پر گھومتا پھرے، چاہے کسی سے لڑ پڑے، چاہے کوئی الم غلم مضمون لکھ ڈالے۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔ کیونکہ ہر وقت وہ کچھ نہ کچھ سمجھنا چاہتا تھا۔ پہلے سے طے کر کے نہیں کہ مجھے فلاں بات سمجھنی ہے، اس کا کام تو سمجھنا تھا۔ چاہے کوئی بات بھی سمجھ میں آجائے۔ افسانہ نگاری کا کوئی نکتہ ہو یا انسانی فطرت کا کوئی راز، یا لذت اندوزی کا کوئی طریقہ، بے مقصد کچھ نہ کچھ کرنے کا جو فلسفہ ژید نے نکالا ہے، منٹو اس کی زندہ مثال تھا۔ اس کا ہرلمحہ ایک تجربہ تھا۔ اس کا ہر فعل ایک لیبارٹری۔ وہ اپنے تجربات سے پورا پورا فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ اگر وہ ذہن کی تربیت بھی اسی انہماک سے کرتا تو منٹو اور بھی بڑا ادیب ہوتا۔ یہ باتیں مجھے تسلیم ہیں مگر اس طرح زندگی بسر کرنے کا اتنا سلیقہ بھی آج کس میں ہے؟ کسی نے کہا ہے کہ اصلی شاعر وہ ہے جو اپنی نظم کی ساری تفصیلات بھی نظر میں رکھے اور اسے ایک نقطے کی طرح بھی دیکھ سکے۔ اسی طرح اصلی شخصیت وہ ہے جو اپنی تمام رنگا رنگی کے باوجود شعلے کی لو کی طرح نظر آئے۔ ہمارے نئے ادیبوں میں یہ بات منٹو کے سوا اور کسے حاصل ہوئی۔
منٹو شرابی تھا۔ جو کچھ بھی تھا وہ سب کو معلوم ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن اخلاقی طہارت کی جیسی دھن منٹو کو تھی ویسی میں نے کسی اور میں نہیں دیکھی، وہ باہر سے رند تھا اندر سے زاہد۔۔۔ گو ناصح کبھی نہیں بنا۔ یہ اخلاقی طہارت وہ اپنے اندر بھی ڈھونڈتا تھا اور دوسروں میں بھی۔ بہت سے افسانے جو بعض لوگوں کو بہت فحش معلوم ہوئے، در اصل اس کی اسی طہارت پسندی کے نمونے ہیں۔
اسی طرح بعض افسانوں میں چند حضرات کو پاکستان کی مخالفت نظر آئی، حالانکہ اس میں منٹو نے ٹھیٹ اسلامی دیانت داری اور اس اخلاقی احتساب کا مظاہرہ کیا تھا جس کا استعمال وہ اوروں پر ہی نہیں، اپنے آپ پر بھی کرتا تھا۔ پھر آزادی فکر و احساس کچھ ایسی اس کی گھٹی میں پڑی تھی کہ یہ میسر نہ ہو تو وہ سانس نہیں لے سکتا تھا۔ ہزاروں روپے کی آمدنی پر لات مار کر ہندوستان سے چلا آیا اس لئے کہ وہاں ’’ڈان‘‘ اس کے پڑھنے کو نہیں مل پاتا تھا۔ یہ وہ اخبار ہے جس نے منٹو کی زندگی میں اسے دو دو کالم لمبی گالیاں دیں۔ اس کی کتابوں کی ضبطی کا مطالبہ کیا اور اس کے مرنے کے بعد افسوس کا ایک لفظ نہ لکھا۔ ملک میں منٹو کی جس طرح قدردانی ہوئی وہ ہماری تہذیبی زندگی کا ایک خونی ورق ہے۔ پھر آج جس طرح منٹو کی مجاوری ہو رہی ہے وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ اگر مجھ میں منٹو جیسی جرأت ہوتی تو میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا دوسرا حصہ لکھتا۔
میں نہ معلوم کہاں بہک گیا۔ بات ہو رہی ہے منٹو کی حریت پسندی کی، لوگوں کو دوسروں کے غلبے سے آزاد رہنا سکھانے والے تو بہت ہیں، لیکن منٹو ایک ایسا آدمی تھا جو کہتا تھا دوسرا مجھ سے بھی آزاد ہو۔
منٹو نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چھوٹا ہو یا بڑا، زندگی کے متعلق اس نے جو رویہ اختیار کیا تھا اس میں خامیاں چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہوں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس نے مرتے دم تک اپنے خواب سے غداری نہیں کی۔ وہ شراب تو ہمیشہ سے ہی پیتا چلا آیا تھا مگر اب لوگوں سے پیسے مانگ مانگ کے پینے لگا تھا۔ بہت سے لو گ جو کل تک اس کی خوشامد کیا کرتے تھے، اب اسے ذلیل سمجھنے لگے تھے۔۔۔ محض اتنی بات پر کہ اس نے سڑک چلتے پکڑ کے ان سے دوچار روپے مانگ لئے۔ یہ سب بڑی باتیں ہیں۔ لیکن کیا یہ اس کی سب سے بڑی ذلالت نہ ہوتی کہ وہ اپنے خواب سے بے وفائی کرتا؟ کچھ دنوں سے شہید کا لفظ بڑی فیاضی سے استعمال ہو رہا ہے۔ منٹو اکثر سوچا کرتا تھا کہ شہید کسے کہتے ہیں۔ خیر کسی مقصد کےلئے جان دے دینا بڑی مشکل ہے۔ لیکن روز کی بے عزتی برداشت کرنا اور شرم سے گھل گھل کے مرنا۔۔۔ صرف اس بات کے لئے میرے خواب کی عزت محفوظ رہے۔۔۔ یہ کیسا کام ہے؟
منٹو کے مرنے پر لوگوں کو جو صدمہ ہوا ہے وہ بھی اسی طرح سمجھنے کی چیز ہے جس طرح منٹو کی زندگی اور موت۔ اس کے پڑھنے والوں نے کچھ ایسا محسوس کیا ہے جیسے اپنا کوئی سرپرست اٹھ گیا ہو۔ اس میں ایک چیز تو یہ بھی ہے کہ جو باتیں اور ادیب کہنے کی ہمت نہ کر سکتے تھے وہ منٹو بے دھڑک کہہ ڈالتا تھا لیکن اس سے بھی بڑ ی چیز یہ ہے کہ منٹو کی قسم کا فنکار ہم جیسے عام لوگوں کے لئے ایک ڈھال کا کام دیتا ہے۔ زندگی کی جن زہرہ گداز حقیقتوں کا شعور حاصل کئے بغیر ہم ٹھیک طرح زندہ نہیں رہ سکتے، انہیں ہمارے بجائے اس قسم کا فنکار محسوس کر کے ہمیں بتاتا ہے۔ یعنی وہ ہماری طرف سے احساس کی اذیت اٹھاتا ہے۔ اگر ایسا فنکار ہمارے درمیان نہ رہے تو پھر یہ ذمہ داری اپنی اپنی بساط بھرہم سب کو قبول کرنی پڑتی ہے۔ منٹو کے بعد یہ بوجھ ہمارے کاندھوں پر آپڑا ہے۔ جب تک انوری زندہ رہا، آسمان سے جو بلا بھی آئی انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہوئی آئی۔ اب میرے اور آپ کے گھر کا پتہ پوچھے گی۔ منٹوکی موت نے ہمیں اس کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمیں شعور کی بلاؤں سے محفوظ رکھنے والی دیوار ہمارے سامنے سے ہٹ گئی۔
بہرحال اردو پڑھنے والے اس بات میں قابل داد ہیں کہ انہوں نے یہ تو سمجھ لیا کہ منٹو ہماری سپر تھا۔ ہر قوم کی طرح مسلمان قوم سے بھی اپنی تاریخ میں بیسیوں قسم کی حماقتیں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن یہ قوم مستقل طور سے فقیہوں کی چکر میں کبھی نہیں آئی۔ اب تک سیکڑوں شرابیوں کو رحمۃ اللہ علیہ بنا چکی ہے۔ پاکستان کے ثقہ لوگوں نے فتوی دیا کہ منٹو ناپاک ہے۔ اردو ادب کے شیدائیوں نے مغربی پاکستان کے قصبہ قصبہ میں منٹو کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگیں۔ جب تک فقیہوں کے فتوی پر خط تنسیخ کھینچنے والے عام لوگ زندہ ہیں منٹو کیسے مرے گا؟ یہ روح تو کبھی حافظ کے روپ میں آتی ہے کبھی منٹو کے روپ میں۔ ہماری تاریخ آئندہ جس روپ میں چاہے گی اسے زندہ کر لے گی۔ بہر حال یہ منٹو والا روپ بھی کچھ ایسا نہیں تھا کہ اس پر شرمائیں۔ ہم بزدل سہی، مگر خیر منٹو نے ہماری لاج رکھ لی اور اس کے مرنے کے بعد ہی سہی ہم نے بھی اس کی لاج رکھ لی۔ آخر ہم نے پہچان لیا کہ منٹو کیا تھا۔ اب تو واقعی میرے دل سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ نکلتا ہے۔۔۔ وہ نعرہ جو مرتے دم تک منٹو کے ایک ایک فعل اور ایک ایک لفظ سے بلند ہوتا رہا۔۔۔ حالانکہ حکومت تک نے اسے روکنے کی کوشش کر لی۔
(۲)
