انتخاب حمید
استعارہ سازی پروین کی شعری تخلیقات کا ایک خاص وصف ہے جو ہم عصر اردو شاعری میں نہ صرف ان کی شناخت قائم کرتا ہے بلکہ شعری حُسن و جمال کے تناظر میں انہیں متمائز بھی کرتا ہے۔ علائم و استعارات کا برملا تصرف یہ واضح کرتا ہے کہ وہ انہیں کے توسط سے سوچتی ہیں، اوریہی ان کا وسیلۂ ادراک بھی ہیں۔ عہد رواں کے منفی مسائل و میلانات ہوں، خود غرضی، خود ارتکازی، ریا کاری یا آمرانہ رویے ہوں، درون و بیرون کے تصادمات ہوں یا پھر خالص داخلیت پر مبنی، حساس ترین واردات قلبی ہوں، پروین کا استعاراتی رویہ ان کی مہیں و ملائم، نسوانیت آمیز تخلیقی انفرادیت کی تصدیق کرتا ہے۔ ان کے شعری پیکر، علامتیں اوراستعارے زربافتہ و بلند آہنگ، کرخت و کھردرے یا کشیدہ نوعیت کے نہیں ہیں۔ کہیں کوئی تصنع یا گرافٹنگ نظر نہیں آتی۔اپنے تفاعل اورتاثر میں نہایت نیچرل ہیں، بادِ صباء کی طرح، فرحت بخش ،نغمہ ریز۔ ان کا صوتی آہنگ سرسبز و شاداب وادیوں میں گونجتی ہوئی سنتور کی آوازکی طرح محسوس ہوتا ہے ،جوآہستہ آہستہ ذہن و دل میں سرایت کرتی چلی جاتی ہے،قرأتوں میں حزن آگیں مٹھاس گھولتی چلی جاتی ہے۔ یہ پیکر و استعارے سحر طراز بھی ہیں اورتفکر آمیز بھی۔ ان کی چاروں کوفی ٹیبل کتابوں کے عنوانات :’’کرچیاں‘‘،’’نہال دل پر سحاب جیسے‘‘، ’’چند سیپیاں سمندروں سے‘‘،اورزیر مطالعہ ’’بے کرانیاں‘‘ معنوی تکثیریت اورحسنِ کمال کے مظہر استعارے ہیں۔ علامتوں اوراستعاروں کی داخلی در و بست ، ان کی ترتیب و تہذیب، ان کی نفیس و مخملی یافت اوران کی ملاحت و ملائمت جمالیاتی معیار کے توسط سے اردو شاعری میں اپنا ایک مقام درج کرواتی ہیں تو دوسری طرف پروین کے تخلیقی مؤقف کی طرف ایک معنی خیز اشارہ ہے کہ سمندر کے جبر و قہر سے نڈھال، تیز و تند موجوں کے شدید بہاؤ کے ساتھ کسی دور افتادہ، سنسان جزیرے سے جالگنا اورپھر وہاں لمحات کی سیپیوں کو تلاش کرنا، خصوصاً اُن سیپیوں کو جن میں نایاب موتی چھپے ہوئے ہوں، پروین کے شعری عمل کے مصداق ہے۔
’’بے کرانیاں‘‘ کا پیش لفظ ’’نہاں پھر بھی‘‘ پروین کے اِس شعری عمل ،ان کے تخلیقی مؤقف اوران کی تخلیقات کی genesis کی سمت اشارے فراہم کرتاہے۔ ’’بے سمت منزلوں کی طرف دوڑتی ہوئی ناہموار راہیں‘‘، اور ان کی ’بے معنویت شریانوں سے سارا خون نچوڑ ہی ہیں، ’پیچ و خم کھاتے ہوئے بے کراں رستوں کے گورکھ دھندوں ‘میں وجود پے بہ پے معدوم ہوتا جارہا ہے، خارجی بحران دل کے نہاں خانوں میں جہنم دہکائے جارہا ہے۔ زخم ناسور کا بھیانک روپ اختیار کئے جارہے ہیں۔ تشنہ روح اورعالم انسانیت کے گناہوں سے شرم سار ان کی بھیگی بھیگی پلکیں۔ اسی لیے حزن و ملال ان کی نظموں کی زیریں سطح پر معنوی امکانات کی گُل کاریاں کرتا ہے، اسی لئے ’زرد پتوں کے بھٹکنے کی صدا‘ اُنہیں ’سبز پتوں کی گنگناہٹ سے زیادہ دل کش ‘ محسوس ہوتی ہے۔’خشک پتے‘ ان کی تخلیقیت کے ’الاؤ اجاگر‘ کرتے ہیں۔ سوز دروں ایک پُر سوز ساز کی طرح ہے۔ وہ شیلی کی طرح سوچتی ہیں کہ شاعر ایک بلبل کی مانند ہے جو تاریکیوں میں اپنی تنہائیوں کو خوش و خوش رنگ کرنے کے لیے شیریں راگ الاپتا رہتا ہے۔ متن کی ظاہری سطح پر یہ شیرینی اسلوبیاتی تراکیب اوراستعاراتی نظام میں مضمر ہے۔ شعری تخلیق کا جمالیاتی حسن پروین کا بنیادی مؤقف ہے۔ اس ضمن میں ڈون مارکس کا وہ حوالہ خصوصی توجہ کاطالب ہے جسے وہ epigraph کے طور پر استعمال کرتی ہیں اورجس کے لیے ایک صفحہ مختص کیا گیا ہے۔ یہ حوالہ پروین کی شعری جمالیات کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔’’شاعری کی کتاب لکھنا ویسا ہی ہے جیسے گلاب کی ایک پنکھڑی کو گہری وادی میں گرا کر گونج کا انتظار کرنا‘‘۔ پروین کے یہاں شاعری میرے نزدیک زندگی کے آتشیں لمحات سے شبنم کشید کرنے کا عمل ہے۔ اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ پروین کے آتشیں لمحات کوئی بہت بڑے، grand یا عظیم سے متصف نہیں، نہ کوئی دھماکہ خیز صورت حال یا سماجی و سیاسی انقلابات سے معنون ہیں۔یہ لمحہ معمولات ،جو فی نفسہ نہایت غیر معمولی ہیں، سے منکشف ہوتا ہے، روز مرہ کی آگاہیوں کو منتج ہے جو انہیں ہر لحظہ اذیتوں کے تحت الثرا میں ڈھکیلتی رہتی ہیں۔ کہیں یہ لمحہ انحطاط پذیر،degenerating جسم و جاں کے المناک حقائق کی کوکھ سے جنم لیتا ہے تو کہیں سماجی اورثقافتی ناہمواریوں کے پُر خلوص احساس سے۔ کہیں بے رشتگی کا زائدہ ہے تو کہیں احساس تنہائی کا پروردہ۔یہ اذیت ناک لمحہ کبھی پروین کے مفروضات کی شکست اورتوقعات کے ٹوٹ کر بکھرنے سے ہویدا ہوتا ہے تو کبھی حقیقتوں کا سراب کی شکل میں رونما ہونے پر۔درون اوربیرون کے درمیان تضادات ان کے آتشیں عرفان کو شدید تر کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت کے قریب پہنچتے ہی سارے رنگ و رعنایاں واہمہ ثابت ہوتی ہیں اس شعر کے مصداق کہ :
رنگ چھوتے ہی بکھر جاتے ہیں
کیا صداقت ہے تتلیوں کی طرح
اس سیاق میں نظم ’’عارضی‘‘ ملاحظہ کیجئے گا ۔دور فضاء میں جگ مگ کرتے جگنو کو پالینے کی دُھن، پروین جانتی ہیں، ’جیون‘ کو امرت پیالہ تو بنا سکتی ہے لیکن جگنو کے مٹھی میں آتے ہی :
امرت رس بھی دھیرے دھیرے
چھلک چھلک کر گرجاتاہے
جگنو بُجھ کر بس اک کیڑا بن جاتاہے
تشنگی ٔ تکمیل نہ صرف پروین کی نظموں بلکہ ان کے تخلیقی تصورات کا ایک غالب عنصر ہے۔ وہ اس لمحہ کی شدت سے متلاشی ہیں جو انہیں اپنی ذات کی تکمیل بہم پہنچا سکے، اُس فرط انبساط کی تلاش میں ہیں جو سرمایۂ حیات ہے (یا تھا)، جو تغیرات کے اندھیارے جنگلوں میں کہیں گم ہوگیا ہے۔ یا جو سرے سے میسر ہی نہیں آیا۔ عمر عزیز کاایک سنہرا دور اسی حسرت و یاس کی نذر ہوگیا جس کا حُزن آگیں بیانیہ ان کی نظموں کے استعاراتی اسٹرکچر اورترنم خیز تلفیظ کی تہذیب کرتا ہے۔ ’’سول میٹ‘‘ ،’’تکمیل‘‘ ،’’تدفین‘‘، ’’طلسماتی‘‘، ’’عارضی‘‘ انہیں آتشی حسرتوں کا اقرار بھی ہیں اوران کا نغمہ ریز پورٹریٹ بھی۔ محرومیوں کے اس دشت کرب و بلا میں صبح کرنا اورشام کا لاناجوئے شیر لانے سے کسی قدر بھی کم نہیں۔ کچھ حاصل ہے تو لا حاصلی ۔اس احساس کو نظم کرنا۔لا حاصلی کے دہکتے ہوئے احساس (اور تجربہ) کو شبنمی پیکر میں ڈھالنا پروین ہی کا حصّہ ہے ’’طلسمی‘‘ ایک سطح پر فطرت کے حسین عناصر میں ڈھلا ایک انوکھا پیکر ہے جس کی روانی اورنغمگی اپنی مثال آپ ہے تو دوسری طرف وصال و اتصال کا شعری المیہ ہے جسے جینے کی آرزو میں نہ جانے کتنی موتیں درپیش رہیں۔ ’’اوس ‘‘کاکرنوں کو تھام کر جھلملانا ’’محوِ رقص‘‘ اور’’مدہوش ‘‘ ہونا ،تکمیل اورتلاش تکمیل کاوہ فعلی استعارہ ہے جو سماعت اوربصارت دونوں ہی کے لیے جنت ہے۔ جو کیف و سرور کے جہاںآباد کرتا ہے۔ تمام نظم فطرت کی بہت خوبصورت تصویر ہے۔ پروین اپنی نظم کو تصویر میں Visualize کرتی ہیں اورتصویر کو صوت و آہنگ میں وہ تصویر جس کے بھیتر آرزوں اورنارسائیوں کے شعلے ہوں اورچہرے پر دردآگیںشبنمی ٹھنڈک ۔ راقم الحروف نے کہیں لکھا تھاکہ پروین کے رنگ ترنم خیز ہوتے ہیں اورمصرعے رنگ پاش۔ ’’طلسمی‘‘ کا طلسم دیکھئے گا:
’’مخملی رات تھی
وجدمیں تھی فضاء
خامشی کہہ رہی تھی حسیں داستاں
اورخوش کن ہوا
چومتی تھی لبِ نسترن
ریشمی خوشبوؤں سے معطر ،مگن
جھوم کر گارہی تھی اُمنگوں کی دُھن
عارضِ گل پہ تھی موتیوں کی دمک
چاند کے رخ پہ بکھری ہوئی
ابر کی زلف دستِ صبا نے سمیٹی تھی جب
اوس کی چاند سے مل گئی تھیں نگاہیں
فلک سے زمیں پہ اتر کر
وہ شبنم کی بانہوں میں رقصاں تھا اور
اوس کرنوں کو تھامے ہوئے
جھلملاتی ہوئی
کتنی مدہوش تھی !
مگر بقول کسے:ہم اُسے پائیں کہاں، ڈھونڈنے جائیں تو کدھر!
معاصراردو شعراء میں پروین خوش نصیب ترین شاعرہ ہیں جنہیں فنون لطیفہ کے تین اہم ترین ضابطہ ہائے علوم (فنون) ودیعت کئے گئے ہیں:شاعری، مصور ی اورموسیقی ۔اس لیے انہیں اجتماع سعدین سے تعبیر کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔شاعری اورمصوری کا یہ حسین امتزاج، دو مبارک ستاروں کی یہ سمفنی دنیائے اردو میں نایاب اگر نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ سعد سوم،(اگر سعدین کی اصطلاح میں گنجائش ہو) موسیقی، پروین کے کمالِ فن ،صوت و رنگ کے تاثر کو دو آتشہ کرتی ہے:
’’دل کے ایوان میں گنگناتے ہوئے سارے الفاظ جیسے کلیسا میں بجتی ہوئی نقرئی گھنٹیاں‘‘۔
پروین کا سنجیدہ قاری ’’کرچیاں‘‘ سے ’’بے کرانیاں‘‘ تک پہنچتے ہوئے ان کے تخلیقی سفر میں موضوعات اوراسلوب کی سطح پر کچھ نئے احساسات سے دوچار ہوتا ہے۔ زندگی اورموت، وقت کی چیرہ دستیاں، صارفیت کی فریبی روشنیاں، عہد نوکاتصنع، انسانی رشتوں کاابتذال، بے بضاعتی، تنہائی، ماضی کی باز یافت، ’’بے کرانیاں‘‘ کے غالب موضوعات ہیں اوران میں سے بیشتر موضوعات کی تکرار ہے۔ حسن و توانائی کااندوہ ناک انقطاع سوہان روح ہے، موت کی آہٹیں باربار سنائی دیتی ہیں لیکن قابل ذکر یہ بات ہے کہ کہیں خوف فنا کی رمق بھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں تو موت گویا علاج دردِ زندگی ہے۔ نظم ’’قتل برائے رحم‘‘ اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیے گا۔ا س کے برعکس اسی سے منسلک ایک اورنظم بعنوان ’’کہیں ایسا نہ ہوجائے‘‘ہے جو آتش زیر پا لمحات سے قطرہ قطرہ زندگی نچوڑ نے کی ترغیب فراہم کرتی ہے:
نچوڑو وقت کے مہتاب سے قطرے اجالوں کے
یہ تیرہ بخت جاں کا سوکھتا پودہ
دوبارہ لہلہا اٹھے
خودکشی پروین کے یہاں زندگی کے مصائب و آلام کا حل نہیں۔ حالاں کہ خود کشی خالدجاوید کی ’’موت کی کتاب‘‘ کی طرح یہاں بھی اپنا منطقی جواز رکھتی ہے۔ نظم ’’لیکن‘‘ ہڈسن ندی زندگی کی اذیتوں کے انت کے لیے tempt کرتی ہے، لُبھاتی ہے:
لہروں کے ابریشم پہنو
میری شیتل گود میں آؤ
مجھ میں یوں مدغم ہوجاؤ
کلفت کے دھبے دھل جائیں
سارے درد و غم بہہ جائیں
لیکن نظم کا عنوان ہی ’’لیکن‘‘ ہے ۔خالدجاوید کے زخم خوردہ کردار نے خود کشی کو جو کہ ہمزاد کا روپ ہے، جوتے میں پہن رکھا ہے۔ پروین بھی یاس آگیں مسکراہٹ کے ساتھ گذر جاتی ہیں۔ ان کے یہاں ’’حل‘‘ موجود ہے:
تضادوں سے بھری دنیامیں رہنا ہے اگر ہم کو
ادھورے پن کو پھر تکمیل کہہ کر زندگی جی لیں
چلو جینے کا اب یہ راستہ چن لیں!
وقت کے جبر کے سلسلہ میں نظم ’’بذلہ سنجی‘‘ کا ذکر ضرور کیا جانا چاہئے ۔تھامس ہارڈی اورفلپ لارکن کی شاعری کی طرح پروین کی شاعری پر مایوسیوں کے مہیب بادل نہیں چھائے رہتے۔رومانوی طرزاستعارہ سازی اورترنم خیز تلفیظ تہہ نشین رجائیت کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیتی۔اسی نہج پر قاری واضح طور پر شاعرہ کے رویے میں ایک مخصوص ٹہراؤ اوربلوغیت کو محسوس کرتاہے۔ شبنم بیز لسانی انسلاکات کا تسلسل ’’بیکرانیاں‘‘ کا وصف خاص ہے۔ شعری پیکروں کی تشکیل و تزئین اوران کے جمالیاتی تاثر کا یہاں خاص اہتمام ہے۔ پروین کی شاعری طرز فکر و طرز اظہار، دونوں ہی سطحوں پررومانویت سے اٹوٹ وابستگی درشاتی ہے۔ فلابیئر اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ خیال کو آئیڈیا؍ فکر اورآئیڈیا کو رنگوں؍لفظوں میں تحلیل کرنا؍ تبدیل کرنا فنی پائیداری کی سمت ثمر آور اقدام ہیں۔ پروین کی نظموں کے دونوں ہی پہلو، خواہ و داخلی ہو یا خارجی ،ان کا حسن اورتاثر فطرت (نیچر) ہی کی راہ سے جلاپاتے ہیں۔ خارجیت ان کے تخیل، ان کے قلم و مو قلم کو تحرک ضرور فراہم کرتی ہے لیکن خارجیت ان کی داخلیت پرغالب نہیں آتی۔ تاہم ان کی داخلیت اورطرزِ انگیز و اظہار کو خالص رومانویت پر محمول نہیں کیا جاسکتا نہ ہی نیچر یہاں کوئی راہِ فرار کی صورت نظر آتی ہے۔ہمیں ماضی کی سمت مراجعت ضرور نظرآتی ہے اورماضی کی بازیابی کی کاوش بھی۔ بیشتر مقامات پرماضی کے کچھ اس دل کش انداز میں بیانیے ملتے ہیں کہ ماضی پرستی کاگمان ہونے لگتا ہے۔لیکن وہ ماضی پرست ہیں نہ حال سے متنفر۔ دراصل پروین کی سادہ بیانی بڑی پُرکار ہے۔ ماضی ان کے یہاں ایک طرف تو موازناتی فضا خلق کرتا ہے جواخلاقی اورثقافتی بحران کو نشان زد کرتی ہے تو دوسری طرف وقت کے جبر کو۔ اپنے وسیع مفہوم میں یہ طرز اظہار قاری کے لیے فکر و تدبر کے لمحات مہیا کرتا ہے۔ پروین کی نظموں کو خالص رومانوی اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مذکورہ بالا موضوعات جدید شاعری کے سروکار سے منسوب ہیں۔ ’لا تعلقی‘ سے پروین کی شاعری کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ تنہائی کے احساس کی شدتیں، بیگانگی اوربے رشتگی کی اذیتیں ان کی نظموں کی زیریں سطح پر قابل توجہ ڈسکورس خلق کرتی ہیں جو جدید نظم کا خاصہ ہیں۔ جدید اورما بعد جدید تجریدیت اور متشدد ہیتی رویوں کے باوصف پروین ان موضوعات کو اپنے مخصوص انداز میں نظم کرتی ہیں۔’’ٹریڈ مل‘‘، ’’کاغذی‘‘،’’میروآنا‘‘، ’’کینجی‘‘، ’’تدفین‘‘ محذوف جدید پس منظر کو محیط نظمیں ہیں۔ مگر ان کا انداز یکسر مختلف ہے۔ انسانی رشتوں پر ان کی نظمیں مصالحت کوش اوررجائیت آمیز طرز انگیز و اظہار کی مظہر ہیں۔ پروین کی شاعری انسانی رشتوں کے اثبات اورثبات دونوں ہی کی تلاش میں سرگرداں شاعری ہے۔وہ بہت حسّاس اوربیدار مغز شاعرہ ہیں۔ چار دہائیاں کینیڈا اورامریکہ جیسے ممالک میں گذارچکی ہیں ۔ان کا مطالعہ اورمشاہدہ بہت وسیع ہے۔ یہاں کے فنکاروں ،تخلیق کاروں، اور دانشوروں سے راست ربط رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی پینٹگنس کی نمائش ہوتی رہتی ہے۔ کئی انعامات اوراعزازات سے انھیں نوازا جاچکا ہے۔ ظاہر ہے وہ اپنے عصر کی روح سے خوب واقف ہیں۔ مغربی اورمشرقی دونوں دنیاؤں کے مسائل، خصوصاً خواتین کے مسائل سے گہری واقفیت رکھتی ہیں۔ لیکن تخلیقی مؤقف اورطرز ادراک واظہار دونوں ہی سطحوں پرمغرب اورمغربیت کے ریڈیکل رویوں سے اجتناب کرتی ہیں۔ پروین کی شاعری کا سارا حسن ان کی نسوانیت اور نسوانی شعور حیات و کائنات سے اپنی تاب و توانائی حاصل کرتا ہے اوریہی شعور ان کے عملِ ادراک و اظہار میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اپنی نسوانیت اورمشریقیت سے لمحہ بھر بھی گریزاں نظر نہیں آتیں۔ اسی لیے مغربی ریڈیکل تانیثی شاعرات کی طرح وہ Subversive نہیں ہیں، نہ مرد معکوس معاشرہ میں صنفی جبر و استحصال کے تئیں انکا تخلیقی رویہ ریڈیکل اورتخریبی نوعیت کا ہے۔ شدید ترین آگاہیوں کے باوجود پروین اپنی مشریقیت اورنسوانیت پر ریڈیکل تانیثیت کو غالب نہیں ہونے دیتیں۔ نظم ’’چلیں پھر ابر پاروں پر۔۔۔۔۔۔‘‘ دیکھئے گا۔ دم توڑتے ہوئے رشتوں میںنئی روح پھونکنے کی قابل قدر کاوش ہے۔ اس نظم کا لہجہ ،لفظوں کا انتخاب، استعاروں کی ترتیب و تشکیل تخلیق کی بلوغیت اورجذبہ کی صداقت کی تصدیق کرتے ہیں:
نکل کر شعلہ زاروں سے چلیں پھر ابر پاروں پر
یہ بے رنگی جو چھائی ہے اسے رنگ طرب دے دیں
بہت اندوہ گیں ہے زندگی اپنی
چلو ان مضمحل تنہائیوں کے شور سے نکلیں
جو سانسیں جس کے زنداں میں ضائع ہورہی ہیں
اب انہیں تازہ ہوا سے آشنا کردیں۔۔۔۔۔۔۔!
زوال آماد ہ معاشرہ کی آدھی ادھوری سچائیاں اوران کا اندوہ ناک گیان ان کے مذھر لہجہ اورمنفرد استعارتی اسٹرکچر زکی تعمیر و تزئین کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے گا برانگیختگی اور کرختگی شمہ بھر بھی کہیں نظر نہیں آتیـ:
وقت کے بے کراں غار میں
ہیں ازل سے بھٹکے بدن
ہے بھرم
بس یہی ہے مکمل کہ اب
کچھ نہیں ہے، کہیں کچھ نہیں
۔۔۔۔یہ اندھیروں کی خوگر نگاہیں
صرف پرچھائیاں ہی حقیقت ہیں بس!
استفسار، تحیراورتجسس ’’بے کرانیاں‘‘ کی نظموں کے اہم عناصر ہیں جوکبھی ’’جگ سا پزل‘‘ کی شکل میں رونما ہوتے ہیں یاپھر ’’آخری موڑ‘‘ کی صورت ۔ اس مجموعہ میں آج کے انسان کے ژولیدگی تو ہے لیکن تخلیقی سطح پر ژولیدگیٔ تصور نہیں ۔مہین احساسات اورمخلص جذبات کی حامل یہ نظمیں نظریاتی مباحث چھیڑتی ہیں نہ ہی اُن تھیوریٹیکل مبادیات سے کوئی تعلق درج کرواتی ہیں۔ جو آج کے ادب اور ادبیات کا اہم باب ہیں۔ یہ نظمیں بڑی مؤثر اورengaging نظمیں ہیں ،نظم کی روانی،اس کی موسیقیت ،جذبہ کی صداقت متن کی معنوی پرتیں کھولتی چلی جاتی ہے اورقاری ازخود شریک ہوتا چلاجاتا ہے ۔قاری کی شمولیت متن کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ خالص داخلیت یا پھر شدید احساس ذات پر مبنی نظم ’’سوال‘‘ میں استعاروںاور پیکروں کی کرشمہ سازیاں توجہ کی متقاضی ہیں:
ایک تنہا، لا تحفظ سا وہ قطرہ
ان گنت ہیئت بدلنے کی اذیت پا چکا ہے
پھر گرا ہے نرم و نازک بوند بن کر کیکٹس پر
برف زاروں میں کبھی یہ منجمد پتھر بنا ہے
خشک ٹہنی پر خیالوں میں الجھتا
تھک کے بیٹھا ہے وہ قطرہ
پوچھتا ہے
کب تلک آزاریوں کا یہ تسلسل؟
شعلگی، یخ بستگی کی یہ اذیت اورکب تک؟
کس طرح آؤں،سما جاؤں تری پہنائیوں میں؟
یہ مختصر سی نظم بیک وقت بہت سی سمتوں میں محوِ سفر ہے، قابل ذکر معنوی امکانات اورانسلاکات کے ابعاد ہیں۔ قالو بلا سے لمحہ آخر تک،آتما،پرماتما کے انضمام، من و تو کے فاصلوں ،زندگی کے ناگزاریوں dead end ، اوراپنی پہچان کی اذیتوں کو نظم محیط ہے۔ ’کیکٹس پر نرم و نازک بوند‘ کرب و اذیت کی اعلیٰ ترین امیج ہے۔ فطرت (Nature)سے مستعار استعارے اس کی تہہ داریوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ نیچر اورپروین کی شاعری میں ایک اٹوٹ نسوانی بندھن ہے بلکہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ نیچر پروین کی شاعری کا جزو لاینفک ہے۔
سوچ کے لاکھوں پرندے اڑرہے ہیں
آسماں در آسماں
کا ش ہونے اورنہ ہونے
کا یہ اب اسرار پالیں۔۔۔۔!
پروین کی ایک غیرمطبوعہ نظم ’’ملبوساتی رقص‘‘ بڑی پُرکار اورفریب کار جمالیاتی پیکر ہے۔بظاہر یہ نظم ایک ثقافتی معمول سے متعلق ہے۔ مرد و خواتین زرق برق لباس زیب تن کئے ایک جشن میں شامل ہوتے ہیں۔ سبھی کے چہروں پر مکھوٹے(mask)لگے ہوتے ہیں۔ اپنی شناخت چھپائے رکھنے کے لئے تاکہ وہ جس کے ساتھ چاہیں رقص کرسکیں۔ دیوانہ وار رقص ،تمام قیود و ضوابط سے آزاد رقص۔ ملبوسات، رقص اورماسک تہہ دار استعارے ہیں۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی اس ثقافت کی چکاچوند اعلیٰ اقدار کے تئیں اس کی بے نیازی، اس کی بے ضمیری شاعرہ کی نفیس مگر شدید حساسیت پر ایک ضرب کاری ہے لیکن بیانیہ کی نغمگی اورشاعرہ کا رویہ دیدنی ہے، نہایت controled اورمتوازن ،لہجہ میںکوئی سختی ہے نہ تلفیظ میں۔ subtlety ،آئرنی اورلطافت اس نظم کے بنیادی اوصاف ہیں۔ مکھوٹوں کا استعمال کا سبب شرم و حیا قطعی نہیں، کیونکہ و ہ جانتے ہیں کہ وہ سب چمک دار پروں والے ایک ہی نوعیت کے پرندے ہیں۔بنیادی مقصد تو جنسی تلذذ کا حصول اوراس کا جشن ہے۔ اپنے اعلیٰ مفہوم میں یہ نظم حرص و ہوس کے اسیر معاشرہ کا المناک بیان ہے کہ یہ معاشرہ اوصاف حمیدہ اورروحانیت ،تقدس اورابدیت کے تصورات سے محروم معاشرہ ہے، جہاں بقول بشر نواز:
تن سے حقیقتوں کی قبا لے گئی ہوا
نظم کا موضوع خواہ کچھ بھی ہو۔ خالص داخلیت کی مظہر ہوکہ خارجیت سے منسوب، پروین اپنی نظم کی فضا کچھ اس نفاست سے خلق کرتی ہیں کہ قاری اس کے سحر میں کھو سا جاتا ہے۔ ہر لفظی پیکر نرم و نازک احساسات کے در وَ اکرتا چلا جاتا ہے ،تعقل ،تشکیک و تردداس کی خود سپردگی کی راہ میں رخنے نہیں پیدا کرتے۔وہ ایک انوکھے احساس کے بہاؤ میں بہتاچلا جاتاہے اورکہیں کہیں ان مقامات پرٹیس بھی محسوس کرتا ہے جنہیں وہ نظم میں نشان زد کرتی ہیں جو کہیں تو نظم کا محرک ہوتے ہیں تو کہیں شبنمی پیکر میں ڈھلا مقصودِ نظر۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں