محمد شاہنواز عالم
شعبہ اردو، ملت کالج دربھنگہ (بہار)
بلدیاتی انتخابات میں پٹرولینگ مجسٹریٹ کے فرائض منصبی کو بحسن و خوبی انجام دینے کی ٹریننگ شروع ہو چکی تھی۔ ہال مختلف شعبے کے ماہرین سے بھرا پڑا تھا۔ وقت مقررہ پر پہنچنے والے یہ وہ لوگ تھے جن کے اندر ڈر اور خوف کاعنصر زیادہ تھا۔ البتہ نڈر، بے خوف اور لاپرواہ جیسے صفات سے مزین حضرات کا حسب معمول اور حسب عادت تاخیر سے آنے کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔یہ تاخیر سے پہنچے کوئی بات نہیں۔ پہنچ گئے ہیں یہ بڑی بات تھی ۔ لہٰذا ہال میں یوں داخل ہو رہے تھے جیسے مغلیہ سلطنت کا کوئی شہنشاہ اپنے دربار میں حاضر ہو ریا ہو۔ یعنی ہم تشریف لا چکے ہیں لہٰذا اٹینڈس کی کاروائی شروع کی جائے۔ ابھی کہاں اٹیندینس ہوا ہے جناب۔ کم از کم ایک گھنٹہ انتظار کیجئے۔ ایک صاحب نے صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئےبیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ بیٹھ گئے۔ ایک شاعر مزاج انجینئر نےشاعرانہ انداز میں کہا "یہ کون سی جگہ ہے کون سا دیار” ہے بھائی۔ انجینئر صاحب کے بغل میں ہی جغرافیہ کےایک پروفیسر چائے کی چسکی لے رہے تھے۔شاید یہ آپ کی پہلی ٹریننگ ہےانہوں نے پوچھا۔ لیکن انجئنیر صاحب کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی انہوں نے بڑے پروقار لہجے اور جغرافیائی انداز میں دائیں ہاتھ کی سبھی انگلیوں کو دائرہ نما بناتے ہوئے انجینئر صاحب کو اپنی طرف مخاطب کیا۔ دیکھئے جناب۔ پھر نہایت پر اسرار کیفیت کے ساتھ انگلیوں کے دائرے کو آہستہ آہستہ گھماتے ہوئے کہنے لگے "ٹریننگ دراصل انتخابی عمل کا ایک ایسا سیارہ ہے جس کے گرد بھوک، پیاس، بے چینی ،قبضیت، سر درد، اکتاہٹ، اور دعائے خیر وعافیت کے علاوہ کئ دیگر مصنوعی سیارے اس وقت تک گردش کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جب تک انتجابی عمل کا پورا کاروبار منافع و خسارے کے ساتھ پائے تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔ انجینئر صاحب روشن دماغ تھے۔ انہیں الہام ہو گیا کہ یہ جگہ ان کے لئے غیر مناسب ہے۔ لہٰذا "جی ہاں” پر اکتفا کرتے ہوئے وہاں سے کھسک لئے۔ لیکن اس گفتگو میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب انگریزی کےایک کہنہ مشق استاد نے جغرافیائی گفتگو میں دلچسپی دکھاتے ہوئے شیکسپیئر کو لا کر کھڑا کر دیا۔بہرحال پورا ہال اسی طرح کے مباحث میں مشغول تھا۔ البتہ خوف زدہ گیینگ کے کچھ حضرات ٹرینر کی باتوں کوڈائری میں نوٹ فرما رہے تھے۔
ہال میں پنکھے کی رفتار سے گمان ہو رہا تھا کہ درجہ حرارت اور پنکھے نے معاہدہ کر لیا تھا۔ کچھ بھی ہو جائے میری رفتار بس یونہی رہے گی کہ لوگوں کو صرف احساس ہو کہ میں ہوں۔ بقیہ تم آزاد ہو۔ جتنی حرارت پیدا کرو۔ اس خاموش مشاہدے کا نتیجہ تھا کہ ہال میں بیٹھے حضرات گرمی سے ابل رہے تھے۔ اور پسینہ کسی بلکھاتی ناگن کی طرح اوپر سے نیچے کی طرف مستقل اور مستعدی کے ساتھ بہا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ چائے کے پیالے پر مکھیاں بھی چائے کا مزا لے رہی تھیں۔ لیکن دو چار شرارتی فطرت کی مکھیاں کچھ حضرات کے ہونٹوں کے حضور میں بار بار سجدہ پیش کر رہی تھیں تو کچھ ان کا بوسہ لے رہی تھیں۔ سچ کہوں تو مہذب لوگوں کے ساتھ مکھیوں کا غیر مہذبانہ فعل واقعی ناقابل برداشت تھا۔ لیکن مکھیاں تو مکھیاں ٹھہریں۔ نڈر اور بےخوف ہو کر وہ اپنے کام کو یکسوئی کے ساتھ کیے جا رہی تھیں۔ گویا ہال کا پورا جغرافیہ یوں تھا کہ پسینے سے تربتر منصب اعلیٰ پر فائز لوگوں کی بھیڑ ،مکھیوں کی بدمزہ کرنے والی چہل پہل اور آخر میں ٹرینر کی کرخت آواز۔ کہنے کی ضرورت نہیں یہ جغرافیہ کسی کو بھی بدحواس کر سکتا ہے۔ لہٰذا ایک پروفیسر صاحب سے رہا نہیں گیا۔عالم بد حواسی میں کھڑے ہوئے۔ پہلے کرتے کے دامن سے پسینہ پونچھا۔ ایک ہاتھ سے مکھیوں کو بھگایا اور دوسرے ہاتھ کو لہراتے ہوئے انقلابی انداز میں گویا ہوئے۔ معاف کیجئے گا ٹرینر صاحب ۔ ذرا اپنی آواز مدھم کریں۔ کان پھٹا جا رہا ہے۔ ان کے بازو میں بیٹھے دوسرے پروفیسر نے ان کی تائید کی۔ تبھی کمرے کے دایئں جانب سے ایک نئے لیکن تجربہ کار پروفیسر نے کارآمد سوال کا بم پھینکا۔ اٹینڈنس کب لیا جائے گا۔ اس سوال پر دھماکہ تو ہونا ہی تھا۔ اور ایسا ہوا کہ چاروں طرف سے ہاں ہاں اٹینڈینس کب لیا جائے گا کے نعرے سے گونجنے لگا۔ کچھ دائیں بازو کے خیال سے اتفاق رکھنے والے نالاں دکھائی دئیے۔ لہٰذا خاموش ہو گئے لیکن نعرے نما شور کم نہ ہوا۔ یوں سمجھ لیجئے پورا ہال اس دھماکے کی زد میں آگیا۔ لیکن وائے رے قسمت، اس عمل کا ردعمل کچھ یوں ہوا کہ ایک دبلے پتلے ٹرینر کی آواز ہال میں سنائی دی۔ ان کی آواز ان کی جسامت کی تشریح تھی۔ کئی آوازیں ایک ساتھ بلند ہوئیں۔ ذرا زور سے بولئے، ذرا زور سے بولئے۔ اس ادا پر بھلا ٹرینر فریفتہ کیوں نہ ہوتا۔ کچھ اس انداز میں گویا ہوا۔
"ایسا ہے کہ ڈیوٹی لسٹ آگئی ہے اور آج اور ابھی آپ کو دستیاب کرانے کا فرمان جاری ہوا ہے۔‘‘ بس اس دو جملے نے وہ کمال کیا کہ پورے ہال میں سناٹا طاری ہو گیا۔ سناٹے کی کیفیت یہ تھی جیسے ٹریننگ میں نہیں کسی کی میت میں آئے ہیں۔ چہرے پر اعصابی تناو اپنے شباب پر تھا۔ کچھ دیر پہلے جو ایک دوسرے کی خبر خیریت پوچھنے میں لگے تھے۔ جغرافیہ اور شیکسپیئر پر بحث کر رہے تھے،تنخواہ اور مہنگائی بھتہ پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ سب خارج از بحث ہو گئے۔ سب کی نظریں کاغذ کے اس پلندے پر مرکوز ہو گئیں جس کو ٹرینر بڑے اطمینان سے الٹ پھیر کر رہا تھا۔
کمال تو یہ تھا کہ ٹرینرکے چہرے مبارک پر اطمینان کا پرندہ پنکھ پھیلا کر چہک رہا تھا لیکن دوسری طرف وہاں موجود حضرات کے چہرے پر ڈیوٹی کا عقابی پرندہ پنجہ مار رہا تھا۔ اور سب بچنے کا اپائے یا تو سوچ رہے تھے یا سن رہے تھے۔ ایک صاحب نے اپنے بغل میں کھڑے اورگہری سوچ میں منہمک ہم منصب کو مشورہ دے رہے تھے۔ میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوا لیتے، میں نے بنوا رکھا ہے۔ ارے میڈیکل وڈیکل کچھ نہیں، اگر مجسٹریٹ بن گئے تو بن گئے، جانا ہی پڑے گا۔ ہم منصب نے برا سا منھ بنا کر کہا لیکن یہ تو غلط ہے نا۔ سرٹیفکیٹ والے نے روہانسا ہو کر دل کی بات کہی۔ ڈیوٹی سے کون ڈرتا ہے، الو کی طرح رات بھر جاگنا پڑتا ہے۔ ابھی ان دونوں کی گفتگو جاری تھی کہ تیسرے نےجارحانہ ہو کر کہا ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنا کیسا رہے گا۔ یہ بڑا اچھا سوال کیا آپ نے۔ لگتا ہے آپ پہلی بار… بیچارے ابھی جملہ بھی پورا نہیں کر پائے تھے کہ ٹرینر نے نام پکارنا شروع کیا۔
جن حضرات کو ڈیوٹی مل گئی وہ دکھ کی لہروں کی زد میں آگئے تھے اور ان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ گلے مل کر ان کے درد کو کم کر رہے تھے۔ جنہیں ڈیوٹی نہیں ملی تھی وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھےاور انہیں مبارکبادی مل رہی تھی۔ میرے ہم منصب دوست جو دکھی ہو چکے تھے مجھ سے کہنے لگے۔ مجھے ڈیوٹی ملی اس کا واقعی مجھے دکھ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کو ڈیوٹی نہیں ملی۔ میں نے کہا یہ آپ کی محبت ہے۔ اور ہم دونوں قہقہہ لگاتے ہوئے اٹیندینس رجسٹر کی طرف جانے لگے۔
************
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں