پیغام آفاقی
اگر ہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اردو ادب میں پریم چند اور ان کے بعد آنے والے ترقی پسند ناول نگاروں اور قرۃالعین حیدر کے ناولوں نے چھٹی دہائی تک آتے آتے وقت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اردو ناول ان معنوں میں ایک سناٹے کا شکار ہوگیا کہ یہ اپنے وقت کی زمینی آوازسے محروم ہوگیا ۔ چھٹی دہائی اور اس کے بعد دور تک اردو کا کوئی ایسا ناول دکھائی نہیں دیتا جو اپنے عصری صورتِ حال کے قلب میں اتر کر اس کی عکاسی کر رہاہو ، ساتویں دہائی اور آٹھویں دہائی تک یہ سنّاٹا اس وقت تک قائم رہا جب تک اردو میں کچھ ناولوں نے ہم عصر زندگی کی بازیافت نہیں کردی ۔ ان ادیبوں میں جنھوں نے ناول کی فصل کو زمینی زندگی پر ازسرِ نو بویا اور عصری فکشن کی آبیاری کی ان میں بحیثیت ناول نگار اور ادیب غضنفر کا اپنا ناقابلِ فراموش حصّہ ہے۔
یوں تو اس تجدید کے سلسلے میں عموماً تین ناولوں یعنی’ پانی‘ ،’ دوگز زمین ‘اور’ مکان ‘کا نام لیا جاتا ہے لیکن تصویر کو صاف طور پر دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ گنتی گنوانے کے بجائے انفرادی طور پر اس تجدید کے مختلف پہلوؤں کا مختلف ادیبوں کے حولے سے مطالعہ کیا جائے کیوں کہ ان تینوں ناولوں میں سوائے اس کے اور کوئی مشترک عنصر نہیں ہے کہ یہ لگ بھک ایک ساتھ شائع ہوئے تھے بلکہ عبدالصمد کا ناول 1988ء میں شائع ہوچکا تھا اور اردو نا ولوں میں تجدید کی بات اس کے بعد ہی چلی ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زمانے میں کچھ آگے پیچھے ظفر پیامی کا ناول ’فرار‘ جوگیندر پال کا ناول’نادید‘ اور قرۃالعین حیدر کا ناول ’گردشِ رنگِ چمن‘ اور صلاح الدین پر ویز کا ناول ’نمرتا‘بھی شائع ہوئے تھے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ تجدید کا معاملہ کس ناول سے کہاں تک جڑ اہوا تھا، اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس دور میں غضنفر اپنے ناول پانی سے لے کر مانجھی تک ایک بالکل منفرد ناول نگار کی حیثیت سے ابھرے ہیں اور ان کے جتنے ناول ہیں کسی قدران کے ارد گرد کئی ادبی سوالات بھی قائم ہوئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر غضنفر کے ناول کے حوالے سے بات کی جائے توان کے ناولوں نے اردو فکشن کے پیڑ کو نئے رنگ کی شاخیں دی ہیں۔
غضنفر بحیثیت ایک ہم عصر ناول نگار کے اپنے ایک الگ ہی انداز میں سامنے آئے ہیں۔انھوں نے اپنے عہدکو نئے زاویوں سے دیکھنے پر اصرار کیا ہے ۔ وہ ان ادیبوں سے مختلف ہیں جو صرف اپنے عصر کے جانے مانے مسائل اور حقائق کو پیش کرتے ہیں۔ مثلاً فسادات، تقسیمِ ہند اور کرپشن (بد عنوانی)جیسے موضوعات جن کی شناخت ہوچکی ہے۔ اس کو ناول کا موضوع بنانا ایک بات ہے اور زندگی کی تہہ در تہہ گہرائیوں سے غیر محسوس طریقے سے سماج کو متاثر کرنے والی سوچ کی نشان دہی کرنا اور اس کو ناول کا موضوع بنانا او ر بات ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ آخر الذ کر میں گہری بصیرت ، تجزیاتی نگاہ، تخلیقی جرأت اور دبیز قوتِ بیان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آئیے دیکھیں کہ غضنفر کے مختلف ناولوں میں کیا ایسے معامالات موضوع بنے ہیں؟
پانی کی کہانی کو پڑھتے وقت جو بات سب سے زیادہ ذہن کو Hauntکرتی ہے وہ یہ کہ اسے پڑھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ ہم کہانی میں جھانک رہے ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم جس دنیا میں آج کی بیسویں صدی میں رہتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی ڈراما گاہ ہے جس میں چاروں طرف ہولناک مناظر حال اور مستقبل کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں اور پوری انسانی تہذیب اور اس میں ہم سب چلتے چلتے ایک ایسے منظر میں داخل ہورہے ہیں جس میں ہماری تہذیب کی ساری روشنی مہیب اندھیروں میں جذب ہوجائے گی اور جو کچھ باقی رہ جائے گاوہ محض تاریکیوں کا راج ہوگا۔ اس اعتبار سے بھی یہ کہانی نہیں بلکہ حال سے گزر تی ہوئی عالم کی ایک بے پناہ وسعتوں تک پھیلی ہوئی حیرت انگیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والا منظر لیے ہوئے تصویر ہے اور اس میں کہانی کا پیرایہ محض اس پنٹنگ کو الفاط کے میڈیم سے پیش کرنے میں تسلسل کا فرض انجام دیتا ہے اور اس طرح یہ کتاب اپنے عصر کی ایک پر اسرار متحرک پنٹنگ بن جاتی ہے ۔
اس کہانی نے جدید دور کے پیچیدہ اور مجّرد صورتِ حال کو بہت ہی ٹھوس علامت اور پیکردے کر اور قابل فہم بناکر اس طرح پیش کردیا ہے کہ تمام عالم میں پھیلی ہوئی سائنس اور انسانی تہذیب کی کشمکش انسانوں کے باطن میں نہاں نیّتیں اور ارادے ایک اسٹیج پر ایک ساتھ آکر میلہ قائم کر کے پڑھنے والوں کو سب کچھ صاف صاف دکھادیتے ہیں۔ اس طرح یہ ناول اپنے کمپلیکس دور کا ایک Exhikbitionبن گیا ہے۔ مختلف رنگ بکھیر نے والے ہیروں سے بنا یہ ایک ایسا منیچر (Miniature)ہے جس میں انسان کا ابد سے ازل تک کا ایک جگمگا تا ہوا منظر ابھرتا ہے۔ اسی لیے اس کہانی میں Time Frameٹوٹا ہوا ہے، اس اعتبار سے بھی اردو میں یہ منفرد اور نیا تجربہ ہے۔
کینچلی میں غضنفر عورت کی شخصیت پر بات کرنے والی عام بحثوں کو نیزے کی نوک پر اٹھا لیتے ہیں۔ ان کا کردار مینا عورت کی آزادی اور اس کو مساویانہ حقوق دینے کی بات کرنے والے عام دعووں کی ریاکاری پر اس طرے پاؤں رکھتی ہے کہ عصری حسّیت رکھنے والوں کے دل و دماغ ایک ارتعاش کے شکار ہوجاتے ہیں۔ کیا عورت کا احساسِ ذمے داری اس کے جنس سے بلند تر مقام رکھتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو غضنفر اپنے ناول کینچلی میں اٹھا تے ہیں ۔ کچھ دیر کے لیے ایسا لگتا ہے کہ غضنفر عصری مسائل کوپیش کرنے کے بجائے اپنے عصر میں کچھ نئے مسائل کھڑے کررہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ عصری مسائل کی بات کرنے والوں کی ریا کاری کو اجاگر کرنے والا ایک چیلنجنگ کردار دے رہے ہیں ۔
ناول ’مم‘ اردو ناولوں کی کیا بلکہ پوری ناول کی روایت سے الگ ایک نئی شان کے ساتھ ہمارے سامنے آیا ہے اور یہ اپنے اندازِ بیان اور ڈھانچے میں ناول کی پرانی ہیئت Formکی قطعی پر واہ نہیں کرتا بلکہ ناول کے کرادار کے حوالے سے انسانی زندگی کو امکانات کے آئینے میں جس طرح دیکھتا ہے اُسی طرح پیش کردیتا ہے۔ یہ ناول انسان کے اس مسلسل سفر کے سُر اور تال میں لکھا گیا ہے جس میں وہ روزِ ازل سے آزادی، خود اعتمادی اور خود مختاری کے لیے سر گرداں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے کائنات کی جن قوتوں کا انکشاف مفکّرین اور سائنس داں انسانی مقدر کی صعوبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں انھیں کا استعمال مفاد پر ستوں نے انسان کو اور بھی زیادہ طاقت ور آہنی زنجیروں میں قید کرنے کے لیے کرلیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج جہاں ایک طرف سائنس نے کائنات کے خزانے کو کھول کھول کر عام سے خاص آدمی کی زندگی تک پہنچایا ہے اور اس کی زندگی کو آسان تر اور بہتر بنایا ہے وہیں ایک عام آدمی کی آزادی پوری طرح صلب ہوکر چند ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ میڈیا سے لے کر ایٹمی بم تک اور مطالعۂ زندگی سے لے کر نظامِ عالم تک ہر جگہ انسانوں کی زندگی ایک ایسے نظام کا حصّہ بن گئی ہے کہ اس میں انسان اپنی مرضی سے نہ کچھ جان سکتاہے اور نہ کچھ سوچ سکتا ہے۔ نتیجتاً وہ جو فیصلے کرتا ہے وہ خود اس کے اپنے نہیں ہوتے۔ بحیثیت ناول نگار غضنفر کو بدلی ہوئی دنیا میں انسانوں کی حیثیت تشویش میں ڈال رکھا ہے جس نے اس فن کار کو مضطرب کردیا ہے اور انسانی تہذیب کے لیے اسی تشویش کا مادہ غضنفر کو ایک قابل توجہ اور بڑا فن کار بناتا ہے۔فن کار کا کام فلسفیانہ موشگا فیو ں میں بھٹکنا نہیں ، فن کار کا کام تفریحِ طبع کا سامان پیدا کرنا نہیں، فن کار کا کام مطالعۂ کائنات نہیں بلکہ فن کار کا کام انسانی زندگی کی بھٹی میں ایک ایک حقیقت کو پگھلا کر اسے زندگی کے لاوامیں تبدیل کرنا ہے۔ فن کار ٹھہرے ہوئے تخیل میں دھما کے کر تا ہے ، فن کار انسان کو اذیت دینے والے تصورات کو للکار تا ہے ۔ فن کار ناممکن کو ممکن کے سانچے میں ڈھال کر انسان کے اندر امید اور حوصلے کی آگ بھڑ کا تا ہے۔ فن کار شکست خوردہ انسانوں کے ذہن کے اندر زندگی کی نئی رمق پید ا کرتاہے۔ فن کار تاریک اور اداس فلسفوں کو ختم کر کے روشنی اور تازگی کے عالم کو وجود میں لاتا ہے۔ فن کار زندگی کا موذن ہوتاہے۔ وہ زندگی کے اوپر کسی بھی طاقت کی فتح یابی سے انکار کا اعلان کرتاہے۔ ناول ’مم‘ کی کہانی فن کار کے اسی منصب کی شناخت کی کہانی ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر پوری نسل انسانی کو اپنا موضوع بناتا ہے۔اس ناول کی بنیادی کہانی یہ ہے کہ کیسے کچھ لوگوں نے پانی کے اوپر قابض ہوکر عام انسانوں کی زندگی کی لگام اپنی مٹھی میں پکڑ رکھی ہے اور اپنی اس پکڑ کا استعمال وہ انتہائی سفّا کی اور بے رحمی کے ساتھ انسانوں کو غلام و مجبور بنانے کے لیے کرتے ہیں مگر اس ناول کا فن کار ناممکن کے سانچے میں ڈھال کر انسان کے اندر امید اور حوصلے کی آگ بھی بھڑ کاتا ہے اور یہ آگ آخر کار مگر مچھوں کے پیروں کے پنجے سے پانی کو سر کادیتی ہے۔’مم‘ کا کردار بے نظیر اس سفر میں اپنی حکمتِ عملی سے جن لوگوں نے پانی پر پکڑ بنا رکھی ہے ان سے نجات کا راستہ دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت ہی سائنسی ایجادات کی طرح ایک اور یجنل تخلیق کا تیور رکھتی ہے۔ اس کے لیے وہ ضروری قوت اپنے اندر کے چشمۂ حیات سے حاصل کرتا ہے۔ انسانی صلاحیتوں کی یہ تخلیق انسان کی خلّا قانہ عظمت کی بھی قسم کھاتی ہے اور انسان کی بیکراں اور کبھی نا پید نہ ہونے والی قوت کی بھی۔ یہ ناول یہ یقین پیدا کر دیتا ہے کہ کائنات کی تمام طاقتوں پر قدرت حاصل کرنے والا بھی پوری زور آزمائی کے باوجود انسان کی اپنی اندرونی قوتِ تخلیق کو ہیچ نہیں دکھاسکتا اور یہ کہ گویا انسان کے اندر کائنات سے ان گنت گنا زیادہ کائناتیں موجود ہیں ۔یہاں یہ ناول انسان کے اس عام تصور کو مسمار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس کو انسان کی بنیاد ی حقیقت مان کر اسے بار بار پنجروں میں بند کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ بظاہر انسان کو بند تو کیا جاتا ہے لیکن وہ پنجرے سے غائب ہونے کے ایسے راستے ڈھونڈ لیتا ہے کہ پنجرہ صیاد کو منہہ چڑھاتا رہ جاتا ہے۔
کہانی انکل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہانی کار ایک کردار بن کر ابھر رہاہے اور کہانی کی قوت کو ایسی تاریخی، فکری اور ترسیلی قوت کی طرح پیش کرتا ہے جو بذات خود کہانی کا موضوع ہے۔
’کہانی انکل‘ایک ایسا کردار ہے جس کو قدرت نے کہانی کہنے کی قوت ودیعت کی ہے لیکن وہ سماج کے عام ڈھانچے میں اپنی روزی کمانے کے لیے کئی دوسرے کام کرتا ہے اور نا کام ہوتاہے۔ اس مقام پر یہ کردار تخلیقی مفکر CREATIVE THINKERکی معاشی ناکامی کی بھر پورعلامت بنتا ہے اور اس کی وجہ کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی تخلیق کار جب مجبور ہوکر اپنی جبلت میں چھپی ہوئی کہانی کہنے کی قوت کو پہچان لیتا ہے اور پوری طرح کھل کر کہانی کہنے لگتا ہے۔(یا کہانی گوئی پر عمل پیرا ہوتا ہے) تو اسے اپنے آپ کے ایک بھر پور سماجی کردار ہونے کا ادراک ہوجاتا ہے۔
کہانی انکل میں مرکزی کردار کہانی انکل تخلیقی مفکر(Creative Thinker)کی حیثیت سے ابھرتا ہے اور لوگوں کی فکر میں ایک نئے تاریخی ڈائمنشن کا اضافہ کرتا ہے۔ افلا طون جس شاعر کے لیے سماج میں کوئی جگہ متعین نہیں کر پایا تھا اس جگہ کا تعین اس ناول میں مرکزی کردار کہانی انکل نے کردیاہے۔
ایک دن کہانی انکل کی زبان کاٹ لی جاتی ہے لیکن وہ بچّے جو اس کی کہانی سن سن کر اس دنیا کی نیرنگیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ اب کہانی کار بن گئے ہیں۔ CREATIVE THINKERکاایک پورا قبیلہ پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات پوری طرح ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ فارم کے لحاظ سے یہ ناول اچھوتا ہے اور فکر کے اعتبار سے اورریجنل ہے۔ ان دنوں مشرق میں تخلیقیت کروٹ لے رہی ہے۔ یہ ناول‘ناول کی انہیں کروٹوں میں سے ایک کروٹ ہے۔ یہ ایک بڑا ناول ہے اور اردو ناول کی دنیا میں کیا انقلاب برپا ہورہا ہے، یہ جاننے کے لیے اس ناول پر غور کرنا ضروری ہے۔
’’دویہ بانی‘‘ میں غضنفر نے اردو کا ناول نگار ہوتے ہوئے دویہ بانی کے موضوع اور خدوخال کو پیش کرنے کے لیے دہلی اور لکھنو کی روایتی معاشرتی زبان کا استعمال کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ دویہ بانی سے پہلے انھوں نے جو کچھ لکھا اس میں انھوں نے اس معاشرتی زبان کا استعمال نہیں کیا؟ غضنفر کی گنگناتی ہوئی زبان یہ بتاتی ہے کہ وہ کسی بھی لفظ کو پرایا نہیں سمجھتے ۔ وہ اردو کے ادیب ہیں اور ان کے نزدیک جو لفظ ان کے اور موضوع کے بیچ مضبوط رشتہ قائم کردے اس کا وہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں لفظوں کا انتخاب اس بنیادپر ہوتا ہی نہیں کہ کو ن سا لفظ اپناہے اور کون سا اپنا نہیں ہے۔ وہ اپنے موضوع کے ہر معنی خیز ڈائمینشن میں اندر دورتک جاتے ہیں اور وہاں کے ثقافتی رنگ و روغن کو وہیں کے برتنوں میں بھر کر اپنے ناول میں لے آتے ہیں۔ان کی زبان یعنی اردو ان کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ غضنفر کا یہ روّیہ پوری طرح ان کے تخلیقی فکر واحساس کا آئینہ دار ہے۔ غضنفر کا یہ ناول ہندوستانی زندگی کی کئی ان دیکھی وادیوں میں سفر کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیتا ہے۔ یہ کہنا کہ دویہ بانی میں ہندی کے الفاظ کثیر تعداد میں استعمال ہوئے ہیں اور بات ہے اور یہ کہنا کہ ان الفاظ کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور ان کی جگہ اردو کے الفاظ استعمال ہونا چاہیے اور بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا متبادل الفاظ صرف اس لیے چاہیے کہ ہم (موزوں ) الفاظ تک پہنچنے کی زحمت نہیں کرناچاہتے ۔ دویہ بانی ایک بالکل ہی منفرد ثقافتی علاقے کا ناول ہے اور لفظوں کا جو وراثتی رشتہ ثقافت سے ہوتا ہے، اس پر بحث کرنے کی غالباً ضرورت نہیں ہے ۔ اب رہا یہ معاملہ کہ یہ الفاظ ہندی کے ہیں ، لیکن یہ تو ایک بنیادی حقیقت ہے کہ غضنفر نے ان الفاظ کو اردو کے کان سے سنا اور محسوس کیا ہے تبھی تو انھوں نے ان لفظوں کو موتیوں کی طرح چن کر اپنے ناولوں میں ان سے تخلیقی کام لیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے عہد میں اردو ناول کی تجدید کے لیے کیا اس تخلیقی وسعتِ نظری کی ضرورت نہیں ہے۔؟
کسی ناول کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ ناول نگار اپنے اظہار کے لیے کسی ایسے ماحول ، پس منظر اور پیش منظر کودریافت کرنے میں کامیاب ہوجائے جو اس کی تخلیقی بے چینی کے گونا گوں پہلوؤں کو اپنے اندر جذب کرنے کے پورے امکانات رکھتا ہو۔ ناول’’ مانجھی‘‘ اس اعتبار سے اپنی پہلی منزل پر ہی کامیابی کی دہلیز پر آکھڑا ہوتا ہے جہاں ہندوستان کی تہذیبی زندگی کی سب سے بڑی علامت اپنے ہزاروں سال کی تاریخ اور اربوں انسانوں کی زندگی کو اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔ پر یاگ کا سنگم اچانک ناول نگار کو بیان کی لامکاں وسعتوں سے ہم کنار کردیتا ہے اور تب شروع ہوتاہے ناول نگار کے لیے چلنج کہ وہ اپنی کہانی کی دھوری کو کس طرح وسیع آفاق کا مرکز بناکر آگے بڑھے۔
اس مرحلے پر آکر غضنفر نے اپنی فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے فقروں کے ذریعے دائیں بائیں اوپر نیچے دور دور تک آفاق میں جھلملاتے زندگی کے پہلوؤں پر جیسے لیزر کی روشنی ڈالی ہے اور پھر اپنے بیان کے اسی سادہ ڈگر پر آگے بڑھ گئے ہیں ۔ یہاں پر میر کایہ شعر یاد آتا ہے
سر سری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
ناولوں میں ناول نگار عموماً سر سری طور پرآگے بڑھ جاتے ہیں لیکن غضنفر کا یہ ناول ان معنوں میں مختلف ہے کہ اس وسعت کے باوجود اپنے وسیع کنوس میں ایک کشتی میں ہولے ہولے چلتے ہوئے وہ بہت چا بکدستی سے اپنے آس پاس کی جز ئیات پرخورد بینی نگاہ ڈالتے ہوئے پاؤں کے نیچے سے حقیقت کی زمین کو کھسکنے نہیں دیتے ۔
ناول کے تھیم کی وسعتوں کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے انھوں نے اپنے ان کئی آزمودہ حربوں کا بھی استعمال کیا ہے جو ان کی گزشتہ ناولوں کی کامیابی کی بنیا دبنے ہیں۔ ان میں داستانی فضا، اسطوری طرز فکر یا طرزبیان اورسہل مکالمہ نگاری بھی شامل ہیں ۔ ایک دلچسپ اور غیر مانوس منظر کو قائم کرنا اور پھر اس منظر کے تجزیے سے معنی و اقدار کے کھیل کھیلنا اس فن کار کو اچھی طرح آتا ہے اور اس ناول میں فنی پختگی اور بے ساختگی کا یہ عالم ہے کہ کرداروں کے زلزلہ خیز عمل اور بیان کو ناول نگار اس سطح پر لے جاکر بیان کرنے لگا ہے جہاں حقیقت اپنی آفاقی سطح پر انتہائی ٹھہراؤ کے ساتھ ہمارے سامنے قائم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں راجا اور اسکی بہو کے درمیان کی گفتگو ایک اچھی مثال ہے۔
ناول کی اس تجدید کا معاملہ زبان کی نئی توانائی سے گہرائی کے ساتھ جڑ اہوا ہے جس فکری ڈھانچے اور روایتی زبان کو زندگی کینچلی کی طرح پھینک کر آگے بڑھ گئی تھی اور جو بات چھٹے دہے میں پیدا ہونے والے سنّا ٹے کا اہم سبب تھی اس کو سمجھنے کے لیے اس نقطے پر غور کرنا ضروری ہے کہ محض روایتی ڈھانچوں کو استعمال کرنے والے ذہن کے سامنے زندگی کے نئے چہروں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ساتویں اور آٹھویں دہے میں ادبی اقدار اور زندگی کے اقدار دونوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی نمودار ہوئی ۔ نئی زندگی کے آئینے میں پرانی تخلیقات کھلونا ساد کھائی دینے لگیں۔ جن باتوں پر پرانا ادیب قارئین کو چونکا تا پھرتا تھا۔ وہ باتیں اب جانی مانی حقیقتوں میں تبدیل ہوگئیں اور فکر کی سہل پسند ی حتمی طورپر مشکوک ہوگئی، تخلیقی بصیرت میں یقین محکم، عمل پیہم اور محبت سبھی سادہ لوحی کے پرچم بن گئے ، رومان اور حقیقت دونوں ہی زندگی کی نئی کروٹ کی زد میں آکر پارہ پارہ ہوگئے اور نتیجتاً پرانا کہانی کار ماضی کے مند مل کینوس کو اپنی تخئیل آفرینی کا تختۂ مشق بنانے لگا ۔وہ ایسے موضوعات پر لکھنے لگا جس کا گہرا تجزیہ کوئی مورخ تو کر سکتا تھا لیکن عام آدمی اس پر سوالیہ نشان لگا سکتا تھا۔
عبداللہ حسین، انتظار حسین، قرۃالعین حیدر اور قاضی عبدالستار بادلوں کی دنیا میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوگئے ۔ اس صورتِ حال میں زمین پر سفر کرنے کے لیے زبان کے متعلق ایک نئے روّیے کی ضرورت تھی۔ اردو کا افسانوی ادب چکنی اور کھردری زبانوں کے خانوں میں تقسیم ہوگیا۔ چکنی زبان زندگی سے گریز کررہی تھی اور کھردری زبان زمین کی نئی حقیقتوں کے خراد سے تیار ہورہی تھی اور یہی زبان آج کی ٹکسالی زبان بنتی جارہی تھی۔ اس ٹکسالی زبان کو جن ادیبوں نے سکۂ رائج الوقت سمجھ کر اسے استعمال کرنا شروع کیا وہی ناول کی تجدید کے کامیاب دست کار تھے۔ اس دستکار کے نمونے غضنفر کے یہاں ان کے مختلف ناولوں میں صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ زبان پرانے فکشن نگاروں کی زبان کے مقابلے میں ایسی تھی جیسے قدِ آدم آئینے کے مقابلے ہیرے کا ٹکڑا جس میں نسبتاً بہت زیادہ زاویے اور قوتِ انعکاس ہوتی ہے۔ غضنفر کی زبان تجر بے کے اسی دور سے کامیابی کے ساتھ گذر رہی ہے اور اگر یہ تجربے پوری طرح کامیاب ہوئے تو ان کی تخلیقات زبان کے ارتقا میں سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرانی نسل اس زبان کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے لیکن فکشن کی پرانی زبان کی کمزوریاں پوری طرح سے عیاں ہوچکی ہیں اور اردو کے اس نئے فکشن میں اصل معاملہ کہانی پن کا نہیں ہے۔ کہانی پن تو کہانی کی پہچان ہے اور رہے گی ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کہانی کو زندگی کی حقیقتوں کے ساتھ کس طرح جوڑا جائے ۔ کیوں کہ جوڑنے کا یہی فن کہانی کی بقا کا ضامن ہے۔ نئے فکشن نگاروں کی یہی بات سب سے زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ انھوں نے زبان کی تخلیقی خصوصیات کی بنیادوں کو زبان کے استعمال کے مقابلے سے الگ کر کے ان بنیادوں پر زبان کے استعمال کے نئے امکانات تلاش کیے اور ان امکانا ت پر نہ صرف یقین کیا بلکہ ان کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اس نئی زبان نے نئے ناولوں کے لیے نئے دروازے کھول دیے۔ نتیجتاً تخلیقات کی ایک باڑھ آگئی ۔ زبان کے تخلیقی سفر کے اس نئے موڑ پر ایک فیصلہ کن سوال یہ کھڑا ہوچکا ہے کہ بڑا ادب کیا ہے؟کیا بڑا ادب سہل پسندی کا نام ہے یا زندگی کی پیچیدہ گلیوں میں اترنے کا نام ہے۔ یقیناًبڑا ادب پر فریب ادب نہیں ہوتا بلکہ وہ زندگی کو مزید مشکل بنا دیتا ہے کیوں کہ وہ اپنے عہد کی سچائیوں سے چشم پوشی نہیں کرتا ۔ آج کے نمائندہ فکشن نگار جن میں غضنفر کا نام خاصا نمایا ں ہے ان معنوں میں بڑا ادب پیدا کررہے ہیں کہ وہ زبان کی سہل پسندی ، اس کی روایتی تزئین کاری ، لطافت اور سحر آفرینی کو ترک کرکے اس کی کرختگی اور نشتر زنی کو عزیز رکھتے ہیں اور آج کے قارئین کو ایسی ہی زبان کی رفاقت درکار ہے۔ ایک ایسی زبان جو آج کی زندگی کے بطن سے پھوٹی ہو اور آج کی زندگی کو لکھنے میں معاون ثابت ہو۔
کسی فن پارے کا ایک اہم وصف اور بڑے فن پارے کا لازمی وصف ہوتا ہے کہ اس میں گہرائی ہو۔یعنی جو کچھ آنکھوں کے سامنے دکھائی دے رہاہو اس کو وہ اس طرح پیش کرے کہ وہ اپنے وجود کی تمام تر زمانی و مکانی وسعتوں کے ساتھ نظر آرہا ہو۔ بحیثیت ناول نگار کوئی ادیب ان وسعتوں کے بغیر کوئی ناول لکھ ہی نہیں سکتا لیکن اصل معاملہ یہیں سے شروع ہوتا ہے کہ ادیب گہرائیوں میں جس قدر زیادہ جھانک سکتا ہے، اس کے وژن میں اتنی ہی زیادہ سچائی در آتی چلی جائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ناول نگار کا ذہن ہر طرح کی نظری و فکری قید و بند سے آزاد ہو اور وہ لکھتے وقت مکمل خود اعتمادی سے کام لیتے ہوئے وجود کی سچائیوں کو ناول کے صفحات پر اتارے ۔ ایسے ہی ناول اپنے عہد کی سوچ کو تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے ادیب کے نزدیک زندگی میں مسئلے بن کر چلتے ہیں۔غضنفر نے اپنے ناولوں میں جو حقائق کی نشان دہی کی وہ موضوعِ بحث بنتے چلے گئے ۔ وش منتھن میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری پر ریاکاری کے ساتھ میٹھی اور تیکھی دونوں طرح کی گفتگو کے سطحی پن کواجاگر کیا ہے۔ غضنفر اپنی تخلیقات میں انسانی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے سیاسی شخص یا کسی مفاد پرست شخص کی طرح ڈنڈی نہیں مارتے بلکہ وہ ایک ایسے سچے تخلیق کار کا حق ادا کرتے ہیں جس کی باتیں زمان و مکان کی تما م قوتوں کے دباؤ سے آزاد ہوتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں غضنفر ایک بڑے تخلیق کار کی طرح دکھائی دیتے ہیں، دنیا اور تاریخ کی بڑی بڑی استحصالی قوتوں کا ، وہ پل کے پل میں پر نوچ ڈالتے ہیں۔ اگر ان پر غور کیا جائے کہ ان کی زد میں کون ہے تو اس قطار میں میل شونزم، آزادیِ فکرو عمل کو سلب کرنے والے آمر ، ذہنوں کو مجروح کرکے انھیں غلام بنانے والے فلسفیانہ قوتوں سے لیس مفکر، سبھی کھڑے نظر آئیں گے ۔ غضنفر کے یہاں کسی بھی طرح کی طبقاتی کجروی یا تنگ ذہنی نہیں ہے۔بحیثیت ادیب وہ ساری کائنات کو اپنی زبان کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اردو کے زندہ رہنے کی آمادگی ، ان کی تحریروں کو اپنی تلوار اور فن بناتی ہے۔ یہ ان ادیبوں میں ہیں جنھوں نے صرف اردو ناول کی تجدید کا حق ادا نہیں کیا ہے بلکہ ان معنوں میں اپنے عہد میں اردو زبان کی تجدید کا بھی حق ادا کررہے ہیں کہ وہ اپنی تخلیقی ذہانت سے اردو ادب اور اردو زبان دونوں کی آبیاری کررہے ہیں۔ کسی زبان کو اچھے فن پارے دینا زبان کی سب سے انمول خدمت ہے۔
غضنفر نے ادب کے حوالے سے اردو زبان کی فکر اور چاشنی دونوں کونئے افق دیے ہیں ۔ ان کے فن پارے نہ صرف اردو کے بلکہ عالمی ادب کے دوسرے فن پاروں کے برابر رکھ کر دیکھے جانے کے لائق ہیں۔ اردو فکشن میں آج جو ناولوں کا کھیپ لہلہاتا دکھائی دے رہا ہے، اس کے دہقانوں میں ان کا نام سرِ فہرست ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں