ایازالدین اشہر ناندوروی
شہر ناندوره کی زمین ادبی لحاظ سے زرخیز رہی ہے۔ اس سر زمین سے تعلق رکھنے والے کچھ افسانہ نگار ایسے ہیں جنھوں نے علاقے کا نام برصغیر میں روشن کیا ہے جن میں غنی غازی اور حمید ادیبی ناندوروی کے نام نمایاں ہیں۔ اسی سرزمین سے تعلق رکھنے والا نوجوان فن کار آج اپنے فن سے اردو فکشن کی شمع روشن کیے ہوئے ہے۔ میری مراد بے حد فعال اور محنتی افسانہ و افسانچہ نگار محمد علیم اسماعیل سے ہے۔
محمد علیم اسماعیل کی پیدائش ناندورہ ضلع بلڈھانہ(مہاراشٹر) میں ہوئی۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم ناندورہ میں حاصل کی۔ عنایتیہ ہائی اسکول و جونیر کالج ناندورہ کے میرے اعلیٰ تعلیم یافتہ لائق و مستعد شاگردوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ ضلع پریشد اردو اپر پرائمری اسکول پیپل گاؤں کالے میں معلم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ محمد علیم اسماعیل کی اب تک 4 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں تین افسانوی مجموعے الجھن، رنجش اور تماشا کے علاوہ مضامین کا مجموعہ ’افسانچے کا فن‘ شامل ہے۔ موصوف کو گراں قدر انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی ممبئی کی جانب سے اردو زبان و ادب کی ہمہ جہت خدمات پر 2020 کے خصوصی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو کی جانب سے کتاب ’افسانچے کا فن‘ کو 2021 میں انعام سے نوازا گیا۔
مہاراشٹر کی ریاستی تنظیم AMUSS کی جانب سے طالبِ ادب ایوارڈ 2018، بزمِ ارباب سخن ناندورہ کی جانب سے ’تنویرِ ادب ایوارڈ 2019، بزمِ تحریکِ شعر و ادب ناندورہ کی جانب سے سفیرِ تعلیم ایوارڈ 2019‘ مہاراشٹر راجیہ پراتھمک شکشک سنگھ ناندورہ کی جانب سے قابلِ فخر کار کردگی ایوارڈ 2022 سے سرفراز کیا گیا۔ ادارہ ادبِ اسلامی ناندورہ کی جانب سے یو جی سی نیٹ (اردو) اردو ایم ایچ سیٹ (اردو) امتحانات کوالیفائی کرنے پر اعزاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی ادبی سماجی اور تعلیمی تنظیموں نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزاز کیا۔
’الجھن‘ محمد علیم اسماعیل کی پہلی تصنیف ہے جس میں افسانے اور افسانچے شامل ہیں۔ یہ کتاب موصوف نے بذات خود میرے گھر تشریف لاکر مجھے بطورِ سوغات پیش کی تھی۔ چلیے کتاب ’الجھن‘ پر بات کرتے ہیں۔ یہ کتاب کا پہلا ایڈیشن ہے جو 128 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کی اشاعت میں اچھے کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔ سرورق دیدہ زیب ہے جو متاثر کن اور پرکشش ہے۔ کتاب 2018 میں زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئی۔
افسانچہ اردو فکشن کی ایک جدید صنف ہے۔ جو کہانی کی مختصر ترین صورت ہے جسے پہلے پہل منی افسانہ اور منی کہانی بھی کہا گیا۔ اس صنف کو لکھنے والوں نے مختلف ناموں سے لکھا۔ مثلاً: مختصر افسانہ، منی کہانی، منی افسانہ، مختصر ترین افسانہ اور افسانچہ وغیرہ مگر اس نئی نثری صنف نے اردو ادب میں ’افسانچہ‘ کے نام سے اپنی صنفی شناخت قائم کی۔ جس طرح کہانی نے اپنی شکل و صورت وقت کے ساتھ تبدیل کی۔ کبھی داستان تو کبھی ناول کی صورت کبھی افسانہ تو کبھی افسانچہ بن کر زندگی کی حقیقتوں کو پیش کیا۔ افسانچہ آج وقت کا تقاضہ ہے کیونکہ آج ہر کسی کے پاس وقت کی قلت ہے۔ یہی وہ صنف ہے جس میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔
محمد علیم اسماعیل کے افسانچے قاری کے دل و دماغ کو جھنجوڑتے ہیں اور غور وفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی اچھے افسانچوں کی خوبی ہوتی ہے، جو موصوف کے افسانچوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محمد علیم اسماعیل نے کافی محنت، ریاضت، لگن اور توجہ کے ساتھ وسیع مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں اور افسانچوں میں موضوعات کو خاص اہمیت دی۔ اختصار، پلاٹ، نقطہء عروج، کہانی کا تاثر اور اختتام کو کافی اہمیت دی۔ کہانیوں کے معیار کو قائم رکھا۔ ساتھ ہی ان کی کہانیاں اس صنف کی شرائط کا پورا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ جو سماجی مسائل کا عکس بھی ہیں۔
ہندوستان کے معروف افسانچہ و افسانہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق اپنے مضمون ’بڑی تیزی سے ابھرتا ایک باشعور افسانچہ نگار‘ میں لکھتے ہیں:
’’اب محمد علیم کی افسانچہ نگاری نے رفتار پکڑ لی ہے لیکن ان کی تیز رفتاری نے افسانچے کے معیار کو کبھی مجروح نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ زیرِ نظر مجموعہ ’الجھن‘ میں ان کے افسانچے اس صنف کے شرائط پر کھرے اترتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ’چنگاریاں ضرور ایک دن شعلہ بنیں گی‘ عنوان کے تحت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں: ’’مختلف رسائل میں علیم اسماعیل کے متعدد افسانے اور افسانچے میری نظر سے گزرے ہیں۔ جب کبھی میں ان کی تخلیق پڑھتا تو میرے ذہن میں ایک ہی خیال آتا کہ اس ادیب کے اندر چنگاریاں ہیں جنھیں مناسب رہنمائی اور توانائی کی ضرورت ہے۔ جس کے بعد یہ چنگاریاں ضرور ایک دن شعلہ بنیں گی۔ علیم اسماعیل کے زیادہ تر افسانچے اور افسانے سماجی مسائل کا عکس ہیں۔‘‘
اسی طرح معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق نے اپنے تاثرات کچھ اس طرح پیش کیے ہیں:
’’تمھاری کہانی ’انتظار‘ پڑھی۔ کہانی مجھے اچھی لگی۔ تم نے ایک ٹیچر کے کرب کو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک ٹیچر ہی کر سکتا ہے۔ میں بھی ایک ٹیچر رہ چکا ہوں اس لیے مسائل کو سمجھ سکتا ہوں۔ حالانکہ ہم اتنے سنگین مسئلے سے نہیں گزرے لیکن اس کے باوجود آج کے مسائل کی گہرائی کو سمجھ سکتے ہیں۔ زبان و بیان بھی ماشاء اللہ اچھا ہے تمھارا۔ اللہ تمھیں اچھا رکھے۔‘‘
’الجھن‘ محمد علیم اسماعیل کی پہلی تصنیف ہے۔ جو دو حصوں میں منقسم ہے۔ جس میں کل 59 افسانچے اور 13 افسانے شامل ہیں۔ افسانہ نگار نے افسانچہ ’شرمندگی‘ میں خواتین کے پردے کے موضوع پر کہانی کا تانا بانا بنا ہے۔ افسانچہ ’چور‘ میں غربت اور سیاست کا موازنہ کیا گیا ہے۔ جس میں ایک غریب چور کو چھوٹی سی چوری پر سماج خوب سزا دیتا ہے مگر ایک امیر سیاستدان کے لاکھوں روپیوں کے گھوٹالے کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ افسانچہ ’عبادت‘ میں صلہ رحمی کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، نیز اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جہاں نماز اور حج فرض ہے وہیں اسلام میں رشتوں کو بھی بے حد اہمیت دی گئی ہے۔ ’حلال‘ اس افسانچے میں حرام ذریعہء معاش کی بجائے حلال کمائی کی طرف توجہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ افسانچہ ’اعتماد‘ میں افسانچہ نگار نے سرکاری اردو اسکولوں میں دن بہ دن کم ہونے والی طلبہ کی تعداد کی وجہ اجاگر کی ہے۔ جب اردو اسکول کے اساتذہ اپنے خود کے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھاتے ہیں تو اس عمل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں اپنی اردو اسکول کی تعلیم پر اعتماد نہیں۔ لہٰذا پہلے اردو اسکول کے معلمین کو اپنی اسکول کے معیارِ تعلیم کو بہتر بنانا ہوگا اور اپنے بچوں کو انگریزی کی بجائے اردو اسکول میں ہی پڑھانا ہوگا تاکہ طلبہ کی تعداد کم نہ ہو اور اردو اسکولوں میں منظور پوسٹ ختم نہ ہو، نیز اردو اسکول کی ترقی ہو سکے۔ اس کے علاوہ بھی اس کتاب میں بہترین افسانچے شامل ہیں جس میں سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی، اخلاقی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں آنے والے مسائل پر تنقید برائے اصلاح کی گئی ہے۔
محمد علیم اسماعیل کے افسانوں کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کے افسانے بھی اس صنف کی شرائط پر کھرے اترتے ہیں۔ افسانہ اردو ادب کی نثری صنف ہے۔ یہ ایک تخیلی مختصر نثری بیانیہ ہے۔ افسانہ زندگی کا جز جبکہ ناول زندگی کا کُل پیش کرتا ہے۔ دونوں میں طوالت اور وحدت تاثر کا فرق ہوتا ہے۔ افسانے کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ یہ اپنے اختتام پر قاری کے ذہن پر واحد اثر قائم کرتا ہے جسے وحدت تاثر کہتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے افسانوں میں وحدت تاثر محسوس ہوتی ہے۔ افسانے کے ذریعے فرد کی زندگی کے کسی ایک پہلو کی نفسیاتی، جذباتی کیفیت یا کسی تجربے کو تخلیقی پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے۔ علیم اسماعیل نے اپنے افسانوں میں واقعات کا بیان، کرداروں کی گفتگو، منظر اور ماحول کا بیان بڑے بے نپے تلے انداز میں کیا ہے۔
محمد علیم اسماعیل نے اپنے افسانوں میں اجزائے ترکیبی کا خاص خیال رکھا ہے۔ کہانی کا پلاٹ، واقعات کے مجموعی تاثر کو نمایاں کرنے میں معاون ہے۔ ان کے افسانوں میں کرداروں کا واضح نقش ابھر آتا ہے۔ ایک اچھے افسانے کے لیے ضروری ہے کہ افسانہ نگار، کردار نگاری پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔ یہ خوبی موصوف میں پائی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ علیم اسماعیل جزئیات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور کرداروں کے زمانی پس منظر سے اچھی طرح واقفیت بھی۔
ان کے افسانوں میں منظر نگاری اور جذبات نگاری متاثر کن اور مرکزی خیال میں گہرائی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے افسانوں میں معنوی وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ موصوف کے افسانے منفرد اور دلچسپ اسلوب لیے ہوتے ہیں، جن میں سادگی، روانی اور حقیقت پسندی کے عناصر افسانے کو دلچسپ بنا دیتے ہیں۔
افسانہ ’الجھن‘ ایسے دو بھائیوں کی کہانی ہے جو ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے ہیں، ایک دوسرے کا دکھ دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں، دونوں سائے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں لیکن بڑے بھائی کی شادی کے بعد پوری جائیداد حاصل کرنے کی لالچ میں وہ اپنے چھوٹے بھائی کا قتل کر دیتا ہے، اور ختم نہ ہونے والی الجھن میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ڈر اور خوف میں ہر وقت مبتلا رہتا ہے کہ اس کا بھی کہیں ایسا ہی انجام نہ ہو جائے جیسا اس نے اخبار میں پڑھا تھا:
’’اپنے بھائی کو بہت ہی عزیز رکھنے والے ایک شخص نے زمین کی لالچ میں اسی بھائی کا قتل کر کے گھر کے آنگن میں دفن کر دیا تھا….. آج اسی راز سے پردہ فاش….. قاتل کو پھانسی کی سزا۔‘‘
اس کہانی میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ امانت میں خیانت کرنے اور حق تلفی کرنے سے انسان کا اطمینان اور سکون مکمل طور پر برباد ہو جاتا ہے۔ اس کی آرام دہ زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ لہٰذا لالچ بری بلا ہے۔
افسانہ ’انتظار‘ میں افسانہ نگار نے ایک نان گرانٹ اسکول کے معلم کو درپیش مسائل بیان کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اسکول اور گھر میں آنے والے معاشی مسائل کی بہترین انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ اسکول میں طالب علم کا ’’بن پگاری فل ادھیکاری‘‘ کہہ کر اپنے استاد پر طنز کرنا اور اسے ذلیل کرنا نیز گھر میں مالی مشکلات کی وجہ سے بیوی کے طعنے سننا، بچوں کی فرمائش کی تکمیل نہ کر پانا کس قدر ذہنی کوفت کا باعث بنتا ہے۔ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی وجہ سے اسکول کے نظم وضبط میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسکولی انتظامیہ کا ایک نان گرانٹ اسکول کے ٹیچر کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے اس پر مالی بوجھ ڈالنا اور اس کے ذہنی سکون و اطمینان کو غارت کرنا قابلِ مذمت ہے۔ اگر ٹیچر ذہنی و مالی اعتبار سے مطمئن ہو تو وہ درس و تدریس کے فرائض بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ ان تعلیمی امور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا حکومت کو اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ کی مالی دشواری دور ہو۔ اس طرح معلمین اپنی خوشحال زندگی کے ساتھ، خوش گوار ماحول میں طلبہ کو بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کر سکیں گے۔
’کرب‘ اس افسانے میں افسانہ نگار نے آج کے دور میں والدین پر اپنے بہو بیٹوں کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا کربناک نقشہ کھینچا ہے۔ جس میں ایک ضعیف خاتون کو اس کا بیٹا اور بہو اپنی روز مرہ زندگی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے افطاری کی اشیاء فروخت کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن ایک عمر دراز بزرگ، خاتون کی حالاتِ زار دیکھ کر اس سے پورا سامان خرید لیتا ہے۔ وہ خریدار کو دعائیں دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ آج میں پیٹ بھر کھانا کھا کر پرسکون نیند سوؤں گی۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ بزرگ خاتون بہو اور بیٹے کے ہاتھوں کس قدر اذیت کا شکار ہیں۔ لہٰذا یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ماں باپ تکلیفیں اٹھا کر اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ انھیں اپنی حیثیت کے مطابق اس لائق بناتے ہیں کہ جب وہ بزرگی کو پہنچے تب اولاد ان کی ہر ضروریات کا خیال رکھے۔
محمد علیم اسماعیل کے افسانچے اور افسانے سماجی مسائل کا عکس ہے ساتھ ہی اخلاقی پیغام بھی دیتے ہیں۔ ان کے فن پارے نہایت منفرد انداز سے قاری کے سامنے آتے ہیں۔ ان کے افسانچوں اور افسانوں میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ ہوتا ہے، جس سے قاری یقیناً غور وفکر کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کتاب ’الجھن‘ کے بیشتر افسانچوں اور افسانوں میں معاشرتی گہما گہمی کی فضا دکھائی دیتی ہے۔ علیم اسماعیل نے افسانہ نگاری کو حقیقت نگاری کے ساتھ اس طرح جوڑا ہے کہ ان کی کہانیاں حقیقت سے بہت قریب محسوس ہوتی ہے۔ ساتھ ہی وہ قاری کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں۔ جس سے قاری اس وقت آزاد ہوتا ہے جب وہ پڑھ رہے افسانے یا افسانچے کو ختم کرتا ہے، اور یہی ایک اچھے فن کار کی خوبی ہوتی ہے جو علیم اسماعیل میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اپنی بات اس امید پر ختم کرتا ہوں کہ علیم اسماعیل کی مزید تخلیقات و تصنیفات شائع ہو کر اسی طرح ادبی قارئین کی پیاس بجھاتی رہیں گی۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں
1 تبصرہ
علیم اسماعیل نے اپنی کتاب پر تبصرہ مشہور شخصیات سے لکھویا ہے ۔ان کی کتاب الجھن میں اردو زبان کی بہت سی غلطیاں ہیں ۔