ابن انشا
آج کل کراچی کے کالجوں اور اسکولوں میں مباحثوں اور یوموں کا موسم ہے۔ سکہ بند مہمان خصوصی کو دن میں دو دو درس گاہیں بھگتانی پڑ رہی ہیں۔ صبح کہیں ہے شام کہیں۔ ہمارے ایک بزرگ تو مدرسہ رشیدیہ حنفیہ میں ایلورا اور اجنتا کی تصویروں پر اظہار خیال کر آئے کیونکہ اپنے ساتھ غلطی سے شام والی تقریر لے گئے تھے۔ اس کی تلافی کے لیے اس شام انہیں ماڈرن آرٹ کالج میں حضرت ابوہریرہؓ کی زندگی اور حدیثوں میں اسمائے رجال کی اہمیت پر بولنا پڑا۔ اس شہر میں چالیس پچاس کالج ہوں گے اور سیکنڈری اسکول بھی بہت ہیں۔ لیکن سب ہمارے دیکھتے دیکھتے لوگوں میں تقسیم ہوگئے۔ ہم بالکل ہی مایوس ہوگئے تھے کہ ایک اسکول والوں کا فون آیا کہ کل ہمارے ہاں جلسہ ہے، مہمان خصوصی آپ ہوں گے۔
’’کس قسم کا اسکول ہے آپ کا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ جواب ملا کہ پرائمری اسکول ہے۔ ہم نے کہا، جب اس شہر میں اتنے سارے پرائمری پاس مہمانان خصوصی موجود ہیں تو ہمارا صدارت کرنا کچھ عجیب سا معلوم ہوگا۔ ہم یوں بھی درویش گوشہ نشین آدمی ہیں، انکسار ہماری طبیعت میں داخل ہے۔ کسی اور کو۔۔۔ لیکن ہمارا یہ عذر مسموع نہ ہوا۔ ہم نے بھی اس سے زیادہ عذر اور انکار مناسب نہ جانا جتنا کہ کسی مہمان خصوصی پر اخلاقاً واجب ہے تاکہ کسی اور کو نہ بلالیں۔ لہٰذا ہتھیار ڈال کر کہا۔ اچھا صاحب۔ آپ لوگ مجبور کرتے ہیں تو حاضر ہوجائیں گے کیونکہ قومی خدمت اور تعلیم کے فروغ کا معاملہ ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔
ہم کوئی عادی قسم کے مہمان خصوصی نہیں ہیں۔ ہر کوئی ممتاز حسن ہو بھی نہیں سکتا کہ بحر معنی کا شناور ہو۔ جدھر چاہے بے تکلف تیرتا نکل جائے۔ ممتاز صاحب میں مروت اس قدر ہے کہ کسی سے انکار نہیں کرتے۔ ان کا سیکریٹری اپنی ڈائری میں نوٹ کرتا جاتا ہے کہ کس روز کس وقت جلسہ ہے۔ اور وقت کے وقت یاد دلاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ بات بھی نوٹ ہونے سے رہ جاتی ہے کہ جلسہ کس کی طرف سے ہے اور کس تقریب میں ہے۔ ممتاز حسن صاحب جب موقع پر پہنچتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ انہیں فارابی کے فلسفے کے بارے میں بولنا ہے یا چیمبر آف کامرس کے ممبروں سے مشرق وسطی کو کھالوں کی برآمد کے امکانات پر گفتگو کرنی ہے۔ خیام سوسائٹی کی سال گرہ کے سالانہ جلسے کی انہیں پیشگی اطلاع نہ تھی۔ انہیں جلسہ گاہ میں پہنچ کر معلوم ہوا۔ تاہم وہ تین گھنٹے تک اس موضوع پر بولتے رہے کہ خیام کے جوتر جمے جاپانی اور آرمینی زبانوں میں ہوئے ہیں، ان میں کیا کیا لغزشیں ہوئیں، اسی سلسلے میں انہوں نے نظام الملک طوسی، بائرن، کالی داس اور بلھے شاہ کے ہم معنی اشعار بھی سنائے۔
شام کو انہیں ریڈیو پر فن پہلوانی کی تاریخ اور رموز کے موضوع پر لکچر دینا پڑا اور اسی رات کو ٹی وی پر راگ جے جے ونتی کا موازنہ ہیتھودن کی چودھویں سمفنی اور پنجابی کے مقبول گیت، موڑیں بابا ڈانگ والیا، سے کیا۔ اگلے روز ہومیو پیتھوں کے سالانہ جلسے کا افتتاح بھی انہوں نے کیا اور صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا۔ بعد میں ہومیو پیتھی کالج کے پرنسپل نے ہمیں بتایا کہ ممتاز صاحب نے آرنیکا اور فارمیکا کے جو خواص بتائے ہیں اور ان دواؤں کارشتہ جوارش جالینوس اور سدھ مکر دھوج سے ثابت کیا ہے، وہ ہمارے لیے بالکل نئی معلومات ہیں۔ یہی رائے ہم نے ڈائریکٹر محکمہ زراعت سے سنی جنہیں ممتاز صاحب نے اپنے تجربات کی روشنی میں بتایا کہ شکرقندی کی فصل کے لیے کون سی کھاد زیادہ مفید رہتی ہے اور قدیم بابل میں میکسی پاک گندم کی کاشت کس طرح کی جاتی تھی۔
ہاں ہم ایسوں کو کچھ نہ کچھ پیشگی تیاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا جہاں ہم نے قمیص کو کلف لگوایا، جوتا پالش کیا، سوٹ استری کرایا، وہیں ایک تقریر بھی سوچ لی کہ تعلیمی کاموں کے لیے ہم گلے گلے حاضر ہیں اور پرائمری تعلیم سے ہمیں پرانی دلچسپی بلکہ ایک زمانے میں تو پرائمری کلاسوں کے طالب علم بھی رہ چکے ہیں۔ اور یہ کہ آج کل کے بچوں کو ہماری تقلید کرنی چاہیے۔ یعنی خدمت قوم کا جذبہ اپنے میں پیدا کرنا چاہیے اور ایثار سیکھنا چاہیے اور اچھی اچھی باتیں کرنی چاہیئں اوربری بری باتیں چھوڑدینی چاہئیں، تاکہ ہمارا پیارا پاکستان ترقی کرے وغیرہ۔ اتفاق سے ہمیں اپنی اس تقریر کا مسودہ مل گیا جو ہم نے پارسال ہاکرز کنونشن میں کی تھی اور ذرا سی ترمیم کر کے لائبریری ایسوسی ایشن کے جلسے میں بھی استعمال کرچکے تھے۔ یہ اس موقع کے لیے بھی برمحل نظرآئی کیونکہ قومی خدمات اور تہذیب اخلاق وغیرہ کوئی ہاکروں اور لائبریرین حضرات کا اجارہ تھوڑا ہی ہیں۔ یہ بات طالب علموں میں بھی پیدا ہوجائے تو ہرج کی بات نہیں۔
مطالعے کی وسعت اور علم کی گہرائی بڑی اچھی چیزیں ہیں۔ لیکن ایک قباحت کا پہلو بھی ان میں ہے۔ ہماری ہی مثال لیجیے۔ اتنے بہت سارے خیالات اورنکات ایک ساتھ ہمارے ذہن میں ہجوم کرآتے ہیں کہ ان کے گچھے سے بن جاتے ہیں اور حلق میں اٹک جاتے ہیں۔ ادب، فلسفہ۔ طب، تاریخ، جغرافیہ، کسی کو نظرانداز کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھر وہ تمام اشعار بھی موقع بہ موقع استعمال کرنے ہوتے ہیں جو ایک سلپ پر لکھے ہماری جیب میں رہتے ہیں۔ ہمارے پاس فالتو وقت ہو تو ان کو چھانٹ کر قرینے سے ترتیب بھی دیں۔ لیکن جلسے کرنے والوں کو عموماً جلدی ہوتی ہے۔ دریوں اور تمبوؤں والے تیار کھڑے رہتے ہیں کہ کب جلسہ ختم ہو، کب سامان ریڑھے پر لادیں۔ ادھر چائے ٹھنڈی ہو رہی ہوتی ہے اور بعض لوگ جن کو اپنے اعصاب پر قابو نہیں ہوتا، اپنی جماہیوں کو بھی مزید نہیں روک پاتے۔
سو اس آپا دھاپی کے عالم میں ہم باتیں تو ساری کہہ گزرتے ہیں اور شعر بھی قریب قریب سارے استعمال کرلیتے ہیں لیکن اتنی مین میکھ ممکن نہیں ہوتی کہ مختلف مسائل کا آپس میں جوڑ ملائیں یا اشعار اور موضوع کا ربط دیکھیں۔ سامعین میں سے سمجھنے والے خود ہی اندازہ کرلیتے ہیں کہ کون سا شعر دراصل کون سے مضمون سے متعلق سمجھنا چاہیے اور جو مسائل بیان کیے گئے ہیں ان کی اصل ترتیب کیا ہے۔ لیکن سبھی لوگ تو ایسے نکتہ شناس نہیں ہوتے۔ سطی مذاق کے سامعین اگر ہماری تقریر کو بے ربط اور الجھی ہوئی خیال کریں تو ہمارے نزدیک قابل معافی ہیں۔ فکر ہرکس بقدر ہمت اوست۔
اگر معاملہ کالج یا یونیورسٹی کا ہوتا تو ہم بہت سے مباحث چھوڑ جاتے۔ یہ فرض کرلیتے کہ ان عزیز طالب علموں کو یہ باتیں پہلے سے معلوم ہیں۔ لیکن پرائمری کے بچوں کو ہرچیز قدرے تفصیل سے سمجھانی چاہیے اور یہی ہم نے کیا۔ کون نہیں جانتا کہ آج کل ہمارا سب سے برا مسئلہ افراط زر ہے اور زرمبادلہ کی کمی ہے۔ ہمیں اپنی برآمدی تجارت کو بڑھانا چاہیے۔ قدر تاًسب سے پہلے ہم نے موزوں الفاظ میں اس مسئلے کا ذکر کیا اور کسی شاعر کے اس شعر پر بات ختم کی۔
اقبال تیرے عشق نے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
اما بعد جنوبی افریقہ کی سیاست اور قبرص کے قضیے اور موسیقی کے باب میں حضرت امیر خسرو کی خدمات اور ابن رشد کے فلسفے اور سیم تھور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی میں ہمارے سفر یورپ کے کچھ تاثرات بھی آگئے۔ اور خلفائے راشدہ کے عہد کی تعریف بھی۔ ایسی تقریریں بالعموم خشک ہوتی ہیں لہٰذا ہم ساتھ ساتھ پانی بھی پیتے گئے اور یہ شعر پڑھ کر جو اس وقت یاد نہیں کس کا ہے ان مسائل کو بھی سمیٹا،
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی تھی
یہاں سے گریز کر کے ہم ان مسائل ضروری کی طرف آئے جن کا ذکر اوپر کیا ہے، خدمت خلق، راست بازی، ایثار کی ضرورت وغیرہ۔ ہم اور بھی بولتے اگر سیکرٹری صاحب چٹ نہ بھیج دیتے کہ آج کی حدتک یہی کافی ہے۔ اب آپ تھک گئے ہوں گے۔ آخر ہم خدائے سخن، لسان العصر، فردوسی اسلام، استاد ذق رحمتہ اللہ علیہ کے اس مصرع پر بات ختم کرکے بیٹھ گئے،
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اس تقریر پر بہت جگہ تالیاں پٹیں۔ اکثر تو ہمیں بے موقع معلوم ہوئیں۔ کچھ طالب علموں نے منہ میں انگلیاں دے کر سیٹیاں بجائیں جیسی سینماؤں میں معیاری اور سنجیدہ فلموں پر اظہار پسندیدگی کے لیے بجائی جاتی ہیں۔ بعضوں نے بنچ بجائے اور فرش پر پاؤں سے مسلسل تھاپ دی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس میں ہماری کچھ خوبی نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ قبول سخن خدا داد چیز ہے۔ہم نے اپنی تقریر میں جو زور راست بازی کی خوبیوں پر دیا تھا، اس کا اثر تو فوراً ظاہر ہوا۔ سیکرٹری صاحب نے آخر میں شکریے کی تقریر کی تو اس میں حاضرین کو بتایا کہ اصل میں صدارت کے لیے ہم نے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بلایا تھا چنانچہ اعلان اور دعوت ناموں میں انہی کا نام ہے۔ لیکن ایک دن پہلے انہوں نے انکار کردیا۔ ہم نے کچھ اور لوگوں سے رجوع کیا۔ ہر ایک نے کچھ نہ کچھ عذر کیا۔ آخر انشاء اللہ خاں انشاء اللہ صاحب مل گئے۔ ان کی ذات محتاج تعارف نہیں۔ ان کی غزلیں اسکولوں کے نصابوں میں داخل ہیں۔ کمرباندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں وغیرہ۔
اس موقع پر ایک صاحب لپک کر آئے اور ان کے کان میں سرگوشی کی کہ ارے انشاء اللہ خاں انشا کو مرے تو بہت دن ہوئے۔ یہ آج کل کے ادیب ہیں۔ ابھی زندہ ہیں۔ سیکرٹری صاحب سے غلطی تو ہوگئی تھی لیکن انہوں نے کھنکار کر صورت حال کو بڑی خوبصورتی سے سنبھال لیا۔ فرمایا، ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے مہمان گرامی کی ذات ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ آج کل کے ادیب ہیں اور ابھی زندہ ہیں۔ انہوں نے بہت سے ناول لکھے ہیں۔ ڈرامے لکھے ہیں جو گھر گھر میں پڑھے جاتے ہیں۔ بہرحال ڈپٹی کمشنر صاحب کے نہ آنے کا ہمیں افسوس ہے۔ اور آپ کا (یہاں رک کر انہوں نے ایک صاحب سے ہمارا صحیح نام پوچھا) یعنی ابن انشاء صاحب کا ہم شکریہ اداکرتے ہیں کہ باوجود اپنی مصروفیات کے یہاں تشریف لائے۔ حاضرین سے ہم معذرت خواہ ہیں کہ صدارتی تقریر کی وجہ سے جلسہ ذراطویل ہوگیا اور انہیں سواری حاصل کرنے میں ذرا دقت ہوگی۔ بہرحال اب جلسہ ختم ہے۔ شکریہ۔ خداحافظ۔‘‘
ایک زمانہ تھا کہ معاشرے میں شاعر ادیب کی کچھ حیثیت نہ تھی۔ پھرتے تھے میرخوار کوئی پوچھتا نہ تھا۔ غالب جیسے بھی ڈپٹی کمشنروں کی شان میں قصیدے لکھتے اور ان کے دربار میں کرسی پانے پر فخر کرتے مرگئے۔ بارے اب ان کے بھاگ کھلے اور یہ ڈپٹی کمشنروں کے نعم البدل قرار پائے۔ پرانا زمانہ ہوتا تو ڈپٹی کمشنر کے انکار کرنے پر تحصیلدار صاحب کو تکلیف دی جاتی۔ وہ نہ ملتے تو تھانیدار صاحب مل جاتے اور بی ڈی کے چیئرمین تو کہیں گئے نہیں۔ اب سب کو نظر انداز کرکے کسی خالی خولی ادیب کو بلانا اور کرسی صدارت پر بٹھانا ایک بڑی بات ہے۔ اب بھی کوئی کہتا پھرے کہ ہمارے ہاں علم یا اہل علم کی قدر نہیں تو حیف ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب ڈپٹی کمشنر کی جگہ شاعر ادیب استعمال ہو سکتا ہے تو اس بات کی راہ بھی کھل گئی ہے کہ ہم کسی مشاعرے میں نہ جا سکیں تو جلسے والے کسی ڈپٹی کمشنر سے غزل پڑھوا لیں۔ ہمارے لیے تو غزل وزل کہنا مشکل بھی ہے۔ ان لوگوں کے لیے مشکل بھی نہیں۔ اپنے پی اے یا کسی ماتحت افسر سے کہہ دیا کہ، ’’ ڈرافٹ پیش کرو اور ہمارا تخلص ڈال دینا، ہم دستخط کردیں گے اور ہاں الفاظ مشکل نہ ہوں اور ذرا خوشخط لکھی ہوئی ہو۔‘‘
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں