سعادت حسن منٹو
آج سے تقریباً ڈ یڑھ برس پہلے جب میں بمبئی میں تھا، حیدر آباد سے ایک صاحب کا ڈاک کارڈ موصول ہوا۔ مضمون کچھ اس قسم کا تھا، ’’یہ کیا بات ہے کہ عصمت چغتائی نے آپ سے شادی نہ کی؟ منٹو اور عصمت۔ اگر یہ دو ہستیاں مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا مگر افسوس کہ عصمت نے شاہد سے شادی کرلی اور منٹو۔۔۔‘‘
انہی دنوں حیدر آباد میں ترقی پسند مصنفوں کی ایک کانفرنس ہوئی۔ میں اس میں شریک نہیں تھالیکن حیدر آباد کے ایک پرچے میں اس کی رو داد دیکھی، جس میں یہ لکھا تھا کہ وہاں بہت سی لڑکیوں نے عصمت کو گھیر کر یہ سوال کیا، ’’آپ نے منٹو سے شادی کیوں نہ کی؟‘‘مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات درست ہے یا غلط لیکن جب عصمت چغتائی بمبئی واپس آئی تو اس نے میری بیوی سے کہا کہ حیدر آباد میں جب ایک لڑکی نے اس سے سوال کیا، ’’کیا منٹو کنوارا ہے؟‘‘ تواس نے ذرا طنز کے ساتھ جواب دیا، ’’جی نہیں۔‘‘ اس پروہ محترمہ عصمت کے بیان کے مطابق کچھ کھسیانی سی ہو کر خاموش ہوگئیں۔ واقعات کچھ بھی ہوں، لیکن یہ بات غیر معمولی طور پر دلچسپ ہے کہ سارے ہندوستان میں ایک صرف حیدر آباد ہی ایسی جگہ ہے جہاں مرد اور عورتیں میری اور عصمت کی شادی کے متعلق فکر مند رہے ہیں۔
اس وقت تو میں نے غور نہیں کیا تھا لیکن اب سوچتا ہوں۔ اگر میں اور عصمت واقعی میاں بیوی بن جاتے تو کیا ہوتا؟ یہ’’اگر‘‘ بھی کچھ اسی قسم کی اگر ہے۔۔۔ اگر کہا جائے کہ اگر قلوپطرہ کی ناک ایک انچ کا اٹھارھواں حصہ بڑی ہوتی تو اس کا اثر وادی نیل کی تاریخ پر کیا پڑتا۔۔۔ یہاں عصمت قلوپطرہ ہےاور نہ منٹو انطنی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر منٹو اور عصمت کی شادی ہو جاتی تو اس حادثے کا اثر عہدِ حاضر کے افسانوی ادب کی تاریخ پر ایٹمی حیثیت رکھتا۔ افسانے افسانے بن جاتے، کہانیاں مڑ تڑ کر پہیلیاں ہو جاتیں، انشاء کی چھاتیوں میں سارا دودھ خشک ہو کر یا تو ایک سفوف کی شکل اختیار کرلیتا یا بھسم ہو کر راکھ بن جاتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ نکاح نامے پر اس کے دستخط ان کے قلم کی آخری تحریر ہوتے۔ لیکن سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی کون کہہ سکتا ہے کہ نکاح نامہ ہوتا۔ زیادہ قرین قیاس تو یہی معلوم ہوتا ہےکہ نکاح نامے پر دونوں افسانے لکھتے اور قاضی صاحب کی پیشانی پردستخط کردیتے تاکہ سند رہے۔ نکاح کے دوران میں کچھ ایسی باتیں بھی ہو سکتی تھیں:
’’عصمت، قاضی صاحب کی پیشانی سے ایسا لگتا ہے تختی ہے۔‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
’’تمہارے کانوں کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘
’’ میرے کانوں کو تو کچھ نہیں ہوا۔۔۔ تمہاری اپنی آوازحلق سے باہر نہیں نکلتی۔‘‘
’’ حد ہوگئی ہے۔۔۔ لو اب سنو، میں کہہ رہا تھا قاضی صاحب کی پیشانی بالکل تختی سے ملتی جلتی ہے۔‘‘
’’تختی تو بالکل سپاٹ ہوتی ہے۔‘‘
’’ یہ پیشانی سپاٹ نہیں؟‘‘
’’ تم سپاٹ کا مطلب بھی سمجھتے ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’سپاٹ ماتھا تمہارا ہے۔۔۔ قاضی جی کا ماتھا تو۔۔۔‘‘
’’بڑا خوبصورت ہے۔‘‘
’’خوبصورت تو ہے۔‘‘
’’تم محض چڑا رہی ہو مجھے۔‘‘
’’ چڑا تم رہے ہو مجھے۔‘‘
’’ میں کہتا ہوں تم چڑا رہی ہو مجھے۔‘‘
’’میں کہتی ہو ں تم چڑا رہے ہومجھے۔‘‘
’’تمہیں ماننا پڑے گا کہ تم چڑا رہی ہو مجھے۔‘‘
’’اجی واہ۔۔۔ تم تو ابھی سے شوہر بن بیٹھے۔‘‘
’’قاضی صاحب، میں اس عورت سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔ اگر آپ کی بیٹی کا ماتھا بھی آپ ہی کے ماتھے کی طرح ہے تو میرا نکاح اس سے پڑھوا دیجیے۔‘‘
’’قاضی صاحب، میں اس مردوے سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔ اگر آپ کی چار بیویاں نہیں ہیں تو مجھ سے شادی کرلیجیے۔ مجھے آپ کا ماتھا بہت پسند ہے۔‘‘
کرشن چندر’’ چوٹیں‘‘ کے دیباچے میں لکھتا ہے:
’’سمت کو چھپانے میں، پڑھنے والے کو حیرت واضطراب میں گم کردینے میں اور پھر یکایک آخر میں اس اضطراب و حیرت کو مسرت میں مبدل کردینے کی صفت میں عصمت اور منٹو ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور اس فن میں اردوکے بہت کم افسانہ نگار ان کے حریف۔‘‘
اگر ہم دونوں کو شادی کا خیال آتا تو دوسروں کو حیرت و اضطراب میں گم کرنے کے بجائے ہم خود اس میں غرق ہو جاتےاور جب ایک دم چونکتے تو یہ حیرت اور اضطراب جہاں تک میں سمجھتا ہوں، مسرت کے بجائے ایک بہت بڑے فکاہیہ میں تبدیل ہو جاتا۔۔۔ عصمت اور منٹو، نکاح اور شادی۔۔۔ کتنی مضحکہ خیز چیز ہے۔
عصمت لکھتی ہے:
ایک ذرا سی محبت کی دنیا میں کتنے شوکت، کتنے محمود، عباس عسکری، یونس اور نہ جانے کون کون تاش کی گڈی کی طرح پھینٹ کر بکھیر دیےگئے ہیں۔ کوئی بتاؤ، ان میں سے چور پتا کون سا ہے۔۔۔ ؟ شوکت کی بھوکی بھوکی کہانیوں سے لبریز آنکھیں، محمود کے سانپوں کی طرح رینگتے ہوئے اعضا، عسکری کے بے رحم ہاتھ، یونس کے نچلے ہونٹ کا سیاہ تل، عباس کی کھوئی ہوئی مسکراہٹیں اور ہزاروں چوڑے چکلے سینے، کشادہ پیشانیاں، گھنے گھنے بال، سڈول پنڈلیاں، مضبوط بازو، سب ایک ساتھ مل کر پکے سوت کے ڈوروں کی طرح الجھ کر رہ گئے ہیں۔ پریشان ہو ہو کر اس ڈھیر کو دیکھتی ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا سرا پکڑ کر کھینچوں کہ کھینچتا ہی چلا آئے اور اس میں اس کے سہارے دور افق سے بھی اوپر ایک پتنگ کی طرح تن جاؤں۔
(چھوٹی آپا)
منٹو لکھتا ہے:
میں صرف اتنا سمجھا ہوں کہ عورت سے عشق کرنا اور زمینیں خریدنا تمہارے لئے ایک ہی بات ہے۔ سو تم محبت کرنے کے بجائے ایک دو بیگھے زمین خرید لو اور اس پر ساری عمر قابض رہو۔۔۔ زندگی میں صرف ایک عورت۔۔۔ اور یہ دنیا اس قدر بھری ہوئی کیوں ہے۔۔۔ ؟ کیوں اس میں اتنے تماشے جمع ہیں۔۔۔ ؟ صرف گندم پیدا کرکے ہی اللہ میاں نے اپنا ہاتھ کیوں نہ روک لیا۔۔۔ میری سنو اور اس زندگی کو جوکہ تمہیں دی گئی ہے اچھی طرح استعمال کرو۔۔۔ تم ایسے گاہک ہوجو عورت حاصل کرنے کے لئے ساری عمر سرمایہ جمع کرتے رہو گے مگر اسے ناکافی سمجھو گے۔ میں ایسا خریدار ہوں۔ جو زندگی میں کئی عورتوں سے سودے کرے گا۔۔۔ تم ایسا عشق کرنا چاہتے ہو کہ اس کی ناکامی پر کوئی ادنیٰ درجے کا مصنف ایک کتاب لکھے جسے نرائن دت سہگل پیلے کاغذوں پر چھاپے اور ڈبی بازارمیں اسے ردی کے بھاؤ بیچے۔۔۔ میں اپنی کتابِ حیات کے تمام اوراق دیمک بن کر چاٹ جانا چاہتا ہوں تاکہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ تم محبت میں زندگی چاہتے ہو میں زندگی میں محبت چاہتا ہوں۔ (تکلیف)
عصمت کو اگر الجھے ہوئے سوت کے ڈھیر میں سے ایسا سرا مل جاتا۔ کھینچنے پر جو کھینچتا ہی چلا آتا اور وہ اس کے سہارے دور افق سے اوپر ایک پتنگ کی طرح تن جاتی اور منٹو اگر اپنی کتابِ حیات کے آدھے اوراق بھی دیمک بن کر چاٹنے میں کامیاب ہو جاتا تو آج ادب کی لوح پر ان کے فن کے نقوش اتنے گہرے کبھی نہ ہوتے۔ وہ دور افق سے بھی اوپر ہوا میں تنی رہتی اور منٹو کے پیٹ میں اس کی کتاب حیات کے باقی اوراق بھس بھر کے اس کے ہمدر د اسے شیشے کی الماری میں بند کردیتے۔
’’چوٹیں‘‘ کے دیباچے میں کرشن چندر لکھتا ہے:
عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگاروں کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ شرمندہ ہو رہے ہیں۔ آپ ہی آپ خفیف ہوئے جارہے ہیں۔ یہ دیباچہ بھی اسی خفت کو مٹانے کا ایک نتیجہ ہے۔‘‘
عصمت کے متعلق جو کچھ میں لکھ رہا ہوں، کسی بھی قسم کی خفت مٹانے کا نتیجہ نہیں۔ ایک قرض تھاجو سود کی بہت ہی ہلکی شرح کے ساتھ ادا کررہا ہوں۔
سب سے پہلے میں نے عصمت کا کون سا افسانہ پڑھا تھا، مجھے بالکل یاد نہیں۔ یہ سطور لکھنے سے پہلے میں نے حافظے کو بہت کھرچا لیکن اس نے میری رہبری نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں عصمت کے افسانے کاغذ پر منتقل ہونے سے پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ پر کوئی دورہ نہیں پڑا۔ لیکن جب میں نے اس کو پہلی بار دیکھا تو مجھے سخت ناامیدی ہوئی۔
اڈلفی چیمبرز کلیر روڈ بمبئی کے17 نمبر فلیٹ میں جہاں’’ مصور‘‘ ہفتہ وار کا دفتر تھا، شاہد لطیف اپنی بیوی کے ساتھ داخل ہوا۔ یہ اگست1942ء کی بات ہے۔ تمام کانگرسی لیڈر مہاتما گاندھی سمیت گرفتار ہوچکے تھے اور شہر میں کافی گڑ بڑ تھی۔ فضا سیاسیات میں بسی ہوئی تھی اس لئے کچھ دیرگفتگو کا موضوع تحریکِ آزادی رہا۔ اس کے بعد رخ بدلا اور افسانوں کی باتیں شروع ہوئیں۔
ایک مہینہ پہلے جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا، ادبِ لطیف میں عصمت کا’’لحاف‘‘ شائع ہوا تھا۔ اسے پڑھ کر مجھے یاد ہے، میں نے کرشن چندر سے کہا تھا، ’’افسانہ بہت اچھا ہے۔ لیکن آخری جملہ بہت غیر صناعانہ ہے۔ احمد ندیم کی جگہ اگر میں ایڈیٹر ہوتا تو اسے یقیناً حذف کردیتا۔‘‘ چنانچہ جب افسانوں پر باتیں شروع ہوئیں تو میں نے عصمت سے کہا، ’’آپ کا افسانہ لحاف مجھے بہت پسند آیا۔ بیان میں الفاظ کو بقدر کفایت استعمال کرنا آپ کی نمایاں خصوصیت رہی ہے لیکن مجھے تعجب ہے کہ اس افسانے کے آخر میں آپ نے بیکار سا جملہ لکھ دیا کہ، ’’ ایک انچ اٹھے ہوئے لحاف میں میں نے کیا دیکھا۔ کوئی مجھے لاکھ روپیہ بھی دے تو میں کبھی نہیں بتاؤں گی۔‘‘
عصمت نے کہا، ’’کیا عیب ہے اس جملے میں؟‘‘
میں جواب میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ مجھے عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہوا حجاب نظر آیا جو عام گھریلو لڑکیوں کے چہرے پر ناگفتنی شے کا نام سن کر نمودار ہوا کرتا ہے۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی اس لئے کہ میں’’ لحاف‘‘ کے تمام جزئیات کے متعلق اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ جب عصمت چلی گئی تو میں نے دل میں کہا، ’’یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی۔‘‘
مجھے یاد ہے اس ملاقات کے دوسرے ہی روز میں نے اپنی بیوی کو دہلی خط لکھا، ’’عصمت سے ملا۔ تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ وہ بالکل ایسی ہی عورت ہے جیسی تم ہو۔ میرا مزا تو بالکل کرکرا ہوگیا۔ لیکن تم اسے یقیناً پسند کرو گی۔ میں نے جب اس سے ایک انچ اٹھے ہوئے لحاف کا ذکر کیا تو نالائق اس کا تصور کرتے ہی جھینپ گئی۔‘‘
ایک عرصے کے بعد میں نے اپنے اس رد عمل پر سنجیدگی سے غور کیا اور مجھے اس امر کا شدید احساس ہوا کہ اپنے فن کی بقاء کے لئے انسان کو اپنی فطرت کی حدود میں رہنا از بس لازم ہے۔ ڈاکٹر رشید جہاں کا فن آج کہاں ہے؟ کچھ تو گیسوؤں کے ساتھ کٹ کر علیحدہ ہوگیا اور کچھ پتلون کی جیبوں میں ٹھس کررہ گیا۔ فرانس میں جارج سال نے نسوانیت کا حسین ملبوس اتار کر تصنع کی زندگی اختیار کی۔ پولستانی موسیقار شو پیس سے لہو تھکوا تھکوا کر اس نے لعل و گہر ضرور پیدا کرائے، لیکن اس کا اپنا جوہر اس کے بطن میں دم گھٹ کے مر گیا۔
میں نے سوچا عورت جنگ کے میدانوں میں مردوں کے دوش بدوش لڑے، پہاڑ کاٹے، افسانہ نگاری کرتے کرتے عصمت چغتائی بن جائے۔ لیکن اس کے ہاتھوں میں کبھی نہ کبھی منہدی رچنی ہی چاہئے۔ اس کی بانہوں سے چوڑی کی کھنک آنی ہی چاہیے۔ مجھے افسوس ہے جو میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا، ’’یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی!‘‘
عصمت اگر بالکل عورت نہ ہوتی تو اس کے مجموعوں میں بھول بھلیاں، تل، لحاف اور گیندا جیسے نازک اور ملائم افسانے کبھی نظر نہ آتے۔ یہ افسانے عورت کی مختلف ادائیں ہیں۔ صاف، شفاف، ہر قسم کے تصنع سے پاک۔ یہ ادائیں، وہ عشوے، وہ غمزے نہیں جن کے تیر بنا کر مردوں کے دل اور کلیجے چھلنی کئے جاتے ہیں۔ جسم کی بھونڈی حرکتوں سے ان اداؤں کا کوئی تعلق نہیں۔ ان روحانی اشاروں کی منزلِ مقصود انسان کا ضمیر ہےجس کے ساتھ وہ عورت ہی کی ان جانی۔۔۔ ان بوجھی مگر مخملیں فطرت لئے بغیر بغل گیر ہو جاتے ہیں۔
ان کی رنگت بدلی، ’’بے چارا بچہ۔۔۔ مرگیا اس کا باپ شاید۔‘‘
’’خاک تمہارے منہ میں، خدا نہ کرے۔‘‘ میں نے ننھے کو کلیجے سے لگا لیا۔
’’ٹھائیں‘‘ننھے نے موقعہ پا کر بندوق چلائی۔
’’ہائیں پا جی۔۔۔ ابا کو مارتا ہے۔‘‘ میں نے بندوق چھین لی۔
(بھول بھلیاں)
اور لوگ کہتے ہیں عصمت ناشدنی ہے، چڑیل ہے۔۔۔ گدھے کہیں کے۔ ان چار سطروں میں عصمت نے عورت کی روح نچوڑ کر رکھ دی ہے اور یہ لوگ اسے اخلاق کی امتحانی نلیوں میں بیٹھے ہلا ہلا کر دیکھ رہے ہیں۔ توپ دم کر دینا چائے ایسی اوندھی کھوپڑیوں کو۔
’’ساقی‘‘ میں ’’دوزخی‘‘ چھپا۔ میری بہن نے پڑھا اور مجھ سے کہا، ’’سعادت! یہ عصمت کتنی بے ہودہ ہے۔ اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا کم بخت نے۔ کیسی کیسی فضول باتیں لکھی ہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’اقبال! اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو، تو خدا کی قسم میں آج ہی مرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
شاہجہاں نے اپنی محبوبہ کی یاد قائم رکھنے کیلئے تاج محل بنوایا۔ عصمت نے اپنے محبوب بھائی کی یاد میں’’دوزخی‘‘ لکھا۔ شاہجہاں نے دوسروں سے پتھر اٹھوائے، انہیں ترشوایا اور اپنی محبوبہ کی لاش پر عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی۔ عصمت نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خواہرانہ جذبات چن چن کر ایک اونچا مچان تیار کیا اور اس پر نرم نرم ہاتھوں سے اپنے بھائی کی نعش رکھ دی۔ تاج شاہ جہاںکی محبت کا برہنہ مرمریں اشتہار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن’’دوزخی‘‘ عصمت کی محبت کا نہایت ہی لطیف اور حسین اشارہ ہے۔ وہ جنت جو اس مضمون میں آباد ہے، عنوان اس کا اشتہار نہیں دیتا۔
میری بیوی نے یہ مضمون پڑھا تو عصمت سے کہا، ’’یہ تم نے کیا خرافات لکھی ہے؟‘‘
’’بکو نہیں۔۔۔ لاؤ وہ برف کہاں ہے؟‘‘
عصمت کو برف کھانے کا بہت شوق ہے، بالکل بچوں کی طرح ڈلی ہاتھ میں لیے دانتوں سے کٹا کٹ کاٹتی رہتی ہے۔ اس نے اپنے بعض افسانے بھی برف کھا کھا کر لکھے ہیں۔ چارپائی پر کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی ہے، سامنے تکیے پر کاپی کھلی ہے ایک ہاتھ میں فاونٹن پن ہے اور دوسرے ہاتھ میں برف کی ڈلی۔ ریڈیو اونچے سروں میں چلا رہا ہے مگر اس کا قلم اور منہ دونوں کھٹا کھٹ چل رہے ہیں۔
عصمت پر لکھنے کے دورے پڑتے ہیں۔ نہ لکھے تو مہینوں گزر جاتے ہیں۔ پر جب دورہ پڑے تو سیکڑوں صفحے اس کے قلم کے نیچے سے نکل جاتے ہیں۔ کھانے پینے، نہانے دھونے کا کوئی ہوش نہیں رہتا۔ بس ہر وقت چارپائی پر کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی اپنے ٹیڑھے میڑھے اعراب اور املا سے بے نیاز خط میں کاغذوں پر اپنے خیالات منتقل کرتی رہتی ہے۔ ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ جیسا طول طویل ناول، میرا خیال ہے، عصمت نے ساتھ آٹھ نشستوں میں ختم کیا تھا۔
کرشن چندر عصمت کے بیان کی رفتار کے متعلق لکھتا ہے:
افسانوں کے مطالعہ سے ایک اور بات جو ذہن میں آتی ہے وہ ہے گھوڑ دوڑ۔ یعنی رفتار، حرکت، سبک خرامی( میراخیال ہے کہ اس سے کرشن چندر کی مراد برق رفتار تھی) اور تیز گامی۔ نہ صرف افسانہ دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے بلکہ فقرے، کنائے اور اشارے اور آوازیں اور کردار اور جذبات اور احساسات ایک طوفان کی سی بلاخیزی کے ساتھ چلتے اور آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔
عصمت کا قلم اور اس کی زبان دونوں بہت تیز ہیں۔ لکھنا شروع کرے گی تو کئی مرتبہ اس کا دماغ آگے نکل جائے گا اور الفاظ بہت پیچھے ہانپتے رہ جائیں گے۔ باتیں کرے گی تو لفظ ایک دوسرے پر چڑھتے جائیں گے۔ شیخی بگھارنے کی خاطر اگرکبھی باورچی خانے میں چلی جائے تو معاملہ بالکل چوپٹ ہو جائے گا۔ طبیعت میں چونکہ بہت ہی عجلت ہے اس لئے آٹے کا پیڑا بناتے ہی سنکی سنکائی روٹی کی شکل دیکھنا شروع کردیتی ہے۔ آلو ابھی چھیلے نہیں گئے لیکن اس کا سالن اس کے دماغ میں پہلے ہی تیار ہو جاتا ہے اور میرا خیال ہے بعض اوقات وہ باورچی خانے میں قدم رکھ کر خیال خیال میں شکم سیر ہوکر لوٹ آتی ہوگی۔۔۔ لیکن اس حد سے بڑھی ہوئی عجلت کے مقابلے میں اس کو میں نے بڑے ٹھنڈے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی بچی کے فراک سیتے دیکھا ہے۔ اس کا قلم لکھتے وقت املاکی غلطیاں کر جاتا ہے لیکن ننھی کے فراک سیتے وقت اس کی سوئی سے ہلکی سی لغزش بھی نہیں ہوتی۔ نپے تلے ٹانکے ہوتے ہیں اور مجال ہے جو کہیں جھول ہو۔
’’اف رے بچے‘‘ میں عصمت لکھتی ہے، ’’گھر کیا ہے محلے کا محلہ ہے۔ مرض پھیلے، وبا آئے، دنیا کے بچے پٹا پٹ مریں مگر کیا مجال جو یہاں ایک بھی ٹس سے مس ہو جائے۔ ہر سال ماشاء اللہ گھر ہسپتال بن جاتا ہے۔۔۔ سنتے ہیں دنیا میں بچے بھی مرا کرتے ہیں۔ مرتے ہوں گے۔ کیا خبر؟‘‘
اور پچھلے دنوں بمبئی میں، جب اس کی بچی سیما کو کالی کھانسی ہوئی تو وہ راتیں جاگتی تھی، ہر وقت کھوئی کھوئی رہتی تھی۔ ممتا ماں بننے کے ساتھ ہی کوکھ سے باہر نکلتی ہے۔
عصمت پرلے درجے کی ہٹ دھرم ہے۔ طبیعت میں ضد ہے بالکل بچوں کی سی، زندگی کے کس نظریے کو فطرت کے کسی قانون کو پہلے ہی سابقہ میں کبھی قبول نہیں کرے گی۔ پہلے شادی سے انکار کرتی رہی۔ جب آمادہ ہوئی تو بیوی بننے سے انکار کردیا۔ بیوی بننے پر جوں توں رضا مند ہوئی تو ماں بننے سے منکر ہوگئی۔ تکلیفیں اٹھائے گی، صعوبتیں برداشت کرے گی مگر ضد سے کبھی باز نہیں آئے گی۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی اس کا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے وہ زندگی کے حقائق سے دوچار ہوکر بلکہ ٹکرا کر ان کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔ اس کی ہر بات نرالی ہے۔
عصمت کے زنانہ اور مردانہ کرداروں میں بھی یہ عجیب و غریب ضد یا انکار عام پایا جاتا ہے۔ محبت میں بری طرح مبتلا ہیں لیکن نفرت کا اظہار کئے چلے جارہے ہیں۔ جی گال چومنے کو چاہتا ہے لیکن اس میں سوئی کھبو دیں گے۔ ہولے سے تھپکانا ہوگا تو ایسی دھول جمائیں گے کہ دوسرا بلبلا اٹھے۔ یہ جارحانہ قسم کی منفی محبت جو محض ایک کھیل کی صورت میں شروع ہوتی ہے، عام طور پر عصمت کے افسانوں میں ایک نہایت رحم انگیز صورت میں انجام پذیر ہوتی ہے۔ عصمت کا اپنا انجام بھی اگر کچھ اسی طور پرہوا اور میں اسے دیکھنے کے لئے زندہ رہا تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔
عصمت سے ملتے جلتے مجھے پانچ چھ برس ہوگئے ہیں۔ دونوں کی آتش گیر اور بھک سے اڑ جانے والی طبیعت کے پیش نظر احتمال تو اسی بات کا تھا کہ سیکڑوں لڑائیاں ہوتیں مگر تعجب ہے کہ اس دوران میں صرف ایک بار چخ ہوئی اور وہ بھی ہلکی سی۔ شاہد اور عصمت کے مدعو کرنے پر میں اور میری بیوی صفیہ دونوں ملاڈ( بمبئی کے مضافات میں ایک جگہ جہاں شاہد بمبئی ٹاکیز کی ملازمت کے دوران میں مقیم تھا) گیے ہوئے تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد باتوں باتوں میں شاہد نے کہا، ’’منٹو تم سے اب بھی زبان کی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔‘‘
ڈیڑھ بجے تک میں نے تسلیم نہ کیا کہ میری تحریر میں زبان کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ شاہد تھک گیا۔ دو بجے تک عصمت نے اپنے شوہر کی پیروی کی۔ میں پھر بھی نہ مانا۔ دفعتاً کوئی بات کہتے ہوئے عصمت نے لفظ’’دست درازی‘‘ استعمال کیا، میں نےجھٹ سے کہا، ’’صحیح لفظ دراز دستی ہے۔۔۔‘‘ تین بج گئے۔ عصمت نے اپنی غلطی تسلیم نہ کی۔ میری بیوی سو گئی۔ شاہد قصہ ختم کرنے کےلیےدوسرے کمرے سے لغت اٹھا لایا۔ ’’د‘‘ کی تختی میں لفظ دست درازی موجود ہی نہیں تھا۔ البتہ دراز دستی اور اس کے معنی درج تھے۔ شاہد نے کہا، ’’عصمت اب تمہیں ماننا پڑے گا۔‘‘ اب میاں بیوی میں چخ شروع ہوگئی۔ مرغ اذانیں دینے لگا۔ عصمت نے لغت اٹھا کر ایک طرف پھینکی اور کہا، ’’جب میں لغت بناؤں گی تو اس میں صحیح لفظ دست درازی ہوگا۔ یہ کیا ہوا دراز دستی۔۔۔ دراز دستی۔‘‘
کج بحثی کا یہ سلسلۂ دراز بہر حال ختم ہوا۔ اس کے بعد ہم ایک دوسرے سے کبھی نہیں لڑے بلکہ یوں کہئے کہ ہم نے اس کا کبھی موقع ہی نہیں آنے دیا۔ گفتگو کرتے کرتے جب بھی کوئی خطرناک موڑ آیا تو عصمت نے رخ بدل لیا یا میں راستہ کاٹ کے ایک طرف ہوگیا۔
عصمت کو میں پسند کرتا ہوں وہ مجھے پسند کرتی ہے لیکن اگر کوئی دفعتاً پوچھ بیٹھے، ’’ تم دونوں ایک دوسرے کی کیا چیز پسند کرتے ہو؟‘‘ تو میرا خیال ہے کہ میں اور عصمت دونوں کچھ عرصے کے لئے بالکل خالی الذہن ہو جائیں۔ عصمت کی شکل وصورت دل فریب نہیں بلکہ دل نشین ضرور ہے۔ اس سے پہلی ملاقات کے نقش ابھی تک مرے دل و دماغ میں محفوظ ہیں۔ بہت ہی سادہ لباس میں تھی۔ چھوٹی کنی کی سفید دھوتی۔ سفید زمین کا کالی کھڑی لکیروں والا چست بلاؤز۔ ہاتھ میں چھوٹا پرس۔ پاؤں میں بغیر ایڑھی کا براؤن چپل۔ چھوٹی چھوٹی مگر تیز اور متجسس آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں والی عینک۔ چھوٹے مگر گھنگھریالے بال۔۔۔ ٹیڑھی مانگ۔ ذرا سا مسکرانے پر بھی گالوں میں گڈھے پڑپڑ جاتے تھے۔
میں عصمت پر عاشق نہ ہوا لیکن میری بیوی اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔ عصمت سے اگر صفیہ اس کا ذکر کرے تووہ ضرور کچھ یوں کہے گی، ’’بڑی آئی ہو میری محبت میں گرفتار ہونے والی۔۔۔ تمہاری عمر کی لڑکیوں کے باپ تک قید ہوتے رہے ہیں میری محبت میں۔‘‘
ایک بزرگوار اہل قلم کو تو میں بھی جانتا ہوں جو بہت دیر تک عصمت کے پریم پجاری رہے۔ خط و کتابت کے ذریعے سے آپ نے عشق فرمانا شروع کیا۔ عصمت شہہ دیتی رہی لیکن آخر میں ایسا اڑنگا دیا کہ ثریا ہی دکھا دی غریب کو۔ یہ سچی کہانی میرا خیال ہے وہ کبھی قلم بند نہیں کریں گے۔
باہم متصادم ہو جانے کے خوف سے میرے اور عصمت کے درمیان بہت ہی کم باتیں ہوتی تھیں۔ میرا افسانہ کبھی شائع ہو تو پڑھ کر داد دے دیا کرتی تھی۔ ’’نیلم‘‘ کی اشاعت پر اس نے غیر معمولی جوش و خروش سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ’’ واقعی یہ بہن بنانا کیا ہے۔۔۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے کسی عورت کو بہن کہنا۔ اس کی توہین ہے۔‘‘
اور میں سوچتا رہ گیا۔۔۔ وہ مجھے منٹو بھائی کہتی ہے اور میں اسے عصمت بہن کہتا ہوں۔۔۔ دونوں کو خدا سمجھے!
ہماری پانچ چھ برس کی دوستی کے زمانے کا ایسا کوئی واقعہ نہیں جو قابل ذکر ہو۔ فحاشی کے الزام میں ایک بار ہم دونوں گرفتار ہوئے۔ مجھے تو پہلے دو دفعہ تجربہ ہوچکا تھا لیکن عصمت کا پہلا موقع تھا، اس لئے بہت بھنائی۔ اتفاق سے گرفتاری غیر قانونی نکلی۔ کیونکہ پنجاب پولیس نے ہمیں بغیر وارنٹ پکڑ لیا تھا۔ عصمت بہت خوش ہوئی، لیکن بکرے کی ماں کب تک خیرمناتی۔ آخر اسے لاہور کی عدالت میں حاضر ہونا ہی پڑا۔ بمبئی سے لاہور تک کافی لمبا سفر ہے لیکن شاہد اور میری بیوی ساتھ تھے۔ سارا وقت خوب ہنگامہ رہا۔ صفیہ اور شاہد ایک طرف ہو گئے اور چڑانے کی خاطر ہم دونوں کی فحش نگاری پر حملے کرتے رہے۔ قید کی صعوبتوں کا نقشہ کھینچا۔ جیل کی زندگی کی جھلکیاں دکھائیں۔ عصمت نے آخر میں جھلا کرکہا، ’’ سولی پربھی چڑھا دیں لیکن یہاں حلق سے انا لحق ہی نکلے گا۔‘‘
اس مقدمے کے سلسلے میں ہم دو دفعہ لاہور ہوگئے۔ دونوں مرتبہ کالجوں کے تماشائی طالب علم مجھے اور عصمت کو دیکھنے کے لیے ٹولیاں باندھ باندھ کر عدالت میں آتے رہے۔ عصمت نے مجھ سے کہا، ’’منٹو بھائی۔ چودھری نذیر سے کہئے کہ ٹکٹ لگا دے کہ یہاں آنے جانے کا کرایہ ہی نکل آئے گا۔‘‘
ہم دو دفعہ لاہور گئے اور دوہی دفعہ ہم دونوں نے کرنال شاپ سے مختلف ڈیزائنوں کے دس دس بارہ بارہ جوڑے سینڈلوں اور جو تیوں کے خریدے۔ بمبئی میں کسی نے عصمت سے پوچھا، ’’لاہور آپ کیا مقدمے کے سلسلے میں گئے تھے؟‘‘ عصمت نے جواب دیا، ’’جی نہیں، جوتے خریدنے گئے تھے۔‘‘
غالباً ساڑھے تین برس پہلے کی بات ہے۔ ہولی کا تہوار تھا۔ ملاڈ میں شاہد اور میں بالکنی میں بیٹھے پی رہے تھے۔ عصمت میری بیوی کو اکسا رہی تھی، ’’صفیہ یہ لوگ اتنا روپیہ اڑائیں، ہم کیوں نہ اس عیش میں شریک ہوں۔۔۔‘‘ دونوں ایک گھنٹے تک دل کڑا کرتی رہیں۔ اتنے میں ایک دم ہلڑ سا مچا اور فلمستان سے پروڈیوسر مکرجی، ان کی بھاری بھر کم بیوی اور دوسرے لوگ ہم پر حملہ آور ہوگئے۔ چند منٹوں میں ہی ہم کا حلیہ ناقابل شناخت تھا۔ عصمت کی توجہ وسکی سے ہٹی اور رنگ پر مرکوز ہوگئی، ’’آؤ صفیہ ہم بھی ان کے رنگ لگائیں۔‘‘
ہم سب بازار میں نکل آئے۔ چنانچہ گھوڑ بندر روڈ پر باقاعدہ ہولی شر وع ہوگئی۔ نیلے، پیلے سبز اور کالے رنگوں کا چھڑکاؤ سا شروع ہوگیا۔ عصمت پیش پیش تھی۔ ایک موٹی بنگالن کے چہرے پر تو اس نے تارکول کا لیپ کردیا۔ اس وقت مجھے اس کے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خیال آیا۔ ایک دم عصمت نے جرنیلوں کے سے انداز میں کہا، ’’آؤ، پری چہرہ کے گھر پر دھاوا بولیں۔‘‘
ان دنوں نسیم بانوہمارے فلم’’ چل چل رے نوجوان‘‘ میں کام کررہی تھی۔ اس کا بنگلہ پاس ہی گھوڑ بندر روڈ پر تھا۔ عصمت کی تجویز سب کو پسند آئی۔ چنانچہ چند منٹوں میں ہم سب بنگلے کے اندر تھے۔ نسیم حسبِ عادت پورے میک اپ میں تھی اور نہایت نفیس ریشمی جارجٹ کی ساڑی میں ملبوس تھی۔ وہ اور اس کا خاوند احسان ہمارا شور سن کر باہر نکلے۔ عصمت نے جورنگوں میں لتھڑی ہوئی بھتنی سی لگتی تھی، میری بیوی سے جس پر مزید رنگ لگانے سے میرا خیال ہے کوئی فرق نہ پڑتا۔ نسیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’صفیہ، نسیم واقعی حسین عورت ہے۔‘‘
میں نے نسیم کی طرف دیکھا اور کہا، ’’حسن ہے لیکن بہت ٹھنڈا۔‘‘
عینک کے رنگ آلود شیشوں کے پیچھے عصمت کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں گھومیں اور اس نے آہستہ سے کہا، ’’صفراوی طبعیتوں کے لئے ٹھنڈی چیزیں مفید ہوتی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کروہ آگے بڑھی اور ایک سیکنڈ کے بعد پری چہرہ نسیم سرکس کا مسخرہ بنی تھی۔
عصمت اور میں بعض اوقات عجیب عجیب باتیں سوچا کرتے ہیں۔ ’’منٹو بھائی جی چاہتا ہے، اب مرغ اور مرغیوں کے رومانس کے متعلق کچھ لکھوں‘‘ یا ’’میں تو فوج میں بھرتی ہو جاؤں گی اور ہوائی جہاز اڑانا سیکھوں گی۔‘‘
چند مہینوں کی بات ہے۔ میں اور عصمت بمبئی ٹاکیز سے واپس الیکٹرک ٹرین میں گھر جارہے تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں اس سے کہا، ’’کرشن چندر کے افسانوں میں دو چیزیں میں نے عام دیکھی ہیں۔۔۔ زنا بالجبر اور قوسِ قزح جسے وہ قوس و قزح لکھتا ہے۔‘‘ عصمت نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا، ’’یہ تو ہے۔‘‘
’’سوچتا ہوں ایک مضمون لکھوں جس کا عنوان کرشن چندر، قوسِ قزح اور زنا بالجبر ہو۔‘‘ میں ساتھ ہی ساتھ سوچ رہا تھا، ’’لیکن زنا بالجبر سے قوسِ قزح کا نفسیاتی رشتہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
عصمت نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا، ’’جمالیاتی نقطہ نظر سے قوسِ قزح کے رنگوں میں انتہائی جاذبیت اور کشش۔۔۔ لیکن آپ تو کسی اور زاویے سے سوچ رہے تھے۔‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ سرخ رنگ آگ اور خون کا رنگ ہے۔ صنمیات میں اس رنگ کو مریخ یعنی جلاد فلک سے منسوب کیا جاتا ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ زنا بالجبر سے قوسِ قزح کے صرف اسی رنگ کا دامن بندھا ہو۔‘‘
’’ہو سکتا ہے۔۔۔ آپ یہ مضمون ضرور لکھیے۔‘‘
’’لیکن عیسائیوں کے فنِ مصوری میں سرخ رنگ عشقِ الٰہی کا مظہر ہے۔۔۔‘‘
’’ نہیں نہیں۔‘‘ میرے دماغ میں دفعتاً ایک خلیہ پھوٹا، ’’صلیب پر چڑھنے کے شدید جذبے کو بھی اسی رنگ سے معنون کیا گیا ہے اور کنواری مریم کا لباس سرخ ہوتا ہے۔۔۔ یہ عصمت کی نشانی ہے۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے میں نے اچانک عصمت کے سفید لباس کی طرف دیکھا، وہ مسکرا دی، ’’منٹو بھائی آپ یہ مضمون ضرورلکھئے۔ مزا آجائے گا۔۔۔ لیکن عنوان میں سے بالجبر اڑا دیجیے۔‘‘
’’کرشن کو اعتراض ہوگا، کیونکہ وہ جبر یہ فعل سمجھ کر ہی توروتا ہے۔‘‘
’’بیکار روتا ہے۔ کیا معلوم کہ یہ ظلم ہی اس کی مظلوم ہیروئنوں کو اچھا لگا ہو۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے! ‘‘
عصمت کی افسانہ نگاری پر کافی مضمون لکھے گیے ہیں۔ حق میں کم، خلاف زیادہ۔ کچھ تو بالکل مجذوب کی بڑ ہیں۔ چند ایسے ہیں جن میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔
پطرس صاحب نے بھی جن کو لاہور کے ادبی ٹھیکےداروں نے ڈبیا میں بند کر رکھا تھا، اپنا ہاتھ باہر نکالا اور قلم پکڑ کر عصمت پر ایک مضمون لکھ دیا۔
آدمی ذہین ہیں، طبیعت میں شوخی اور مزاح ہے اس لئے مضمون کافی دلچسپ اور سلجھا ہوا ہے۔ آپ عورت کے لیبل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک مقتدر وپختہ کار دیباچہ نویس( آپ کی مراد صلاح الدین صاحب سے ہے) نے بھی معلوم ہوتا ہے، انشا پردازوں کے ریوڑ میں نر اور مادہ الگ الگ کررکھے ہیں۔ عصمت کے متعلق فرماتے ہیں کہ جنس کے اعتبار سے اردو میں کم و بیش انہیں بھی وہی رتبہ حاصل ہے جو ایک زمانے میں انگریزی ادب ہیں جارج ایلیٹ کو نصیب ہوا، گویا ادب کوئی ٹینس ٹورنامنٹ ہے جس میں عورتوں اور مردوں کے میچ علیحدہ ہوتے ہیں۔ جارج ایلیٹ کا رتبہ مسلم۔ لیکن یوں اس کا نام لے دینے سے تک ہی ملا اور بوجھوں تو کوئی کیا مرے گا۔ اب یہ امر ایک علیحدہ بحث کا محتاج ہے کہ کیا کوئی مابہ الامتیاز ایسا ہے جوخارجی اور ہنگامی اور اتفاقی نہیں بلکہ داخلی اور جبلی اوربنیادی، جو انشا پرداز عورتوں کے ادب کو انشا پرداز مردوں کے ادب سے ممیز کرتا ہے اور اگر ہے تووہ کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب کچھ ہو بہر حال اس نوع کا ہرگز نہیں کہ اس کی بنیاد پر مصنفین کو’’جنس کے اعتبار سے‘‘ الگ الگ دو قطاروں میں کھڑا کردیا جائے۔
ان سوالوں کا جواب بہت ممکن ہے ایسا نہ ہو جس کی بنیاد پر مصنفین کو جنس کے اعتبار سے دو قطاروں میں کھڑا کردیا جائے۔ لیکن جواب دیتے وقت لوگ یہ ضرور سوچیں گے کہ سوال کرنے والا کون ہے۔۔۔ مرد یا عورت۔۔۔ ؟ کیونکہ صنف معلوم ہونے پر سوال کرنے والے کا جبلی اور بنیادی زاویہ نگاہ بہت حد تک واضح ہو جائے گا۔
پطرس صاحب کا یہ کہنا ہے کہ’’ گویا ادب بھی کوئی ٹینس ٹورنامنٹ ہے جس میں عورتوں اور مردوں کے میچ علیحدہ ہوتے ہیں۔‘‘ ٹھیٹھ پطرسی فقرے بازی ہے۔ ٹینس ٹورنامنٹ ادب نہیں۔ لیکن عورتوں اور مردوں کے میچ علیحدہ ہونا بے ادبی بھی نہیں۔
پطرس صاحب کلاس میں لیکچر دیتے ہیں تو طلبہ اور طالبات سے ان کا خطاب جداگانہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب انہیں کسی شاگرد لڑکے یا شاگرد لڑکی کے دماغی نشوونما پر غور کرنا پڑےگا تو ماہر تعلیم ہونے کی حیثیت میں وہ ان کی جنس سے غافل نہیں ہو جائیں گے۔
عورت اگر جارج ایلیٹ یا عصمت چغتائی بن جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ادب پر اس کے عورت ہونے کے اثر کی طرف غور نہ کیا جائے۔ ہیجڑے کے ادب کے متعلق بھی کیا پطرس صاحب یہی استفسار فرمائیں گے۔ کہ کیا کوئی مابہ الامتیاز ایسا ہے، داخلی اور جبلی اور بنیادی جو انشا پرداز ہیجڑوں کے ادب کو انشا پرداز مردوں اور عورتوں کے ادب سے ممیز کرتا ہے۔
میں عورت پر عورت اور مرد پر مرد کے نام کا لیبل لگانا بھونڈے پن کی دلیل سمجھتا ہوں۔ مسجدوں اور مندروں پر یہ بورڈ لگانا کہ یہ عبادت اور بندگی کی جگہیں ہیں، بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔ لیکن جب کسی مسجد اور مندر کے مقابلے میں کسی عام رہائش گاہ کو رکھ کر ہم فنِ تعمیر کا جائزہ لیں گے۔ تو اس پر مندر اور مسجد کی تقدیس کا اثر اپنے ذہن سے محو نہیں کردیں گے۔
عصمت کے عورت ہونے کا اثر اس کے ادب کے ہر ہر نقطے میں موجود ہے۔ جو اس کو سمجھنے میں ہر ہر قدم پر ہماری رہبری کرتا ہے۔ اس کے ادب کی خوبیوں اور کمیوں سے جن کو پطرس صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبداری سے بیان کیا ہے، ہم مصنف کو جنس سے علیحدہ نہیں کرسکتے اور نہ ایسا کرنے کے لئے کوئی تنقیدی، ادبی یا کیمیا ئی طریقہ ہی موجود ہے۔
عزیز احمد صاحب’’ نیا دور‘‘ میں عصمت کی’’ ٹیڑھی لکیر‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جسم کے احتساب کا عصمت کے پاس ایک ہی ذریعہ ہے اوروہ ہے مساس۔ چنانچہ رشید سے لےکر ٹیلر تک بیسیوں مرد جو اس ناول میں آتے ہیں سب کا اندازہ جسمانی یا ذہنی مساس سے کیا گیا ہے۔ زیادہ تر مساس کی کیفیت انفعالی ہوتی ہے۔ مساس ہی عصمت کے یہاں احتساب مرد، احتسابِ انسان، احتسابِ زندگی، احتسابِ کائنات کا واحد ذریعہ ہے۔ رضائیوں کے بادلوں میں عباس کے ہاتھ بجلیوں کی طرح کوندتے ہیں اور لڑکیوں کے گروہ میں ننھی لرزشیں مچل مچل کر بکھر جاتی ہیں۔ رسول فاطمہ کے چوہے جیسے ہاتھ مساس کا تاریک رخ ہیں۔ نیم تاریک رخ میٹرن کا وہ مناظرہ یا معاشقہ ہے جس میں میٹرن کو تعجب تھا کہ ذہن میں لڑکیاں ان غنڈوں کی آنکھیں اپنی رانوں پر رینگتی ہوئی محسوس نہیں کرتیں۔ مساس کے سلسلے میں ثمن کا نسوانی احساس(پطرس صاحب متوجہ ہوں) ران کی انگلیوں کی سرسراہٹ محسوس کرتا ہے۔ الخ‘‘
عزیز احمد صاحب کا یہ نظریہ غلط ہے کہ عصمت کے یہاں احتساب کا ذریعہ ایک فقط مساس ہی ہے۔ اول تو مساس کہنا ہی غلط ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک ایسا عمل یا فعل ہے جوکچھ دیر جاری رہتا ہے۔ عصمت تو غایت درجہ ذکی الحِس ہے۔ ہلکا سا لمس ہی اس کے لئے کافی ہے۔ عصمت کے یہاں آپ کو دوسری جسمانی حِسیں بھی محو عمل نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر سونگھنے اور سننے کی حِس۔ صورت کا تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں عصمت کے ادب سے بہت ہی گہرا تعلق ہے۔
’’گھر گھر۔ پھٹ شوں۔ فش۔‘‘ باہر برآمدے میں موٹر بھنا رہی تھی۔‘‘
’’ریڈیو کو مروڑتے رہے۔ کھڑکھڑ۔ شڑ، شڑ، گھر گھر۔‘‘ میرے آنسو نکل آئے۔‘‘
’’ٹنن ٹنن۔ سائیکل کی گھنٹی بجی، میں سمجھ گئی، ایڈنا آگئی۔ (پنکچر)
’’ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھما دھم ٹھٹھوں کی آواز چھت پر آئی۔‘‘
’’ اور دھم دھم۔ چھن چھن کرتی سیڑھیوں پرسے اتری۔‘‘
’’غُن غُن، غُن غُن۔‘‘ بہو منمنائی۔‘‘
’’مکھی۔ تنن تنن کرکے رہ گئی۔‘‘ (ساس)
’’بچہ کوں کوں کرکے چپڑ چپڑ منہ مارنے لگتا۔‘‘ (سفر میں)
’’بلی کی طرح سپڑ سپڑ رکابی چاٹنے جیسی آوازیں آنے لگیں۔‘‘ (لحاف)
’’ٹک ٹک، ٹک ٹک۔ گھڑی کی طرح اس کا دل ہلنے لگا۔‘‘
’’موٹے موٹے قہقہے لگاتے ہوئے مچھر۔‘‘ (تل)
’’ایک پراسرار قبرستانی سسکی ہوا میں لرزتی ہے۔‘‘ (جھری میں سے)
’’گھنگروؤں کی جھنکار اور تالیوں کی آوازیں ایک بارگی میرے جسم میں رینگ کر ہزاروں نبضوں کی طرح پھڑپھڑانے لگیں۔‘‘ (پیشہ)
اسی طرح سونگھنے کی حِس بھی جگہ جگہ مصروفِ عمل ہے۔
’’اوربو تو دیکھو، حقے کی سڑانڈ ہے۔ توبہ، تھو۔‘‘
’’قوام کی بو ایسی بس گئی تھی کہ اسے نیند نہ آئی۔‘‘ (ڈائن)
’’سرسوں کا تیل آٹھویں دن ہی کٹھی کٹھی بُو دینے لگتا۔ (نیرا)
’’اور جسم سے عجیب گھبرانے والی بو کے شرارے نکلتے تھے۔‘‘
’’گرم گرم خوشبوؤں کے عطر نے اور بھی انہیں انگارہ بنا دیا۔‘‘
’’میں نے نتھنے پھلا کر’’سوں سوں‘‘ ہوا کو سونگھا۔ سوائے عطر صندل اور حنا کی گرم گرم خوشبوکے اور کچھ محسوس نہ ہوا۔‘‘ (لحاف)
’’سرد آہوں اور بھینی خوشبو تک کورنگ میں سمو کر دکھا دیا تھا۔‘‘ (تل)
’’پسینے سے گل چکے تھے اور ان میں مر گھٹ جیسی چراند آنے لگی تھی۔‘‘ (جال)
’’مردانہ قمیص۔ سگرٹ کی بو میں غرق ملگجی سی۔‘‘ (ہیرو)
’’نیچے کیاریوں میں سے دھنئے کی ننھی ننھی پتیاں توڑ کرسونگھنے لگی۔‘‘ (میرا بچہ)
عصمت کی سب حِسیں وقت پڑنے پر اپنی اپنی جگہ کام کرتی ہیں اور ٹھیک طور سے کرتی ہیں۔ عزیز احمد صاحب کا یہ کہنا ہے کہ جنس ایک مرض کی طرح عصمت کے اعصاب پر چھائی ہوئی ہے۔ ممکن ہے ان کی تشخیص کے مطابق درست ہو مگر وہ اس مرض کے لئے نسخے تجویز نہ فرمائیں یوں تو لکھنا بھی ایک مرض ہے۔ کامل طورپر صحت مند آدمی جس کا درجہ حرارت ہمیشہ ساڑھے اٹھانوے ہی رہے۔ ساری عمر اپنی زندگی کی ٹھنڈی سلیٹ ہاتھ میں لئے بیٹھا رہے گا۔
عزیز احمد صاحب لکھتے ہیں:
عصمت کی ہیروئن کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ دل سے نہ اسے کسی مرد نے چاہا اور نہ اس نے کسی مرد کو۔ عشق ایک ایسی چیز ہے جس کا جسم سے وہی تعلق ہےجو بجلی کا تار سے ہے۔ لیکن کھٹکا دبا دو تو یہی عشق ہزاروں قندیلوں کے برابر روشنی کرتا ہے۔ دوپہر کی جھلستی لو میں پنکھا جھلتا ہے۔ ہزاروں دیووں کی طاقت سے زندگی کی عظیم الشان مشینوں کے پہیے گھماتا ہے اور کبھی کبھی زلفوں کو سنوارتا اور کپڑوں پر استری کرتا ہے۔ ایسے عشق سے عصمت چغتائی بحیثیت مصنفہ واقف نہیں۔
ظاہر ہے کہ عزیز احمد صاحب کو اس کا افسوس ہے۔۔۔ مگر یہ عشق جس سے عزیز احمد صاحب واقف معلوم ہوتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے پنج سالہ اسکیموں کے ما تحت تیار کیا ہے اور اب وہ اسے ہر انسان پر عائد کردینا چاہتے ہیں۔۔۔ عزیز احمد صاحب کو خوش کرنے کے لیے میں فرض کرلیتا ہوں کہ عصمت کی ہیروئن عشق کے اے سی اور ڈی سی دو نوں کرنٹوں سے واقف تھی۔ لیکن پھر یہ ٹریجڈی کیسے وقوع پذیر ہوتی کہ دل سے نہ اسے کسی مرد نے چاہا اور نہ اس نے کسی مرد کو۔
عصمت واقعی عزیز احمد صاحب کے تصنیف کردہ عشق سے ناآشنا ہے اور اس کی یہ ناآشنائی ہی اس کے ادب کا باعث ہے۔ اگر آج اس کی زندگی کے تاروں کے ساتھ اس عشق کی بجلی جوڑ دی جائے اور کھٹکا دبا دیا جائےتو بہت ممکن ہے ایک اور عزیز احمد پیدا ہو جائے۔ لیکن تل، گیندا، بھول بھلیاں اور جال تصنیف کرنے والی عصمت یقیناً مر جائے گی۔
عصمت کے ڈرامے کمزور ہیں۔ جگہ جگہ ان میں جھول ہے۔ عصمت پلاٹ کو مناظر میں تقسیم کرتی ہے تو ناپ کر قینچی سے نہیں کترتی۔ یوں ہی دانتوں سے چیر پھاڑ کر چیتھڑ بنا ڈالتی ہے۔ پارٹیوں کی دنیا عصمت کی دنیا نہیں۔ اس میں وہ بالکل اجنبی رہتی ہے۔ جنس عصمت کے اعصاب پر ایک مرض کی طرح سوار ہے۔ عصمت کا بچپن بڑا غیر صحت بخش رہا ہے۔ پردے کے اس پار کی تفصیلات بیان کرنے میں عصمت کو یدِطولیٰ حاصل ہے۔ عصمت کو سماج سے نہیں شخصیتوں سے شغف ہے۔ شخصیتوں سے نہیں اشخاص سے ہے۔ عصمت کے پاس جسم کے احتساب کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے مساس۔۔۔ عصمت کے افسانوں کی کوئی سمت ہی نہیں۔۔۔ عصمت کی غیر معمولی قوتِ مشاہدہ حیرت میں غرق کردیتی ہے۔۔۔ عصمت فحش نگار ہے۔۔۔ ہلکا ہلکا طنز اور مزاح عصمت کے اسٹائل کی ممتاز خوبیاں ہیں۔ عصمت تلوار کی دھار پر چلتی ہے۔
عصمت پر بہت کچھ کہا گیا ہے اور کہا جاتا رہے گا۔ کوئی اسے پسند کرےگا، کوئی ناپسند۔ لیکن لوگوں کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی سے زیادہ اہم چیز عصمت کی تخلیقی قوت ہے۔ بری، بھلی، عریاں، مستور جیسی بھی ہے قائم رہنی چاہیے۔ ادب کا کوئی جغرافیہ نہیں۔ اسے نقشوں اور خاکوں کی قید سے جہاں تک ممکن ہو بچانا چاہئے۔
عرصہ ہوا دہلی کے ایک ذاتِ شریف درویش نے عجیب و غریب حرکت کی۔ آپ نے’’ اوروں کی کہانی سن میری زبانی، اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔‘‘ جیسے عنوان سے شائع کی۔ اس میں میرا، عصمت، مفتی، پریم چند، خواجہ محمد شفیع اور عظیم بیگ چغتائی کا ایک ایک افسانہ شامل تھا۔ دیباچے میں ترقی پسند ادب پر ایک تنقیدی چوٹ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کے بمصداق فرمائی گئی تھی۔ اور اس کارنامے کو اپنے دو ننھے ننھے بچوں کے نام سے معنون کیا گیا تھا۔ اس کی ایک کاپی آپ نے عصمت اور مجھے روانہ کی۔ عصمت کو درویش کی یہ ناشائستہ اور بھونڈی حرکت سخت ناپسند آئی۔ چنانچہ بہت بھنا کر مجھے ایک خط لکھا:
منٹو بھائی آپ نے وہ کتاب جو درویش نے چھاپی ہے دیکھی؟ ذرا اسے پھٹکاریے اور ایک نوٹس دیجئے، نجی طور پر کہ ہر مضمون کا جرمانہ دو سو روپے دوورنہ دعویٰ ٹھونک دیں گے۔ کچھ ہونا چاہئے۔ آپ بتائیے کیا کیا جائے۔ یہ خوب ہے کہ جس کا دل چاہتا ہے اٹھا کر ہمیں کیچڑ میں لتھیڑ دیتا ہے اور ہم کچھ نہیں کہتے۔ ذرا مزہ رہے گا۔ اس شخص کو خوب رگڑیے۔ ڈانٹیے کہ الٹا علمبردار کیوں بن رہا ہے عریاں ادب کا۔ اس نے ہمارے افسانے صرف کتاب فروخت کرنے کے لئے چھاپے ہیں۔ ہماری ہتک ہے کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے، کم عقلوں کی ڈانٹیں سننا پڑیں۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے، اس کو سامنے رکھ کر ایک مضمون لکھئے۔ آپ کہیں گے میں کیوں نہیں لکھتی تو جواب ہے کہ آپ پہلے ہیں۔
جب عصمت سے ملاقات ہوئی تو اس خط کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا، ’’سب سے پہلے لاہور کے چودھری محمد حسین صاحب ہیں۔ ان سے ہم درخواست کریں تو وہ ضرور مسٹردرویش پر مقدمہ چلوا دیں گے۔‘‘ عصمت مسکرائی، ’’تجویز تو ٹھیک ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم بھی ساتھ دھر لئے جائیں گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا ہوا۔۔۔ عدالت خشک جگہ سہی لیکن کرنال شاپ تو کافی دلچسپ جگہ ہے۔۔۔ مسٹردرویش کو وہاں لے جائیں گے۔‘‘ اور۔۔۔ عصمت کے گالوں کے گڑھے گہرے ہوگئے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں