اقبال حسن آزاد
وہ اماوس کی رات تھی….عام راتوں سے قدرے مختلف۔ہوا بالکل بند تھی۔آسمان میں ستارے مدھم مدھم دکھائی دے رہے تھے۔چاروں طرف ایک پُر ہول سناٹا….دل کو دہلا دینے والا سناٹا پھیلا ہوا تھا۔اس سناٹے سے اسے وحشت معلوم ہونے لگی۔اسے لگا جیسے فضا پر محیط یہ سناٹا دھیرے دھیرے اس کے وجود کو چاروں طرف سے کسی کیکٹس کی طرح جکڑتا جا رہا ہو ۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس وقت بھی نہیں جب غربت کے ہاتھوں اسے ماں باپ سے جدا ہونا پڑا تھا۔اس وقت اس کی عمر ہی کیا تھی….یہی کوئی سات آٹھ سال۔اس وقت حالات کی سنگینی کا اسے احساس نہیں ہو سکا تھا ۔مگر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا ،حالات کو سمجھتا گیا اور حالات سے مقابلہ کرنے کے گر سیکھتا گیا۔اس بعد وہ زندگی میں کبھی گھبرایا ….نہ پریشان ہوا ….نہ پشیمان….مگر آج….!
اس نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو جد و جہد کی نذر کر دیا تھا۔اپنی ایک شناخت بنائی تھی اور بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے ماضی کو اپنی ذات سے الگ کر دیا تھا۔اب تو پیچھے مُڑ کر دیکھنے کی خواہش بھی نہیں ہوتی کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں ،مگر آج اسے پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑ رہا ہے۔اس سے پہلے اس کے سامنے کبھی ایسی اُلجھن نہیں آئی تھی۔اس نے آنکھیں موند لیں ۔اسے محسوس ہوا جیسے وہ ایک دوراہے پر کھڑا ہو….کیا کرے….؟ کیسے اس اُلجھن سے نجات حاصل کرے….؟ سوچ کی ایک لکیر اس کے ذہن میں اُبھری اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
اب تک وہ بالکنی میں کھڑا تھا،ریلنگ کے سہارے،تھوڑا آگے جھکا ہوا۔اچانک وہ سیدھا کھڑا ہو گیا اور پھر تھمے تھمے قدموں سے ایک کمرے میں داخل ہو گیا ۔یہ اس کی لائبریری تھی۔اس نے اپنے وجود کو لائبریری کے کونے میں پڑی ہوئی ایک کرسی کے حوالے کیا اور ایک بار پھر آنکھیں موند لیں۔
چند لمحوں کے بعد دروازے پر آہٹ ہوئی۔اس نے چونک کر نگاہیں اُٹھائیں۔سامنے شگفتہ کھڑی تھی۔اس نے شگفتہ کو یوں دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو ۔شادی کے پندرہ برسوں کے بعد بھی وہ ویسی ہی حسین تھی ۔البتہ کمر پر چربی کی ہلکی سی پرت جم گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا بدن مکھن کی طرح ملائم اور چکنا ہو گیا تھا۔
”آج سونا نہیں ہے کیا؟“ شگفتہ کی آنکھیں دعوت دے رہی تھیں ۔وہ جانتا تھا کہ یہ بلاوا بے مطلب نہیں ہے ۔جب کبھی وہ اسے ایسی نظروں سے دیکھتی تو اسے رشوت دیتے ہوئے کسی آدمی کی آنکھیں یاد آ جاتیں….ایسی آنکھیں جن میں بیک وقت خوشامداور لالچ کے ملے جلے جذبات تیرتے نظر آتے۔اسے ایسے لوگ بے حد پسند تھے۔شگفتہ بھی اسے بے حد پسند تھی۔
چلئے،سو جائیے۔کل انٹرویو بھی ہے۔“اس نے جیسے کچھ یاد دلاتے ہوئے کہا۔
”آں….ہاں….!“
”آپ کو یاد ہے نا….؟“اس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا کہ کبھی کبھی آدھے ادھورے جملے وہ کام کر جاتے ہیں جو کئی مکمل جملے نہیں کر پاتے۔اس نے صبح بھی یاد دہانی کرائی تھی۔انہی الفاظ میں۔
”انٹرویو کل ہی ہے نا؟“
”ہاں….کیوں؟“
”حسین خالو کا لڑکا شہاب بھی کنڈیڈیٹ ہے ۔آج ان کا فون آیا تھا۔“
”اس کا تو ہونا ہی ہے۔“
”مگر اس کی کوالیفیکیشن….!“شگفتہ ہچکچا رہی تھی۔
”اس کی سب سے بڑی کوالیفیکیشن یہ ہے میری جان کہ وہ تمہارا بھائی ہے۔“
”پھر بھی….!“شگفتہ کی ہچکچاہٹ بر قرار تھی۔
”سب چلتا ہے یار!اس سرکار میں سب چلتا ہے اور پھر ہوگا وہی جو میں چاہوں گا۔انٹرویو بورڈ کا چیئر مین تو میں ہی ہوں نا۔سب کچھ تو میرے ہاتھ میں ہے ۔“
اس کے لہجے میں تکبر کی جھلک در آئی تھی ۔مگر اس وقت جب شگفتہ نے یہ ذکر چھیڑا تو وہ خاموش رہ گیا ۔اب اسے سب کچھ یاد آ رہا تھا….دربھنگہ کا وہ گاؤں ….بِردی پور ،جہاں ہر سال سیلاب آتا تھا ۔جہاں غربت ،بھوک اور بیماری زندگی کے لازمی جز تھے ۔وہ گاؤں ….اس گاو ¿ں میں اس کا کھپریل کا کچا مکان ….گھر کے سامنے چھوٹی سی مسجد ،جہاں وہ ہر روز فجر کے بعد حافظ صاحب سے پڑھنے جایا کرتا تھا اور حافظ صاحب نے اسے سلام کرنے کا صحیح طریقہ سکھایا تھا….السّلامُ علیکم….اور بتایا تھاکہ عام طور پر لوگ سلام و علیکم کہتے ہیں جو غلط ہے۔اس نے یہ سبق اچھی طرح یاد کر لیا تھا ۔ویسے بھی اسے ہر سبق بآسانی یاد ہو جایا کرتا تھا کہ وہ بہت ذہین تھا مگر غربت اس کی ذہانت کو کسی دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
اور پھر ایک دن عجیب اتفاق ہوا۔اس کے جھونپڑی نما مکان میں سوٹ بوٹ پہنے ایک شخص آیا ۔اس کے بیمار باپ نے بستر سے اُٹھ کر اس کا خیر مقدم کیا تھا اور اس کی ماں کے مرجھائے ہوئے چہرے پر حیرت اور مسرت کے ملے جلے اثرات نمایاں ہو گئے تھے۔اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کے رشتے کے ماموں لگتے ہیں….رشید ماموں،جو کلکتہ میں رہتے ہیں اور عرصہ بعد گاو ¿ں آئے ہیں۔کچھ زمینوں کا معاملہ تھا ۔اس نے ماموں جان کو ادب کے ساتھ سلام کیا۔
”السّلامُ علیکم۔“رشید ماموں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دی تھیں ۔وہ تقریباً ایک ہفتہ وہاں رہے تھے ۔پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ اسے اپنے ساتھ کلکتہ لے جانا چاہتے ہیں جہاں وہ اس کا داخلہ کسی اچھے اسکول میں کروا دیں گے۔سات سال کی عمر کے لڑکے کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اس خبر سے اسے خوش ہونا چاہئے یا اُداس؟ ایک طرف بڑے شہر کی رنگینیاں تھیں ….ایک اچھے اور بہتر مستقبل کا اشاریہ تھا اور دوسری جانب ماں باپ تھے….گاو ¿ں تھا….مسجد تھی….مولوی صاحب تھے ۔مگر ایک روشن مستقبل کے لیے تاریک ماضی سے پیچھا چھڑانا ہی پڑتا ہے اور وہ رشید ماموں کے ساتھ کلکتہ چلا آیا تھا۔ہاو ¿ڑہ اسٹیشن سے لے کر پارک اسٹریٹ تک روشنی سے جگمگاتی ہوئی سڑک پر رواں ٹیکسی میں بیٹھا وہ یوں محسوس کر رہا تھا گویا کسی جادو کے دیس میں آ گیا ہو۔رشید ماموں کے تین بچے تھے۔ساجد،جو اس سے لگ بھگ دو سال بڑا تھا ۔راشدہ جو اس سے کچھ چھوٹی رہی ہوگی اور ننھا ماجد جو ابھی صرف دو سال کا تھا ۔اس کی ممانی جان بھرے بھرے بدن کی خوب گوری عورت تھیں جو ہر وقت یوں بنی ٹھنی رہتیں گویا کسی پارٹی میں جا رہی ہوں۔اسے لگا جیسے اس کا استقبال ٹھیک ہی طرح سے کیا گیا ہے۔
دو تین دن یونہی گزر گئے۔اسے معلوم ہوا کہ ساجد ڈان باسکو اسکول میں پڑھتا ہے اور راشدہ سینٹ لوریٹو میں۔رشید ماموں کسی فرم میں منیجر تھے اور امریکہ جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ساجد اور راشدہ صبح سات بجے اسکول کے لیے نکل جاتے تھے۔ساجد کہتا۔
”ذرا میرے جوتے تو لانا۔“
راشدہ کہتی۔
”ذرا میرا بیگ تو دینا۔“اور وہ ہنسی خوشی گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا۔دھیرے دھیرے اس سے سودا سلف منگوانے کا کام بھی لیا جانے لگا۔وہ ایک نئے پُرزے کی طرح اس بڑی مشین میں فٹ ہو گیا تھا۔اسکول میں نام لکھانے کی بات تو کسی نے کی ہی نہیں۔روز شام کے وقت ایک ماسٹر صاحب دونوں بچوں کو پڑھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ایک دن وہ آئے تو اسے چائے لے کر ان کے پاس بھیجا گیا۔اس نے ماسٹر صاحب کو سلام کیا۔
”السّلامُ علیکم۔“ماسٹر صاحب نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور دھیرے سے سلام کا جواب دیا۔جب وہ دروازے سے نکل رہا تھا تو اس کے کانوں میں ماسٹر صاحب کا سوال گونجا۔
”کون ہے یہ؟“
”نوکر ہے۔“ ساجد نے دبی زبان میں جواب دیا۔
”نہیں….نوکر نہیں ہے۔“راشدہ نے دھیمی آواز میں کہا۔ماسٹر صاحب خاموش رہ گئے۔گویا وہ پوری بات سمجھ گئے ہوںمگر اسے لگا جیسے ساجد کا جملہ اس کے جسم میں اُترتا جا رہا ہواور اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگتے چلے گئے۔
چھ مہینے یونہی گزر گئے۔پھر اچانک اسے معلوم ہوا کہ رشید ماموں کا ویزا آ گیا ہے اور سبھی لوگ جلد ہی امریکہ چلے جائیں گے۔جب ماسٹر صاحب کو اس کی خبر ملی تو انہوں نے رشید صاحب سے پوچھاتھا۔
”نسیم کا کیا ہوگا؟”
”اسے واپس بھیج دیں گے….بِردی پور۔“
”اگر آپ بُرا نہ مانیں تو ایک بات کہوں؟“
”کہیے۔“
اسے میرے پاس رہنے دیجئے۔“رشید صاحب کچھ سوچنے لگے۔پھر بولے۔
”ٹھیک ہے،میں خط لکھ کر اس کے والد سے دریافت کر لوں۔
اور اس طرح رشید صاحب کے جانے کے بعد وہ ماسٹر صاحب کے ایک کمرے کے مکان میں آ گیا۔ماسٹر صاحب بہار شریف کے رہنے والے تھے اور یہاں رہ کر مختلف جگہوں پر ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ماسٹر صاحب کے ساتھ ان کی بیوی تھیں اور ایک سال کا سومو ۔ماسٹر صاحب کی بیوی کو اس نے آپا کہہ کر پکارنا شروع کیا ۔پھر جلد ہی اس کا داخلہ ایک اسکول میں ہو گیا اور وہ ماسٹر صاحب کے گھر کا ایک فرد بن کر ان کے ساتھ رہنے لگا۔ذہین اور محنتی تو وہ تھا ہی ،ہر سال فرسٹ آتا گیا ۔اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو کالج میں داخل ہوا اور انگریزی آنرس میں فرسٹ کلاس حاصل کر کے گویااس نے ماسٹر صاحب کے خوابوں کی تجسیم کر دی۔
اس پورے عرصے میں وہ دو بار بردی پور گیا۔ایک بار اپنے والد کے انتقال پر اور دوسری بار اپنی والدہ کے انتقال پر۔پھر ایک سال یہ سننے میں آیا کہ سیلاب میں اس کی بند پڑی جھونپڑی بہہ گئی۔اس کے بعد پھر وہ وہاں کبھی نہیں گیا۔
بی اے کرنے کے بعد ماسٹر صاحب کے مشورے پر اس نے مقابلے کا امتحان دیا اور پہلی ہی بار میں کامیابی اس کے ہاتھ آ گئی۔اس کے افسر بنتے ہی پتہ نہیں کہاں کہاں سے اس کے رشتہ دار پیدا ہونے لگے۔لوگوں نے یہ بھی معلوم کر لیا کہ اس کے والد کون تھے اور کہاں کے رہنے والے تھے۔لوگ اس کے سامنے اس کے والد کی اعلیٰ نسبی کی بات کرنے لگے تھے۔کیا ہوا اگر وہ غریب تھے،تھے تو اچھے خاندان کے ۔اس کے لیے یہ سب عجیب سا تھا۔پھر اسے اپنی پہلی پوسٹنگ یاد آئی۔جب اس نے جوائن کیا تو اس کی ملاقات سب سے پہلے سنہا سے ہوئی تھی۔وہ اس سے سینیئر تھا ۔بڑی اپنائیت سے پیش آیا تھا ۔وہاں اس کا کوئی شناسا بھی نہیں تھا ۔سنہا کے ساتھ ہی وہ ٹھہر گیا تھا۔بنگلہ تو اسے بعد میں ملا۔سنہا سے دوستی جاری رہی۔اس سے ملنے سے قبل اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ ذاتی مفاد کس طرح حاصل کیا جا تا ہے۔بس اس کے لیے تھوڑی سی لچک اور بے شرمی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ اوصاف اس کے اندر نہ تھے۔سنہا نے اسے بتایا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔پہلے تو اس نے یہ سبق سیکھنے سے ہی انکار کر دیا کہ پرانی اخلاقیات اور اصول آڑے آ رہے تھے۔ان سب کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کے لائق وہ تھا ہی نہیں مگر سلام صاحب اے ڈی ایم کی لڑکی شگفتہ سے شادی ہوتے ہی اسے سنہا کا پڑھایا ہوا سبق یاد آتا گیا۔تھوڑی سی ہچک،تھوڑے سے تذبذب،کچھ کشمکش اور قدرے تامل کے بعد وہ اس میدان کا منجھا ہوا کھلاڑی بن گیا۔جب کبھی الکشن سر پر آتا ،ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے لیے آپا دھاپی مچ جاتی ۔ایسے میں وہ ہمیشہ اقتدار کی کرسی کے ساتھ رہا کہ اس کے سسر نے اسے یہی سکھایا تھا ،پوسٹنگ،ٹرانسفر،ترقی….اور ترقی….اور اس فارمولے میں سے ماسٹر صاحب یوں خاموشی سے باہر نکل گئے گویا وہ کبھی وہاں تھے ہی نہیں۔اب اس کی لا محدود آمدنی اور سسر کے اثر و رسوخ نے اسے سماج میں وہ مقام عطا کر دیا تھا جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ۔شگفتہ سے شادی کے بعد جیسے وہ ایک ہی چھلانگ میں سماج کے اعلیٰ طبقے میں شامل ہو گیا تھا۔اگر اس کی شادی شگفتہ سے نہ ہوئی ہوتی تو شاید وہ اتنی جلدی کامیابی کی سیڑھیاں نہیں چڑھ پاتا ۔مگر جوں جوں اس کا دھن بڑھتا گیا،توں توں اس کا من چھوٹا ہوتا گیا….اتنا چھوٹا کہ اس میں اس کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی اور سما ہی نہیں سکتا تھا۔
پندرہ سال یونہی گزر گئے۔طارق اور شارق دہرا دون میں پڑھ رہے تھے ۔یسریٰ سات سال کی تھی اور یہیں پٹنہ میں سینٹ جوزف میں پڑھ رہی تھی۔
وہ اپنے چیمبر میں بیٹھا تھا ۔چیمبر کے باہر کانسے کی نیم پلیٹ لگی تھی ….نسیم احمد….چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر….!
دروازے پر کچھ آہٹ ہوئی۔چپراسی کھڑا تھا۔
”کیا ہے؟“
”سر ! کوئی لڑکا ہے ….آپ سے ملنا چاہتا ہے۔“کہتے ہوئے اس نے کاغذ کا ایک پُرزہ اس کی جانب بڑھا دیا ۔کاغذ پر لکھا تھا۔
”محمد سمیع عالم“
اس نے سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔کہاں کہاں سے چلے آتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کا افسر ہے ،کام ہو جائے گا۔پڑھنے لکھنے،محنت کرنے سے جی چراتے ہیں۔صرف پیروی اور سفارش سے کام نکالنا جانتے ہیں….ہونہہ….!
”کیا بولوں سر؟“چپراسی ابھی تک کھڑا تھا۔چند ثانیوں تک وہ کچھ سوچتا رہا پھر دھیرے سے بولا۔
”بلا لاو ؟۔“
ایک دبلا پتلا سا نوجوان اندر آیا۔
”السّلامُ علیکم۔“وہ چونک پڑا۔
”مجھے پہچانا بھیا؟ میں ہوں سومو۔“وہ چونک کر سیدھا بیٹھ گیا۔یہ سومو ہے….ماسٹر صاحب کا لڑکا….وہی سومو جسے وہ گود میں کھلایا کرتا تھا۔پھر وہ جیسے خواب سے چونک پڑا۔
”بیٹھو،بیٹھو۔“سومو بیٹھ گیا۔
”کب آئے؟“
”آج ہی۔“سومو نے مختصر سا جواب دیا ۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ گفتگو کہاں سے شروع کرے ۔پھر جیسے کوئی سرا اس کے ہاتھ آ گیا تھا۔
”ماسٹر صاحب کیسے ہیں؟“سومو ایک لمحے کو چپ رہا ،پھر دھیرے سے بولا۔
”ابا کا تو انتقال ہو گیا۔“
”اوہ….!“اس کے منہ سے تاسف بھرا لفظ نکلا۔دونوں چند ثانیوں تک چپ رہے۔
”یہاں کیسے آنا ہوا؟“
”انٹرویو دینے آیا تھا ۔یہاں آ کر معلوم ہوا کہ آپ ہی….“سومو کی بات سن کر وہ پورے بدن سے جھنجھنا اُٹھا۔شگفتہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔چلتے وقت اس نے پھر یاد دہانی کرائی تھی۔
”شہاب کے بارے میں سبھی ممبروں کو بتا دیجئے گا۔“
اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ ایک دوراہے پر کھڑا ہو۔اس سے پہلے کبھی ایسی اُلجھن اس کے سامنے نہیں آئی تھی۔اسے لگا جیسے سومو کی جگہ وہ بیٹھا ہے۔ایک غریب،بے سہارا یتیم لڑکا….قسمت کا دروازہ کھلنے کے انتظار میں۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے؟ پھر اس نے گھنٹی بجائی ۔چپراسی نے اندر جھانکا۔
”چائے لاو ¿….اور کچھ کھانے کو بھی۔“چپراسی چلا گیا۔
”آپا کیسی ہیں؟“
”بیمار رہتی ہیں۔ بہت کمزور ہو گئی ہیں۔“
”کہاں ہیں؟“
”بہار شریف میں….ہم لوگوں نے کلکتہ چھوڑ دیا ہے ۔“
”یہاں کہاں ٹھرے ہو؟“
”ایک دوست کے یہاں….محیب لاج میں۔“ پھر چائے آنے سے قبل سومو نے اسے اپنے سرٹیفیکس دکھائے تھے۔اسے لگا جیسے سومو اس پوسٹ کے لیے موزوں ترین امیدوار ہے۔پھر سومو نے پوچھا تھا۔
”سنا ہے صرف ایک ہی پوسٹ ہے۔“ اس کے جواب دینے سے قبل ہی چائے آ گئی تھی اور سومو کا سوال بیچ ہی میں رہ گیا تھا۔چائے پی چکنے کے بعد اس نے سومو سے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے….کل انٹرویو میں آ جانا۔“اسے کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے وقت درکار تھا۔سومو چلا گیا۔
اماوس کی کالی رات اپنا جال پورے طور پر پھیلا چکی تھی۔وہ اب تک کرسی پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔اس کے سامنے ایک ان دیکھا ترازو تھا۔ایک پلڑے پر ماسٹر صاحب تھے،آپا تھیں،سومو تھااور دوسرے پلڑے پر شگفتہ۔کبھی دونوں پلڑے بالکل برابر ہو جاتے ….پھر کبھی ایک پلڑا جھک جاتاکبھی دوسرا۔وہ خلا میں آنکھیں گاڑے بیٹھا رہا۔دروازے پر پھر آہٹ ہوئی۔شگفتہ پھر چلی آئی تھی۔اس نے شگفتہ کو بغور دیکھا۔
کمر کو چھوتے لمبے گھنے بال
بڑی بڑی ہرنی سی آنکھیں
ستواں ناک
بھرے بھرے رسیلے ہونٹ اور سلیو لیس نائٹی سے جھانکتے دودھیا رنگ گول گول دست و بازو۔
اسے اس طرح پریشان دیکھ کر وہ اس کے قریب آ گئی اور اس کے سر کو اپنی گود میں لے کر دھیرے دھیرے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔اسے لگا جیسے وہ مکھن میں سماتا جا رہا ہو۔اسے بڑا سکون محسوس ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ،غیر محسوس طریقے سے ماسٹر صاحب،آپا اور سومو ترازو کے ایک پلڑے سے غائب ہوتے چلے گئے اور دوسرا پلڑا جس پر شگفتہ تھی….صرف شگفتہ….جھکتا چلا گیا…. جھکتا چلا گیا۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں