محمد شاہنواز عالم
شعبہ اردو ملت کالج – دربھنگہ (بہار)
کتابیں بھلے نہ پڑھوں لیکن کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کا مجھے بہت شوق ہے۔ دوست احباب میرے اس شوق کی داد دیتےہیں ۔ میرے اسی شوق کی داد دیتے ہوئے کالج کے پرنسپل نے لائبریری انچارج بننے کی پیشکش کی تومیں انکار نہ کر سکا۔ کیونکہ ایک تو ان کے آرڈر کا سوال تھا اور دوسرے میرا شوق جس کا ذکرآپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں۔ شوق نے وہ سماں باندھا کہ دوسرے ہی دن اپنے چند ماتحتوں کو لے کر لائبریری میں جا پہنچا۔ الماریوں میں کتابوں کی ترتیب اور ان کی بے ہنگمی کو دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ اس انجمن میں شاید میری پہلی آمد ہے۔
الماریوں میں کتابوں کی تعداد تو تشفی بخش تھی لیکن ان کی صحت اور تندرستی کا یہ عالم تھا کہ کوئی ایسا مہلک مرض ایسا نہ تھا جس کےعلامات ان میں موجود نہ تھے۔ دل تھام کر کتابوں کو دیکھتا نہارتا ایک الماری کے پاس پہنچا۔ صحت کے معاملے میں یہاں کی کتابوں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایک موٹی سی کتاب کو اٹھایا، اردو کی تھی، لکھا تھا ‘کاشف الحقائق’ لیکن جیسے ہی پہلا صفحہ کھولا ایک دوسرا ہی منظر سامنے آیا شعری مجموعہ ‘آندھی اور طوفان’ لکھا تھا. یہ پورے طور پر پلاسٹک سرجری کا معاملہ تھا جسے کسی قابل سرجن نے انجام دیا تھا۔ ایک دوسری کتاب میں دل کے ٹرانسپلانٹ کا نمونہ دیکھنے کو ملا، یہاں تو سرجن نے وہ کمال دکھایا تھا کہ دیر تک مجھے اپنے دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنا پڑا۔ کوٹ کی جلد سازی تھی جس پر انگریزی میں لکھا تھا ‘مرچنٹ آف وینیس’. اور مصنف کے نام کی جگہ شیکسپیئر.’ اب شیکسپیئر جیسے شہرہ آفاق شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ خیال کوند کر آیا اسے پڑھنا چاہئیے، پیشگی کے طور پر کتاب کھول کر دیکھا تو اندر کالی داس کا’شکنتلم’ دھڑک رہا تھا.دل بیٹھ گیا اور پڑھنے کی حسرت نے دم توڑ دیا، دو قدم آگے بڑھا، اردو کی کتابیں ایک دوسرے سے گتھم گتھی کر رہی تھیں۔ ترقی پسند تحریک کی ایک موٹی کتاب سے افسانوی مجموعہ’ انگارے ‘ گلے مل کر ایسے رو رہا تھا جیسے دو بہنیں ایک مدت کے بعد ملنے پر زار و قطار روتی ہیں۔ میں نے ایک دوسرے کوالگ کیا اور دلاسہ دیا کہ کیا ہوا جو جدیدیت والوں نےترقی پسندوں پر شب خون مارا۔ حقیقت تو یہ کہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں آپ دونوں کی بڑی عزت ہے۔ وہاں سے تین چار قدم کی دوری پر ایک کونے میں رکھا بڑا بک سیلف کتابوں سے اٹا پڑا تھا۔ یہ پورا کا پورا خاندان اردو شعری مجموعے کا تھا اور دھول میں اٹا ایسے گرا پڑا اور ترچھا ہو کر جلوہ افروز تھا جیسے اسے کسی کا انتطار ہو۔ ان سب کی یہ حالت دیکھ کر بہت رحم آیا۔ ایک شعری مجموعہ کو کچھ زیادہ اشتیاق داد و تحسین پایا تو از روئے ہمدردی سیلف سے نکالالیکن اس پر دھول کی دبیز پرت دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ دھول کی اتنی ہمت، اول کتاب کی گردن پکڑ کر ایک دو پٹخنی دی پھر چار پانچ تھپڑ رسید کئے۔ دھول کی پرت کے جتھے کو میرا رویہ پسند نہ آیا۔ ردعمل کے طور پر اس نے وہ ادھم چوکڑی مچائی کے میرے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے دھول کے اس جتھے نے میرے ناک کے دونوں سوراخ میں اتنی تندی سے حملہ کیا کہ چھینکتے چھینکتے بے دم ہونے لگا۔ اس وقت مجھے گاندھی جی کا فلسفہ عدم تشدد یاد آگیا اور مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے شعری مجموعے پر جمے دھول کے تئیں جارحانہ ہو کر تھپڑ نہیں مارنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا، ادھر دھول کے جتھے کا ایک ایک عملہ مجھ پر حملے کر رہا تھا۔ ان کے اس تشدد آمیز رویے کو دیکھتے ہوئے میں نے وہاں اور رکنا مناسب نہیں سمجھا۔ جانے کے لئے مڑا ہی تھا کہ ہاتھ میں لگے دھول کی تہوں نے ایک آواز میں للکار لگائی، کہاں بھاگ رہے ہیں جناب۔ آپ کسی کو تھپڑ مار دیں گے اور ہم خاموش رہیں گے۔ ایسا آمرانہ برتاؤ آپ کی مخلوق برداشت کر سکتی ہے۔ ہم قطعی نہیں کر سکتے، کتابوں کے ساتھ ہمارا ابدی رشتہ ہے اور یہ رشتہ اس وقت اور مضبوط ہو جاتا ہے جب آپ لوگ موٹی موٹی کتاب لکھ کر اسے بھول جاتے ہیں۔ ایک بار بھی الٹ کر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ خبردار جو کبھی کتابوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ورنہ ایسی کھجلی مچائیں گے کہ یاد رکھیں گے اور واقعی میرے ناک کے نتھنوں میں زبردست کھجلی ہونے لگی۔ میرے ماتحت نے مشورہ دیا، ان کے منھ نہ لگیں سر۔ یہ مٹی کے وہ بے روزگار نوجوان ہیں جو کسی کام کے لائق نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ بس کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، جہاں رہتے ہیں چپکے رہتے ہیں اور بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ پھیپھڑوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ آدمی کھانستے کھانستے مر جاتا ہے۔
یہ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا کہ اردو سیکشن میں ہی ایک چھوٹی سی الماری میں ہر جسامت کی کتاب قدرے قرینے سے رکھی گئی تھی البتہ الماری کے اوپر ٹیڑھی میڑھی لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ کچھ ایسا ہی نظارہ اندر کا بھی تھا، ان لکیروں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ کسی ماہر فنکار نے اپنا دل نچوڑ کر اس کی تعمیر کی ہے۔ الماری میں رکھی کتابوں پر جگہ جگہ آڑے ترچھے اور گول گڈھے پڑے تھے۔ ان گڈھے کی خوبصورتی قابل دید تھی۔ ان گڈھوں کو ذرا قریب سے جو دیکھا میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ایک سنہرے رنگ کی مخلوق ایک گڈھے کے اندر سے جھانک کر مجھے گھور رہی تھی۔ اس کے گھورنے کے انداز سے گمان گزرا کہ وہ کچھ ناراض بھی ہے اور غصے میں بھی ہے، میں نےاس سے پوچھا۔ آپ کی تعریف؟
آپ کی تعریف، بڑے آئے تعریف پوچھنے والے۔ وہ منھ اینٹھ کر بولی۔ میں نے دوبارہ کچھ نہیں کہا۔ خود بولی "تمھاری قوم مجھے دیمک کہتی ہے. اور میں ملکہ دیمک ہوں۔” بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کرملکہ دیمک صاحبہ۔ میں نے چہک کر کہا۔ ملکہ غراتے ہوئے بولی، خبردار چاپلوسی کی باتیں نہ کرو۔ لیکن یہاں آپ اور آپ کی قوم کیا کر رہی ہے۔ میرے اس سوال پر وہ زور سے قہقہے لگاتے ہوئے بولی۔ ’’کتابوں کو پڑھتی ہوں اور اسے ہضم کرتی ہوں۔‘‘ لیکن یہ کتابیں تو انسانوں کے پڑھنے کے لئے سجا کر رکھی گئی ہیں۔ اس بار ملکہ دیمک نرم لہجے میں بولی۔ آج سے یہی کچھ بیس سال پہلے تمھاری ہی قوم کا ایک جوان دلی کی ایک قدیم لائبریری میں میری دادی سے الجھ بیٹھا تھا۔ وہ بڑا لکھاری تھا۔ خود کبھی نہیں ہنستا تھا لیکن کتابیں لکھ لکھ کر لوگوں کو ہنساتا تھا۔ مجتبٰی حسین نام تھا اس لکھاری کا، اس نے دعویٰ پیش کیا یہ ساری کتابیں ہماری مخلوق نے ہی لکھی ہیں۔ ہاں، بالکل درست، لیکن اسے پڑھتا کون ہے۔ میری دادی نے برجستہ جواب دیا تھا۔ بیچارے کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پھر دادی نے اردو کتابوں اور اس کے موضوع پر جو تقریر کی تو بیچارہ بھاگ کھڑا ہوا۔ بعد میں میری دادی کو اس پر بڑا ترس آیا تھا۔ ایک دن اس نےہم سب کو نصیحت کی کہ مجتبی حسین کی کتابوں کو کبھی چٹ مت کرنا۔ بڑا حق گو ہے، ایک دم سچی سچی باتیں لکھتا ہے۔ اس نصیحت کےکچھ ہی دن بعدخبر آئی کہ بیچارہ اس دنیا سے چل بسا۔ میری دادی کو اس کے جانے کا بہت صدمہ ہوا اور ایک دن وہ بھی اس کی ایک کتاب میں مردہ پائی گئی، میری ماں کو تمھارے قوم کے ایک انتہا پسند ناقد کے قاری نے مار دیا۔ ارے وہی جس نے لکھا ہے کہ اردو غزل نیم وحشی صنف سخن ہے۔ ہاں یاد آیا کلیم الدین احمد نام ہے اس کا، ہم لوگ اس کی کتابوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ ماں کی موت کے بعد اب میں ملکہ ہوں، ہمارے خفیہ محکمہ نے خبر دی ہے کہ تم ہمیں لائبریری بےدخل کرنے پر آمادہ ہو۔ کسی نے کان بھر دیا ہوگا کہ ہم لوگ کتابوں کو کترتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے جناب۔ ہماری قوم تو یونہی بدنام ہے لیکن ہم لوگ اس بدنامی کی پرواہ نہیں کرتے، اللہ نے ہمارا رزق ان کتابوں میں رکھا ہے۔ لیکن تمھاری قوم کے لوگوں کو کتابیں کترنے کا کیا حق ہے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات بتاتی ہوں ایک نوجوان آیا اور منٹو کے افسانوی مجموعے سے افسانہ ‘بو’ اور ‘کالی شلوار’ کتر کر لے گیا۔ اور ہاں کل کی بھی سن لو، ایک برقعہ پوش خاتون آئی، کچھ دیر کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی پھر عصمت چغتائی کا افسانہ’ لحاف ‘کو کتر کر گھر لے گئی، کتابوں کے کترنے کی عادت تمھاری قوم کے لوگوں میں زیادہ دیکھ رہی ہوں اور یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ خیر، تمھیں جو کرنا ہے کرو، کتابیں کترنا اور چٹ کرنا تو ہمارا پیدائشی حق ہے۔ ذرا تم اپنی قوم کے بارے میں فکر کرو جو ہمارے حق کو اپنا حق سمجھتے ہوئے کتابوں کو کترتی ہے۔ میں سوچنے لگا ملکہ دیمک کچھ غلط نہیں کہہ رہی تھی۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں