انٹرویو نگار: علیزے نجف
انسان اپنے اندر امکانات کی ایک زبردست دنیا رکھتا ہے، بےشک اس میں حالات و مراعات بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہ کوئی ضروری نہیں، کچھ لوگ اپنی دنیا آپ تخلیق کرنے کا ہنر لے کر پیدا ہوتے ہیں، وہ ناسازگار حالات میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھتے ہیں، قیصر عباس ایک ایسا ہی نام ہے جنھوں نے اپنے جہد مسلسل اور عزم و ہمت کے ذریعے اپنے ہر خواب کو نہ صرف تعبیر بخشی بلکہ بہتوں کے لیے ایک مثال بن گئے۔ قیصر عباس پاکستان کے صف اول کے لیڈر شپ کوچ ہیں، وہ بڑی بڑی کمپنی کے سی۔ ای۔ اوز۔ کو ٹریننگ دیتے ہیں اور ان کی آرگنائزیشن کی ترقی و کامیابی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ قیصر عباس کے کیرئر کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھیں انٹرنیشنل لیڈر شپ گرو برائن ٹریسی کے ساتھ نہ صرف اسٹیج شیئر کرنے کا موقع ملا بلکہ وہ ان کے کلائنٹ بھی رہے اور ان کے ہاتھوں سے ایوارڈ بھی وصول کیا ہے، قیصر عباس ایک بیسٹ سیلنگ رائٹر ہیں اب تک ان کی دس کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں سے پانچ اردو میں ہیں اور پانچ انگریزی میں ہیں، شاباش تم کر سکتے ہو، سر اٹھا کر جیو، Tick Tick Dollar, leadership insight, speed coaching, وغیرہ یہ وہ کتابیں ہیں جو سرد جذبوں میں جان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ قیصر عباس کی شخصیت اور ان کی کتابیں دونوں ہی متاثر کن ہیں۔ ان گوناگوں خصوصیات کی حامل شخصیت قیصر عباس سے میں نے انٹرویو لیا ان سے میں نے ان کے بچپن تعلیمی نظام، پروفیشنل کیرئر، لیڈرشپ وغیرہ کے حوالے سے متعدد سوالات کئے جن کا انھوں نے پوری ایمانداری کے ساتھ جواب دیا یہ ایک بہترین انٹرویو ہے جس سے ہر انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، یقینا آپ کے لئے بھی یہ دلچسپ ہوگا اس گفتگو کا ماحصل آپ کے سامنے ہے۔
علیزے نجف: سب سے پہلے ہم آپ سے آپ کا تعارف چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
قیصر عباس: میرا نام قیصر عباس ہے بنیادی طور پر میں ایک لیڈر شپ کوچ ہوں، میری شہرت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں سی۔ ای۔ اوز۔ کو کوچ کرتا ہوں پاکستان سمیت دنیا کے چالیس ممالک کے سی۔ ای۔ اوز جو کہ پہلے ہی سے اپنی فیلڈ میں کامیاب ہوتے ہیں ان کو میں مزید کامیاب بنانے کے لئے کوچ کرتا ہوں تاکہ وہ اپنی ٹیم اور لیڈرز کے ساتھ ایک اچھا تعلق مین ٹین کر پائیں اور ان کی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکیں، اپنی آرگنائزیشن کا ایسا ماحول بنائیں کہ وہ کام کرتے ہوئے خوشی محسوس کریں، اور فیملی کی طرح ان کے درمیان کو آرڈینیشن بنا رہے، اور جب وہ شام کو گھر جائیں تو ان کے اندر ایک sense of fulfillment ہو۔
دوسرا کام میں جو کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں لیڈر شپ ٹریننگ دیتا ہوں ورکشاپ، سیمینارز، talks , key note کے ذریعے اب تک میں ساڑھے پانچ سو کلائنٹس کے ساتھ کام کر چکا ہوں، اس کے علاوہ میں ایک رائٹر بھی ہوں، سیلف ہیلپ پہ میری دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
میرا بنیادی تعلق شیخو پورہ ضلع میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں مہانیوالہ سے ہے میں وہیں پہ پیدا ہوا بعد میں میرے والد فاروق آباد شفٹ ہوگئے جو کہ وہاں سے پچیس کلومیٹر کی دوری پہ واقع ایک قصبہ ہے وہاں میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد میں نے شیخوپورہ سے گریجویشن کیا مزید تعلیم کے لئے پنجاب یونیورسٹی لاہور چلا گیا اس کے بعد سے اب تک میں لاہور میں ہی رہتا ہوں۔
علیزے نجف: آپ کی پرورش کس طرح کے ماحول میں ہوئی آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے افراد خانہ میں سے کن شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ؟
قیصر عباس: میں جس ماحول میں پلا بڑھا اس میں غربت و تنگدستی بہت تھی، ہمارے گھر کے حالات بہت مشکل تھے، ہم آٹھ بھائی بہن تھے میرے والد صاحب مزدوری کرتے تھے ان کے لئے اتنی بڑی فیملی کا خرچ چلانا بہت مشکل تھا، ہم کرائے کے گھر میں رہتے تھے وقت پہ ہم کرایہ نہیں دے پاتے تھے، بہت عرصے تک ہم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ترستے رہے تھے، اپنے بڑے بھائی بہنوں کی یونیفارم اور کتابیں ہی ہمیشہ میرے حصے میں آتی تھیں، بےشک اس وقت اگرچہ ہمارے پاس وسائل نہیں تھے لیکن ہمارے آپسی تعلقات بہت محبت اور خلوص سے بھرپور تھے جو کہ الحمدللہ ابھی بھی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی اگر مجھے کالج کی طرف سے ڈیبیٹ میں جانا پڑتا تو ہر کسی کے پاس جو جمع پونجی ہوتی تھی وہ چھپا کر مجھے دے دیتے تھے بہن بھائی کے ساتھ ابو بھی چھپا کر الگ الگ دیتے یہ کہہ کر کہ بتانا مت کسی کو یہ رکھ لو، میرے والد صاحب بہت سخی دل کے تھے ان کی وفات کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ بہت سے گھروں کا خرچہ چلاتے تھے، کئی خواتین ہمارے گھر میں آئیں اور کہنے لگیں کہ آپ کے والد نے ہمیں بہن بنایا ہوا تھا انھوں نے ہماری شادی کروائی تھی اور اناج وغیرہ بھی ہمیں بھیجا کرتے تھے، میں سوچنے لگا کہ ہمارے اپنے حالات بہت اچھے نہیں تھے تو وہ کیسے دوسروں کی مدد کرتے تھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ادھار لے کر دوسروں کی مدد کیا کرتے تھے، آج میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے جو تھوڑا بہت کرپاتا ہوں تو یہ سب میرے والد کی وجہ سے ہے، میری ماں کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا ان کی وفات کسی ایسے مرض کی وجہ سے نہیں ہوئی جس کا علاج ممکن نہیں تھا لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کو صحیح ٹریٹمنٹ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے وہ قبل از وقت دنیا سے رخصت ہوگئیں، والدہ کی وفات کے بعد ابو ہی سب کچھ ہمارے لئے تھے اس لئے ان کا ہماری شخصیت پہ بہت گہرا اثر رہا، میرے والد صاحب کے بعد میرے بڑے بھائی نے گھر کے لئے بہت ساری قربانیاں دیں ان کا نام انتظار حسین ہے میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں، میری بہن امید بخاری جنھیں ابھی کینیڈا کے لئے ایئرپورٹ پہ چھوڑ کر آیا ہوں، ان سے میرا ایک بہت اچھا رشتہ ہے، تمام طرح کے مسائل کے باوجود میرا بچپن بہت اچھا گذرا ہم نے اسے بہت انجوائے کیا۔ آج جب کہ میں ایک کوچ ہوں دنیا بھر میں لیکچر دیتا ہوں تو میں وہی باتیں کہتا ہوں جو کہ دوسرے کوچز کہتے ہیں ہاں اس میں میری زندگی کے تجربات و واقعات شامل ہو جاتے ہیں جو کہ لفظوں میں تاثیر پیدا کر دیتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے آپ نے اپنے تعلیمی سفر کو کن اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے طئے کیا اپنے تعلیمی دور میں تعلیمی اداروں کے نظام سے کس حد تک مطمئن تھے ؟
قیصر عباس: میں نے اپلائیڈ سائیکالوجی میں ماسٹر کیا ہے اس کے بعد میں نے بزنس اینڈ ارگنائزیشنل سائیکالوجی میں اسپشلائزیشن کیا اس کے علاوہ بہت ساری ٹریننگ، ورکشاپز، کورسز وغیرہ کئے ہیں، جیسے میں نے لندن کے برائن ٹریسی انٹرنیشنل آرگنائزیشن سے ویک اینڈ ایم بی اے کیا ہے اس میں ایم بی اے سے متعلق پریکٹکل ٹکنیک میں نے دنیا کے قدآور لیڈر شپ گرو برائن ٹریسی سے براہ راست سیکھی، اس کے علاوہ میں نے سیلف ایجوکیشن پہ بہت انویسٹ کیا ہے، میں globally certified coaches میں سے ایک ہوں۔
رہی بات اصولوں کی تو ایک اصول جو ماں باپ نے سکھایا وہ تھا ایمانداری، میں نے کبھی نقل نہیں کی ہاں کبھی کبھار کسی کی مدد ضرور کر دی لیکن خود کبھی دوسرے کے سہارے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کو ترجیح دی میں گولڈ میڈلسٹ رہا ہوں اپنی کلاس میں ٹاپ کرتا رہا یہاں تک کہ میں نے سارے مضمون میں بھی ٹاپ کیا ہے میرے والد کو مجھ پہ بہت فخر تھا۔
یہ بات میں بنا کسی جھجھک کے کہنا چاہوں گا کہ جہاں میں پڑھا ایک دو ٹیچر کے علاوہ مجھے کسی نے بھی انسپائر نہیں کیا، میں بس گزارا کرنے والے ماحول میں رہا ہوں، ہمارے یہاں کے اسکولوں و کالجوں خاص طور سے گورنمنٹ اسکولوں میں excellence کے حوالے سے کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی جاتی بس گزارا کرنے تک ہی ان کی سوچ ہوتی ہے۔ گریجویشن کے بعد جب میں پنجاب یونیورسٹی میں آیا تو وہاں کا ماحول بہت اچھا تھا استاد بہت اچھے تھے سارے ہی پی ایچ ڈی ہولڈر اور قابل تھے اس زمانے میں پی ایچ ڈی استاد بہت کم ہوتے تھے یہ تو اب لازمی ہوا ہے، وہ میرا بہت اچھا وقت تھا میں نے اس میں دل لگا کر پڑھائی کی، اگلی پچھلی ساری کسر نکال لی، میں نے اس دوران بہت کچھ پڑھا اور سیکھا سوشل سائیکلوجی، ایبنارمل سائیکالوجی ریسرچ میتھڈ سبھی کچھ بڑھا۔
رہی بات تعلیمی اداروں کے نظام کی تو خواہ پاکستان ہو یا دوسرے ممالک کے تعلیمی نظام ان کا اصل مقصد بس مخصوص معیار پہ پورا اترنے والا انسانی پروڈکٹ تیار کرنا ہے، آج کے تعلیمی ادارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے اسٹوڈنٹ جب اپنی تعلیم مکمل کر لیں گے تو اس میں یہ یہ مہارت ہوگی وہ فلاں فلاں ادارے اور معاشرے کے لئے اس طرح کارآمد ہوں گے، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اسٹوڈنٹ باہر نکلتا ہے تو اسے نہ بات کرنی آتی ہے نہ اس کے اندر اعتماد ہوتا ہے اکیڈمک سے ہٹ کر اس کا کوئی اور تجربہ و مشاہدہ نہیں ہوتا، اسے صرف تھیوری کا پتہ ہوتا ہے پریکٹکل زندگی سے وہ کوسوں دور ہوتا ہے، اس حوالے سے مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایجوکیشنل ادارے اپنا فرض پوری طرح ادا نہیں کر رہے، وہ quality assurance دینے میں ناکام ہیں، مارکیٹ میں وہی پروڈکٹ چلتا ہے جس کی assurance ہوتی ہے ہماری روزمرہ کی ساری اشیاء assurance پہ ہی چل رہی ہوتی ہیں، ، میرے خیال میں ایجوکیشنل اداروں کو customer centric ہونا چاہئے انھیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے بچے جنھیں ہم تیار کر کے مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں کیا ان میں وہ مہارت، صلاحیت اور رویہ موجود ہے جس سے وہ اپنی عملی زندگی میں کامیاب ہو سکیں، میں نے جن اداروں سے پڑھا ہے وہاں ان باتوں پہ قطعی کوئی دھیان نہیں دیا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے تین چار سال بہت مشکل میں گزارے کیوں کہ مجھے اس وقت عملی زندگی کی کچھ خاص سمجھ نہیں تھی۔
علیزے نجف: کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں کن کن عوامل کا اہم کردار ہوتا ہے اور ایک انسان کو خود اس کے لئے کس طرح کی کوششیں کرنی چاہئے ؟
قیصر عباس: ایک سائیکلوجسٹ ہونے کے ناطے میں اس کا ایک complicated جواب بھی دے سکتا ہوں،۔لیکن میں اس کا جواب آسان لفظوں میں دینا چاہوں گا، انسان کی شخصیت کی تشکیل میں اس کے ارد گرد کے ماحول کا بہت گہرا عمل دخل ہوتا ہے، ہمارے یہاں سالہا سال سے دو طرح کے نظریے چلے آ رہے ہیں ایک کو ہم فطرت کہتے ہیں دوسرے کو تربیت، فطرت کے زاویہء نظر کے مطابق انسان کی جو شخصیت ایک بار بن جاتی ہے وہ بعد میں تبدیل نہیں ہوتی، جب کہ دوسرے نظریے کے مطابق ہم تربیت کے لئے جس طرح کا ماحول بناتے ہیں اور بچے کی شخصیت میں جن عادات و اطوار کی تشکیل کے لئے کوششیں کرتے ہیں ہم اس کو ایک نہ ایک دن اس طرح بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، میں مختصراً یہ کہوں گا کہ ک ہماری شخصیت میں ہمارے ماحول اور حالات و تجربات ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، تجربات ہماری شخصیت پہ انمٹ نقوش ثبت کر دیتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کی رائے کے مطابق سات سال کی عمر تک بچے کے ذہن کی پروگرامنگ کافی حد تک ہو چکی ہوتی ہے،چوں کہ میں خود ایک کوچ ہوں سی۔ ای۔ اوز کو ٹریننگ دیتا ہوں میں نے اپنے تجربے میں یہ پایا کہ اگر انسان خود کو بدلنے کا عہد کر لے اور وہ اس کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہو تو وہ اپنی شخصیت میں تبدیلی لا سکتا ہے اس میں سیلف لرننگ، ٹریننگ، کوچنگ، مینٹورنگ، اکسپوژر ورکشاپز، وغیرہ بہت معان ہوتے ہیں، میں اس بات پہ پختہ یقین رکھتا ہوں کہ شخصیت فکسڈ نہیں ہوتی وہ بدلتی رہتی ہے، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں فطرتا غصے والا، انٹروورٹ ہوں میں کسی کی تعریف نہںں کرتا، میں شرمیلا ہوں یہ وہ باکس ہیں جن میں وہ خود کو خود ہی قید کرتے ہیں، وہ اس باکس پہ خود تالا لگا کر یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انھوں نے تبدیل نہیں ہونا نہ کوئی انھیں تبدیل کرنے کی کوشش کرے اور نہ ہی کوئی ایسی امید رکھے، وہ اپنے خول میں بند ہو کر رہنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں یہ ایک غلط رویہ ہے، بچپن کے جن ماحول نے ہمیں جو کچھ بنایا اس کا رونا روتے رہنے کے بجائے ہم زندگی کے کسی بھی دور میں شعوری کوشش کے ساتھ خود کو بدل سکتے ہیں۔ میں بطور کوچ لوگوں کو یہی سکھاتا ہوں کہ لوگ خود کو کیسے بدل سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ جب بچپن میں اپنے مستقبل کے متعلق سوچتے تھے تو آپ کے خواب کیا ہوتے تھے کیا وہ سارے خواب پورے ہو چکے ہیں یا ان میں سے کوئی ابھی بھی تشنہء تعبیر ہے؟
قیصر عباس: بچپن میں جب میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا تھا تو سچ بتاؤں میرے کوئی خواب نہیں تھے ، اس وقت بس یہی چھوٹی چھوٹی خواہشیں تھیں کہ ایک سائیکل ہو، من پسند کپڑے ہوں، وغیرہ وغیرہ پھر جب میں بڑا ہوا اور مجھے زندگی کی سمجھ آنے لگی تو میں نے ڈائری میں اپنے 764 خواب لکھے اللہ کا شکر ہے کہ اس میں بہت سے خواب میرے پورے ہو چکے ہیں ابھی بھی کئی سارے خواب ہیں جن کو پورا کرنے کی جستجو میں ہوں جیسے پاکستان کے ایک لاکھ بچوں کو ان کی زندگی کی پہلی سائیکل تحفے کے طور پر دینی ہے، اس کے علاوہ ایک اور خواب ہے کہ پاکستان کے تقریبا ستر لاکھ بچے جو کہ معاشی تنگی کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے ان بچوں کو اسکول بھیجا جائے پچھلے کئی سالوں سے اس پروجیکٹ پہ ہم مستقل کام کر رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ تبدیلی آئی ہے کہ پہلے خوابوں کا تعلق میری ذات سے ہوتا تھا کہ مجھے یہ مل جائے لیکن اب ان خوابوں کا تعلق میرے ملک میری قوم سے ہے کہ کیسے میں ان کی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہوں۔
علیزے نجف: آپ کے پروفیشنل سفر کا آغاز کہاں سے ہوا آپ نے کن کن نیشنل ، انٹرنیشنل اداروں اور شخصیات کے ساتھ کام کیا ہے ان میں سے کن کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ آپ کے لئے یادگار رہا ؟
قیصر عباس: میں نے اپنے پروفیشنل کیرئر کا آغاز یہاں لاہور میں ایم۔ یو۔ کالج میں پڑھانے سے کیا ہمارے ڈپارٹمنٹ کے چیف بدر اسماعیل صاحب نے مجھے بہت متاثر کیا ، پھر اس کے بعد سینٹر فار ڈیویلپمنٹ میں نے جوائن کیا وہاں پہ نسیم ظفر اقبال کے ساتھ میں نے کام کیا انھوں نے مجھے آگے بڑھنے، بولنے اور ٹریننگ دینے کا موقع دیا جب کہ مجھے اس وقت خود اپنی ہی ذات پہ اعتماد نہیں تھا اس لئے میں ہمیشہ ان کے اس مہربان رویے کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا مشکور ہوتا ہوں ۔ اس کے بعد برائن ٹریسی جو کہ ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن ہے اس کے ساتھ میں نے کام کیا وہاں مجھے ٹونی بوزان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو مائنڈ میپنگ تکنیک کے inventor ہیں انھوں نے mind mapping پر بہت ساری کتابیں بھی لکھی ہیں، میں انھیں پاکستان بھی لایا۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے پاکستان کے بہترین اداروں کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل اداروں کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا۔
علیزے نجف: آپ ایک بزنس لیڈر شپ کوچ ہیں کہتے ہیں کہ لیڈر شپ کی کوالٹی پیدائشی ہوتی ہے ایک فالوور مائنڈ سیٹ رکھنے والا کبھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے کیا لیڈرشپ کوالٹی محنت سے اپنے اندر پیدا کی جا سکتی ہے؟
قیصر عباس: لیڈرشپ پیدائشی نہیں ہوتی ہے میرا کامل یقین اور عقیدہ اس بات پہ ہے کہ کوئی شخص جب فیصلہ کر لے کہ وہ لیڈر بنے گا تو وہ لیڈر بن سکتا ہے۔ لیڈر شپ کی کوالٹی پوٹینشیل کی طرح کہیں اندر موجود ہوتی ہے، جیسے ہر بیج کے اندر درخت بننے کا پوٹینشیل ہوتا ہے اسی طرح ہر انسان کے اندر لیڈر بننے کا پوٹینشیل موجود ہوتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ بہت سارے لوگ اس پوٹینشیل کو استعمال میں نہیں لاتے دوسرے لفظوں میں کہوں کہ کہ بہت سارے لوگ دوسروں کے کام کی ذمےداری لینا نہیں چاہتے ، لیڈرشپ ایک طرح سے دوسروں کا سر درد لینے کا نام ہے۔ اس کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک وقت ہوتا ہے جب ہم سوچتے ہیں کہ میں اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤں جب ہم لیڈر بنتے ہیں تو پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کس طرح میں اپنی پوری ٹیم کو وہاں تک پہنچا سکتا ہوں۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پہ کوئی بھی شخص اپنے اندر موجود اس پوٹینشیل کو بروئے کار لا کر لیڈر بن سکتا ہے۔ بس اس کے اندر مسلسل سیکھنے کا شوق ہونا ضروری ہے وہ جس شعبے میں ہو اس میں وہ بہتر سے بہتر پرفارمنس’ دینے کی خواہش ہمہ وقت تیار ہو، ایک اچھا لیڈر بننے کے لئے ایک اور خوبی کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے وہ ہے دوسروں کی ترقی اور بھلائی کے لئے اسی طرح passionate ہونا جس طرح کہ وہ خود کے لئے ہوتا ہے، یہ تڑپ کہ باقی لوگ بھی grow کریں یہ سوچ ایک عام فرد اور لیڈر میں فرق پیدا کرتی ہے، لیڈر وہ کہلاتے ہیں جو اپنے ساتھ موجود لوگوں کی انگلی پکڑ کر اسی بلندی پر لے جانے کی خواہش کرے جہاں وہ خود جانا چاہتا ہے۔
علیزے نجف: بزنس کی سطح پہ لیڈرشپ کو بہتر کرنے کے لئے لوگ ٹریننگ لیتے ہیں اس میں خود کو گروم کرتے ہیں لیکن خاندان کی لیڈرشپ کے حوالے سے خود کو گروم کرنے کے لئے لوگوں میں وہ جذبہ کیوں نہیں پایا جاتا اپنے مشاہدے و تجربے کی روشنی میں بتائیں؟
قیصر عباس: جن کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیت ہوتی ہے وہ کہیں بھی رہیں ایک لیڈر کی طرح ہی کام کرتے ہیں، جو لوگ بزنس فیلڈ میں لیڈر ہوتے ہیں تو یہ بلکل متوقع بات ہے کہ وہ اپنے خاندان میں بھی لیڈر ہوں گے، میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنے خاندان میں لیڈر ہوتے ہیں وہ بزنس اور دیگر فیلڈ میں بھی اس لیڈر شپ کا مظاہرہ کرتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی فطرت میں ہے، اس کا تعلق بڑا ہونے سے نہیں ہے۔
اپ نے اس سوال میں میرے دل کی بات کر دی ہے میں جب بھی کوئی ٹریننگ کرتا ہوں تو ٹریننگ سے پہلے میں اپنے کلائنٹ سے وعدہ لیتا ہوں کہ آج جو کچھ آپ سیکھیں گے اس کو سب سے پہلے اپنے ادارے میں اپلائی نہیں کریں گے بلکہ اپنے گھر میں فیملی ممبر اور بچوں کے ساتھ اپلائی کریں گے یہ سن کر کچھ لوگ پریشان ہو جاتے ہیں خاص طور سے جنھوں نے مجھے ہائر کیا ہوتا ہے وہ سوچتے ہیں یہ کیسی بات کر رہا ہے۔ جن آرگنائزیشنز کو میں ٹریننگ دیتا ہوں اکثر و بیشتر ان سے میرا سالوں کا تعلق ہوتا ہے میں نے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ جب وہ مجھ سے کمٹمنٹ کر لیتے ہیں تو اس ٹریننگ کا اثر ان کی فیملی پر پڑتا ہے نہ صرف فیملی بلکہ ان کی سوسائٹی اور معاشرے پہ بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے علاوہ میں ان سے اس بات پہ بھی کمٹمنٹ لیتا ہوں کہ یہ سب کچھ اپنے گھر اور آفس کی زندگی میں اپلائی کرنے کے بعد اپنے ارد گرد کے تعلیمی اداروں میں جہاں پہ آپ جا سکتے ہیں وہاں کے بچوں کو ڈیلیور کریں گے اور آگے پھیلاتے جائیں گے۔
میرا ماننا ہے کہ خاندان کی لیڈرشپ اداروں کے لیڈرشپ سے زیادہ اہم ہوتی ہے میں اس طرف لوگوں کو اس طرح متوجہ کرتا ہوں کہ یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ یہاں پہ اپ کو جو دس پندرہ لوگ ملے ہیں آپ ان کی زندگیاں بدلنے کی جدوجہد کریں اس ادارے کی ترقی کے لیے آپ دن رات محنت کریں پھر اس کے بعد آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے اپنے لوگ مثلا ماں باپ لائف، پارٹنر، بچے، بھائی بہن وغیرہ وہ زندگی میں grow نہیں کر سکے، میں ٹریننگ دیتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہوں کہ ادھر کوئی کسٹمر آپ سے misbehave بھی کرتا ہے تو آپ بہت نرمی سے جواب دیتے ہیں مگر جب آپ گھر پہنچتے ہیں تو وہاں آپ چھوٹی سی بات پر پھٹ پڑتے ہیں اور کسی کی بات آپ کو برداشت نہیں ہوتی۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے ہمارے اپنے ہی ہماری خوبیوں کے ثمرات سے محروم ہیں، میں اس طرح تجزیہ کرکے نہ صرف خود کو بہتر بناتا ہوں بلکہ اپنے کلائنٹ کو بھی تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں، جب ہم عملی تجربات کی روشنی میں باتیں کرتے ہیں تو بات زیادہ موثر ہو جاتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر بہت خوشی ہو گی کہ میں ان موضوعات پہ بہت کھل کر دلچسپی کے ساتھ بات کرتا ہوں اس کے بہت مثبت نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: سیاسی لیڈرشپ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں میں قوموں کا مستقبل ہوتا ہے لیکن وہ کسی بھی آرگنائزیشن کے ساتھ جڑ کر لیڈرشپ کی بنیادی اصول اور کام کرنے کے طریقوں کو سیکھتے شاذ ہی نظر آتے ہیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سیاسی لیڈروں کو بھی ٹریننگ لینی چاہئے ؟
قیصر عباس: لیڈرشپ کی یک لفظی تعریف ہے خدمت، فطرت کا یہی اصول ہے ، میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالی نے جس کو جتنا بڑا عہدہ دیا ہے اس کے اوپر اتنی ہی بڑی ذمےداری ڈالی ہے کہ وہ معاشرے کی خدمت کرے۔ سیاسی لیڈر اس کے بلکل الٹ ہوتے ہیں ان کا لیبل تو یہی ہوتا ہے کہ انھیں عوام کی خدمت کرنی ہے لیکن حقیقتا ان کی پوری توجہ اپنے عیش کی طرف ہوتی ہے خاص طور سے ہند و پاک میں جو لوگ بہت زیادہ پیسہ خرچ کر کے الیکشن جیت کر ایوان میں پہنچتے ہیں ان کا سب سے پہلا کام وہ پیسہ پورا کرنا ہوتا ہے جو انھوں نے خرچ کئے ہوتے ہیں، عوام کی خدمت کے جو وعدے انھوں نے کئے ہوتے ہیں زیادہ تر لوگ وہ کبھی پورا نہیں کرتے، میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاسی لیڈروں کو بھی لیڈرشپ سیکھنی چاہیے، لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان میں نہ ہی ایسی کوئی خواہش ہوتی ہے اور نہ ہی کمٹمنٹ ، ان کے پاس اس طرح کی چیزوں پہ خرچ کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے، بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے میں کئی سیاسی لیڈران کو قریب سے جانتا بھی یوں وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ہیں جن کے پاس خیالات و نظریات بھی ہیں لیڈرشپ کی خوبیاں موجود ہیں سیاست کے میدان میں اترنے کے بعد ان میں اور دوسرے سیاست دانوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔
علیزے نجف: آپ بزنس کے پیچ و خم سے بخوبی واقف ہیں ایک اچھا بزنس grow کرنے کے لئے ایک بزنس مین کو کن غلطیوں سے پرہیز کرنا چاہئے؟
قیصر عباس: پہلی غلطی جو بزنس مین کبھی نہ کریں وہ ہے سولو فلائٹ لینا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ کبھی نہیں سوچنا کہ میں اکیلا کافی ہوں یہ بہت بڑی غلطی ہے آپ کچھ بھی نہیں ہیں جب تک آپ کے پاس وہ لوگ نہیں ہیں جن کے بل بوتے پر آپ کامیاب ہوئے ہیں، زندگی میں کامیابی کی سیڑھی پر ہم اکیلے نہیں چڑھ سکتے یہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں پکڑ کر اس سیڑھی پر بٹھا دیتے ہیں اور ذہنی و جسمانی طور سے ہمیں سپورٹ کرتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ co ordination ہونا ضروری ہے۔
دوسری غلطی جو کبھی بزنس میں نہیں کرنی چاہئے وہ یہ کہ short term میں نہیں سوچنا کبھی کبھی ہم دیہاڑی دار سوچ اختیار کر لیتے ہیں کہ بس گزارا کرنا ہے یا اس مخصوص ہدف تک پہنچنا ہے، اکثر بڑے سی۔ ای۔اوز بھی کہتے ہیں کہ بس کسی طرح یہ مہینہ نکل جائے یا یہ کوارٹر نکل جائے باقی سب ٹھیک ہے، جب ہم short term نتائج کے پیچھے بھاگتے ہیں تو ہم long term میں فیل ہو جاتے ہیں۔ بزنس کا مطلب ہے کہ آج کو مینیج کرنا ہے اور کل کو بھی سنبھالنا ہے، یہ یقین رکھیں کہ کل بھی ہے جو لوگ short term سوچتے ہیں تو اکثر ان کا کل کبھی نہیں آتا۔
تیسری چیز جو میں نے سیکھی ہے کہ وہ بزنس میں کبھی نہیں کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ کبھی بھی مقصد پر منافع کو ترجیح نہیں دینی چاہئے، بڑے بزنس کا مقصد صرف پیسے کمانا نہیں ہو سکتا اس کا اصل مقصد معاشرے کی خدمت کرنا ہوتا ہے، مثال کے طور پہ ایک فارمیسی کے باہر یہ لکھا ہے کہ آپ کی صحت ہمیں بہت عزیز ہے لیکن آپ انھیں ایکسپائر دوائیاں دے رہے ہیں یا غیر معیاری دوائیں دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفع کو ترجیح دے رہے ہیں اور مقصد کو پس پشت ڈال دیا ہے، ایسی کمپنیاں جو نفع کو مقصد پر ترجیح دیتی ہیں وقتی طور پر تو وہ کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن آگے جا کر وہ بری طرح ناکام ہوتی ہیں میں نے ایسی بہت سی کمپنیز کو صفحہء ہستی سے مٹتے دیکھا ہے جنھوں نے وقتی فائدے کے لئے سارے اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔
علیزے نجف: کہتے ہیں اچھا بزنس کرنے کے لئے رسک لینے سے نہیں ڈرنا چاہئے اب ظاہر ہے کہ رسک کبھی آنکھ بند کر کے نہیں لیا جا سکتا آپ کے تجربے کے مطابق کتنے فیصد کامیابی کے چانسز کو سامنے رکھ کر رسک لیا جا سکتا ہے یا رسک لینے سے پہلے ہمیں کس طرح کا مائنڈ سیٹ ڈیولپ کرنا چاہئے؟
قیصر عباس: رسک لینے کا مطلب آنکھیں بند کر کے قدم اٹھانا نہیں ہوتا، رسک کا مطلب ہے کہ ایک آنکھ بند کرتے ہوئے ایک انکھ کھلی رکھیں اس کے لئے ایک business term ہے calculated risk ہم رسک لیتے ہیں لیکن سوچ سمجھ کر, آپ قدم اٹھانے سے پہلے سارے فیکٹر کا جائزہ لیں، جس طرح کسی دریا میں چھلانگ لگانے سے آپ بانس کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کی گہرائی کتنی ہے اس میں اترنے سے پہلے آپ لائف جیکٹ پہنتے ہیں لائف جیکٹ پہن کر ہم رسک کو نظر انداز نہیں بلکہ رسک کو مینیج کرتے ہیں، میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ بزنس کی دنیا رسک سے بھری پڑی ہے اگر ہم رسک کو نظر انداز کریں گے تو یہ طئے ہے کہ ہم ناکام ہو جائیں گے اور اگر بےسوچے سمجھے رسک لیں گے تو ڈوب جائیں گے اس لئے سوچ سمجھ کر اتنا رسک لیں جس کی ناکامی کو آپ مینیج کر سکتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ اس وقت کئی انٹرنیشنل اداروں اور شخصیات کے ساتھ کام کر چکے ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ کون سی خوبیاں ہیں جو آپ نے تمام کامیاب CEO میں مشترک دیکھیں ان کے اندر یہ خوبیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟
قیصر عباس: میں عام طور سے سی۔ ای۔ اوز کو کوچ کرتا ہوں ریسرچ بھی کرتا ہوں اس کی بنیاد پہ کتابیں بھی لکھتا ہوں اس دوران میں نے ایک چیز جو تمام کامیاب سی۔ ای۔ اوز میں محسوس کی ہے وہ ہے the ability to inspire انھیں دیکھ کر دوسرے لوگ انسپائر ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ انسپائر وہی کرتے ہیں جو خود انسپائرڈ ہوتے ہیں۔
دوسری خوبی جو میں نے کامیاب سی۔ ای۔ اوز میں دیکھی ہے وہ باہمت اور حوصلہ مند ہوتے ہیں وہ بڑے فیصلے لیتے ہیں اس کے حصول کے لئے جان لگا دیتے ہیں ، تیسری خوبی جو میں نے کامیاب لوگوں میں دیکھی ہے وہ ہے ان کا کنکشن، وہ اپنے لوگوں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ وہ ان کی دل سے عزت و محبت کرتے ہیں، عام طور سے جو لیڈرز ہوتے ہیں ان کے پاس جب تک عہدہ و مرتبہ ہوتا ہے، تب تک لوگ ان کے آس پاس ہوتے ہیں لیکن جب وہ نہیں رہتا تو لوگ ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتے، لیڈر شپ کا یہ امتحان ہے کہ جب آپ عہدے پہ نہ ہوں تو کیا لوگ آپ کے بارہ بجے کال کرنے پہ آپ کے پاس آتے ہیں، آپ کی سالگرہ کو یاد رکھتے ہیں، کنکشن تبھی بنتے ہیں جب لیڈرز اپنے ذاتی مفاد اور عہدے کے رعب سے آزاد ہو کر لوگوں کی بھلائی کا سوچتے ہیں ان کی ترقی کے لئے فکرمند ہوتے ہیں وہ خدمت کے جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں، ایسی خوبیوں کے حامل لیڈر ہی سچے لیڈر ہوتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ دس best selling کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے پانچ اردو میں ہے پانچ انگلش میں آپ کی کتابوں کے بیسٹ سیلر ہونے کا راز کیا ہے اس میں مصنف کی مقبولیت کتنا حصہ ڈالتی ہے اور مواد کا معیار کیا کردار ادا کرتا ہے؟
قیصر عباس: میرا ماننا ہے کہ میں کوئی پیدائشی رائٹر نہیں ہوں میں نے لکھنا سیکھا ہے، میری شروع کی کتاب جیسے Tick Tick Dollar میں نے اٹھائیس دفعہ لکھی تھی پھر بھی میری اپنی سمجھ میں نہیں آتی تھی، میرے نزدیک کتاب کے بیسٹ سیلنگ ہونے میں سب سے بڑا کردار اس کے کانٹنٹ کا بہترین ہونا ہے، اس ضمن میں یہ بات جان لینا بہت ضروری ہے کہ best selling کتاب ضروری نہیں کہ وہ best written بھی ہو، بیسٹ سیلنگ کتاب اور ہوتی ہے best written کتاب اور ہوتی ہے۔ best selling کے تو آجکل فارمولے ملتے ہیں بیسٹ سیلنگ کتاب آج کل کچھ ہزار ڈالر دے کر بھی بن سکتی ہیں، آپ نیویارک ٹائمز کے بھی بیسٹ سیلر بن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ کمپنیز مجھے بھی اپروچ کرتی ہیں دوسرے انٹرنیشل رائٹرز کو بھی اپروچ کرتی ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ مستقل بیسٹ سیلر رائٹر کا ٹیگ اپنے پاس رکھنے کے لئے کتاب کا مواد بہترین ہونا ضروری ہے، آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں اس کی بنیاد کیا ہے ریسرچ کا معیار کیا ہے اور وہ کتاب پڑھنے والے کی زندگی میں کوئی ویلیو ایڈ کر رہی ہے یا نہیں اگر کتاب میں دم ہو اور وہ بیسٹ سیلر نہ بھی بنے لیکن وہ اپنی ایک پہچان ضرور بنا لیتی ہے۔
میں کتاب اس لئے نہیں لکھتا کہ وہ بیسٹ سیلر بنے بلکہ میں اس لئے لکھتا ہوں کہ مجھے اپنی باتوں پہ اعتماد ہے کہ وہ لوگوں کے نظریات اور ان کی زندگی کو بدل سکتی ہے۔ ہاں جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا اس وقت بڑا شوق تھا کہ میری کتابیں بیسٹ سیلر بنے لیکن آج میں سوچتا ہوں کہ ہزار لوگوں کے کتاب خریدنے کے جائے صرف دس ہی لوگ اس کو خرید لیں اور وہ دس لوگ اسے اپنی زندگی میں شامل کر لیں، یہ میرے لئے سب سے بڑی کامیابی ہوگی، میری کتاب Tik Tik Dollar شاباش تم کر سکتے ہو جو کہ بیسٹ سیلنگ ہیں جس کو لکھے ہوئے بیس سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی اسے لوگ پڑھتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کو اب تک کتنے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ان اعزازات کی وصولیابی نے آپ کے کام کرنے کی سپرٹ کو کس حد تک متاثر کیا ؟
قیصر عباس: بےشک اعزازات کے ملنے سے ہر کسی کو بہت حوصلہ ملتا ہے، 2017 لندن میں مجھے "برائن ٹریسی ایکسیلنس ایوارڈ” ملا تھا مجھے بہت خوشی ہوئی تھی، برائن ٹریسی جو کہ میرے گرو ہیں ان سے میں نے بےانتہا سیکھا ہے، ان کے ہاتھوں سے مجھے یہ ایوارڈ ملا تھا یہ میرے لئے بےانتہا خوشی کی بات تھی، اس ایوارڈ نے مجھ میں ایک نئی روح پھونک دی میں مزید ڈیڈیکیٹڈ ہو کر کام کرنے لگا، مجھے اندر سے محسوس ہو رہا تھا کہ میں اس کا حقدار نہیں لیکن اب یہ مل گیا ہے تو مجھے یہ ثابت کرنا ہے کہ میں اس قابل ہوں میں مزید محنت و توجہ کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو پوری کرنے میں لگ گیا، اس کے علاوہ مجھے ایک اور ایوارڈ سنگاپور میں ملا تھا "ٹرینر آف دی ایئر ایوارڈ فار ایشیا” مجھے انٹرنیشنل فیڈریشن آف ٹریڈنگ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے لئے نامزد کیا گیا تھا جو مجھے دیا بھی گیا، اس کی وجہ سے مجھے بہت فائدہ ہوا انٹرنیشل لیول پہ میری ویلیو میں اضافہ ہوا میری pricing بڑھ گئی، بےشک اعزازت اور ایوارڈز وغیرہ کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ ایک ایکسٹرنل فیکٹر ہے، ہمیں خود کو internally strong رکھنا چاہئے یہ تبھی ہوتا ہے جب آپ کے کام کے معیار کو دیکھتے ہوئے اس کے نتائج سے آپ کا کسٹمر مطمئن اور خوش ہو، ، جیسے آج میں pepsico میں تھا جب انھوں نے کہا کہ آپ کی ٹریننگ کے بعد ہمارا engagement score 100 میں سے 96 ہوگیا ہے انھوں نے اس کا پورا کریڈٹ ہمیں دیا انھوں نے کہا یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ممکن ہوا، اس طرح کے تاثراتی جملے انسان کے اندر جوش اور خوشی پیدا کر دیتے ہیں۔
علیزے نجف: اگر آپ کو ایک بار پھر سے اپنی زندگی شروع کرنے کا موقع ملے تو آپ کس پروفیشن میں جانے کا انتخاب کریں گے اور کس پسندیدہ شخصیت کے جیسا بننا چاہیں گے؟
قیصر عباس: یہ بڑا پیچیدہ سوال ہے، جب اپنے اندر اتر کر دیکھتا ہوں تو یہ ٹریننگ، کوچنگ، رائٹنگ جو کہ میری شناخت و تعارف ہیں میرے لئے بہے سکون بخش کام ہے اس کام سے میں روحانی طور پہ جڑا ہوا ہوں، یہ صرف میری خوشی نہیں ہے بلکہ میں دل سے اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ اللہ کی یہ خاص مہربانی ہے کہ آج میں اس شعبے میں ہوں، اگر میں دوبارہ زندگی شروع کروں تو میں ڈاکٹر مارشل گولڈ سمتھ کی طرح بننا چاہوں گا، کیرئر کے آغاز میں میں نے ہر شعبے کے لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے لیکن آج میں صرف سی۔ ای۔ اوز کے ساتھ کام کرتا ہوں، اگر کسی کمپنی کے ہزار لوگوں کو ٹریننگ دینے کے مقابلے میں ہم اس کمپنی کے صرف ایک سی۔ ای۔ او۔ کو ٹریننگ دیں اس کا زیادہ اثر ہوتا ہے کیوں کہ وہ دس ہزار لوگوں کی زندگیوں کو بدل سکتا ہے، میں بہت خوش نصیب ہوں کہ میں اس فیلڈ میں ہوں، اگر ایک اور زندگی ملی تو میں اور دوسرے ایڈونچرز کروں گا، اسی فیلڈ کو مزید ایکسپلور کروں گا۔
علیزے نجف: آپ کا خود کے ساتھ کیسا تعلق ہے خود کے ساتھ وقت گزارنے کو آپ کتنا انجوائے کرتے ہیں اور اس دوران آپ کن مشغلوں کو اختیار کرتے ہیں؟
قیصر عباس: ہاں میں اپنے ساتھ بہت وقت گزارتا ہوں، ابھی بھی میں اپنے ساتھ ہوں، میں خود کے ساتھ خوب وقت گزارتا ہوں اور انجوائے کرتا ہوں، میں اکثر سفر میں ہوتا ہوں تو بھی میں اکیلا ہوتا ہوں ہوٹل میں ٹھہرتا ہوں تو بھی میں اکیلا خود کے ساتھ ہوتا ہوں، مجھے کسی کی کمی محسوس نہیں ہوتی، جب میں لوگوں کو ٹریننگ دے رہا ہوتا ہوں تو ان سے بہت اچھی طرح سے جڑ جاتا ہوں پھر جب میں ٹریننگ ہال سے نکلتا ہوں تو پھر سے میں خود کے ساتھ ہوتا ہوں، اب سوال یہ ہے کہ جب میں تنہا ہوتا ہوں تو کیا کرتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے میں نے بہت لکھا ہے اور ہاں پڑھتا بھی ہوں کچھ سال پہلے تک ایسا ہوتا رہا ہے کہ میں کسی ہوٹل میں چھ دن کے لیے ٹھہرا ہوں تو میں وہاں سے تبھی نکلا ہوں جب مجھے ایئرپورٹ جانا ہوا اس سے پہلے میں نے چھ دن کا پورا ٹائم ہوٹل میں ہی گزارا ہے، لیکن اب میں نے اپنی یہ عادت بدل دی ہے میں جہاں جاتا ہوں وہاں کی لوکیشن کی سیر کرتا ہوں خاص طور سے نیچر کی جگہوں پہ جانا پسند کرتا ہوں جیسے پہاڑ وغیرہ ۔ اگر مجھے میرا اپنا پسندیدہ دوست جیسے عارف انیس ، سبطین وغیرہ مل جائیں تو پھر میں اکیلے رہنے کے بجائے ان کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دیتا ہوں خواہ میں کتنا ہی کیوں نہ تھکا ہوں ان کے ساتھ وقت گزارنے سے مجھے دلی خوشی ملتی ہے، اسی طرح میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔
علیزے نجف: کھونا اور پانا زندگی کا حصہ ہے آپ نے اپنی زندگی میں ایسا کیا کھویا ہے جس کی تلافی ابھی تک نہیں ہو سکی اور ایسا کیا پایا ہے جو آپ کی بےپناہ جدوجہد کا صلہ بن گیا؟
قیصر عباس: علیزے یہ سوال بہت intense ہے میں اس سوال سے ہل گیا یوں میں نے اپنی زندگی میں کافی کچھ کھویا ہے، میں نے اپنے والدین کو بہت کم عمری میں کھویا مجھے لگتا ہے اس کی تلافی تاعمر ممکن نہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کھویا ہے میرا ماننا ہے کہ اللہ نے مجھے اس سے بہتر چیزیں بھی دی ہیں ، میں نے اب تک جو کچھ پایا ہے اس میں سب سے بڑی نعمت میرے نزدیک میرا بیٹا حسین ہے، جو کہ شادی کے کئی سالوں کے بعد پیدا ہوا تھا، یہ میرے لئے اللہ کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے میں اس میں اپنے والد صاحب کو دیکھتا ہوں کبھی کبھی تو میں اسے بابا بھی کہہ کر بلاتا ہوں۔
علیزے نجف: اگر آپ کو اپنے موجودہ مقام تک پہنچنے کا کریڈٹ کسی کو دینا پڑے تو آپ کسے دیں گے اور کیوں ؟
قیصر عباس: میں اس وقت آج جس مقام پہ کھڑا ہوں اس میں ایک دو نہیں بلکہ کئی لوگوں کا کنٹریبیوشن شامل ہے، سب سے پہلے میرے والدین جنھوں نے کم وسائل کے ہوتے ہوئے بھی وہ سب کچھ میرے لیے کیا جو وہ کر سکتے تھے میرے بڑے بھائی انتظار حسین اگر میں ان کا ذکر نہ کروں تو یہ فہرست ادھوری رہ جائے گی انھوں نے جو کچھ کیا وہ والدین سے بھی بڑھ کر تھا میری تعلیم و تربیت میں ان کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے میرے والد کے ہوتے ہوئے بھی انھوں نے ہمیشہ مجھے سپورٹ کیا ان کے چلے جانے کے بعد انھوں نے میرے لئے بہت قربانیاں دیں، میری پوری فیملی جیسے میری بہن امید بخاری، بھائی ڈاکٹر جواد جعفری وغیرہ کی سرپرستی ہمیشہ مجھے حاصل رہی، فیملی سے باہر میرے عزیز دوست عارف انیس جو کہ میرے لئے استاد اور کوچ کا درجہ رکھتے ہیں ان کا ملنا میری زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ رہا ہے، نسیم ظفر اقبال صاحب جن کی نگرانی میں میں نے اپنی پہلی جاب کا تجربہ کیا انھوں نے میرے اندر موجود صلاحیتوں کو نہ صرف پہچانا بلکہ اسے تراشا بھی اس کے علاوہ میری شریک حیات راشدہ عباس کی رفاقت نے میری زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے میں اہم کردار ادا کیا، غرضیکہ میری زندگی میں ایسے کئی سارے لوگ ہیں جنھوں نے میری شخصیت کو نکھارنے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ان کے بغیر میں اپنی زندگی کو نامکمل تصور کرتا ہوں۔
علیزے نجف: زندگی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے کتنے فیصد قسمت کا ہاتھ ہوتا ہے اور کتنی محنت کا؟
قیصر عباس: علیزے پھر سے آپ نے ایک مشکل سوال پوچھ لیا ۔۔۔۔۔ ! کچھ لوگوں کے نزدیک سب کچھ قسمت ہے اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ محنت سے قسمت بنائی جاتی ہے میرے نزدیک محنت اور قسمت دونوں کا ہماری زندگی میں عمل دخل ہوتا ہے، انسان کو پتہ نہیں کہ اس کی زندگی میں کیا لکھا ہے پتہ نہیں کہ ہماری قسمت میں ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرنا لکھا ہے یا نہیں یا ہماری قسمت میں کوچ بننا ، رائٹر و ایکٹر بننا ہے یا نہیں لیکن جب ہم محنت کرتے ہیں تو ہم بن جاتے ہیں اور یہ لگتا ہے کہ یہ ہماری قسمت میں بھی تھا لیکن کچھ لوگ قسمت کے سہارے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے ہیں یا پھر تھوڑی بہت کوشش کرنے کے بعد جب وہ ناکام ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میری قسمت ہی خراب ہے، پھر وہ شکوہ شکایت کرتے روتے دھوتے زندگی گزارتے رہتے ہیں، میرے خیال میں یہ غلط رویہ ہے انسان کو بھرپور کوشش اور جدوجہد کرنے کے بعد ہی قسمت پہ تکیہ کرنا چاہئے۔
علیزے نجف: آپ کی کامیابی یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر آپ تہیہ کر لیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں کامیابی کسی کی جاگیر نہیں آپ ان لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے جن کے پاس کامیاب ہونے کے لئے کوئی وراثتی فارمولہ یا جاگیر نہیں ؟
قیصر عباس: کیا خوب صورت سوال ہے، بےشک کامیابی کسی کی جاگیر نہیں ہے، کامیابی کا فارمولہ بہت سمپل ہے مجھے وراثت میں دنیاوی لحاظ سے کچھ نہیں ملا اللہ تعہ میرے والد صاحب کو اس کا بہترین اجر دے کہ انھوں نے میری بہترین تربیت کی، انھوں نے اخلاقی اقدار، اچھی سوچ دی جیسے محنت کرنے میں شرم نہیں کرنا، بے ایمانی نہیں کرنا، شارٹ کٹ کے پیچھے نہیں بھاگنا، اپنی کامیابی اور آسانی سب کچھ کو دوسروں سے شیئر کرنا، جیسے قیمتی زندگی کے اصول میرے اندر اس طرح منتقل کر دیے کہ وہ میری شخصیت کا اصل جزو بن گئے، انھوں نے وراثت میں مادی آسائشیں تو نہیں چھوڑیں لیکن ان کی تربیت کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہے کہ الحمدللہ آج میرے پاس وہ سب کچھ ہے جو امیر باپ کے بچوں کے پاس ہوتا ہے، میرے دل میں یہ شدید خواہش اٹھتی ہے کہ کاش میرے والدین بھی ان نعمتوں سے حظ اٹھاتے جو ان کی قربانیوں اور شب و روز کی محنت کے طفیل مجھے حاصل ہوا ۔
کامیابی کا سادہ فارمولہ یہ ہے کہ طئے کر لیں کہ آپ کو کیا چاہئے اور اس کو حاصل کرنے کی قیمت کیا ہو گی اس کو ادا کرنے کے لئے کیا ہم تیار ہیں اکثر لوگ اس لئے ناکام ہو جاتے ہیں کہ وہ کامیابی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس کی قیمت ایڈوانس میں چکانے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں