حقانی القاسمی
شہرت کے لیے ایک شعر بھی کافی ہوتا ہے بشرطیکہ شعر میں اتنی قوت اور توانائی ہوکہ اجتماعی سائیکی کا حصہ بن جائے۔ہماری ادبی تاریخ میں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے ۔ موقع کوئی بھی ہو ،کوئی نہ کوئی شعر بجلی کی طرح ذہن میں کوندنے لگتا ہے ۔ایسے کتنے اشعار ہیں جو ہمارے ذہنوں میں گونجتے رہتے ہیں او ر ہماری تحریروں کا حوالہ بھی بنتے ہیں لیکن ہمیں یہ پتا نہیں چلتاکہ ان اشعار کے خالق کون ہیں ۔اب یہ شعر دیکھئے کہ بچے بچے کی زبان پر ہے ۔
چمن میں اختلاطِ رنگ و بو سے بات بنتی ہے
ہمی ہم ہیں ،تو کیا ہم ہیں تمی تم ہو، تو کیا تم ہو
سرشار سیلانی
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
شان الحق حقی
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر ِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
عارف شفیق
مری داستانِ حسرت وہ سنا سناکے روئے
مرے آزمانے والے،مجھے آزماکے روئے
سیف الدین سیف
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
اسعد بدایونی
وہ روئیں جو منکر ہوں حیاتِ شہدا کے
ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اقبال سہیل
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
نواب امین الدولہ امین
کافر ہو جس کے دل میں کچھ اور آرزو ہو
اک مختصر سی جا ہو، میں ہوں بس اور تو ہو
احسن اﷲ خاں بیاں
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہوجائے
بیخود بدایونی
بڑی احتیاط طلب ہے جو شراب ساغرِ دل میں ہے
جو چھلک گئی تو چھلک گئی، جو بھری رہی تو بھری رہی
بے نظیر شاہ
معجزہ شق القمر کا ہے مدینے سے عیاں
مہ نے شق ہو کر لیا دین کو آغوش میں
عزیز ملک نصراﷲ خاں
تو ہے تو ترے طالب دیدار بہت ہیں
یوسف ہے سلامت تو خریدار بہت ہیں
منیر شکوہ آبادی
ان روزوں لطف حسن ہے آئو تو بات ہے
چار دن کی چاندی ہے پھر اندھیاری رات ہے
منیر شکوہ آبادی ا۔اندھیری
ان میں بیشتر ضرب المثل اشعار ہیں جن کے خالقوں کے بارے میں بہت کم لوگوں کو واقفیت ہے۔خلیق الزماں نصرت ؔ صاحب نے یہ کام بہت اچھا کیاہے کہ بہت سے آوارہ گرداشعار کی تحقیق کر کے صحیح شاعروں کا تعین کیا ہے اور ہر شعر کا مستند ماخذ دیا ہے یہ کام نہایت انہماک اور ارتکاز کا ہے اور سچی بات تو یہی ہے کہ اب جامعات میں اسی نوع کی تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔انھوں نے بڑی محنت اور ریاضت کے بعد آوارہ گرد اشعار کے سچے خالقوں کی نشاندہی کی ہے اور بہت سے اشعار کے انتساب کی غلطیوں کی طرف بھی اشارے کئے ہیں۔مثلاً:
بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا وہ میرؔ
یاد آئی میرے عیسٰی کی دوا میرے بعد
یہ شعر میرؔ کی طرف منسوب ہے مگر یہ حقیقت میں ہوسؔ رامپوری کا ہے جو مصحفیؔ کے شاگرد تھے۔اور پہلے ان کا تخلص میر ؔتھا۔
ذرا بھولے سے وہ میرے جنازے تک جو آ نکلا
نمازی اس قدر بھولے کہ اک تکبیر کم کردی
اسی طرح بہت سے انتخابات میںکسی کا شعر کسی کی طرف منسوب ہوگیا ہے ۔ تمام لوگ تو یہی جانتے ھیںمگر نصرت نے اصل شاعر کا نام شعر کی اصل شکل کا بھی پتہ لگایا ھے۔اسطرح کے اور بھی کئی اشعار ہیں،نصرت نے نکالے ہیں۔مذکورہ شعر کی اصل شکل دیکھیں،
رونے پہ باندھ لے مری چشم تر کمر
کیسی زمیں، فلک پہ ہوپانی کمرکمر
انہوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ شعر خلیل بڈولوی کا ہے۔۔ایک اور خاص بات نصرت نے جس سے ایک شعر بھی سنا ہے اس کا نام لیا اور کسی چھوٹی سے چھوٹی کتاب میں بھی وہ شعر پڑھا ہے تو اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔پھر اس کے دیوان یا شعری مجموعے میںوہ شعر تلاش کیا ہے۔
جیسے: قمر جلالوی کا یہ شعر ؎
موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئی ہے
(ش۔ح)
جاتے میں قدم اور تھے آتے میں قدم اور
(کراچی میں اردو،۲۳)
ابتدائی’’ش۔ح‘‘ اور ثانوی’’کراچی میں اردو‘‘ بظاہر یہ بات معمولی سی لگتی ہے مگر یہ نصرت صاحب کی تحقیقی دیانت داری ہے بصورت دگرماخذ کو ظاہر نہ کرکے اس کا کریڈٹ وہ خودلیتے اور کتاب کے آخر میں کتابیات کے کالم میں اس کتاب کا نام دے دیتے۔
بہر حال خلیق الزماں نصرتؔ کی یہ ایسی کتاب ہے جو ہرلائبریری اور دفتر میں ہونی چاہیے۔اب اس پس منظر میں یہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کن دبستانوں (دہلی، لکھنؤ، عظیم آباد)کے اشعار زیادہ تر مقبول و معروف ہوئے اور کن شہروں نے ایسے شعر دئیے جو زبان زد خاص و عام ہیں۔اور یہ بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی شاعری کے کون کون سے علاقے ہیں۔اسی سے کسی بھی معاشرے کی نفسیات،ذوق اور معیار کا انداز ہ لگایا جاسکتا ہے۔میرے خیال سے دبستانِ لکھنوٗ کو اس باب میں سبقت حاصل ہے کہ وہاں کی شاعری نے عوامی مزاج پر زیادہ بہتر نقوش ثبت کئے ہیں اور یہا ں کی شاعری عوام و خواص دونوں کی توجہ خاص کا مرکز بنی ہے۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
*خوابوں کا ایک جزیرہ*
صوبہ بہار کے (آرہ) ضلع سے جناب سرفراز اشؔہر صاحب کا تعلق ہے،
موصوف مکرم شعروادب کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں، اُن کا شعری مجموعہ "*خوابوں کا اک جزیرہ* ” منظر عام پر جلوہ فگن ہوچکاہے، بندہ کو بھی استغراق وانہماک کے ساتھ اس کے ایک ایک شعر کو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، موصوف مکرم کے اشعار انتہائی چنیدہ معلومات سے بھر پور حالات حاضرہ سے لبریز فصاحت وبلاغت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر معلومات کا خزانہ ہے،
کئی مشاعروں میں بندہ کی ملاقات موصوف مکرم سے ہوئی، اور ایک ساتھ پروگرام پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی
آپ کی آوز میں عجیب قسم کی مٹھاس، بلبل چہک، گل کی مہک، غنچوں کی چٹخ، سمندروں کا طلاطم، لہروں کا تموج، شاخوں کا جھکاؤ، دریاؤں کا بہاؤ، تخلیق کا حسن، اور صنعت کی خوبی سب کچھ ہے،
موصوف مکرم جب شعر پڑھتے ہیں تو سامعین جھوم جاتے ہیں، داد و تحسین کا انبار لگ جاتاہے
ہر کوئی دیوانہ وار سنتاہے،
آپ کی تصنیف پر دل کی گہرائیوں سے آپ کو مبارکباد پیش ہے
دعاء گو ہوں کہ اللہ آپ کی مایہ ناز تصنیف *خوابوں ک اک جزیرہ* کو چہار دانگ عالم میں مقبول فرمائے اور آپ کی شعروشاعری میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطاء فرمائے آپ کا سایہ شعروادب کی دنیا پر تادیر قائم رکھے اور آپ کی تصنیف ذخیرہ آخرت ثابت ہو
قارئین کرام سے *خوابوں کا اک جزیرہ* سے استفادہ کی درخواست ہے
شکریہ ۔۔