جس دن منٹو مرا تھا اس دن بھی میں نے یہی کہا تھا کہ منٹو جیسے آدمی کی زندگی یا موت کے بارے میں جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں تو اس کی زندگی اور موت دونوں کے معنی متعین کرنے چاہئیں۔ منٹو تو ان لوگوں میں سے تھا جو صرف ایک فرد یا ایک ادیب سے کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر اب تو جذبات پرستی کی گنجائش یوں بھی نہیں رہی کہ منٹو کو مرے دو مہینے سے زیادہ ہو گئے اور ہمارے لئے یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ اردو ادب میں یا کم از کم بیس سال کے اردو ادب میں منٹو کی جگہ کیا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں منٹو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ منٹو چاہے موپاساں وغیرہ کی صف میں نہ آسکے لیکن یورپ کے اچھے خاصے افسانہ نگاروں سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ میں ان دونوں باتوں سے متفق ہوں بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر منٹو موپاساں کے برابر نہیں پہنچ سکا تو اس میں اتنا قصور خود منٹو کا نہ تھا جتنا اس ادبی روایت کا جس میں وہ پیدا ہوا۔ جس بات میں منٹو موپاساں سے پیچھے رہ جاتا ہے وہ موپاساں کی نثر ہے اور موپاساں کو جس قسم کی نثردرکار تھی وہ فرانس میں اور کچھ نہیں تو کوئی دو سو سال سے نشو و نما پار ہی تھی۔ موپاساں کے پیچھے روشن فوکو تھا، والیتہ تھا، استاں دلال تھا، فلوبیئرتھا۔ منٹو کے پیچھے کون تھا؟
میری بات کا وہ مطلب نہ سمجھئے جو اردو کے ایم اے سمجھیں گے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اردوکی نثر بالکل فضول ہے۔ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ لیکن منٹو کو جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اردو نثر کی روایت میں موجود نہ تھیں۔ منٹو کو پانی پینے کے لئے اپنے آپ کنواں کھودنا پڑا۔ موضوع اور ہیئت دونوں میں منٹو کی حیثیت ایک پیش روکی ہے۔ اس لئے منٹو کے متعلق کوئی آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اس سے پہلے اردو میں کیا تھا، اس کے ہم عصر کیا کر رہے تھے، منٹو کیا کر سکا اور کیا نہ کر سکا۔ یہ باتیں دیکھے بغیر ہم منٹو کو اچھا یا برا کہہ لیں گے۔ مگر اردو ادب میں منٹو کی حیثیت ہماری سمجھ میں نہ آئے گی۔
منٹو نے جو کنواں کھودا تھا وہ ٹیڑھا بھینگا سہی، اور اس میں میں جو پانی نکلا وہ گدلا یا کھاری سہی۔ مگر دو باتیں ایسی ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تو یہ کہ منٹو نے کنواں کھودا ضرور، دوسرے یہ کہ اس میں سے پانی نکالا۔ اب ذرا گنئے تو سہی کہ اردو کے کتنے ادیبوں کے متعلق یہ دونوں باتیں کہی جا سکتی ہیں۔
میں اس بات سے بے خبر نہیں ہوں کہ آج سے نہیں بلکہ شروع ہی سے بہت سے ’’خوش مذاق‘‘ حضرات کو منٹو کی ان دونوں خوبیوں سے انکار رہا ہے۔ اس کے برخلاف ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اقبال کی وفات سے لے کر آج تک کسی اردو ادیب کا ماتم اس طرح نہیں ہوا جس طرح منٹو کا۔ آخر کوئی چیز تو تھی جس نے لوگوں کو اتنا سوگ منانے پر مجبورکیا۔ خیر بعض لوگ اتنی مقبولیت کو بھی منٹو کی پستی کا آخری اور قطعی ثبوت سمجھیں گے کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ادیب کو ہر آدمی کے لئے نہیں لکھنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کو بیس سال سے منٹو پر یہی اعتراض رہا ہے کہ منٹو تو بس ایسی باتیں کرتا ہے جس سے لوگ چونک پڑیں۔ شاید یہ کوئی غیرشریفانہ یا غیر ادیبانہ بات ہو۔ لیکن میں نے جو تھوڑا بہت ادب پڑھا ہے اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کو چونکانا ادیب کا ایک مقدس فریضہ رہا ہے۔ بلکہ میل ول نے تو ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو چونکانے سے ڈرتے ہیں۔ منٹو کو چھوڑیئے۔ بودیلیر جیسے شاعر کو کیا کہئے گا جس کا ادبی اصول ہی یہ تھا کہ متوسط طبقہ کو چونکایا جائے؟
اگر چونکانا کوئی بہت بڑا ادبی نقص ہے تو چونکنے سے ڈرنا ایک ذہنی بیماری ہے، کمزور شخصیت کی نشانی ہے۔ جو آدمی دوسروں کو چونکانا چاہے اس میں پہلے خود چونکنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ جس شخص کے جسمانی، ذہنی اور اخلاقی اعصاب زندہ نہ ہوں وہ کسی کو کیا چونکائے گا۔ ننگی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی۔ اگر کوئی ادیب اپنے پڑھنے والوں کو چونکاتا ہے تو یہ کوئی شکایت کی بات نہیں۔ ورنہ تو پھر بڑھئ کی شکایت کیجئے کہ اس نے کرسی کیوں بنائی۔ ایسا ادیب تو محض اپنا فریضہ ادا کرتا ہے، ہاں ادیب سے آپ یہ ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ تم نے ہمیں چونکانے کے بعد دکھایا کیا۔ اگرہمیں جھنجھوڑکر جگانے کے بعد منٹو نے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی معاشرے کا کوئی تماشہ نہیں دکھایا، اگر اس نے ہمارے اندر زندگی کا کوئی نیا شعور پیدا نہیں کیا تو پھر ہم اسے گالیاں دینے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس نے ہمیں چین سے سونے بھی نہیں دیا۔ جو لوگ کسی قیمت پر جاگنا ہی نہیں چاہتے، انہیں تو ان کے حال پر چھوڑیے۔ لیکن کیا آپ ’’نیا قانون، ہتک، بابو گوپی ناتھ‘‘ جیسے افسانے پڑھ کر دیانتداری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ منٹو نے ہمیں چونکا کر مفت میں ہماری نیند خراب کرائی؟
اچھا، منٹو نے چونکایا بھی ہے دو طریقے سے۔ ایک تو اس کے اچھے افسانے ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ انسانی حقیقت ہمارے لئے کچھ بدل سی گئی ہے۔ دوسری طرف اس کے برے افسانے ہیں۔ منٹو کا ڈھنڈورچی ہونے کے باوجود مجھے تسلیم ہے کہ اس نے بعض بہت سے خراب افسانے لکھے ہیں۔ لیکن اس کے برے سے برے افسانے میں بھی آپ کو دو ایک فقرے ایسے ضرور ملیں گے جو کسی نہ کسی آدمی یا چیز یا خیال یا احساس کو منور کر کے رکھ دیں گے۔۔۔ چاہے یہ روشنی ایسی ہو جو آپ کو پسند نہ آئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں بھی آورد زیادہ ہے، یہ منٹو کا مداری پن تھا۔
مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ آمد اور آورد کا فرق ادب میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کوئی چیز آمد ہو یا آورد۔ فیصلہ کن بات تو یہ ہے کہ اس سے نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ اگرا ٓورد کے ذریعے کسی تجربے کو اظہار مل گیا تو وہ آمد سے بہتر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نوائے سروش بھی دو طرح سنی جاتی ہے۔ کبھی تو سروش اپنے آپ پر بول پڑتا ہے۔ کبھی اس کے کان مروڑنے پڑتے ہیں۔ سروش کی فیاضی سے تو ہر آدمی ہی ادیب بن سکتا ہے، لیکن سروش کے زبردستی بلوانے کےلئے ہمت درکار ہے۔ کیونکہ سرو ش کے کان مروڑنے کا مطلب ہے اپنے کان مروڑنا۔ آپ یہ توضرور کہہ سکتے ہیں کہ بعض دفعہ منٹو نے سروش کے کان اس طرح مروڑے کہ وہ بولنے کے بجائے چیخ پڑا یا اول فول بکنے لگا۔ لیکن منٹو نے حوصلہ تو دکھایا۔ یہ کہہ دینا تو آسان ہے کہ منٹو کرتا ہی کیا تھا۔ وہ بے جوڑ باتوں کو جوڑ دیتا تھا مگر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان مل بے جوڑ میں آدمی کا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
منٹو کے اندر اس شعبدے بازی کی تہہ میں جو چیز کام کر رہی تھی کہ منٹو اپنے کسی چھوٹے سے چھوٹے احساس یا جذبے کو دبانے یا رد کرنے کا قائل نہ تھا۔ ہر چیز اس کے اندر کوئی نہ کوئی رد عمل پیدا کرتی تھی اور وہ اس رد عمل کو قبول کر لیتا تھا۔ ان چھوٹے چھوٹے اور وقتی تجربات کی ایک دوسرے سے متعلق اور منضبط کرتے رہنے کی عادت اس میں نہ تھی۔ وقتی رد عمل کو وہ اتنا دلچسپ یا وقیع سمجھتا تھا کہ اس پر انضباط اور ارتباط کو قربان کر دیتا تھا۔ اسی لئے اس کے افسانے کبھی تو بہت اچھے ہوتے تھے، کبھی برے اور کبھی افسانے میں ایک آدھ فقرہ ہی کام کا نکلتا تھا۔ منٹو میں یہ بہت بڑا نقص تھا لیکن اردو کے دوسرے افسانہ نگاروں کا حال یہ رہا ہے کہ وہ یا تو اپنے احساس کو ڈھرے پر لگا دیتے ہیں۔ اس ڈگر سے ہٹ کر کسی اور قسم کے تجربے کی صلاحیت اس میں باقی ہی نہیں رہتی یا پھر وہ چھوٹے چھوٹے اور ہنگامی تجربات کو حقیر سمجھ کر رد کرتے چلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادیب دوچار اچھے افسانے لکھ کر ٹھپ ہو جاتے ہیں۔
اردو افسانے میں بس منٹو ایک ایسا آدمی ہے جو کسی جذبے یا احساس سے نہ ڈرتا تھا اور جس کے لئے کوئی احساس حقیر یا غیر دلچسپ نہ تھا۔ بعض حضرات نے منٹو کے کارنامے کو یہ کہہ کر اڑانے کی کوشش کی ہے کہ منٹو کے یہاں افسانے کا خام مواد تو ہے، افسانے نہیں ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اردو کے دوسرے افسانہ نگاروں کے پاس خام مواد تک نہیں۔ کیونکہ خام مواد تو احساسات اور جذبات ہی فراہم کرتے ہیں۔ جب آدمی اپنے اعصاب پر پہرے بٹھا دے تو نتیجہ ظاہر ہے۔
منٹو کی شخصیت اردو کے افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ آزاد تھی۔ اس معنی میں اس نے اپنے احساسات پر کسی قسم کی بندشیں نہیں لگائی تھیں۔ جب اس کے احساسات ایک دوسرے سے آزاد ہونے لگتے تھے تو یہی چیز اس کے افسانے کے لئے مہلک بھی ہو جاتی تھی لیکن اردو میں کوئی افسانہ نگار ایسا نہیں جو احساسات کی آزادی سے اتنا کم ڈرتا ہو۔ احساسات اور ارتعاشات کی ہلچل میں منٹو کی شخصیت ضرور پاش پاش ہوگئی۔ لیکن اپنی زندگی اور موت سے منٹو نے ہمیں اتنا ضرور دکھا دیا ہے کہ فنکار اپنا مواد کس طرح حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اس نے مواد جمع کرنے کا کام بر سرعام اور سب کی نظروں کے سامنے کیا، اسی لئے اردو میں اس کی حیثیت محض ایک ادیب سے زیادہ ہے۔ اسی لئے اس کی موت اس کی زندگی کی معنویت کو مکمل کرتی ہے اور اسی لئے اس کے برے افسانوں کو برا سمجھنے کے باوجود میں منٹو کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار کہتا ہوں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں