ڈاکٹر رؤف خیر
موتی محل گولکنڈہ حیدر آباد دکن
ستمبر کے ’’آجکل ‘‘میں آپ نے بجا فرمایا کہ اردو میں بڑے سلیقے سے اہم بات ادبی پیرائے میں کہی جاتی ہے اس لئے اردو زبان کی بقاء وقت کی ضرورت ہے۔ بعض وقت دوٹوک انداز میں توجہ دلانا بھی ضروری ہو جاتا ہے جیسے اسی ’’آجکل‘‘ میں را شد جمال فاروقی کی غزل کا مطلع تو برابر ہے۔
نئی غزل اک بیاض میں پھڑ پھڑا رہی ہے
سماعتوں کے فراق میں کلبلا رہی ہے
چوتھے شعر میں بحر کچھ اور ہو جاتی ہے اور وزن بڑھ جاتا ہے:
بچاؤ سا ئیں بچاؤ سائیں نظر سے پردہ ہٹاؤ سائیں
یہ فاحشہ زندگی مجھے بھی رجھا رہی ہے لبھا رہی ہے
پھر آگے چل کر آخری شعر کے دونوں مصرعے الگ الگ اوزان میں ہو گئے ہیں:
وہ جس کی شہ پر نئی نئی کونپلیں کھلی تھیں
وہی ہوا آج زرد پتے گرا رہی ہے اڑا رہی ہے
راشد جمال نے اب تک جو کچھ نام کما لیا تھا اس پرایسی فروگزاشتوں سے پانی پھرتا دکھائی دیتا ہے صحت کی خرابی ان کی شعر گوئی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ بہتر ہو کہ وہ شعر و ادب سے ریٹائرمنٹ لے لیں ورنہ اس طرح کی بے بحر شاعری ان کی ادبی عاقبت خراب کر دے گی ۔ ہر شعبہ حیات میں ریٹائرمنٹ ہوتا ہے۔ شعر وادب میں بھی ہوناچاہیے۔ اس میں عزت رہ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ذ کی طارق نے پی پی شریواستو رندؔ کو سناٹوں کاثابت قدم مسافر قرار دے کر ان سے غالبا اپنی ہم مشربی کا حق ادا کیا ہے۔ پی پی رند کے اشعار کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صنعت دو لختگی کی مثال ہوتے ہیں یعنی ان کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ایک دوسرے سے منہ پھلائے بیٹھتے ہیں۔ ان کے اشعار کا مطلب برآمد کرنے میں قاری کو یا تو شاعر سے یا کسی شارح سے مدد لینی پڑے گی۔ مطالب سے قطع نظر بعض اشعار کے دونوں مصرعے کمی بیشی کا شکار بھی ہوتےہیں، ثابت قدم نہیں ہوتے جیسے:
نہ آہٹ ہے نہ آوازیں نہ غیبت ہے نہ ہے سازش
یہ سناٹا بھی بے سمتی میں ہجرت پر روانہ ہو گیا ہے
یہاں بوڑھی روایت ( کو) کھانستی ہے آنگن و در میں
کہ گھر بیمارسی تہذیب کا زندہ ٹھکانا ہو گیا ہے
ہمارے خیال میں یہاں دونوں اشعار کے آخر میں ( گیا ہے ) وزن سے بڑھ گیا ہے اس کے علاوہ آنگن اور در کے بیچ واؤ عطف لگانا زبان دانی پر حرف لاتا ہے اس قسم کی مثالیں شاعر پی پی رند کے ساتھ ساتھ مضمون نگار کی طارق کی ذکاوت اور ثابت قدمی کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کا اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے کہ رند کے مصرعوں کی کمی بیشی ذکی پر بھی واضح نہ ہوسکی ۔ پروفیسر احمد محفوظ کے کلام’’ غبار حیرانی‘‘ پر افسانہ نگار اسرار گاندھی کا تبصرہ پر اسرار و حیران کن ہے۔
( آجکل، ستمبر 2024 )
(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں