اسلم رحمانی
شعبۂ اردو، نتیشور کالج، مظفرپور، بہار
غیرت نفس، خوداری، انکساری جو اسد رضوی کی ذات کے اجزائے ترکیبی ہیں یہ ان کے سخن کی بھی جان ہیں۔ وہ اپنے جذبوں کے اس خزانے کا اپنی شاعری میں تحفظ کرتے ہیں۔ ان کے مختلف اشعار میں یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔یہی سبب ہے کہ بہار کے جن شعراء کو ملک گیر مقبولیت حاصل ہے ان میں اسد رضوی کا نام بھی سرفہرست ہے۔اسد رضوی 9/دسمبر 1956ء میں اپنے آبائی وطن محمد پور مبارک، ضلع مظفرپور، بہار میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام سید اسد علی رضوی ہے۔ لیکن آپ اسد رضوی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے والد کا نام سید محمود الحسن رضوی اور والدہ کا نام سیدہ نازنین بانوں ہے۔ انہوں نے بی۔ایس۔سی کی تعلیم بہار یونیورسٹی، مظفرپور اور ڈپلومہ ان کمپیوٹر سائنس کی تعلیم نئی دہلی سے حاصل کی ہے۔ آپ شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور صحافی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر آپ کی پہچان شاعر کے طور پر ہے۔ آپ نے ادبی سفر کا آغاز 1974ء میں کیا۔ یہ سلسلہ آج بھی پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ اب تک ان کے چار مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ” پلکوں کے صدف ” 2012ء اور ” آداب سخن” 2017ء نوحوں کا مجموعہ "لہو کی شاخ” 1982ء اور ” لہو کا دریا” 1992ء میں شائع ہوا۔جو اردو ادب کے قاریوں کےلئے شاہکار تحفہ ہے۔
شاعری کی فنی خصوصیات:
اسد رضوی کی شاعرانہ عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے دل پر گزرنے والی بات کو سادہ اور بول چال کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ وہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ جیسے پڑھنے والے کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے دل پر گزرنے والی بات ہے۔اسد اپنی شاعری میں سادہ اور آسان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کو مشکل بنانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ وہ سادگی کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں سادہ، آسان اور عام فہم ہیں۔ رضا مہدی لکھتے ہیں کہ:
اسد رضوی کا شعری لہجہ نہایت ہی شستہ اور عام فہم ہے جس کے حسن کاری سے سامعین اور قارئین آسانی سے افہام و تفہیم کی منزل کو سر کر لیتے ہیں اور اس کے روشن امکانات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(پلکوں کے صدف،ص:7/)
اسد رضوی ایک منفرد شاعر اور منفرد انسان ہیں ۔وہ شاعری کے میدان میں ایسا کارنامہ انجام دے رہے ہیں جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔وہ اپنے منفرد رنگِ سخن کے باعث الگ شناخت رکھتے ہیں ۔ان کی غزل میں اساطیری پیکر جس طور سے سامنے آتے ہیں وہ انہی کا حصہ ہیں۔ان کی شاعری کا کینوس وسیع ہے،وہ شعری روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ان کا اسلوب میر کی سادہ بیانی،غالب کی تخیل آفرینی اور اقبال کی وسیع النظری کا امتزاج ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
وہ دل کشی وہ تصور کسی نظر میں نہیں
تمہارے جیسی کوئی شے ہمارے گھر میں نہیں
یہ زندگی بھی عجب چیز ہے خدا کی پناہ
اسے سنبھال کے رکھنا مرے ہنر میں نہیں
یہ کس کی آہ کی پھنکار ہے کہ اب کے برس
تمہارے ہونٹوں کی کوئی دعا اثر میں نہیں
میں ایک عمر سے ہوں شامل سفر لوگو
مگر یہ کیا کہ مرے پاؤں رہ گزر میں نہیں
تمام کتب و رسائل ورق ورق دیکھے
بہت دنوں سے اسدؔ تم کسی خبر میں نہیں
اسد رضوی کی غزل میں اعتدال اور حسن برقرار رہتا ہے اور لطیف احساسات کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ان کی زبان میں سادگی اور بیان میں حسن ہے ان کے زبان و بیان میں دلکشی ہے اور وہ اپنی انہی صلاحیتیوں کی بنا پر سادہ سے سادہ الفاظ میں بھی ایک دنیا آباد کر جاتے ہیں۔ان کی پوری شاعری سچے جذبوں سے عبارت ہیں۔ان کے لہجے میں دھیما پن موجود ہے۔پروفیسر ِظاہر حسین شمشاد رقمطراز ہیں کہ:
اسد رضوی کے کلام کا مطالعہ اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ ان کی شاعری اسالیب و بیان کی غمازی کرتی ہے۔ اسد رضوی اپنے منفر دلب ولہجہ اور سہل پسندی کے سبب ہم عصروں میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کے بیشتر اشعار، زبان زد عام ہو چکے ہیں۔عہد حاضر کے شعرا کی شناخت یا تو مشاعروں کے ذریعہ ہوتی ہے یا رسالوں کے ذریعہ اس معاملے میں اسد رضوی خوش نصیب ہیں کہ مشاعروں اور رسالوں کے ذریعہ خاص و عام میں یکساں مقبول ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دور کے لوگ بھی انہیں قریب سے جانتے ہیں۔
(ایضا)
اسد اپنی ذات کے حوالے سے اپنے معاشرے کو لکھتے ہیں۔ان کی غزلیں اثر انگیز ہوتی ہیں۔وہ سستی شہرت سے دور رہتے ہیں۔وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں وہ روایت شکن نہیں ہیں۔وہ غزل کے میدان میں نامور شاعر ہیں۔ان کی شاعری ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے،ان کے اشعار میں ان کی زندگی کا پس منظر اور پیش منظر دونوں موجود ہیں۔ان کی غزل ان کی ذات کا اظہاریہ بھی ہے اور معاشرے کے حالات کا عکس بھی۔ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ان کے اشعار میں زمانے کا کرب اور تلخیاں ملتی ہیں لیکن غنایت بھی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کیفیت اضطراب کی سی ہے
تیرے خط کے جواب کی سی ہے
صبح پڑھتا ہوں شام پڑھتا ہوں
تو مکمل کتاب کی سی ہے
سورۂ شمس ہے نظر تیری
شعلگی آفتاب کی سی ہے
تیری موجودگی سرور آگیں
تیری فرقت عذاب کی سی ہے
میری آنکھیں ہیں تتلیوں کی طرح
تیری صورت گلاب کی سی ہے
کیا کرو گے اسدؔ اسے لے کر
جب یہ دنیا حباب کی سی ہے
اسد رضوی تشبیہات اور استعارات سے اپنی شاعری میں خوب صورتی پیدا کرتے ہیں۔ان کے ہاں نزاکت و فکر اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ محبتیں تقسیم کرتے ہیں۔ تعصب سے انہیں نفرت ہے۔ ان کی شاعری میں سادہ بیانی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔آپ قد آور شاعر ہیں۔وہ غمِ جاناں اور غمِ دنیا کے روّیوں کو شعری قالب میں ڈھالنے کا فن جانتے ہیں۔وہ میانہ روی توازن اور تسلسل کے آدمی ہیں۔ بقول بشیر بدر:
زندہ رایویتوں کا جدید تسلسل اسد رضوی کی غزل کی پہلی شناخت ہے۔
(ایضا)
اسد رضوی کی شاعری میں تخاطب کی کئی صورتیں ہیں۔ اپنے محسوسات کے عام بیان کے ساتھ وہ براہ راست زمانے سے بھی مخاطب ہوتے ہیں، جس میں ان کا مخاطب فرد بھی ہوتا ہے اور اجماع بھی اور وہ اپنے آپ سے بھی گفتگو کرتے ہیں۔ کبھی کبھی بظاہر وہ خود سے مخاطب نظر آتے ہیں مگر ان کا روئے سخن زمانے سے ہوتا ہے۔ اظہار کی یہ مختلف کیفیتیں ان کے شعری رنگ وآہنگ میں ڈھلتی جاتی ہیں۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
زخم دل ہو گئے ناسور تمہیں کیا معلوم
تم تو ہو مجھ سے بہت دور تمہیں کیا معلوم
میرے ہونٹوں کے تبسم پہ نہ جانا ہرگز
حال بربادیٔ مجبور تمہیں کیا معلوم
کب ستاروں کا جہاں ہو گیا تاریک نظر
چاندنی کب ہوئی بے نور تمہیں کیا معلوم
روز و شب کس پہ برستے ہیں ستم کے پتھر
درد سے کون ہوا چور تمہیں کیا معلوم
کتنے آلام و مصائب سے گزرتا ہوں میں
عشق کے کیا کیا ہیں دستور تمہیں کیا معلوم
کیا بتاؤگے اسدؔ ٹوٹ کے کیا بکھرا ہے
تم تو ہو آج بھی مخمور تمہیں کیا معلوم
اسد رضوی اپنی فکر اور ہنر سے غزل کے نئے خدوخال ابھارتے ہیں۔ درج بالا اشعار پر غور کریں اور ان کی ہنرمندی دیکھیں۔ کس طرح غزل نئی فضا تلاش کر رہی ہے، نیا لہجہ اختیار کر رہی ہے اور نئے مفاہیم سے آشنا ہو رہی ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں