انیس اشفاق
بجنوری کو دوبارہ دریافت کرنے کے لیے میں کوئی پندرہ-سولہ برس قبل لکھے ہوئے اپنے اس مضمون کے اقتباس سے اپنی گفتگو کا آغاز کرنا چاہتا ہوں جو اردو اکادمی (دہلی) کے تنقید سیمینار میں پڑھا گیا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کے اُن مقدمات کے جائزے پر مشتمل تھا جو انہوں نے میر و غالب کی تفہیموں سے متعلق تحریر فرمائے تھے۔ یہ مضمون میرے تنقیدی مجموعے ”بحث و تنقید“ (۹۰۰۲) میں شامل ہے۔
اقتباس یہ ہے:
”لیکن قدیم و جدید شعریات کے بارے میں فاروقی کی بتائی ہوئی بعض خصوصیتیں اُن بیانات کی طرف بھی ہمارے ذہن کو منتقل کرتی ہیں جن میں قریب قریب وہی نکتے نظر آتے ہیں جنہیں فاروقی اپنی تعبیروں کا محرک بتاتے ہےں۔ مثلاً جوش اور عقیدت کے زور میں قابو سے باہر ہوتی ہوئی اپنی غیر تنقیدی نثر میں بھی بجنوری بعض بڑی اہم باتیں کہہ گئے ہیں…. (وہ) بے ربطی اور بے نظمی کے ساتھ کچھ ایسے معیار بھی قائم کرنا چاہتے ہیں جو بڑی شاعری کا حوالہ بن سکیں۔ یہ چند فقرے ملاحظہ کیجیے:
۱- شاعری انکشافِ حیات ہے۔ جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں، شاعری بھی اپنے اظہار میں لاتعین ہے۔
۲- تقلیلِ الفاظ بلا اختلالِ معنی اس سے زیادہ محال ہے۔ کہیں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جس کو پُرکن کہا جاسکے۔
۳- انسانی طلب کی انتہا تحیر ہے۔ اگر کسی فصل سے حیرت پیدا ہو تو وہ کمالِ فن ہے اور اس بات پر اصرار نہ کرنا چاہیے کہ اس کے پسِ پشت کیا ہے۔
۴- بہت سے دشوار اور غریب اشعار حل نہیں ہوتے لیکن ایک مقابل شعر فوراً مضمون کو آئینہ بنا دیتا ہے۔
اِن بیانات میں معنی کی غیر قطعیت، الفاظ کی تقلیل، غالب کی شاعری سے مخصوص حیرت کے عنصر اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر مفہوم کو واضح کرنے کی طرف صاف اشارے کیے گئے ہیں۔“
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ بجنوری سے قبل غالب خانہ شرح میں اپنے شعروں کے صرف اوپری مفاہیم میں سانس لے رہے تھے۔ حالی بھی اس راہ میں حقِ شاگردی ادا کرنے سے عاجز رہے۔ اسی زمانے میں جدید علوم سے آگاہ اور نئی روشنی سے بہرہ یاب ایک نوجوان غالب کو وہاں دیکھ رہا تھا جہاں شارحینِ غالب کی نگاہ کا پہنچنا محال تھا۔ اُس نے غالب کے دیدہ ورانہ مطالعے میں کچھ ایسی روشنیوں کو دیکھ لیا تھا جن کی طرف کسی اور شاعر کی آنکھ کا جانا ممکن نہ تھا اور اسی لیے اس نے کتابِ غالب کو اس کتابِ نور کے پہلو میں رکھ دیا جسے ایک مخصوص مسلک کی جمعیت میں خدا کی جانب سے اتارا ہوا تصور کیا جاتا ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اپنی زبان کے شاہکاروں کے مطالعے میں ہم کم خوانی یا نیم خوانی تک محدود رہے ہیں۔ اور آج بھی اسی وبا کا شکار ہیں۔ اس کا مظاہرہ اکثر و بیشتر سیمیناروں میں ہوتا رہتا ہے جہاں نوواردان بلکہ جمے جمائے لوگ بھی کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے لیے اس موضوع کے متن سے براہِ راست رجوع کرنے کے بجائے اس موضوع پر لکھی ہوئی تحریروں کا سہارا لے کر مضمون سازی کے ہنر کا بخوبی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’محاسنِ کلامِ غالب‘ کی حمایت یا مخالفت میں قلم اٹھانے والوں نے اسے حرفاً حرفاً تو کیا ورق ورق بھی ٹھیک سے نہیں پڑھا اور بفرضِ محال پڑھا بھی تو سمجھ کر نہیں پڑھا ورنہ وہ نکتے جو خاکسار نے پندرہ برس قبل اپنے مضمون میں پیش کےے تھے، ان تک اُن کی نگاہ بہت پہلے پہنچ گئی ہوتی۔
’محاسن‘ کے بغور مطالعے کے بعد مجھے اس بات کے یقین کرلینے میں کوئی تامل نہ رہا کہ یہ مقدمہ بجنوری نے غالب پر ایک بڑی کتاب لکھنے کی خاکہ سازی کے طور پر لکھا تھا۔ اس خیال کو تقویت ملنے کے دو معروضی سبب ہیں۔ ایک یہ کہ ’محاسن‘ کو مولوی عبدالحق کی فرمائش پر دیوانِ غالب کے اعلیٰ ایڈیشن میں شامل کرنے کے لیے مقدمے کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اس مقدمے کی تصنیف میں بجنوری نے کلامِ غالب کی معنوی تعبیر کا پہلا دروازہ اس لیے کھولا ہوگا کہ ’مقدمے‘ میں قائم کیے ہوئے نکات کے ذریعے وہ غالب کی آئندہ تعبیروں کے لیے اور دروازے کھول سکیں۔ اس خیال کو تسلیم کرلینے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر ’محاسن‘ لکھنے کے بعد ۳۳برس کی مختصر سی عمر میں بجنوری کا انتقال نہ ہوگیا ہوتا تو وہ سب اہم اور معنوی مباحث جن کی شکل سازی انہوں نے سترہ نکتوں میں کی تھی، انہیں پھیلاکر ایک بڑی کتاب کی شکل بہ آسانی دی جاسکتی تھی اور اس میں بجنوری کی آنکھ سے دیکھے جانے والے پورے غالب ہمیں دکھائی دے سکتے تھے۔
ابھی کچھ دیر پہلے درج بالا سطور میں کہا گیا ہے کہ ’محاسن‘ کے مختصر مندرجات کا مطالعہ بھی ہم نے محویت اور معروضیت کے ساتھ نہیں کیا ورنہ مجنوں گورکھپوری، شیخ محمداکرام، ابومحمدسحر اور باقر مہدی وغیرہ نے ’محاسن‘ کی تائید و تردید میں جو بیانات دیے ہیں وہ کم فہمی اور کم خوانی کا ثبوت نہ فراہم کرتے۔پروفیسر نارنگ کی مشہور زمانہ کتاب ”غالب….“ کے مندرجات کے مطابق مجنوں گورکھپوری غالب اور بجنوری پر الہام کے دوچار چھینٹے ڈال کر آگے بڑھ گئے۔
شیخ محمد اکرام بجنوری کے نقد و نظر کو ’نعرہ مستانہ‘ کہہ کر مستانہ وار آگے نکل گئے۔ ابومحمد سحر محاسن کے الہامی فقرے کو سب سے زیادہ الہامی قرار دینے کے باوجود اس کی تہ تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ وہ غالب کی الہامیت اور بجنوری کے چونکادینے والے پیرائے کی تحسین تو کرتے ہیں لیکن اس تحسین کے ذریعے تعبیر کی راہداری میں داخل نہیں ہوتے۔ اور باقر مہدی ’محاسن‘ کو تنقیدی کارنامہ قرار نہ دے کر اسی سانس میں قولِ محال والا یہ جملہ نقل کرجاتے ہیں کہ (بجنوری نے) ”غالب کی عظمت کی نشاندہی ضرور کردی تھی۔“
اگرچہ بجنوری کے یہاں بلند آہنگی، جوش اور زورِ تحریر زیادہ ہے لیکن ان سب کے سیل میں ان کی بصیرت بہنے نہیں پاتی۔ ذرا سوچیے اس زمانے میں جب شعر کو لفظوں کے اکہرے قالب میں رکھ کر سامنے کے مفاہیم پر صبر کرلیا جاتا تھا اور اسی کو حقِ تحسین کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، اس وقت بجنوری کلامِ غالب کی تعبیر کے لیے اسے الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھ رہے تھے اور اکہرے اور یک سطحی مفاہیم کے بجائے اسے معنی کی وسعتوں کی طرف لارہے تھے۔ کیا بجنوری سے قبل غالب کے کسی رسالہ تعبیر میں اتنے کم صفحوں والے مقدمے میں ایسے مرحلہ وار طریقے سے غالب کو سمجھنے کی کوشش کی گئی اور کیا کسی اور شرح یا تعبیر میں غالب کی ذکاوت، دانش اور ظرافت کی ایسی روشنی نظر آتی ہے۔ کیا شاعری کے (معنی کے) لاتعین ہونے کی طرف بجنوری سے قبل کسی اور نے اشارہ کیا تھا۔ اور تحیر، تقلیل اور متن کے مقابل دوسرے متن کو لاکر معنی کے سمجھنے کی بات کسی اور نے کہی تھی۔ جواب ظاہر ہے نفی میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جوشِ بیان کی جلالت اور مقدمہ جلد مکمل کرلینے کی عجلت میں ان کے یہاں تکرار، اور اعادے کی صورت پیدا ہوگئی۔ یعنی جن سترہ ستونوں پر انہوں نے غالب کی عمارت کھڑی کی ہے ان میں سے کئی ستون کم بھی کیے جاسکتے تھے۔
اب کچھ دیر یہاں ٹھہر کر مختصراً یہ بھی سن لیجیے کہ اپنے بنائے ہوئے سترہ نکتوں کے مباحث میں انہوں نے وہ کیا دکھایا ہے جو ان سے پہلے دوسرے اس طور نہیں دکھا سکے۔ یہ نکات کچھ اس طرح ہیں۔
۱- شاعری بالخصوص غالب کی شاعری میں معنی کی غیر قطعیت، تقلیل، تحیر کی اہمیت اور متحد المضمون اشعار کے ذریعے شعر کے معنی کو مزید روشن کرنا۔
۲- شاعری کی فلسفیانہ جہت۔
۳- شاعری کی ماہیت اور اس کے خلق ہونے کی صورت۔
۴- شاعری میں استعمالِ الفاظ کی منطق۔
۵- شاعری میں صنائع بدائع کی اہمیت، استعارے کی معنویت اور اس کا دائرہ عمل۔
۶- شاعری اور مصوری کا رشتہ اور دونوں کی ہم رشتگی سے منفرد اور عمیق مفاہیم کا پیدا کیا جانا۔
۷- مشاہدے اور بصیرت کی اہمیت۔ سادگی کا انتہائے اشکال ہونا اور کلام کو سہلِ ممتنع کی صورت دینے کے لیے جگر کاوی کی ضرورت۔
۸- مشہور مصوروں کا حوالہ دے کر یہ بتانا کہ شاعری کا جامہ زیبِ تن کیے ہوئے غالب سر تا پا ایک فلسفی ہیں۔
۹- نظریہ وحدت الوجود اور غالب کے صوفیانہ خیالات۔
۰۱- باطنی رموز اور ان کی بوالعجبیاں۔
۱۱- ذات اور کائنات سے متعلق مشہور فلسفیوں کے خیالات کی روشنی میں یقین و وہم، وحدت اور دوئی اور ہستی و عدم کے اسرار و رموز کی وضاحت۔
۲۱- انہیں فلسفیوں کے افکار کو بنیاد بناکر غالب کے ترکِ رسوم والے مسلک کو بجا ٹھہرانا۔
۳۱- ظرافت، سرمستی اور تحسینِ حسن کی گفتگو کلامِ غالب کی روشنی میں۔
۴۱- آخراً یہ سوال اٹھانا کہ کیا شاعری مصوری ہے۔
ان نکات کے علاوہ بجنوری اس پوری گفتگو میں کچھ بہت معنی خیز فقرے بھی لکھ گئے ہیں جیسے:
۱- بوطیقا کی رو سے دیوانِ غالب آپ اپنا جواب ہے۔ یعنی غالب نے اپنی بوطیقا خود تشکیل دی ہے۔
۲- محض وزن کا التزام شاعری نہیں ہے۔
۳- شاعری موسیقی ہے اور موسیقی شاعری۔
۴- غالب کی طبیعت میں رحم ہے وہ انسانی کمزوریوں پر لب آسا ہنستے نہیں بلکہ چشم آسا روتے ہیں۔
۵- مصوری اور شاعری دونوں ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔ دونوں کا کام غیر موجود اشیاءکو حاضر اور واقع دکھلانا ہے۔
۶- خوب سے خوب محاورہ بلحاظِ عمرِ آخر ضعیف ہوکر بے جان ہوجاتا ہے۔
۷- جہاں نیا خیال پیدا ہوتا ہے وہاں نیا لفظ خود بخود پیدا ہوجاتا ہے۔
۸- تشبیہ یا استعارے کا پہلا کام معنی آفرینی ہے۔
درج بالا نکات اور فقرے غالب کی شاعری کی قریب قریب سب طرفوں کا احاطہ کرتے ہیں اور کہا جاچکا ہے کہ اگر اِن نکات کو وسعت دی جاتی اور ان پر عجلت کے بجائے ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کی جاتی یا اس مقدمے کے بعد فوراً ان کی وفات نہ ہوجاتی اور وہ ہر ہر نکتے کو پھیلاکر اس پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور شعروں کے تجزیوں کو طول دیتے تو کوئی تعجب نہیں کہ اس گفتگو میں سے وہ غالب نکل کر سامنے آجاتے جن تک پہنچنے کے عمل میں ہماری تعبیر ہنوز مصروف ہے۔ یہاں وقت نہیں ہے کہ ان نکتوں پر تفصیل سے بحث کی جائے، اس تفصیل کو ہم کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، سردست یہ سن لیجیے اور ’محاسن‘ کی ورق گردانی میں آپ نے اسے دیکھ بھی لیا ہوگا کہ اپنی تعبیر کے طریقہ کار کو زیادہ منطقی اور قابلِ قبول بنانے کے لےے بجنوری نے کس طرح عملی تنقید کا سہارا لیا ہے۔ ترقی پسند تنقید سے لے کر آج تک ہم بیشتر قولِ فیصل سناکر آگے بڑھ جاتے ہیں اور دعوے کو دلیل بنانے سے عاجز رہتے ہیں۔ تنقید میں دعوے کو دلیل بنانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک متن کے اندر سے گزر کر ثبوت نہ سامنے لائے جائیں۔ بجنوری صرف نکتے بناکر اور اُن کی اصل کو بتاکر آگے نہیں بڑھے بلکہ انہوں نے ایسے تمام نکتوں کی وضاحت میں منتخب اور موزوں مثالیں بھی سامنے رکھی ہیں اور کہیں کہیں تو کثرت سے رکھی ہیں۔ اب یہ بات الگ ہے کہ مثالوں کی شکل میں جن شعروں کا انہوں نے عاجلانہ تجزیہ کیا ہے وہ اپنے معنی پوری طرح نہیں کھولتے کہ اشارے دے کر وہ بہت کچھ پڑھنے والے کی فہم پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
بجنوری نے اپنا مقدمہ ختم کرتے کرتے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا شاعری مصوری ہے اور اسی استفسار کے ذیل میں انہوں نے غالب کے ان چار شعروں کو نقل کرکے اپنے مبحث کا باب بند کردیا ہے۔ شعر یہ ہے:
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
دیکھو اے ساکنانِ خطہ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہوگئی ہے سر تا سر
روکشِ سطح چرخِ مینائی
سبزہ کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روے آب پر کائی
ان شعروں کی تجزیاتی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ کل اشعار ایک نظارہ قدرت پیش کرتے ہیں جس میں متصل اور مسلسل واقعات نہیں بلکہ صرف ایک دلفریب خاموش منظر ہے۔ عقب میں نیلگوں افق ہے۔ آفتاب چمک رہا ہے اور قرصِ ماہتاب بھی بیتاب اور ماند موجود ہے۔
بارش نے زمین کو آئینہ یاب بنادیا ہے۔ سامنے ایک تالاب ہے۔ سبزہ کی یہ زیادتی ہے کہ سطحِ آب تک دست دراز ہے۔ اشجار گلپوش اور گلبار ہیں۔ سب سے آگے شاخِ نرگس گویا چشمِ نرگس مشغولِ تماشا ہے۔ ایک چڑیا یا تتلی تک بھی تو نہیں جو اس خاموشی میں شور یا حرکت پیدا کرے۔ غالب نے حقیقت میں ورجل کو بھی جس کی نظم ’کنارِ دیار‘ مشہور ہے، مات کردیا ہے۔“
آپ نے دیکھا بجنوری نے کس خوبی سے اس خاموشی کو پالیا جو اِن شعروں کے اندر دم سادھے بیٹھی ہے۔
نقدِ غالب میں پیش پیش رہنے والے علمائے ادب نے بجنوری کے مقدمے کو تنقید سے عاری بتاکر یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ ’محاسن‘ محض تاثرات کا مرقع ہے جو حد سے بڑھی ہوئی غالب پرستی کے نتیجے میں سامنے آیا ہے اور یہ کہ بجنوری غالب کی واقعی معنویت کو نمایاں کرنے میں ناکام رہے ہے ہیں۔
برایں عقل و دانش بباید گریست
بجنوری کے جو نکتے اور فقرے اوپر پیش کیے گئے ہیں کیا وہ سب غیر تنقیدی ہیں اور کیا ان میں طلسم غالب کو واکرنے کی صورتیں موجود نہیں ہیں اورکیا تجزیے کی جو صورت ابھی ابھی آپ کے سامنے آئی ہے، اس میں اشعار کے بطن میں چھپا ہوا اسرار موجود نہیں ہے۔ ’محاسن‘ میں اتنا سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بجنوری کو غالب شناسی کے اوّلین جادے سے ہٹادینا غالب شناسوں کا سنگین جرم ہے۔ ہماری ادبی دیانت کا تقاضا ہے کہ ہم بجنوری کو پس منظر سے پیش منظر میں لاکر ان کی واقعی اہمیت کو نمایاں کریں۔
****************************************
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں