فراق گورکھپوری
زندگی یا شاعری کا ایک دور ختم نہیں ہو چکتا کہ دوسرا دور شروع ہو جاتا ہے۔ امیرؔ و داغؔ کے دور کے زمانہ ہی میں اگلے دور تغزل کی پیش گوئی یا جھلک جلالؔ، حالیؔ، شادؔ عظیم آبادی، آسیؔ غازی پوری کی غزلوں میں سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔ امیرؔ کی غزل گوئی میں ایک داخلی قسم کی خاموش تبدیلی، ایک نئی نرمی اور سنجیدگی اور تحت النغمہ سوز و ساز جلیلؔ کے ہاتھوں پیدا ہو رہا تھا۔
یہ سب ہو رہا تھا لیکن ابھی فضا پر امیرؔ و داغؔ ہی کی آواز بازگشت چھائی ہوئی تھی۔ اسی دھندلکے میں جب دونوں وقت مل رہے تھے یا یوں کہئے کہ جب شاعری کا موسم تبدیل ہو رہا تھا، انہی نکلتے بیٹھتے دنوں میں آج سے پچاس برس پہلے حسرتؔ نے ایک نئی دھن میں غزل سرائی شروع کردی جس میں کچھ وہ پرانی دھنیں بھی ملی ہوئی تھیں جنھیں ہمارے کان بھول چکے تھے۔ اس طرح گویا اردو غزل کی ڈھائی سو برس کی تاریخ میں حسرتؔ کا تغزل ایک نشاۃ الثانیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
انیسویں صدی عیسوی کی آخری اور خصوصاً بیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی میں امیر و داغ کے علاوہ جن متغزلین کا نام آیا ہے وہ کسی ایک مدرسۂ شاعری کے نمائندے نہیں ہیں۔ ان سب کے یہاں اگر کوئی صفت عام ہے تو وہ جذباتی خلوص اور سچائی ہے اور تصنع و سطحیت سے احتراز۔ خلوص سب کے یہاں ہے لیکن ایک انفرادی شان اور تیور سے۔ اس سلسلہ میں یعنی غزل کے احیا کے معاملے میں حسرتؔ کے متعلق ایک بات میں ایک عرصہ سے سنتا آیا ہوں جو غور کرنے پر ٹھیک نہ اترے گی، وہ بات یہ ہے کہ اردو غزل بے جان اور خشک چیز ہو چکی تھی اور حسرت نے اسے پھر سے زندہ کیا۔ جلال، حالی، شاد، آسی اور جلیل غزل کو مردہ و خشک ہونے سے پہلے ہی بچا چکے تھے۔ حسرت کے تغزل کی قدر و قیمت یہ کہہ کر نہیں بتائی جا سکتی کہ حسرت نے امیر و داغ کے بعد اردو غزل جو مر چکی تھی اسے پھر سے جلا لیا۔ غزل کے حق میں حسرت کی آواز صدائے قم کی حیثیت نہیں رکھتی۔ حسرت کے تغزل کی سحرکاری بالکل دوسری ہی چیز ہے۔
اگر حسرت اور ان کا رنگ تغزل عالم وجود میں نہ آتا تو بھی اردو غزل نئی زندگی کا ثبوت دیتی اور اس میں صدق و خلوص و شعریت آکر رہتی۔ عزیز لکھنوی، محشر لکھنوی، نوبت رائے نظر، فانی، یاس، اصغر جگر اسی پیش گوئی کی تکمیل ہیں جو جلال کی آوازوں میں گونج رہی تھی اور جو شادؔ و حالیؔ اور آسیؔ کے نغموں میں واضح ہو چکی تھی۔ خود حسرت کی غزل بھی انہی نغموں کی ایک پھوٹتی ہوئی کرن ہے۔ حسرت اور ان کے ہم عصر ایک ہی قوس قزح کی جھلکیاں اور جھلملاہٹیں ہیں۔ حسرت کے ہم متغزلین حسرت سے بالکل متاثر نہیں ہیں، نہ ان کا تغزل حسرت کی غزل سرائی کا کسی طرح مرہون منت ہے۔ وہ حسرت سے اور حسرت ان سے بالکل الگ ہیں۔
میں نے حسرت کی کامیاب تقلید، ان کے لب و لہجہ کی قریب قریب بجنسہ تکرار صرف جلال الدین اکبر اور جلیل قدوائی کے یہاں دیکھی ہے اور یہ دونوں عمر میں حسرت سے اندازاً تیس برس چھوٹے ہیں۔ جس طرح میر، ناسخ و آتش، امیر و داغ کے زمانہ کی قریب قریب پوری شاعری ان استادوں کی آواز کی پرچھائیں معلوم ہوتی ہے، اسی طرح گزشتہ چالیس پچاس برس کی اردو غزل کسی ایک یا دو استادوں کی آواز کا عکس نہیں ہے۔ اس دور میں ہر چوٹی کا غزل گو اپنے ہم عصروں سے بالکل الگ ہے اور ذرا بھی متاثر نہیں ہے۔ اردو غزل اب تقلید و تتبع کی منزلوں سے آگے نکل چکی ہے۔ صرف زبان و بیان و اسلوب میں نہیں بلکہ جذبات و تخیل و تفکر و ادراک و شعور میں بھی ہرغزل گو کی جداگانہ حیثیت ہے۔
ہاں تو جب حسرت کی غزل گوئی نے آنکھ کھولی تو حقیقی غزل گوئی کئی انداز سے شروع ہو چکی تھی۔ پھر حسرت نے کیا کیا؟ پہلے ان شعرا کی کچھ نغمہ سرائیاں سنئے جو حسرت سے پہلے اردو غزل میں نشاۃ الثانیہ پیدا کر رہے تھے،
وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس کو چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے کہ لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا
جلال
نگہ کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے
یہ بزم مے ہے، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
شاد عظیم آبادی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
اک عمر چاہئے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت درد جگر کہاں
حالی
صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اوباد صبا
یادگار رونق محفل تھی پروانے کی خاک
آسی غازی پوری
زمانے کے ہاتھوں سے چارا نہیں ہے
زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے
عبرت گورکھپوری
نگاہ برق نہیں، چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
جلیل
دیکھا آپ نے حسرت سے کئی برس پہلے کے متغزلین نے داغؔ و امیرؔ کی کڑی زمین کو کس طرح نرمانا اور سیراب کرنا اور اس میں نئی کاشت کرنا شروع کردی تھی۔ غزل کی نشاۃ الثانیہ شروع ہو گئی تھی اور ابھی حسرت نے زبان نہیں کھولی تھی۔ جب تھوڑے ہی دنوں بعد حسرت کی آواز بلند ہوئی تو اس کے آگے پیچھے یہ نغمے بھی گونج اٹھے،
میں نے فانیؔ ڈوبتے دیکھی ہے نبض کائنات
جب مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
چمن سے رخصت فانیؔ قریب ہے شاید
کہ اب کے بوئے کفن دامن بہار میں ہے
فانی بدایونی
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
پیام زیر لب ایسا کہ کچھ سنا نہ گیا
اشارہ پاتے ہی انگڑائی لی رہا نہ گیا
یاسؔ
دل نے دنیا نئی بنا ڈالی
اور ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی
خامہ قدرت نے دل کا نام یہ کہہ کر لکھا
ہر جگہ اس لفظ کے معنی بدلتے جائیں گے
عزیز لکھنوی
رہیں عشق میں نہ وہ گرمیاں، رہیں حسن میں نہ وہ شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
نہ بچا بچا کے تو رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
اقبال
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
مدتیں ہوگئی ہیں چپ رہتے
کوئی سنتا تو ہم بھی کچھ کہتے
محشر لکھنوی
غزل اس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا
ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا
صفی لکھنوی
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ثاقب لکھنوی
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل گئے
وہ مری جبین نیاز تھی کہ وہیں دھری کی دھری رہی
بڑی احتیاط طلب ہے وہ جو شراب ساغر دل میں ہے
جو چھلک گئی تو چھلک گئی، جو بھری رہی تو بھری رہی
بے نظیر شاہ
جو مجھ پہ گزری ہے شب بھر وہ دیکھ لے ہمدم
جھلک رہا ہے مژہ پر ستارۂ سحری
عارض نازک پہ ان کے رنگ سا اک آگیا
ان گلوں کو چھیڑ کر میں نے گلستاں کردیا
اصغر گونڈوی
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
وہ رو رو کے، گلے مل مل کے رخصت ہوتے جاتے ہیں
مری آنکھوں کی یا رب روشنی کم ہوتی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
ان اقتباسات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ غزل کی نشاۃ الثانیہ جو جلال سے شروع ہوئی تھی، اب ابتدائی منزلوں سے گزر چکی ہے۔ بیسویں صدی کا تغزل اب اپنی پوری جوانی پر ہے۔ یہ کسی اگلے دور کی صدائے بازگشت نہیں ہے۔ اب اسی دور میں حسرت کی وہ نغمہ سرائی سنئے جو انھیں ان کے معاصرین سے صاف الگ کر دیتی ہے اور انھیں ایک نمایاں امتیازی شان بخشتی ہے۔
رونق پیرہن ہوئی خوبیٔ جسم نازنیں
اور بھی شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا
رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرحداری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی
اے حسن حیا پرور، شوخی بھی شرارت بھی
اے شوق کی بیباکی، کیا تیری خواہش تھی
جس پر انھیں غصہ ہے، انکار بھی، حیرت بھی
جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے
بدلِ لذتِ آزار کہاں سے لاؤں
اب تجھے اے ستمِ یار کہاں سے لاؤں
مے و مینا سے یاریاں نہ گئیں
میری پرہیزگاریاں نہ گئیں
گرفتارِ محبت ہوں، اسیرِ دام محنت ہوں
میں رسوائے جہانِ آرزو ہوں یعنی حسرت ہوں
ہم نے کس دن ترے کوچے سے گزارا نہ کیا
تونے اے شوخ مگر کام ہمارا نہ کیا
دل اور تہیۂ ترک خیالِ یار کرے
کسے یقین ہو، کون اس کا اعتبار کرے
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
مرے اصرار مضطر میں نہاں تھی میری مایوسی
ترے اقرار آساں سے، ترا انکار پیدا ہے
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
مجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
سب کی خاطر کا ہے خیال تمھیں
کچھ ہمارا بھی انتظام کرو
حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کردیا
حسرت تری نگاہِ محبت کو کیا کہوں
محفل میں ان سے رات شرارت نہ ہو سکی
اہل ہوس کو بھی سرو سودائے عشق ہے
یہ کفر ہے، یہ دعویٰ بیجائے عشق ہے
گنہگار تھے با صفا ہو گئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم
رنگ تیری شفق جمالی کا
اک نمونہ ہے بے مثالی کا
آئینہ ہے تبسم لب دوست
حسن خوباں کی بے ملالی کا
حال محبوریٔ دل کی نگراں ٹھہری ہے
دیکھنا وہ نگہ ناز کہاں ٹھہری ہے
کیوں کر کوئی سنائے انھیں شوق کی وہ بات
جو پڑگئی ہو کشمکش التماس میں
حسن ہے بے نیاز عشق و ہوس
ہم بھی ناکام ہیں عدو ہی نہیں
آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
تم تو یہ خوب کار پسندیدہ کر چلے
اتنی سے شے کا تم سے تقاضا کرے گا کون
دل لے کے ہم سے آنکھ چرانا نہ چاہئے
روش حسن مراعات چلی جاتی ہے
ہم سے اور ان سے وہی بات چلی جاتی ہے
دن کو ہم ان سے بگڑتے ہیں وہ شب کو ہم سے
رسم پابندیٔ اوقات چلی جاتی ہے
ہم سے پوچھا نہ گیا نام و نشاں بھی ان کا
گفتگو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی
حسینوں میں آج ایک تم سا نہیں ہے
خوشامد فقیروں کا شیوہ نہیں ہے
رشک اس طرۂ گیسو پہ ہیں کیا کیا مجھ کو
وہ لٹکتا جو پڑا ہے ترے رخسار کے پاس
آج سن کر مرے نالوں کو زراہِ التفات
زیر لب اس نے بھی کھینچی ایک آہِ التفات
تری نوازش پیہم سے ڈر یہی ہے کہ دل
کچھ اور بھی نہ کہیں ناصبور بن کے رہے
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حنا دیکھا ہے
اس قدر جلد جو پیمان وفا توڑ دیا
آپ ہی کہئے بھلا آپ کو زیبا ہے یہی
وہ چپ ہوگئے مجھ سے کیا کہتے کہتے
کہ دل رہ گیا مدعا کہتے کہتے
حسرت کے معاصرین کا جو نمونۂ کلام آپ دیکھ چکے ہیں وہ ولی دکنی و سراج دکنی سے لے کر امیر وداغ تک کسی شاعر کی یاد نہیں دلاتے۔ ان معاصرین میں ہر ایک کا رنگ سو فیصدی انفرادی ہے، صرف ایک دوسرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ پہلے کی بھی تمام غزل گوئی کے مقابلےمیں۔ ہر ایک نے بالکل ذاتی محسوسات اور انفرادی وجدان کو نئے سانچے میں ڈھال کر نئے انداز سے مترنم کر دیا ہے۔ ان معاصرین کا کلام پڑھ کر کسی اور شاعر کی یاد ہی نہیں آتی۔ کہیں کہیں اگر پہلے کے کسی شاعر کی پرچھائیں ان معاصرین کے کلام پر پڑتی ہے تو دور سے پڑتی ہے اور وہ بھی کہیں کہیں اور کبھی کبھی۔
لیکن جو اقتباسات میں نے حسرت کے کلام سے پیش کئے ہیں وہ حسن بیان و اظہار عشق میں صاف مصحفی کی یاد دلاتے ہیں، معاملہ بندی اور ادا بندی میں جرأت کی یاد دلاتے ہیں اور داخلی و نفسیاتی امور کی طرف اشارہ کرنے میں عموماً نئی فارسی ترکیبوں کے ذریعے سے مومن کی یاد دلاتے ہیں لیکن حسرت محض مصحفی، جرأت و مومن کی آواز باز گشت نہیں ہیں، وہ ان تینوں پیش روؤں کے انداز بیان، وجدان اور ان کے فن شاعری کی انتہا و تکمیل ہیں یعنی وہ ان تینوں کے رنگ میں ان تینوں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حسرت کے ہاتھوں اردو غزل کی نشاۃ الثانیہ نہیں ہوئی بلکہ مصحفی، جرأت و مومن کے رنگ تغزل کی نشاۃ الثانیہ ہوئی۔ مصحفی، جرأت و مومن ہر ایک کی شاعری میں جو رنگ دبے ہوئے تھے، ان کے دلوں میں جو چور تھے، ان میں جو امکانات چھپے ہوئے تھے، وہ سب حسرت کی غزل میں ابھر آئے اور نکھر گئے۔ مصحفی، جرأت، مومن کی شاعری کے وعدے جو اب تک تشنۂ تکمیل تھے، حسرت کی غزل میں اس طرح پورے ہو گئے کہ اب اس رنگ کی شاعری میں ترقی کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی۔
یہ بھی یاد رہے کہ کوئی غزل سوا ان غزلوں کے جو بالاعلان جرأت و مصحفی کے رنگ میں کہی گئی ہیں، اس رچاؤ اور سنگھار اور اس کمال بیان سے کہہ دینا مصحفی، جرأت، مومن کے لئے فرداً فرداً ناممکن سا تھا۔ ہر ایک رنگ میں یا ’’تقلید‘‘ میں جو غزلیں حسرت نے کہی ہیں، جوں کی توں وہ غزلیں مصحفی، جرأت ومومن نہ کہہ پاتے۔ یہ مشابہت کچھ اسی طرح کی ہے جیسے میرؔ کے بعض ہم عصروں کے کلام کی مشابہت میرؔ کے کلام سے۔ اگر صباؔ، رندؔ اور آتش کے استاد ہوتے تو تینوں کے کلام میں مشابہت کے باوجود آتش کے کلام کی جو امتیازی شان ہے، وہی امتیازی شان مشابہت کے با وصف حسرت کے کلام میں بمقابلۂ مصحفی، جرأت ومومن نظر آتی ہے یعنی مشابہت ہوتے ہوئے بھی ایک شان برتری۔ حسرت نے تین چاشنیوں کو ملا کر ایک نیا قوام بنایا ہے، تین رنگوں کو ملا کر ایک رنگ بنایا ہے۔
حسرت کے یہاں ایسے اشعار بہت ہیں جن میں رنگینی اور البیلا پن اور بندش کی سلاست اور اعتدال مصحفی کی یاد دلاتے ہیں۔ ادا بندی و معاملہ بندی یعنی خارجی نقل و حرکت جرأت کی اور فارسی ترکیبوں کے ذریعہ داخلی اشارے یا نفسیاتی تحلیل و تجزیہ مومن کی یاد دلاتے ہیں۔ اس لحاظ سے حسرت کے متعلق یہ کہنا انصاف پر مبنی ہوگا کہ وہ اپنے اصلوں سے زیادہ اصلیت کے مالک ہیں۔ یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ حسرت کی غزلوں کا مرکزی رجحان اور بنیادی عنصر وہی ہے جو جرأت کے رنگ تغزل کا ہے، اس کے بعد مصحفی اور مومن کے رنگوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ بہرحال حسرت نے ان تین استادوں سے اپنی شاگردی کو ایک الگ استادانہ رنگ دے دیا ہے۔ اگر ان کے یہ تین معنوی استاد مطلع ہیں تو حسرت حسن مطلع ہیں۔ حسرت کی مندرجہ ذیل غزل پر ایک نظر ڈالئے،
دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی
ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کرلیں
کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئی
یہ بھی آدابِ محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی
آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش
وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملائی نہ گئی
ہم سے پوچھا نہ گیا نام و نشاں بھی ان کا
گفتگو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی
دل کو تھا حوصلۂ عرض تمنا سو انہیں
سر گزشتِ شب ہجراں بھی سنائی نہ گئی
غمِ دوری نے کشاکش تو بہت کی لیکن
یاد ان کی دلِ حسرت سے بھلائی نہ گئی
پہلے شعر میں جرأت کا رنگ صاف جھلک رہا ہے۔ یہ مجبوری اس شدتِ احساس کی محبوری نہیں ہے جو جلیلؔ کےمصرعہ ’’وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں‘‘ میں ہے۔ حسرت کی مجبوری میں جرأت کی شاعری کی گدگدی ہے۔ دوسرے شعر میں ایک داخلی اور نفسیاتی اشارہ ہے جو مومن کی یاد دلاتا ہے خاص کر تاویل ستم کا ٹکڑا۔ تیسرے شعر میں مصحفی کا رنگ جھلک رہا ہے، چوتھا شعر بھی مومن ہی کی یاد دلاتا ہے۔ نفسیاتی اشارے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ہنگامہ خیز شررباری اور گرما گرمی کی وجہ سے۔ پانچواں شعر جرأت کے رنگ کو بہت رچا کر پیش کرتا ہے۔ چھٹا شعر پھر مصحفی کی یاد دلاتا ہے اور مقطعے میں مصحفی ومومن کے رنگوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔
ایک بات کی طرف حسرت کی غزل کے متعلق بہت کم اشارہ کیا گیا ہے۔ مصحفی، جرأت، مومن کا ذکر تو حسرت پر تنقید کا جزو بن چکا ہے لیکن میرؔ کے ان معاصروں کا ذکر اس سلسلہ میں نہیں کیا جاتا جن کا اعتدال احساس و اعتدالِ بیان حسرت نے اپنے اندر جذب کر لیا ہے مثلاً میر سوز یا شاہ حاتمؔ یا قائمؔ چاندی پوری یا بیدارؔ اس دور کے صف دوئم کے دوسرے شعرا جو میرؔ و سوداؔ کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے لیکن بیان کی صفائی، سلاست اور روانی میں جن کی شاعری ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے، خود مصحفی کا کلام ان صف دوئم کے شعرا کی بہت حد تک ہمنوا ہے اور حسرت کو بھی ان شعرا کا اندازِ بیان بہت مرغوب تھا۔
ان شعرا کے یہاں غمِ عشق بلند المیہ نہیں بن سکا ہے جو میرؔ کے یہاں بن گیا ہے۔ ان کے یہاں غم ایک ہلکی چٹکی یا میٹھا درد دیا دبی دبی چوٹ ہے، ایک ہلکی خلش ہے، ہلکا مسوس اور خفیف سی ٹیس یا کسک ہے۔ نشاۃ بھی وہ منزلیں ان کے یہاں طے نہیں کر سکا اور نہ سوز و ساز اپنے اندر پیدا کر سکا جس کی جھلک سودا کے یہاں ملتی ہے اور جس کی پوری جلوہ گری آتش کے کلام میں نظر آتی ہے۔
عام طرز بیان اور طرز احساس کا جہاں تک تعلق ہے حسرت پر مصحفی، جرأت و مومن کا جتنا اثر ہے اس سے کہیں زیادہ اور کہیں نمایاں اثر ان پر میرؔ و سوداؔ کے دور کے صفِ دوئم کے شعرا کا نظر آتا ہے۔ وہی سادگی، وہی معصومی، وہی آمد کا رنگ، وہی بے تکلفی، وہی ہلکا پھلکا پن جو جرأت و مصحفی سے ہلے صف دوئم کے شاعر کے یہاں ملتا ہے وہی حسرت کے یہاں بھی ہے بلکہ اس دو رکے بعد صرف حسرت کے یہاں ملتا ہے۔ حسرت کی شاعری کے یہ سرچشمے جرأت و مصحفی سے پہلے پھوٹ چکے تھے۔ سوزؔ، حاتمؔ، قائمؔ، بیدارؔ کا رنگ تو حسرت اڑا چکے تھے لیکن انھوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میر کا رنگ وہ نہیں اڑا سکے اور ہار مان کر کہہ دیا کہ،
’’مگر دل میں ہوائے شیوہ ہائے میرؔ پھرتی ہے‘‘
حسرت کے کلام میں جو آسان بیانی (Effortless ness) کے ساتھ ساتھ ایک مستقل اور مسلسل گنگناہٹ پائی جاتی ہے وہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ میرؔ وسوداؔ کے ہم عصروں کی آواز ابھی اچھی طرح نہیں کھلی۔ وہ حسرت کی غزل کا حسب نسب یعنی اس خاندانی سلسلے کو میرؔ و سودا کے نسبتاً کمتر معاصرین سے ملا دیتی ہے۔ مثلاً بیدارؔ کی صرف ایک غزل دیکھئے جس سے حسرت کا تغزل کسی قدر مشابہ ہے،
سبزۂ خط ترے عارض پہ نمودار ہوا
حیف اس آئینہ صاف پہ زنگار ہوا
آج آتا ہے نظر دن مری آنکھوں میں سیاہ
رات تجھ زلف میں دل کس کا گرفتار ہوا
تجھ بناے زہرہ جبیں رات مرے گھر کے بیچ
نغمۂ مطرب و نے، نالۂ بیمار ہوا
غم جدا، درد جدا، نالہ جدا، داغ جدا
آہ کیا کیا نہ ترے عشق میں اے یار ہوا
اس کو کیا کہئے یہ ہے اپنے نصیبوں کا قصور
جتنا چاہا میں اسے، اتنا ہی بیزار ہوا
آج اس راہ سے کون ایسا پری رو گزرا
کہ جسے دیکھتے ہی شیفتہ بیدارؔ ہوا
یہی وہ رنگ تغزل ہے جسے خود مصحفی نے اپنایا اور جسے انھوں نے غیرمعمولی ترقی دی لیکن وہ بھی میر و سودا تک نہیں پہنچ سکے۔ حسرت نے یہ رنگ تغزل بالواسطہ مصحفی سے نہیں لیا بلکہ براہ راست اس کے اصلی سرچشموں سے لیا اور مصحفی نے جو اسے ترقی دی تھی اسےبھی حسرت نے اپنی غزل کے لپیٹ میں لے لیا، پھر جرأت اور مومن کے رنگوں کو بھی اس میں ملا دیا۔ حسرت اردو غزل کی تاریخ میں سب سے بڑے مقلد ہیں لیکن انھوں نے تقلید کو تخلیق بنا دیا ہے۔
یہاں ایک مسئلہ قابل غور ہے، وہ یہ کہ حسرت نے میر وسودا، غالب و آتش کے رنگ کی تقلید کی ہوتی تو ترقی دینا کجا وہ ان استادوں کی غزل کی گرد کو بھی نہ پہنچتے۔ حسرت کی فطنت (Genius) دوئم درجے کی فطنت ہے۔ اسی لئے وہ دوئم درجے کے شعرا کی طرف کھنچے جن کی شاعری میں ترقی و تکمیل کی گنجائش تھی اور حسرت نے یہ ترقی انتہا تک پہنچا دی لیکن وہ انتہا تک پہنچ کر بھی رہی دوئم درجے ہی کی شاعری۔ یہ معاملہ ایک بات بتانے سے کچھ اور صاف ہو جائے گا۔ مومن بمقابلہ میر، غالب وآتش دوئم درجے کے غزل گو ہیں لیکن ان کی دوئمیت کبھی کبھی اولیت کی منزلوں کو چھو لیتی ہے۔ مومن عموماً فارسی ترکیبوں کے ذریعہ داخلی و نفسیاتی حقائق کی طرف اشارہ کر جاتے ہیں۔ ان کے اس کام میں وسعت، رنگا رنگی اور ترقی کی گنجائش تھی اور یہ ترقی حسرت کے ہاتھوں ہوئی لیکن مومن نے ایسے شعر بھی تو کہے ہیں جو انھیں صف اول کےشعرا کا ہمنوا اور ہم مرتبہ بنا دیتے ہیں خواہ کچھ ہی دیر کےلئے ہو۔
خدا کی بے نیازی آہ مومنؔ
ہم ایماں لائے تھے جورِ بتاں سے
ہم بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے
ہم تو کل خوابِ عدم میں شب ہجراں ہوں گے
ایسے اشعار کے سامنے تقلید و تکرار کی دال نہیں گلتی اور حسرت نے ایسے اشعار نہ کہے نہ کہہ سکتے تھے۔ یہ بھی ہے کہ مصحفی کے بڑے اشعار اور جرأت کی معاملہ بندی وادا بندی کی نادر ترین مثالیں بھی ایسے کارنامے ہیں جن میں ترقی کی گنجائش نہیں ہے اور جہاں تک حسرت پہنچ سکے۔ خیر یہ تو کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ کسی کا بھی بہت اچھا شعر، کہنے والے کا حصہ ہوتا ہے اور وہ مشترکہ ملکیت ہو ہی نہیں سکتا۔ حسرت ایک ایسے دورشاعری میں پیدا ہوئے جب ان کے مشہور معاصرین میں سے کسی نے تقلید اور نقالی کسی بڑے سے بڑے شاعر کی نہیں کی، جب اردو غزل تقلید یا تتبع سے بالکل پاک صاف ہورہی تھی، اسی دور میں میں حسرت نے ایسی تقلیدی شاعری کی جس کی مثال نہ اب تک نظر آئی نہ پھر نظر آئے گی۔ لیکن یہ تقلید اتنی خلاقانہ ہے، اس میں وہ جادو، وہ موہنی ہے، اس کے پرانے پن میں اتنا نیا پن ہے کہ یہ کہنا ناممکن ہو جات اہے کہ حسرت کی حیثیت ان کے معاصرین میں کسی سے کم ہے۔ بہ حیثیت مجموعی اور نفس شاعری کے لحاظ سے اگر وہ کسی سے کم ہیں تو میر، آتش اور غالب ہی سے کم ہیں اور کسی سے نہیں۔
میں نے کہاں سے نفسِ شاعری کا ذکر کر دیا؟ لیکن اب تو زبانِ قلم سے یہ بات نکل گئی۔ میں نے حسرت کے منتخب اشعار کا اقتباس دینے سے پہلے ان کے معاصرین کے منتخب اشعار دیے ہیں۔ ان میں بہت سے اشعار ایسے ہیں جو جہاں تک نفسِ شاعری کا تعلق ہے، حسرت کے اشعار سے بہتر، زیادہ حقیقی اور کہیں زیادہ پر تاثیر ہیں۔ کچھ اور اشعار معاصرین حسرت کے لیجئے،
چل اے ہمدم ذرا سازِ طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ آئیں گے محفل سے
ثاقب لکھنوی
اور کچھ باتیں کرو اے ہم سفیران چمن
یہ نہ پوچھو کیوں قفس میں مجھ کو آرام آگیا
نامعلوم
آ مری کائناتِ دل، میری بہارِ زندگی
آ، کہ میں یہ نہ کہہ سکوں مجھ کو خدا نہ مل سکا
بہزاد لکھنوی
اب دلِ مدعا طلب وقتِ سوال بھی تو ہو
ہم کو بھی نام یاد ہے اپنے گدا نواز کا
شاد عظیم آبادی
پوچھو مجھے کہ دہر میں اک کسم پرس ہوں
دیکھو مجھے کہ ہیچ ہوں سب کی نگاہ میں
عبرت گورکھپوری
سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے فسانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
یاس
سمجھے گا اس کا درد کون شورشِ کائنات میں
تو نے جسے مٹا دیا پردۂ التفات میں
جوش ملیح آبادی
تری آنکھوں سے یہ آنسو کا ڈھلکنا توبہ
میں نے گرتی ہوئی کونین کی قیمت دیکھی
نامعلوم
خدا جانے یہ کیسی رہ گزر ہے کس کی تربت ہے
وہ جب گزرے ادھر سے گر پڑے کچھ پھول دامن سے
نامعلوم
اک محبت تھی مٹ گئی یا رب
تیری دنیا میں اب دھرا کیا ہے
اختر شیرانی
بے تمہارے میں جی گئی اب تک
تم کو کیا، خود مجھے یقین نہیں
کسی خاتون کا شعر ہے
تم نہیں پاس، کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں
جگر بریلوی
ہو لبوں پر، تری تصویر ہے سینے سے لگی
کفر آیا ترے وحشی کو نہ اسلام آیا
اشرف مرحوم
اس طرح کے اشعار مزاج اور وجدان کو جس طرح متاثر کرتے ہیں، حسرت کے اشعار اس طرح متاثر نہیں کرسکتے لیکن حسرت کا مکمل کارنامہ اور ان کی مجموعی حیثیت اپنے کو منوا کر رہتے ہیں۔ حسرت نے دوئم درجے کی شاعری کو قدر اول کی چیز بنادی۔ ان کی گلنار شاعری کاغذی پھول نہیں ہے بلکہ ایک سدا بہار اور ایک سدا سہاگ چیز ہے۔
حسرت نے تین قسم کی غزلوں کا ذکر کیا ہے، فاسقانہ، شاعرانہ اور عاشقانہ۔ حسرت کی مراد یہ ہے کہ مثلاً داعؔ، امیرؔ، ریاض کی اکثر غزلیں فاسقانہ ہیں۔ یگانہ یا جگر کی غزلیں عموماً شاعرانہ ہیں۔ میر، سوز، بیدار، جرأت، مومن کی زیادہ سے زیادہ غزلیں اور خود حسرت کی سو فیصدی غزلیں عاشقانہ ہیں۔ یوں تو یہ اچھی خاصی تقسیم ہے لیکن جہاں تک عاشقانہ غزل کا تعلق ہے، مندرجہ ذیل سب اشعار عاشقانہ غزل کی تحت میں آتے ہیں،
جو کوئی آئے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تیرے
ہم کہاں تک ترے پہلو سے سرکتے جائیں
غالباً جرأت
وہ کہہ رہے ہیں مجھ سے مری مان جائیے
اللہ تری شان کے قربان جائیے
داغ
ہاں ہاں تمہارے حسن کی کوئی خطا نہ تھی
میں حسن اتفاق سے دیوانہ ہو گیا
نامعلوم
نہ ہم سجھے، نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے
انور دہلوی
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھاکے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
نظام رامپوری
حسرت کا پورا کلام ۔۔۔ اس مضمون میں انتخاب دیکھ لیجئے۔ حسرت کے معاصرین سے جو انتخاب اس مضمون میں دیے گئے ہیں ان کے بھی قریب قریب سب اشعار فاسقانہ ہیں نہ محض شاعرانہ ہیں بلکہ سو فی صدی عشقیہ ہیں۔ مومن کے جو اشعار کچھ پہلے میں نقل کرچکا ہوں، انھیں بھی دیکھیں۔ اب ذرا یہ عشقیہ اشعار بھی دیکھئے،
جفائیں دیکھ لیاں، کج ادائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے
وجہ بے گانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو، واں کے ہم بھی ہیں
میر
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
دکھلائے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
گاہک نہیں واں کوئی مگر جنسِ گراں کا
کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ میں چلا
سودا
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
مرا پیام صبا کہیو، میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
نسیم صبح سے مرجھایا جاتا ہوں وہ غنچہ ہوں
وہ گل ہوں جسے شبنم بلائے ناگہانی ہے
خراب مٹی نہ ہو کسی کی، کوئی نہ مردود دوستاں ہو
جدا ہوا شاخ سے جو پتہ وہ بار خاطر ہوا چمن کا
آتش
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہوگا
قیامت ہے سر شک آلود ہونا تیرے مژگاں کا
تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے پازہ پر پریشاں ہوگئیں
غالب
اب آپ نے دیکھ لیا کہ عشقیہ غزل ایسی بھی ہو سکتی ہے جسے خود حسرت اپنی شاعری کے لئے باعث ننگ سمجھتے اور ایسی بھی عشقیہ غزلیں کہی گئی ہیں جہاں تک حسرت کی رسائی نہیں۔ میر، غالب، آتش کو جانے دیجئے۔ سودا کے جو اشعار ابھی آپ نے پڑھے، کچھ مومن کے اشعار بھی اور معاصرینِ حسرت کے وہ عشقیہ اشعار جو اس مضمون میں درج ہیں، جہاں تک عشقیہ غزل میں نفسِ شاعری کا تعلق ہے، وہ حسرت کی بہترین غزلوں کے بہترین اشعار سے بہ ہرلحاظ بہتر اور بلند ہیں لیکن اس برتریت کے باوجود حسرت کے کلام کی دلکشی میں مطلق کمی نہیں پیدا ہوتی۔ شاعرانہ اور عاشقانہ غزل کی تقسیم کہیں کہیں بیکار ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ان اشعار میں،
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
ترے قدِ رعنا سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
غالب
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہیں مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
سودا
ہاتھ میں اس نے جام مے لے کے جو مسکرا دیا
عقل کو سرد کردیا، روح کو جگمگا دیا
اصغر
ایسے اشعار میں شاعرانہ اور عاشقانہ غزل گوئی کا سنگم ملتا ہے۔ جذبات کی سچی مصوری ہے لیکن ربط خیالات یا تنوع تصور ایسے اشعار کو بیک وقت عاشقانہ وشاعرانہ بنا دیتے ہیں۔
کہی ہوئی بات پھر دہرانی پڑتی ہے۔ حسرت کے نزدیک میر، سودا، غالب، آتش اور بیشتر غزل گو شعرا نے معشوق سے بات چیت کرنے تک غزل کو محدود نہیں رکھا۔ اس موضوع تک غزل کو محدود رکھا یعنی غزل کو غزل رکھا۔ میر وسودا کے ان معاصرین نے جو صف دوئم کے شعرا ہیں، یقین نے، سوز نے، بیدار نے اور اسی سطح کے دوسرے شعرا جنھوں نے حسرت کے نزدیک صحیح معنوں میں غزل کو ’’شرک‘‘ سے بچائے رکھا۔ حسرت معاملہ بندی، ادا بندی یا خالص جذباتی شاعری کو بے آمیزش غزل گوئی سمجھتے تھے۔ اس لحاظ سے صف دوئم کے متقدمین کے بعد یعنی سو برس سے زیادہ کے بعد حسرت ہی نے غزل کو پھر سے زندہ کیا۔ غزل کے اس محدود معنی میں حسرت اپنے دور کے تنہا غزل گو ہیں۔ انھوں نے صف دوئم کے متقدین کے رنگ تغزل کو اتنا چمکایا، اسے ایسی ترقی دی، اس منزل تک پہنچا دیا کہ اسے اس سے بڑھ کر اس محدود معنوں میں غزل کہنے کا دعویٰ کرنا بات ہے۔
حسرت کی زبان اور ان کے اسلوب، حسرت کی لغت یا انتخابِ الفاظ کے بارے میں ایک بات تو یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ جس نرمی، حلاوت، روانی یا بے لاگ طریقے سے اور جس کثرت سے فارسی الفاظ اور فارسی ترکیبیں ان کی غزلوں میں ملتی ہیں اس کی دوسری مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔ اردو شاعروں کے یہاں ’’فارسیت‘‘ مختلف انداز سے مختلف پہلوؤں سے جلوہ گر ہوئی ہے لیکن جس خاموش اور نرم انداز سے فارسیت حسرت کے اسلوب میں شیرو شکر ہوگئی ہے وہ ایک مثالی چیز ہے لیکن اردو لغت کا وہ حصہ جو ہندی الفاظ، محاوروں اور فقروں پر مشتمل و مبنی ہے اس کے بلند ترین یا بہترین امکانات حسرت کے ہاتھوں پورے نہیں ہوئے۔ اردو کی اردووِیت کی کچھ بہترین مثالیں یہ ہیں،
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
میر
آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سوگیا ہے سرہانے دھرے دھرے
خواجہ میر درد
بوجھ وہ سر سے گرا ہے، جو اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
غالب
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ذوق
مان لیتا ہوں ترے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے و ہی
جلیل
دکھانا پڑے گا اسے زخمِ دل
اگر تیر اس کا خطا ہوگیا
حالی
ہماری طرف اب وہ کم دیکھتے ہیں
وہ نظریں نہیں جن کو ہم دیکھتے ہیں
داغ
ضبط کرنا دلِ حزیں نہ کہیں
چوٹ لگ جائے گی کہیں نہ کہیں
امیر
وہ تو وہ، تصویر بھی ان کی جلالؔ
کہتی ہے تم بات کے قابل نہیں
جلال
آئینہ اُن کا ٹوٹ گیا میرے ہاتھ سے
میں ان کا منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا
نامعلوم
تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا، یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی
کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا، کس کا سہارا ٹوٹ گیا
آرزو
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
یاس
یا اسی مضمون میں حسرت کے علاوہ جن شعرا کا انتخابِ کلام درج ہے، ان اشعار میں سانچے میں ڈھلی ہوئی اردو کے نمونے دیکھئے۔ ایسے اشعار اردو میں ہزارہا ہیں اور بلند ترین شاعری کے نمونے ہیں۔ ان میں جہاں فارسی الفاظ آگئے ہیں، وہ نیم خواندہ اور اکثر بے پڑھے لکھے بھی جانتے ہیں۔ فارسی الفاظ ایسے اشعار میں بیان اور اسلوب پر حاوی نہیں ہوتے۔ حسرت کا قریب قریب پورا کلام فارسیت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ لیکن یہ فارسیت ان کے یہاں بہت حسین اور دلکش اور تصنع سے بالکل بری ہے، پھر بھی یہ فارسیت حسرت کی آواز کو مرکزی آواز یا صدائے خلق ہونے سے باز رکھتی ہے۔ حسرت کے سب تو نہیں لیکن بہت سے اشعار کی زبان ہندوستان میں کسی کی زبان نہیں ہے وہ صرف حسرت کی زبان ہے۔ جو لوگ اسے سمجھتے ہیں اور اس سے لذت اندوز ہوتے ہیں وہ بھی اس کی انفرادیت کا احساس کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ حسرت کے کئی اشعار زبانوں پر چڑھ نہ گئے ہوں، ایسے اشعار پر فارسیت حاوی نہیں ہے لیکن ان کے زیادہ تر اشعار پر فارسیت حاوی ہے، گو وہ گراں نہیں گزرتی۔
حسرت کی فارسیت میں ایک خاص شیرینی اور دلکشی ہے لیکن اس سے بہتر فارسیت کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے اور اردو کے کچھ اور شعرا کے یہاں اس کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ میں دوسروں کے یہاں سے کچھ ٹکڑے دیتا ہوں، (۱)آتش، تارتار پیراہن، (۲) غالب، جگر لخت لخت (۳) یاس، اشارۂ توفیقِ غائبانہ، (۴) پھر آتش ہی کا یہ مصرعہ، جدا ہوا شاخ سے جو پتہ ’’غبارِ خاطر‘‘ ہواچمن کا، (۵) اصغر، ’’اک شرارِمعنوی‘‘ گردش میں ہے اصغر۔ فارسیت کے ایسے نمونے، فارسی الفاظ کے ایسے استعمال حسرت کی فارسیت سے زیادہ بلند تر، شاعرانہ اور پرتاثیر ہیں۔ حسرت کی فارسیت کچھ متقدمین اور زیادہ تر مومن کی فارسی ترکیبوں کی تقلید میں ہے اور یہاں حسرت صف دوئم کے متقدمین اور مومن سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ ایسی فارسیت حسرت کے فن کا ایک مستقل جزو یا عنصر بن گئی ہے۔ یہ ایک زیرِ لب فارسیت ہے۔ اس کی زیر لبی اسے ایک خاص دلکشی عطا کرتی ہے۔
حسرت کی صوتی نرمی، سلاست، روانی، حلاوت، حسن بندش کی طرف توجہ جانا لازمی ہے۔ حسرت کی ادا میں روانی ایک نرم بہاؤ ہے، ایک آہستہ روی ہے، ایک گنگناہٹ ہے جو کم از مجھے بیک وقت داد دینے پر بھی مجبور کرتی ہے اور ناآسودہ بھی چھوڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عشقیہ جذبات کو صرف چکھتے ہیں، انھیں روحانی غذا نہیں بناتے،
دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
’’انھیں‘‘ کا لفظ حسرت معشوق کے لئے لائے ہیں لیکن ’’دور سے دیکھا کرنا‘‘ یہ عمل وہ جذبات کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ ایک بار حسرت کی غزل کے محاکات کے متعلق پھر ان الفاظ کو دہراتا ہوں جو میں نے ابھی استعمال کئے ہیں، نرمی، سلاست، روانی، حلاوت، حسنِ بندش، آہستہ روی۔ بڑے خوبصورت الفاظ ہیں اور بڑے خوبصورت صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن پُرعظمت عشقیہ شاعری کے لئے یہ الفاظ کتنے ناکافی ہیں۔ اگر کہا جاتاہے کہ مصحفی نے، پھر آتش نے، پھر شاگردانِ آتش یا خاندانِ آتش نے زبان و بیان کی صفائی کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی لیکن اس کارِ خیر میں صرف آتش اپنے کلام کے اہم ترین حصہ کو دوئم درجہ کی چیز ہونے سے بچا سکے اور سب دوئم درجہ کےنہایت خوش گو شاعر ہوکر رہ گئے۔
حسنِ بندش، روانی یہاں تک کہ ترنم اور نغمگی بھی پرعظمت شاعری کی سب سے نمایاں صفات نہیں ہیں۔ پرعظمت شاعری میں بہت کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ اگر ان صفات کو شاعری میں سب سے زیادہ اہمیت یا اولیت کا مقام دے دیا جائے تو اس سے جس شاعری کی تخلیق ہوگی وہ رہے گی قدرِ دوئم ہی کی چیز۔
اگر بر سہیل تذکرہ اپنی بات کہنے کی مجھے اجازت ہو تو میں یہ کہوں گا کہ میں نے حسرت سے بہت کچھ سیکھا ہے، بہت کچھ پایا ہے، بہت کچھ اثر لیا ہے۔ حسرت ہی سے متاثر ہوکر ایسی ترکیبیں اپنی غزل میں لا سکا ہوں جیسے (۱) جنبش سکونِ نما (۲) یقینِ شک نما (۳) شکوۂ درگزر نما (۴) تغافل ہائے پنہاں (۵) فریب ہمت افزائی (۶) شوخیٔ محتاط (۷) التفاتِ سرگراں (۸) ادائے کوششِ اخفائے رنگ و بو اور اسی قسم کی کئی اور فارسی ترکیبیں۔ میں پرستارانِ حسرت میں اپنے آپ کو کسی سے پیچھے نہیں سمجھتا اور یہ تو کہہ ہی چکا ہوں کہ حسرت اگر کسی سے کم ہیں تو صرف میر، آتش اور غالب سے۔
میرؔ کی نہیں لیکن میر کے زمانے کی غزل گوئی اور اس کی وہ صفت جسے میں نے گنگناہٹ کہا ہے، جرأت کی معاملہ بندی اور ادا بندی، مصحفی کا دلکش اعتدال، سلاست وروانی اور احساسِ رنگ (Colour sense) اور مرنجاں مرنج انداز سے ترس کر رہ جانے والی کیفیت (Tantilla)، پھر مومن کی فارسی ترکیبوں کے ذریعہ سے حسن وعشق کی نفسیاتی و داخلی کیفیتوں کی عکاسی، ان تمام اجزائے ترکیبی سے جیسی غزل گوئی ممکن ہے، حسرت اس طرح کی غزل گوئی کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اس رنگ میں حسرت کے بہترین اشعار الہامی ہیں اور ان کا کلام ایسی غزل گوئی کے حق میں حرفِ آخر کا حکم رکھتا ہے۔
حسرت کے معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فنکار (Born Master) کا کام ہے۔ یہ شاعری قدرِ اول سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اول کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہل لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔
تو ہم کیا سمجھیں؟ حسرت کو نشاطیہ شاعر سمجھیں یا المیہ۔ بلند نشاطیہ یا بلند المیہ تو نہیں لیکن ایک طربیہ صفت حسرت کی غزل میں ضرور رچ اٹھی ہے جس میں ایک حزن خفی کا عنصر بھی گھلا ملا ہوا ہے۔ ان کی غزل میں ایک ذہنی گدگدی، ایک داخلی چھیڑ چھاڑ، ایک حسین چہل، ایک راس لیلا کا انداز اور راس لیلا کی گلنار فضا، ایک بے نیازانہ لگاوٹ جس میں فقر و قلندری کی صفت کے ساتھ ساتھ جرأت کی چوما چاٹی بھی شامل ہے۔ یہ ہے وہ رومانی طربیہ جس کی تخلیق حسرت کے شعور وشاعری نے کی۔ عجب کیا کہ کرشن کی راس لیلا سے جو حسرت کے مزاج و وجدان کو ایک فطری مناسبت تھی وہی متعدد بار کشاں کشاں انھیں جنم اشٹمی کے موقعوں پر برندابن اور برسانے تک کھینچ لے جاتی تھی۔
حسرت کے کلام اور ان کے معاصرین بلکہ میں تو کہوں گا کسی بھی اور غزل گو کا کلام پڑھ کر ہم یہ بات صرف حسرت کے متعلق کہہ سکتے ہیں ’’کیا خوب آدمی تھا۔‘‘ اس شخص نے اپنے قلم سے ایسا پھاگ کھیلا ہے کہ ’’ہولی ہے‘‘ کی آوازیں فضا میں ہمیشہ گونجتی رہیں گی۔ حسرت کی غزل ایک نہایت تربیت یافتہ اور رچا ہوا ٹھٹھول ہے، تلخی، سمیت، زندگی سے بیزاری، خشونت جو کبھی کبھی بہیمیت کا رنگ اختیار کرلیتی تھی، معشوق سے جذبۂ انتقام، ناگوار شکوہ وشکایت، گلا گھونٹ دینے والا احساسِ ناکامی، ان تمام برائیوں سے حسرت نے اردو کو پاک کر دیا۔ خاص کر شکوہ و شکایت کی ناگوار روایت کو انتہائی خوشگوار اور رنگین روایت بنادیا۔
حسرت کی جبینِ شاعری پر کوئی بل یا شکن نہیں۔ انھوں نے کاروبار حسن وعشق میں بدمعاملگی کو خوش معاملگی کا مرتبہ دے دیا۔ اردو غزل کی یہ رنگین مزاجی تنہا حسرت کا عطیہ ہے۔ فضائے غزل میں گلال اڑ رہا ہے۔ حسرت کے باغ میں ہمیشہ بسنت رت کا گلنار سماں رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جاندادہ بہار قلوبِ نغمۂ بہار سے سیر ہوکر ایسا نغمہ بھی سننا چاہیں۔ مثلاً،
عبرت گورکھپوری،
کیا ڈھونڈتی ہے باغ میں میرے تو اے خزاں
تو جانتی ہے سب کے چمن میں بہار ہے
یا (نامعلوم)
اور کچھ باتیں کرو اے ہم سفیرانِ چمن
یہ نہ پوچھو کیوں قفس میں مجھ کو آرام آگیا
یا غالب،
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
یا ناسخ،
جنوں پسند بھی کیا چھاؤں ہے ببولوں کی
عجب بہار ہے ان زرد زرد پھولوں کی
یا آتش،
نسیمِ صبح سے مرجھایا جاتا ہوں وہ غنچہ ہوں
وہ گل ہوں میں جسے شبنم بلائے آسمانی ہے
یا صبا،
باغباں بلبلِ کشتہ کو کفن کیا دیتا
پیرہن گل کا نہ اترا، کبھی میلا ہوکر
یا جلال،
جلال باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے، ہم کو خار بھی نہ ملا
یا حفیظ جون پوری،
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
یا میر،
رنگ گل وبوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں
کیاقافلہ جاتا ہے، تو بھی جو چلا چاہے
یا میر ہی کا یہ مصرع،
اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے
یہ ہے بہار کا المیہ بلکہ کئی لحاظ سے زندگی کا المیہ۔ حسرت کے یہاں جو چیز نہیں ہے وہ ہے بلند تر سنجیدگی (Higher serios ness)، آفاقیت، گہرائی، عظمت، بلندی، ہیجان (High passion)، کمیاب یا نادر اعلیٰ لمحات (Supreme moments)، احساسِ لامحدود، خوابناکی، عمیق رمزیت، استعجاب، معاملہ بندی سے ماورا حسن و عشق کا مجرد تصور و وجدان، خیر وبرکت کی پاکیزہ فضا، امرت میں ڈوبی ہوئی وہ آواز جو شاعری کو زندگی کے لئے ایک آشیرواد (کلمۂ دعائیہ) بنادیتی ہے، نشاط والم کی وہ آخری منزلیں جہاں تعین کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔
کلام حسرت کے صوتیات میں جو ایک رقاقت ہے وہ ان کے تخیل اور شعور میں بھی ہے۔ حسرت کی شاعری میں رگ پٹھے (Muscles) کی کمی ہے۔ ان کی آواز میں ٹھوس پن (Body) نہیں ہے، یعنی ان کی آواز بھرپور نہیں ہے، ان کی آوز تحت اللہجہ (Undertone) یعنی گنگناہٹ ہے۔ زیر لب تکلم ابھر نہیں پاتا۔ یہی وہ باتیں ہیں جو حسین ترین غزل گوئی سے انھیں میر، آتش وغالب سے پیچھے رکھتی ہیں لیکن صف دوئم کے شعراء کا انھیں سب سے بڑا شاعر بنا دیتی ہے۔
عملی حیثیت سے حسرت کا کردار اردو کے بڑے سے بڑے شعرا سے بلند ہے لیکن عاشق کی حیثیت سے وہ اردو کے بلند ترین غزل گو شعرا کے احساسات و تجربات ہمیں نہیں دے سکے۔ ان کی زندگی اول درجہ کی ہے، ان کی عاشقی اور عشقیہ شاعری بہت حسین، بہت پر خلوص، بہت سی خوبیوں کی حامل ہے مگر ہے میزان قدر دوئم کی۔ حسرت کی شاعری کی جبیں پر کوئی شکن نہیں، یہ سچ ہے لیکن اس جبینِ شاعری پر وہ تیور بھی نہیں ہے، اس پر وہ جگمگاہٹیں اور پرچھائیاں بھی نہیں پڑتیں جو خلافت کائنات یا پیغمبری کی نشانی ہیں۔ ان کی عشقیہ غزل اگرچہ ہمارے کلیجے کا ٹکڑا نہیں ہے، پھر بھی کلیجے سے لگائے رکھنے کی چیز ضرور ہے۔ حسرت کی غزل گوئی بھلادی جانے والی چیز نہیں ہے۔ ہمیشہ گونجتی رہنے والی چیز ہے۔ اگر میرؔ، حسرت کی غزل پر اظہار رائے کرتے تو اسے چوما چاٹی نہ کہتے۔ وہ جہان عشق کا ذکر کر کے شاید حسرت سے یہ کہتے کہ،
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
حسرت کی شاعری کے چہرے پر ایک ایسی سرخی ہے جو شاید ہی کسی اور غزل گو کے چہرۂ شاعری پر نظر آئے اور یہ سرخی چہرے کو خوبصورتی ہی نہیں دیتی بلکہ اس میں وہ عظمت و احترام پیدا کرتی ہے جو غم کی سنجیدگی اور سوز وساز کی دردمند حلاوت کا نتیجہ ہے۔ حسرت مقاماتِ حسن وعشق سے ہنستے کھیلتے اور چھیڑ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں، لیکن یہ سیرِ سرسری بھی کتنی رنگا رنگ وفرحت بخش ہے، کتنی طربناک ہے، کتنی سبک رو ہے، یہ ’سوز و ساز کم کم‘ بڑی پیاری چیز ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہم سے یہ چھین لی جائے۔ میں سوال اٹھا کر بے جواب دیے چھوڑ دیتا ہوں کہ حسرت اور ان کے ہم عصر مشاہیر میں سب سے بڑے حسرت ہیں یا کوئی اور۔ لیکن اگر میرے کتب خانے سے امیر و داغ سے لے کر آج تک کے مشہور غزل گو شعراء کے دواوین چوری ہو جائیں تو مجھے ہر دیوان کے چوری جانے کا غم ہوگا لیکن حسرت کے دیوان کے چوری جانے کا سب سے بڑا قلق ہوگا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں