ڈاکٹرعبدا لرزاق زیادی
اردو لیکچرار،جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی
ہندوستان ایک آزاد ملک ہے۔ اس کے ہر باشندے کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ خود کو آ زاد سمجھیں اور آزادانہ طور پر یہاں کے دستور کے مطابق زندگی گزار یں۔ ہمیں یہ آزادی 15؍اگست1947کو حاصل ہوئی تھی۔ اس سے قبل ہمارا ملک نہ صرف غلام اور محکوم تھا بلکہ ہمیں اپنے طور پر زندگی گزارنے کا حق بھی نہیں حاصل تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ملک موروثی طور پر ہمیشہ سے ہی غلام تھا اور یہاں کے باشندے محکوم اور غلا م پیدا ہوتے تھے ۔ اس کے برعکس ملک ہندوستان دنیا کے آزاد اور خود مختار ملکوں میں سے ایک تھا۔اسی سر زمین پرخود مسلمان سلاطین نے کم و بیش آٹھ سو سال تک حکومتیں کیں۔ ابھی مسلمانوں کی حکومت چلی ہی آرہی تھی کہ پندرہویں صدی کا آخری دن یعنی 31؍ دسمبر 1500ہندوستان کی تاریخ میں ایک منحوس دن ثابت ہوا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسی دن ملکہ الز بیتھ اول نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بشمول ہندوستان تمام مشرقی ممالک میں تجارت کا اجازت نامہ تفویض کیا۔ اسی پروانہ اجازت کو لے کر انگریز ہندوستان میں داخل ہوگئے اور پھر آہستہ آہستہ اس پرقابض ہوتے چلے گئے۔ آزاد بھارت پرگزرتے ہوئے وقت کے ساتھ انگریز ہندوستان پرکس طرح اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوئے؟ گرچہ اس سوال کا جواب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے مگر پھر بھی 22؍جولائی 1853کو ’’نیو یارک ٹریبیون ‘‘ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کارل مارکس نے جو جملہ کہاتھا ،اس کی معنویت تب بھی بڑی اہم تھی اور آج یہ ہمیں کئی حیثیتوں سے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ جملہ ملاحظہ ہو :
’’مغل اعظم کی عظیم الشان طاقت کو مغل صوبے داروں نے پاش پاش کیا۔صوبے داروں کی قوت کو مرہٹوں نے ٹھکانے لگایااور مرہٹوں کا افغانوں نے خاتمہ کیا اور عین اس وقت جب کہ یہ طاقتیں ایک دوسرے سے دست گریباں تھیں برطانوی باشندوں نے جھپٹ کرسب کو اپنا مطیع بنا لیا۔‘‘ 1؎
اس طرح انگریزوں نے مغل حکمرانوں کے ہاتھوں ہندوستان کو اپنے قبضے میں لے لیا مگر یہاں تک پہنچنے میں انھیں کم و بیش ڈیڑھ سو سال کا عرصہ لگ گیا۔پہلے پہل انگریز ہندوستان آتے گئے اور یہیں بو د وباش اختیار کرتے گئے۔پھر آہستہ آہستہ انھوں نے یہاں کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی۔ ان کایہ سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا مگر یہ دخل اندازی تب ریشہ دوانی اور ظلم و زیادتی میں تبدیل ہو گئی جب مغل حکمراں اورنگ زیب کی1707ء میں وفات ہو گئی ۔اور پھر یہ ظلم و زیادی اس وقت ہندوستانیوں پر قہر بن کے ٹوٹی جب 1857کی بغاوت یا پہلی جنگ آزادی سامنے آئی ۔گویااس بغاوت کے بعد تو انگریزوں کے کان ہی کھڑے ہوگئے اورانھوں نے ہندوستانیوں کو ایذا رسانی اور ظلم و زیادتی ہی پر بس نہیں کیا بلکہ پورے ملک کو انتقامی آگ میں جھونک دیا ۔ انگریزوں کے اس ظلم و استبداد سے ہندوستانی باشندوں کو بے انتہا پریشانیوںاور جانی و مالی نقصانات کا سامنارہا بلکہ بقول شخصے ’بڑی بر بریت کے ساتھ ہندوسانیوں کو سزائیں دی گئیں ،جس میں ہزاروں بے گناہ اس بر بریت کا شکار ہوئے ، کتنوں کو پیڑوں پر لٹکا دیا گیا، کتنوں کی گردنیں اڑادی گئی ، نہ جانے کتنے بے گناہوں کو توپ کے دہانے پر باندھ کر ان کے پر خچے اڑا دیے گئے ۔‘ 2؎
انگریزوں کے اس ظلم وجبر او ر بربرتا سے جہاں ہندوستانیوں کے بہت سی جانی ومالی نقصانات ہوئے اوران کی صنعت و حرفت اور معاش و معیشت تباہ و برباد ہوکر رہ گئی وہیں اس بغاوت کے بعد ہندوستانیوں سے وہ عہد ے اور مناصب بھی چھین لیے گئے جو ان کے پاس تھے۔ ستم ظریفی کی انتہا تو تب ہوئی جب انھوں نے ان تمام بڑے عہد وں پر اپنے ہم وطنوں کو فائز کردیا۔ اس نسلی تعصب و تنگ نظری کے ساتھ ساتھ بغاوت کے بعد عد ل و انصاف کی جگہ ہرطرف بد امنی و انصافی،انتشار و خلفشاراور طوائف الملوکی نے جگہ لے لی ۔ اور پھر انقلاب 1857کے ساتھ شروع ہونے والے انگریزوں کے یہ مظالم تب تک جاری و ساری رہے جب تک کہ ہندوستانیوں نے انھیں دیش نکالا نہ دے دیا ۔
تاریخ شاہد ہے کہ غلام بھارت کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے یہاں کے باشندوںنے ایسی ایسی قربانیان پیش کی تھیں جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔حصول آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں بالخصوص علماء کرام نے نہ صرف کوششیں کیں بلکہ بہت سی جنگیں بھی لڑیں اور ان میں اپنی جان ومال اور عزت وآبرو کی قربانیاں بھی پیش کیں۔ انگریز مؤرخ مسٹر تھامسن کی ایک یاد داشت کے مطابق’1846سے 1867تک صرف تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی کے تختے پر لٹکا یا اور دلی کی چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔‘ 3؎ لیکن اس خونی جنگ اور ظلم و استبداد کے باوجود بھی یہاں کے باشندے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ہر ایک نے آگے بڑھ کر انگریزوں کا لوہا لیا اور اس کے لیے انھوں اپنی جان تک کی کوئی پر واہ نہیں کی۔قومی جذبے سے سر شار اس جنگ میں ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی ہر طبقے کے افراد شامل تھے اور ان شامل ہونے والوں میںجس طرح بچے و بوڑھے اورمرد و عورت ہر طرح کے لوگ موجود تھے اسی طرح اس میں رہنما و قائدین اورادبا و شعرا کے ساتھ ساتھ اردو کے انشاء پرداز و صحافی بھی شامل تھے اور انھوںنے بھی جنگ آزادی میں اپنا خون بہایا تھا۔ لیکن باوجود اس کے آج ان صحافیوں کو تحریک آزادی ہند کے باب میں وہ جگہ نہیں دی جاتی جو ایک قومی رہنما یا ادیب و شاعر یا پھر دیگر زبانوں کے صحافیوں کی شایانِ شان سمجھا جاتاہے ۔
حالانکہ اگر بغور دیکھا جائے تو اردو صحافت کا کر دار تحریک آزادی ہند کی تاریخ میں حد درجہ مؤثر اور بے باکانہ تھا۔ اردو صحافت کے حوالے سے گورنرلارڈ کیتگ نے یہ قول کس قدر اہم ہے کہ ’دیسی اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں بغاوت کے جذبات پیدا کردیے ہیں ۔ یہ کام بڑی مستعدی ، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا۔‘ 4؎ گرچہ اردو زبان میں صحافت کا آغاز 1822ء میں ’’جام جہاں نما‘‘ اخبار کے ذریعے ہوتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی بے باکی اور جرأت کا ایسا پر چم بلند کیا کہ انگریزوں کو اپنے اقتدار کی بنادیں لرزتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔وہ اخبارات جنھوں نے ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں جذبہء حب الوطنی پید ا کرنے میں اہم رول ادا کیا ان کی ایک لمبی فہرست ہے جنھیں آپ معروف صحافتی تاریخ نویس امداد صابری کی کتاب ’’تاریخ صحافتِ اردو‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں اور ان کی خدمات کا اندزہ بھی لگا سکتے ہیں لیکن ان تمام میں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جن کا تذکرہ تحریک آزادی ہند کے باب میں ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ ان میںدہلی اردو اخبار( مولوی محمد باقر)، مراۃ الاخبار( راجہ رام موہن رائے ) ، صادق الاخبار( مولوی جمیل الدین )، گلشن نو بہار( عبدالقادر)، خیر خدا خلق( ایودھیا پرساد ) ۔ جلوۂ طور( سید ظہیر الدین )، اگرہ ( خواجہ یو سف علی ) ، منشور محمدی( محمدشریف)اردو ئے معلی( حسرت موہانی)، پیسہ اخبار( منشی محبو ب عالم) ، ہمدرد( محمد علی جو ہر و شوکت علی ) ، زمیندار( ظفر علی خاں) البلاغ و الہلال( مولانا ابوا لکلام آزاد) اور سیاست ( سید حبیب ) وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ہندوستان کے گوشے گوشے سے نکلنے والے ان اخبارات نے نہ صرف بر طانوی سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کی بلکہ ہندوستانی عوام کے دلوں میں حکومت کا خوف دور کر کے انھیں خود اعتمادا ور خود شناسابھی بنادیا ۔
’دہلی ارد و اخبار‘مولوی محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کی ادارت میں نکلتا تھا۔یہ اخبار 1857سے پہلے نکلنے والے تمام اخبارات میں سب اہم ، باثر اوربے باک ہوا کرتا تھا۔ اس میں اس عہد کی سماجی ، عدالتی، تجارتی اور ریاستی خبروں کے علاوہ انگریزوں کی نا اہلی و اقربا پر وری پر بھی کھل کر لکھا جاتا تھا۔ نیز اس سے مولوی محمد باقر اپنے ہم وطنوں کو جنگ آزادی کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی کرتے تھے ۔ اس میں وہ ولولہ انگیز تقریریں بھی شائع ہوتی تھیں جو مجاہدین آزادی کے حوصلوں کو مہمیز کیا کرتے تھیں۔ بطور مثال ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’یہ معارکہ تمہارا بھی تواریخوں میں یا د گار رہے گاکہ کس بہادری اور جواں مر دی سے تم نے ایسی اولو العزم اور متکبر سلطنت کے کبر و غور کو توڑا ہے اور ان کی نخوت فرعونی اور غرور شدادی کو یکسر خاک میں ملا دیاہے اور ہندوستان کی سلطنت کو جس پر بڑے بڑے بادشاہوں کا دانت تھااور ان سے( انگریزوں سے )نہ لے سکتے تھے تم نے ان کے قبضہ ٔ اقتدار سے نکال اور رعائے ہندوستان کو کہ بلائے ناگہانی میں آگئی تھی اس مصیبت سے نجات دی ‘‘ 5؎
’’بیسویں صدی ہندوستان میں انقلاب لے کر آئی ۔ کا نگریس کے قیام اور اس دورکی علمی سر گرمیوں کی وجہ سے لوگوں میں سیاسی بیداری پیدا ہونی شروع ہوگئی ۔تقسیم بنگال ، کانپور کی مسجداور چو ری چورا کے واقعات ، جلیان والا باغ کی خوں ریزی ، سورا ج اور ترک موالات کی تحریکات، پھر عالمی سطح پر ایشیاو افریقہ کے ملکوں کا مغربی ملکوں کے ذریعے تخت و تاراج، ترکی سلطنت کی تباہی کا آغاز اور پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے لوگ زیادہ باخبر رہنے کی طرف راغب ہوئے اور ان کے اندر ملکی و غیر ملکی حالات سے واقف رہنے کی تڑپ بڑھی اور اخبار بینی میں اضافہ ہوا۔لہذا بہت سے نئے اخبارات نکلنے لگے اور خاص بات یہ ہوئی کہ انگریزوں کے خوشامدی اخبارات دب گئے اور اردو صحافت شمشیر برہنہ ہو کر انگریزوں کے سامنے آگئی۔‘‘ 7؎
گویا کہ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی پھر سے بہت سے اخبارات نکلنے شروع ہوگئے اور اردو صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ انھیں اخبارات میں سے ایک 1903میں علی گڑ ھ سے نکلے والا مولانا حسرت موہانی کا ’اردو ئے معلی ‘‘ بھی تھا ۔ گرچہ یہ ایک ماہنامہ رسالہ تھا اور اس کے مضامین ادبی ہوا کرتے تھے مگر اس میں کچھ ایسی تحیریریں بھی شامل ہو اکرتی تھیں جن میں ہندوستانی باشندوں کے احساسات و جذبات بالخصوص سیاسی خیالات کی ترجمانی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے ا س رسالے نے بھی عوام کے دلوںمیں تحریک آزادی کا جوش پیدا کرنے میں اہم کر دیا ۔ مولانا حسرت موہانی نے اپنے پہلے ہی شمارے کے ساتھ مکمل آزادی کا مطالبہ کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر اس رسالے نے نہ صرف انگریزوں کی نیندیں حرام کردیں بلکہ اس نے اپنے ہم عصر اردو اخبارات و رسائل و جرائد میں بھی جدو جہدآزادی کا صور پھونکنے کا کام کیا ۔ البلاغ، الہلال(مولانا ابو الکلام آزاد) ، زمیندار ( مولانا ظفر علی خاں) اورہمدرد ( مولانا محمدعلی وشوکت علی) اسی سلسلے کے پر ور دہ اخبارات تھے۔ بعد میں ان اخبارت نے بھی ہندوستان کی آزادی میں غیر معمولی خدمات دیں۔تحریک آزادی میں ’الہلال ‘ کی اہمیت اور دین کا تذکر کرتے ہوئے امداد صابری کہتے ہیں کہ’ اس کے مقاصد میں سیاسی مسائل کا احساس دلانا،حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنااور آزادی حاصل کرنے کے راستوں پر عمل کرنا بھی تھا۔اس نے مسلمانوں کو کانگریس کی قومی تحریک میں شامل ہو کر حکومت خود اختیاری کے لیے جد و جہد پرآمادہ کیا‘۔8؎ بلاشبہ الہلال و البلاغ، زمیندار اور ہمدرد نے تحریک آزادی ہند میں غیر معمولی خدمات انجام دیں اور عوام کے ذہن کو آزادی حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی جدو جدپر آمادہ کیا۔ ان اخبارات کے علاوہ دیا نگر نگم کا ’زمانہ‘، عبد المجید سالک اور غلام رسول مہر کا ’ انقلاب‘، عبدا لرزاق ملیح آبادی کا ’الجامعہ ‘ اور ’الہند‘، حیات اللہ انصاری کا ’ قومی آواز‘ اسی طرح پٹنہ سے نکلنے والا ’ صدائے عام ‘اور ’ ساتھی‘، ممبئی سے نکلنے ولا’ ہندوستا ن ڈیلی‘، ’ انقلاب جدید‘، ’ قومی جنگ‘، ’نیا زمانہ ‘وغیرہ ایسے اخبارات و رسائل تھے جن کی خدمات جنگ آزادی کی تحریک میںہمارے لیے سرمایہ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی انھیں خدمات کی بدولت نہ صرف ملک کو آزادی نصیب ہوئی بلکہ آج وہ ہمارے دلوں میں بھی زندہ ہیں مگر باوجودا س کے بقول گر بچن چندن کہ ’ ہمارے آج کے سیا ست داں ، مؤرخ اور اسکالرعام طور پر (انھیں)نظر انداز کرتے جارہے ہیں ‘۔ 9؎
غرض یہ کہ آج ہم جس آزاد اور خود مختار ملک میں سانس لے رہے ہیں اس کو بر سوں انگریزوں کی غلا می سے آزادی دلانے کے لیے یہاں کے باشندوں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں اور بڑی محنت و لگن سے اسے حاصل کیا۔انگریزوں کے ظلم و استبدار سے چھٹکارا دلانے کے لیے جہاں اس ملک کے رؤوسا و نوابین، ادبا و شعرااور لیڈران و دانشوران نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا وہیں اس ملک کے ان افراد نے ،جن کے ہاتھ میں قلم تھا، انھوں نے بھی اپنی صحافتی خدمات کے ذریعہ غیر معمولی خد مات انجام دیں۔تحریک آزادی کے جذبے سے سر شار جن صحافیوں نے کے کارنامے آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان میں مولوی محمدباقر،مولاناحسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان،مولانا عبدالمجید سالک،عبدالرزاق ملیح آبادی اور حیات اللہ انصاری وغیرہ کے نام خاص طو ر پر قابل ذکر ہیں ۔تحریکِ آزادیِ ہند کے تعلق سے ان مؤقر صحافیوں کی قابلِ قدر خدمات نہ صرف عزت و حترام کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی بلکہ اردو صحافت کی تاریخ اور تحریک آزادی ہند کے باب میں ان کا نام ہمیشہ روشن رہے گا۔
٭٭٭
حواشی:
1۔ محمد عتیق صدیقی،Maru and Ergels on India, P.58
2۔ محمد شاہد حسین ، اردو صحافت اور تحریک آزادی ، مشمولہ اردو صحافت ماضی اور حال، خالد محمود،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ص: 114
3۔ ایضا، ص: 115
4۔ محمد عتیق صدیقی:ہندوستانی اخبار نویسی ، ص:369
5۔ دہلی ارد و اخبار ، 21؍جون 1857، نمبر24جلد19
6۔ امداد صابری، روح صحافت، مطبوعہ 1968، ص: 260-61
7۔ محمد شاہد حسین ، اردو صحافت اور تحریک آزادی ، مشمولہ اردو صحافت ماضی اور حال، خالد محمود،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی، ص: 115
8۔ معین الدین عقیل، تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ، انجمن ترقی اردو ، کراچی، ص:673
9۔ گربچن چندن، اردو صحافت کا زریں دور، نیا دور، اگست ۱۹۹۷ء ، ص: 162
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں