اک اداس نظم
یہ حسین شام اپنی
ابھی جس میں گھل رہی ہے
ترے پیرہن کی خوشبو
ابھی جس میں کھل رہے ہیں
میرے خواب کے شگوفے
ذرا دیر کا ہے منظر!
ذرا دیر میں افق پہ
کھلے گا کوئی ستارہ
تری سمت دیکھ کر وہ
کرے گا کوئی اشارہ
ترے دل کو آئیگا پھر
کسی یاد کا بلاوا
کوئی قصۂ جدائی
کوئی کار نا مکمل
کوئی خواب نا شگفتہ
کوئی بات کہنے والی
کسی اور آدمی سے !
ہمیں چاہیے تھا ملنا
کسی عہد مہرباں میں
کسی خواب کے یقیں میں
کسی اور آسماں میں
کسی اور سر زمیں میں !
اِتنا معلوم ہے
اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہو گا
میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ وبُو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہ وگا
اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہو گا!؟
آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں ؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہو گا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر
خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہو گا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہو گا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہو گا
راہداری میں ، ہرے لان میں ،پُھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہو گا
نام بُھولے سے جو میرا کہیں آیا ہو گا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہو گا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہو گا
بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بُھولا ہو گا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہو گا
جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہو گا
کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہو گی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہو گا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر
دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہو گا
یاد کر کے مجھے، نَم ہو گئی ہوں گی پلکیں
’’آنکھ میں پڑ گیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہو گا
اور گھبرا کے کتابوں میں جو لی ہو گئی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہو گا
جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہو گا
سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانی دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہو گا!
اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی
مَیں نے پُوچھا کہ سنو۔آئے تھے وہ۔کیسے تھے؟
مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈُھونڈا تھا چاروں جانب؟
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
ایسا نہیں ہونے دینا
میری بستی سے پرے بھی میرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر میری جانب لپکے
میرے سینے میں میرا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام وہ ہی اہل رِیا کی باتیں
نعرہ حبِ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دین خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبح وحشت کی طرح شام غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو عہد و پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح
پھر کہاں ہیں مری ہونٹوں پہ دعاؤں کے دئے
پھر کہاں شبنمی چہروں پہ رفاقت کی وِداع
صندلی پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
ململی ہاتھوں پہ جل بجھ گیا انگارِ حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا ندیم
نوکِ دشتاں سے کھنچی تھی میری مٹی کی لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میری سوختہ جانوں، میرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
میرے دلگیر، میرے درد کے مارے لوگو
کیسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا میرے پیارے لوگو
نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں