معصوم مرادآبادی
فن اداکاری کے بے تاج بادشاہ محمدیوسف خان، جنھیں پوری دنیا دلیپ کمار کے فلمی نام سے جانتی تھی، گزشتہ 7 جولائی 2021 کوطویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔وہ ایک لاجواب اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شخصیت کئی اعتبار سے منفرد اور یکتا تھی۔انھوں نے ایک بہترین، مہذب اور باوقار انسان کے طورپربھی اپنے کروڑوں مداحوں کے دلوں پر راج کیا۔وہ کتنے ہی دلوں کی دھڑکن اور خوابوں کے شہزادے تھے۔وہ صحیح معنوں میں ایک دیومالائی شخصیت تھے۔
دلیپ صاحب نے فلم انڈسٹری سے اپنی54 سالہ رفاقت کے دوران اپنی شخصیت اور فن کے گہرے نقوش چھوڑے۔انھوں نے 1944میں فلم ’جوار بھاٹا‘ سے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا تھا اور اپنی آخری فلم ’قلعہ‘ (1998)تک وہ بالی ووڈسے پورے وقار کے ساتھ وابستہ رہے۔ انھوں نے اس دوران ساٹھ فلموں میں کام کیا اور ہر کردار کو امربنادیا۔وہ پچاس کی دہائی کے سب سے مقبول ہیرو تھے اور ان کی فلمیں اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ ہوا کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ان فلموں میں اس دور کے سلگتے ہوئے مسائل کی جھلک ملتی ہے۔ وہ سماجی خدمت کے میدان میں بھی سرگرم رہے اور نہ جانے کتنے حاجت مندوں کی دستگیری کی۔
ان کی شہرہ آفاق فلموں میں دیوداس،مغل اعظم،نیا دور، مدھومتی،گنگا جمنا،رام اور شیام، کرما اور کرانتی وغیرہ شامل ہیں۔ان فلموں میں انھوں نے یادگار کردار نبھائے اور اپنے ہم عصر اداکاروں میں سب سے زیادہ دنوں تک حیات رہے۔ ان کے مداحوں میں ہرعمر کے افراد شامل ہیں اور آج بھی ان کی فلمیں اتنی ہی دلچسپی سے دیکھی جاتی ہیں۔اداکاری ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ وہ جب پردہ سیمیں پر نمودار ہوتے تو فلمی شائقین عش عش کراٹھتے تھے۔ کے آصف کی شہرہ آفاق فلم ’مغل اعظم‘ میں شہزادہ سلیم کا کردار ان کے زندہ جاوید کرداروں میں سے ایک ہے۔اپنے دور کے ایک بڑے اداکار پرتھوی راج کپور (اکبراعظم)کے مقابل انھوں نے شہزادہ سلیم کے کردار کو اس خوبی سے نبھایاکہ یہ فلم ہندوستانی سنیما کی ایک تاریخ بن گئی۔دلیپ کمار کی بے مثال اداکاری کے ساتھ ان کی دوسری بڑی خوبی مکالموں کی ادائیگی کا نرالا انداز تھا، جس میں اردوزبان اور تہذیب کی بھرپور جھلک نظر آتی تھی۔ وہ اردو کے علاوہ فارسی، انگریزی، پشتو اور پنجابی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ جب بھی انھیں اسٹیج پر کچھ کہنے کا موقع ملتا تو وہ فصیح وبلیغ اردو میں گفتگو کرتے تھے۔ ان کے لہجے میں بلا کی شیرینی اور مٹھاس تھی۔
محمدیوسف خان پشاور کے ایک باوقار پٹھان خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ 1944میں جب انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو اس دور میں اچھے خاندانوں کے لڑکے لڑکیوں کافلموں میں کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان کے والد بھی دوسروں کی طرح اس کام کو ’نوٹنکی‘ سے تعبیر کرتے تھے۔اپنے والد کے خوف سے ہی وہ یوسف خان سے دلیپ کمار بنے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے والد کو یہ معلوم ہو کہ ان کے بیٹے نے اداکاری شروع کردی ہے۔فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد انھوں نے اس فن میں جو کمال حاصل کیا، وہ صرف اور صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔ہندوستانی سنیما کی طویل تاریخ میں یوں تو بے شمار اداکار پیدا ہوئے، لیکن کوئی بھی ان کی ہمسری نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک اداکار سے زیادہ اداکاری کے ایک ایسے ادارے سے تشبیہ دی جاتی ہے، جس میں بے شمار لوگوں نے انھیں پردہ سیمیں پر دیکھ کر ہی اداکاری سیکھی۔
مجھے ان سے کئی مرتبہ ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ یہ ملاقاتیں سب سے زیادہ اس دور میں ہوئیں جب وہ2000 سے2006کے درمیان راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ان سے اکثر پارلیمنٹ کے کوریڈور میں ملاقات ہوجاتی تھی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دیگر اداکاروں کی طرح اپنے مداحوں سے کنّی نہیں کاٹتے تھے اور جو کوئی ان سے مخاطب ہوتا تواس کو تسلی بخش جواب دیتے تھے۔لاجواب اداکار ہونے کے باوجود ان کی ذاتی زندگی میں تصنع اور بناوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔اردو زبان اورمشرقی تہذیب ان کی سب سے بڑی پہچان تھی۔ وہ اردو شاعری سے خاص شغف رکھتے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی میں کئی اہم مشاعروں کی صدارت بھی کی۔ایک روزمیں نے پارلیمنٹ کے کوریڈور میں انھیں ایک شعر سنایا تو دیر تک میرا ہاتھ پکڑے رہے اور ’مکرر‘کہہ کر دوبارہ سننے کی خواہش ظاہر کی۔کسی پرانے شاعر کا شعر یہ تھا۔
ہزار حشر میں پرسش ہوئی مگر ہم نے
نہ دل کے داغ دکھائے نہ ان کا نام لیا
اسی دوران یوم جمہوریہ کے موقع پر راشٹرپتی بھون میں ’ایٹ ہوم‘ کے دوران میں نے دیکھا کہ دلیپ صاحب اور سائرہ بانو ایک کونے میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان کے پاس گیا، مصافحہ کیا اور کہاکہ”آپ کے چہرے کا یہ نور آپ کی پاکیزہ زندگی کا عکاس ہے۔“اس جملے کو سن کر مخصوص انداز میں مسکرائے۔سائرہ بانو نے کہا کہ”دراصل انھوں نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی بہت دعائیں لی ہیں۔یہ اسی کا اثر ہے۔“
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دلیپ صاحب کے چہرے پرآخری وقت تک جو کشش باقی تھی، وہ اس عمر میں کسی اور اداکار کے چہرے پر نہیں دیکھی گئی۔ بیشتر فلم اداکار اپنی عمرطبعی کو پہنچتے پہنچتے اپنے چہرے کا رنگ کھو بیٹھے اور بعض تو پہچاننے کے قابل بھی نہیں رہے۔ لیکن دلیپ صاحب کے چہرے پر اتنی بیماریوں اور آزاریوں کے باوجود آخری دم تک رونق برقرار رہی۔
ان کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی یہ تھی کہ وہ لاولدتھے۔ درمیان میں انھوں نے حیدرآباد کی ایک خاتون سے نکاح ثانی بھی کیا، لیکن اس پر تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد جلد ہی علیحدگی اختیار کرلی۔ ان کی اہلیہ سائرہ بانو ہمیشہ سائے کی طرح ان کے ساتھ رہیں اور آخری وقت تک ایک مشرقی بیوی کا کردار نبھایا۔ ان کا پہلا عشق مدھوبالا تھیں جو فلم ’مغل اعظم‘میں ان کی ہیروئن (انارکلی)تھیں، لیکن اسی فلم کی شوٹنگ کے دوران دونوں کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود دونوں نے فلم مکمل کی۔
یوں تو دلیپ صاحب کو فلم انڈسٹری کے تمام بڑے ایوارڈ ملے جن میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی شامل ہے۔ انھوں نے سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈبھی جیتے۔حکومت ہند نے بھی انھیں پدم بھوشن اور پدم وبھوشن سے سرفرازکیا، لیکن نہ جانے کیوں انھیں ’بھارت رتن‘دینے سے گریز کیا گیا، جب کہ وہ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔یہ بات بھی افسوس کی ہے کہ انھیں راجیہ سبھا میں بھی کانگریس پارٹی کے ممبر کے طورپر لایاگیا جب کہ اصولی طورپر ان کی نامزدگی صدرجمہوریہ کی طرف سے اپنے میدان کی غیرمعمولی شخصیت کے طورپر ہونی چاہئے تھی۔حکومت پاکستان نے انھیں اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز ’ستارہ امتیاز‘ سے سرفراز کیا تھا اور پشاور میں واقع ان کے گھر کو قومی یادگار کادرجہ دیا۔
شہنشاہ جذبات دلیپ کمار نے اپنی زندگی میں جو شہرت، مقبولیت، عزت، دولت اور رتبہ حاصل کیا،وہ دنیا میں کم ہی لوگوں کا مقدر ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے تمام عمر اس رتبہ کو سجوکر رکھا اور کبھی کوئی رسوائی ان کی راہ کا پتھر نہیں ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی شخصیت میں بلا کا انکسار تھا۔ ان میں کبھی غرور یا گھمنڈ کا شائبہ تک محسوس نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا تھا کہ ”غرور یا گھمنڈ دراصل ایک بیماری ہے جس سے انسان کو ہمیشہ دور رہنا چاہئے۔“ان کا خیال تھا کہ”شہرت اور ناموری سے لاتعلق رہ کر انسان کو محنت اور خلوص کے ساتھ اپنے کام سے واسطہ رکھنا چاہئے۔“
دلیپ صاحب نے فلموں میں زیادہ ترالمیاتی کردار نبھائے اور اسی وجہ سے انھیں ’ٹریجڈی کنگ‘ بھی کہا جانے لگا۔المیاتی کردار نبھاتے نبھاتے ان کی طبیعت پر اس کامنفی اثر ہوا۔انھیں اپنی یاسیت والی کیفیت کو بدلنے کے لیے ماہر نفسیات سے رجوع ہونا پڑا۔ڈاکٹر نے اس حالت کو بدلنے کے لیے انھیں کچھ مزاحیہ کردارنبھانے کا مشورہ دیا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے ’شبنم‘ ’آزاد‘ اور ‘رام اور شیام‘ جیسی فلموں میں کامیڈی کردار ادا کئے۔وہ جو بھی کردار ادا کرتے تھے، اس میں پوری طرح ڈوب جایا کرتے تھے۔ایک فلم میں ستار بجانے کے لیے انھوں نے اس کی ایسی مشق کی تھی کہ ان کی انگلیاں زخمی ہوگئی تھیں۔ یہ دراصل اپنے پروفیشن سے ان کی بے پناہ عقیدت کا نتیجہ تھا۔ان جیسے فن کار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں تک ان کے اثرات باقی رہتے ہیں ۔بقول شاعر
ہمارے بعد اس محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں