ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی
شعبہ اردو، پٹنہ یونیورسٹی
جدید اردوناول نگاروں میں حسین الحق ایک اہم نام ہے مگر انہوں نے افسانے پر زیادہ توجہ دی اس لئے ان کے ناول کم اور طویل وقفے کے بعد آئے۔حسین الحق نے کل تین ناول لکھے ہیں۔ پہلے ناول ’’بولومت چپ رہو‘‘ (۱۹۹۰)کا موضوع پرائمری ومڈل اسکول کی تعلیم اور سکنڈری لیول پر ایجوکیشن افسر کی نوکر شاہی ہے جس میں اسکول لیول پر بہار میں تعلیمی بدنظمی اور تعفن زدہ تعلیمی نظام کو اکسپوز کیا گیا ہے۔ دوسرا ناول ’’فرات‘‘ (۱۹۹۲)نئی زندگی اور نئی Sensibility کا اچھا ناول ہے جس میں ہم عصر ہندوستان کی تہذیب کے مختلف رنگوں اور ان کے ٹکراؤ کو سلیقے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
’’فرات ‘‘ایک کرداری ناول ہے جس میں مصنف نے تین نسلوں کی زندگی سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ پہلی نسل وقار احمد کے والد کی ہے دوسری وقار احمد کی اور تیسری اُن کے بیٹے فیصل ،تبریز اور بیٹی شبل کی۔ کہانی و قاراحمد کے ذریعہ شروع کی گئی ہے جو شعور کی رو اور فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعہ اپنے بچپن، والد کی زندگی، نظریۂ حیات اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کی تصویر کشی کرتے چلے جاتے ہیں۔ وقار احمد پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے کلیم عاجز جیسے استاذ الاساتذہ کی شاگردی نصیب ہوئی، اردو میں ایم۔ اے کیا اور نوکری مل گئی۔ اپنی انتھک کوششوں سے ترقی کی منزلیں طئے کرتے ہوئے اس اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے کہ انہیں پرانی بستی کا آبائی مسلم محلہ چھوڑنا پڑا۔ وہاں سے نکل کر انہوں نے شہر کی ایک پوش کالونی میں اپنا خوبصورت مکان’’ سہسرام ہاؤس‘‘ بنوایا۔ دوزمانے، دونسلوں اور دو تہذیبوں کا جو تضاد، جھگڑایا Conflictابھر تا ہے وہ اسی پوش کالونی کی دین ہے۔ یہ موڈرن اور سربرآئوردہ لوگوں کی بستی ہے جس کا وقار احمد کے خانقاہی نظام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وقاراحمد تو تقریباً جو ں کے توں ہیں البتہ ان کے لڑکے تبریز اور لڑکی شبل کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ اس بستی کے رنگ میں پوری طرح رنگ کر موڈ ہوگئے ہیں۔ وقاراحمد کی سائیکی کا حصہ واقعات کربلا،شہادت عظمیٰ فرات اور آباو اجداد کا خانقاہی ماحول ہے اس پر مستزاد بچپن سے خانقاہ کے ذریعہ ملی ہوئی ان کی وحدت الو جودی فکر ہے جو جملہ ہم عصراسلامی تحریکات کو بااثر دلیلوں کے ساتھ مسترد کرتی جاتی ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو وقار احمد کو ناسٹلجیائی بنا دیتے ہیں اور ان ہی کے سبب وہ بار بار اپنی جٹر کی طرف مراجعت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
فیصل و قار احمد کے بڑے صاحبزادے ہیں اور باپ کے قریب زیادہ وقت گزارنے کے باعث ان پر بھی باپ دادا کے نظر یات و عقائد کا گہرا اثر ہے مگر پوش کالونی میں رہنے کی وجہ سے وہ بھی بڑی حد تک موڈرن ہوگئے ہیں اور سربرآئوردہ حضرات میں شامل ہونے کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جو قانونی طور پر جرم کی فہرست میں آتا ہے مثلاً اسمگلنگ، کالابازاری اور جمع خوری وغیرہ۔ مگر باپ سے قربت کے باعث جلدہی اپنی بنیاد کی طرف لوٹنے کا انداز ملتا ہے اور ان کے یہاں بھی پرکھوں کے نظریات و عقائد کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا عمل جابجا نظر آتا ہے مگر یہ عمل انہیں چین کی بجائے بے چینی ہی عطا کرتا ہے کیوں کہ ان کی بیوی اور بچے اس راہ میں حائل نظر آتے ہیں۔
’’ موسم کے حساب سے کون سا کپڑا پہنا جائے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بڑی ردوقدح کے بعد دونوں ایک دوسرے کے سامنے کپڑا بدلنے لگے۔ ابھی فیصل روز کی طرح بیوی کے بریزیر کے ہُک لگاہی رہا تھا کہ ثمن اپنے بال نچوڑتی ہوئی آئی مگر نہ فیصل کو کوئی ہچکچاہٹ ہوئی نہ اس کی بیوی کو اور نہ ہی ثمن کے لئے یہ کوئی نئی بات تھی۔ ’’ ممی ممی میں کون سے کپڑے پہنوں ؟‘‘ ثمن نے وارڈ روب کھولتے ہوئے کہا’’ یہ پہن لو‘‘ ممی نے ایک جوڑا منی اسکرٹ اور انڈرویر کا نکال کراسے دیا’’ مگر ممی۔ راکیش بولا تھا کہ آج’’ ملکی کلر‘‘ پہن کر آنا‘‘ ’’ راکیش کون بیٹے‘‘؟ فیصل کے منہ سے بے ساختہ زوردار آوازنکلی۔’’ میرا بوائے فرینڈ ہے پپا‘‘ ثمن نے بڑے ہی سرسری انداز میں جواب دیااور ممی کی طرف مخاطب ہوگئی‘‘ ممی وہ کہتا ہے کہ ملکی کلر میں تم ایک دم اینجل لگتی ہو‘‘ ثمن نے ممی کے گلے میں بانہیں حمائل کرتے ہوئے کہا’’ اچھا بابا یہ لو‘‘ممی نے ملکی کلر کا ایک سلیولیس منی نکال کر دیتے ہوئی کہا اور جب وہ چلی گئی تو ممی فیصل کی طرف مڑی ‘‘ کبھی کبھی آپ کو کیا ہو جاتاہے؟ بچوں سے اتنی سختی کے ساتھ کیوں پیش آنے لگتے ہیں‘‘؟’’ ہاں پتہ نہیں مجھے کبھی کبھی کیا ہو جاتا ہے؟ فیصل کھوئے کھوئے لہجے میں بولااور آپ ہی آپ اس کی نگاہیں اس کمرے کی طرف مڑگئیں جہاں اس کے باباوقار احمد سوئے ہوئے تھے‘‘
فیصل کی پرکھوں سے وابستگی اور بے چینی بالآخر اسے ان پرانے راستوں کی طرف موڑ دیتی ہے جو وقار احمد کا سرمایۂ حیات ہیں۔ یوں’’ کُلُّ شئیِِ یرجع الیٰ اصلہٖ ‘‘ کے مصداق پرانی دنیا کی یاد فیصل کو صدق و صفا کے دروازے پر واپس لاکھڑا کرتی ہے۔
چھوٹے بیٹے تبریز کو اپنے والد سے زیادہ قربت نہیں رہی اس لئے وقار احمد کو وہ ایک فنیٹک، جاہل اوراٹھارہویں صدی کا اوہام پرست بورنگ اولڈ مین سمجھتا ہے، ان کے افکار کونان سنس، بورنگ، پروورٹڈ، ان کی زبان کو ڈیڈ لینگویج، ان کی فطرت کو ہارش ، ان کی کہانیوں کو عیاشی اور ان کے ماضی کو میلی کچیلی داڑھیوں اور گندے پاندانوں کی جنت‘ کا نام دیتا ہے۔ مگر وہی تبریز جب صحیح معنوں میں روشن ضمیری کے معاشر ے میں پہنچتا ہے تو اسے سخت گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ مسز ذوالفقار اور گلشانہ شوقی جیسی عورتیں وہ بدروحیں نظر آتی ہیں جنہیں اپنی مڑی ہوئی ایڑیوں کا احساس ہے اور تب تبریز کا یہ حال ہوتا ہے کہ:
’’وہ اندرہی اندر سڑاندمحسوس کرتا ہے جیسے غلاظت اس کے حلق تک آگئی ہو‘‘
وقار احمد کی صحافی بیٹی شبل کا کردار بھی اسی کشمکش کا شکار ہے ۔ اس کا خیال ہے’’ ہائے ابا میں ابھاگی کیسی جنمی کہ میرے لئے بھیا، بابا کوئی دکھی نہیں اور میںسب کے لئے اندر اندر کٹتی جا رہی ہوں‘‘
یہ موڈرن صحافی شبل و قار احمد اپنی فطرت کی طرف یوں لوٹتی ہے کہ فسادات میں ایک نئی دلہن کے ساتھ خاک و خون کا دریا طئے کرتے ہوئے بہتر(۷۲) جاں نثاروں کی یاد تازہ کردیتی ہے۔
’’اور پھر یوں ہوا کہ بالکل آخری پل میں شبل کے ہاتھ خلا میں بلند ہوئے اور اس نے انگلیوں سے خلا میں ہوا پر لکھا۔۔۔شبل و قاراحمد۔۔۔ پھر اسے کاٹ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔انگلیوں نے دوبارہ حرکت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کے انگلیوں نے لکھا شبل بنت زینب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کچھ پل بعد اس نے ایک اور عجیب حرکت کی۔انگلیوں کے اشارے سے ہوا پر لکھا
اپنا نام اس نے کاٹ دیا اور پھر ہوا کے سینے پر اپنا لکھا جملہ خود پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔بنت زینب!‘‘
ناول بڑی حد تک سوانحی ہے خصوصاً اس کا وہ حصہ جس کا تعلق و قار احمد اور مولوی افتخار احمد سے ہے۔ وقار احمد کی ابتدائی زندگی،تعلیم، مدرسہ، جلسہ جلوس، انعامی مقابلے اورعم زاد سے محبت جیسی باتیں کثرت سے مڈل کلاس مسلم خاندان اور معاشرے میں ملتی ہیں۔ مگر ان کی پیش کش کے لئے جو موثر تکنیک اور اسلوب اختیار کیاگیا ہے وہ اسے منفرد بنا دیتا ہے۔
ناول میں زبان محض اظہاریت کو سہارا دینے کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے ورنہ اصل زور تو اُس واقعے اور خیال اورپھر اس کے بعد کہانی کی بُنت، پیش کش اور اگر کرداری ناول ہے تو کرداروں کی کارکردگی پر ہوتا رہا ہے۔ مگر اس کا رکردگی کا بیان کرنا بھی تو ایک سلیقہ چاہتا ہے جس سے سننے والے اور پڑھنے والے کی دلچسپی بڑھے اور اس پر ناول نگارکی باتوں کا اثر بھی اس طرح پڑے کہ حواس خمسہ متاثر ہوں اور قاری کے اُس ادبی ذوق کی تشفی ہو جواس خاص دور کا ادبی ذوق ہے۔ فرات میں ناول نگارنے اس سلیقے کا بہترین اظہار کیا ہے۔ اظہار کی بے باکی، فکر کی ندرت اور لہجے کا تو ازن حسین الحق کے معاصرین سے بالکل منفرد ہے یہ ناول ایسے متنوع اور خوبصورت اسالیب کا مجموعہ ہے جو شاید پہلی بار ایک ناول میں سموئے گئے ہیں۔ ناول کے ابتدائی ابواب اور بعد کے کچھ حصے شعری اسلوب و آہنگ لئے ہوئے ہیں۔ اظہار کا یہ شعری والہانہ پن کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے اسلوب کی یاد دلاتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباسات دیکھیں۔
’’حئی و قائم ہم سب پر سایہ کئے رہتا اور میں دور دور تک قطار میں کھڑے خوابوںکے سحر میں گرفتار رہتا اور مصر کے پیرامڈس پر چھائی راتوں کے اسرار اور خموشی جیسی اور شانے پر ہاتھ رکھے کوئی قلو پطرہ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل شیمیؔ جیسی ان اندھیری پراسراراور شرابور راتوں میں غرارہ پہنے، بادلوں میں،آسمانوں پر، میرے آنگن کے بیچوں بیچ میرے کوٹھے پر، ہماری چار پائیوں کے درمیاں پھر پھرکرتی چلتی اور جب ایسا ہوتاتو بادل کی گرج اور بڑھ جاتی اور بارش اور تیز ہو جاتی‘‘
’’اقبال ہوسٹل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقار احمد کی امنگوں، حوصلوں، بے تابیوں، بے چینیوں،طمانیتوں، حرارتوں، خیالوں اور خوابوں کا استعارہ ! جہاں شام ہوتے ہی پرندوں کی قطار کی قطار چہچہاتی اور چاروں طرف پھیلے ہوئے درختوں پر شام ایسے اترتی جیسے صفیہ خالہ کی بیٹی دھیرے دھیرے آنکھیں بند کر رہی ہوا ور دور گنگا کے سینے
پر ہولے ہولے سہج سہج ڈولتی اور تیرتی کشتیوں پر مسافر جانے کس سمت جاتے ہوتے اورگنگا کے پانیوںپر دونوں کناروں پر روشن قمقموں کی چھوٹ پڑتی اور شاید اُس کنارے مانجھی الائو سلگاتے اور الائو کے گرد بیٹھ کر ماہیا گاتے اور پانیوں پر تیرتی ایک آواز قرنہا قرن کا سفرطئے کرتی اُس تک پہنچنے کی کوشش کرتی اور پہنچ نہیں پاتی مگر پہنچ جاتی‘‘
دوسری طرف جہاں جہاں مولانا افتخار احمد یا مولانا اشفاق احمد کے مباحث پیش کئے گئے ہیں یا وقار احمد شعور کی رومیںمولانا وقار احمد خطیب بن جاتے ہیں وہاں وہ دانشورانہ پرشکوہ اور جلیل اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے جو ابو الکلام آزاد اور شبلیؔ کا خاصہ رہا ہے۔اسلوب کا یہ رنگ قاری کو صرف متاثر ہی نہیں کرتا مرعوب بھی کرتا ہے۔ یہ دل کا خون کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جملوں کی دروبست اور فقروں کی سحر انگیزی واثر آفرینی کے ساتھ ساتھ روانی و تسلسل یوں ہوتا ہے جیسے سمندر کی تیز لہر اپنے ساتھ کنارے پڑی ساری چیزوں کو بہالے جارہی ہو ۔ ملاحظہ کیجئے:
’’دنیا کسی مجردشئی کا نام نہیں ہے جسے تم اپنے وجود ، احساسات وجذبات تخیلات وافکار اور افعال واعمال سے الگ کوئی شئی قرار دے سکو، اس سلسلے میں صحیح نتیجے تک پہنچنے کے لئے پہلی بات تمہیں یہ سمجھنی ہوگی کہ یہ کائنات جسے تم دنیا کہہ رہے ہو دراصل زمان ومکان نام کے دوعناصر پر مبنی ہے اور بظاہر ایسالگتا ہے کہ مکان زمان پر محیط ہے مگر غور کرو تو پتہ چلے گا کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں یہ زمین و آسمان چاند سورج مختلف سیارے ہماری کہکشاں، نباتات، جمادات، آدمی، جانور، جاندار، بے جان سب ان ہی دو عناصر کے حصار میں قید ہیں اور یہ دو عناصر خود کوئی معنی نہیں رکھتے اگر ان مختلف ذیلی ضمنی عنا صر کو ان سے الگ کردو‘‘
’’آج سے تمہارا نصابی کتابیں پڑھنے کا دورختم ہوا، اب ذات و کائنات کواُن کے ظاہر اور پوشیدہ حقائق واسرار کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرو۔ تاریخ کا نصابی مطالعہ تم نے ترک کیا تو میں نے تمہاری تائید کی کیوں کہ فی زمانہ جب مذہب کی گرفت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے ادب ہی ایک ایسا ذریعہ بچ گیا ہے جس کے
صحیح ادراک کے ذریعہ ہم وسیع ترانسانی ہمدردی کے اُس بنیادی رویئے کی شمع اپنی ذات کے نہاخانوں میں روشن کر سکتے ہیں جس کا روشن کرنا انسانی فلاح اور ذات و کائنات کے حسن کے لئے انتہائی ضروری ہے جس کا روشن کرنا مذہب کا بھی انتہائی اہم مقصد تھا مگر اب جبکہ تمہارے اندر یہ شمع روشن ہو چکی، تمہیں دوبارہ قوموں کے عروج و زوال پر نگاہ کرنی ہوگی مگر یہ تاریخ وہ نہیں ہونی چاہئے جو نصاب کے مطابق پڑھائی جاتی ہے بلکہ اصل تاریخ وہ ہے جو نصابی اور کتابی تاریخ کے بین السطور پوشیدہ رہتی ہے‘‘
اس منطقی استد لالی اور خطیبانہ اسلوب کے علاوہ فرات میں کانونٹ تعلیم یا فتہ تبریز، فیصل، انتظار اور ثمن کی وہ زبان بھی ملتی ہے جو نہ تو اردو ہے اور نہ انگریزی۔ اس طبقے کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی زبان نہیں اردو ہندی اور انگریزی کی کھچڑی ان کی شناخت بن گئی ہے۔حسین الحق کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایسے کرداروں کی زبان سے بالکل وہی کھچڑی زبان استعمال کرائی ہے جو ہونی چاہئے۔ یہاں پر اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ انگریزی بھی عام اور روز مرہ ہوتا کہ انگریزی سے کم واقفیت رکھنے والا عام قاری بھی ناول سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکے۔ اسلوب اور زبان کا متنوع و برمحل استعمال حسین الحق کی زبان پر مکمل قدرت کا ثبوت ہے۔
حسین الحق نے فرات میں اظہار کے ان تمام وسائل سے کام لیا ہے جن سے اسلوب کو منفرد اور فن کو عظیم بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً نثر میں بے ساختگی وبے تکلفی کے ساتھ ساتھ زور اور اثر پیدا کرنے کے لئے خوبصورت تشبیہات اور استعارات استعمال کرتے ہیں جو ازکار رفتہ اور بے محل نہیں ہوتے بلکہ ہماری آس پاس کی زندگی سے لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں حسین الحق کا ذہن مکمل نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ ذہنی اور جذباتی تجربہ بنا کر اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہماری فکر ادھر نہیں منتقل ہو سکتی۔ یہ تشبیہات یا استعارات زیب داستاں کے لئے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ ناول کی داخلی ضرورت بن کر سامنے آتے ہیں جن کے بغیر وہ جذبہ یا احساس قاری تک پہنچ ہی نہیں سکتا جس کو پہنچانا شاید ناول نگار کا مقصد ہے۔ مثلاً:
’’وقار احمد کھاتے جاتے اور تعبیر بی بی انہیں یوں دیکھتی رہتیں جیسے پجارن دیوتا کے چرنوںمیں ارپت کئے شردھا کے پھولوں کو سویکار ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو‘‘’’ سوال کا زہر یلا ناگ ان کے اندر دور دور تک پھنکا ریں مارتا رہا‘‘’’اس رات گنگا ان کے کمرے میں درآئی، انہوں نے بچنے کی بہت کوشش کی مگر
باڑھ آچکی تھی، ناتواں جان سیلاب کا مقابلہ کب کر پائی ہے؟ پانی بڑھتا گیا، وہ اوب چُبھ کرتے رہے مگر بچنے کی کوئی سبیل نہ تھی۔ رات بھر وہ ہہہ ہہہ کرتے طوفانوںمیں ابھرتے ڈوبتے رہے اور ان کے ارد گرد لاشیں گزرتی رہیں۔ اس غزال ختن کی لاش! کلیم الدین لکھی سرائیوی ، عارف حسین گیا وی اور امتیاز احمد کبری کی
لاش! ‘‘
’’ گیند اچھل کر دیوار پر لگی۔ پلاسٹر آف پیرس پر بنی پینٹنگ سے ٹکرائی اور پینٹنگ ایک چھنا کے کے ساتھ زمین پر گری اور چکنا چور ہوگئی پینٹنگ کا عنوان تھا۔ آدمی !!‘
حسین الحق نے ناول کی نثر کو دلکشی اور تاثیر سے ہم آہنگ کرنے کیلئے شعری زبان کے علاوہ خوبصورت اشعار یا مصرعوں سے بھی کام لیا ہے۔ برمحل اشعار یا مصرعے کے استعمال وانتخاب میں مصنف کے ذوق اور صلاحیت کی داد دینی ہوگی کہ اکثر جگہ استعمال کی برجستگی سے اشعار کھل اٹھتے ہیں اس کا ہر ہر لفظ جاگ اٹھتا ہے۔ بہت سے لوگ نثر میں اشعار لاتے ہیں تو اس طرح کے جزئی مناسبت سے کوئی شعر آگیا اور کسی خاص محل میں درج کر دیا گیا لیکن حسین الحق جو شعر درج کرتے ہیں اس کی مناسبت محض جزئی مناسبت نہیں ہوتی بلکہ مضمون کا ایک ٹکڑا بن جاتی ہے گویا خاص اسی محل کے لئے شاعر نے یہ شعر کہا ہے،۔مثلاً
’’جب بھابھی نے بہت ضد کی تو انہوں نے جھلاّ کر کہہ دیا۔
جب اس کا درچھٹا ہے تو پھر کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
تو بیگم تعبیر و قار احمد اُس کے گھر آگئیں‘‘
’’فرات‘‘ کی ایک اہم خوبی جزئیات نگاری میں بھی نظر آتی ہے۔ حسین الحق کی جزئیات نگاری دوسرے ادیبوں سے مختلف ہے۔ اکثر و بیشتر ادیب غیر معمولی اور اہم چیزوں کی تفصیلات پیش کرکے اپنے تصورات کی وضاحت کرتے ہیں جبکہ فرات میں مصنف نے جزئیات کا انتخاب کرتے ہوئے غیر معمولی پر معمولی کو، ضروری پر غیر ضروری کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے ایسی تفصیلات اور کردار وواقعات کے تاثرات پیش کئے ہیں جنہیں دوسرا آدمی غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر سکتا ہے مگر دراصل وہی غیر اہم جزئیات مصنف کے فن میں رنگ بھرتی ہیں اور واقعے کے تاثر کو شدت عطا کرتی ہیں ۔ مثلاً
’’ اُس نے دیکھا، گھر میں زرا بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ سماع خانےکی زمین اب تک اُسی طرح کچی تھی اور اُس میں آدھے پر پلنگ اور ٹوٹی کرسیاں اور آدھے پر نہایت پرانا فرش، درودیوار پر کئی سال پرانی سپیدی کے آثار، جگہ جگہ سے پلستر اکھڑی دیوار، بہت بے ڈھنگے پن سے بنائی گئی الماریاں اور ان الماریوں میں رکھی ہوئی
بے ترتیب کتابیں، سماعخانے کے باہر صحن، صحن کے ایک طرف لمبی سی نالی، نالی میں بجبجاتا کیڑا اور مہکتا پیشاب سامنے پھوپھو کا کمرہ۔ آگے چھوٹی سی چوکی، اس کے بغل میں مسہری، چوک پر بالٹی لوٹااور کھانے کے کچھ برتن، مسہری کے پائینتی میں میلی میلی لحاف، چادر اور اوپر لٹکتی مچھردانی،چھوٹے چھوٹے طاق، اُن میں سے کسی میں کالے نمک کی پُڑیا، کسی میں نمک سلیمانی کی شیشی، کسی میں سات بیبیوں کا قصہ، بتول نامہ، نوحوں اور میلا د کی کتاب،ایک پر پرانی جزدان میں لپٹی قرآن شریف، دیواروں پر خانہ کعبہ، مدینہ منورہ ، بغداد شریف اور اجمیر شریف کے طغرے ، ایک فریم میں براق کی تصویر، ایک میں دلدل اور ایک میں کئی ولیوں کی یک جاتصویر یں۔ مسہری پر فربہ جسم کی ہاتھ میں گھڑی، آنکھ پر چشمہ، بھرمنہ پان کھائے، ٹرانز سٹر سنتی تبریزاحمد کی پھوپھو! ‘‘
جزئیات نگاری کا یہ کمال پیکر تراشی میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ سراپا نگاری ایک مشکل فن ہے مگر فرات میں جس کردار کا بھی سراپا صفحۂ قرطاس پر اتارا گیا ہے مصنف اس کو قاری کے ذہن و دل میں نقش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثلاً ایک مہہ جبیں کا پیکر حسین الحق کے قلم سے ملاحظہ کیجئے۔
’’ مسہر ی پر کوئی سو رہاتھا ۔ دراز قد، گدازبدن، سرخ سپید رنگ، ملائی کے جیسی نرم جلد کہ انگلی چبھو دوتو خون نکل پڑے، لمبے گھنے بال بڑی بڑی آنکھیں، لمبی ناک، نازک نقوش والا کتابی چہرہ، ابھرا ابھرا سینہ دوپٹے سے بے نیاز ، مخروطی انگلیاں، کیلے کے گا بھے سے ملائم ہتھیلیاں، کانوں میں جھومرگلے میں نیکلس،ہاتھوں میں کنگن، پیروں میں چھاگل، ناک کی کیل پھول پر شبنم۔ پورے کمرے میں ایک بجلی سی کوندرہی تھی‘‘
حسین الحق نے ’’ فرات‘‘ میں تخیل کو زندگی اور احساسات کو تاثیر دینے کے لئے ایک اور تکنیک اپنایا ہے جسے’’ تکرار‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے یعنی فقروں، لفظوں اور مترادفات کی ایسی تکرار جس میں صوتی ترنم و تاثر کے علاوہ جذباتی کیفیات کا بھی واضح اظہار ہوتا ہے جیسے:
’’ چہروں ، لفظوں، اشکوں ، مسکراہٹوں ، چاہتوں، نفرتوں، شناسائیوں، اجنبیتوں مروتوں، بے رخیوں، ہنگاموں، ویرانیوں، خفگیوں ، دل لگیوں اور شکستوں کاایک ٹھاٹھیں مارتا طوفان کمرے میں درآتا‘‘
’’ وہ رات بھر طوفانوں سے جو جھتے، صعوبتوں سے ٹکراتے، بربادیوں کا نظارہ کرتے، شکستوں کااعتراف کرتے اور اس پر گا ہے خوش ہولیتے گا ہے رولیتے‘‘
’’ شبیہیں اور پرچھائیاں ابھررہی تھیں۔ بغیر دروازہ کھولے کمرے میں گھُسی چلی آرہی تھیں، ناچ رہی تھیں، گارہی تھیں، رورہی تھیں، بین کررہی تھیں‘‘
اس اسلوب میں بیان کی قطعیت بھی حسن ہے انہوں نے ایسے جملے کثرت سے استعمال کئے ہیں جن میں بات بالکل قطعی اور غیر مذبذب انداز میں کہی گئی ہوتی ہے۔ یہ جملے شک و شبہے سے خالی ہوتے ہیں اور براہ راست مصنف کی ذہنی پختگی اور خود اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے
’’ قومیں خواب کی عادی ہو جاتی ہیں تو صفحہ ہستی سے نسیت ونابود ہو جاتی ہیں‘‘
’’ ہر عورت میں ایک مکار سیاست داں چھپارہتا ہے‘‘
’’ ہر طاقتور ہر کمزور کو مار رہا ہے‘‘
’’ اگر آپ کے پاس آپ کے عمل کا جواز نہیں تو وہ عمل جُرم ہے‘‘
’’ فرقت کی رات سے زیادہ طویل انتظار کی رات ہوتی ہے‘‘
حسین الحق یوں تو زیادہ تر پر شکوہ اور شستہ نثر لکھتے ہیں مگر انہیں محاوراتی، سلیس اور سادہ نثر لکھنے پر بھی قدرت حاصل ہے۔ ناول کی نثر کرداروں کے اعتبار سے متعین ہوتی ہے حسین الحق اس بنیادی حقیقت سے واقف ہیں اس لئے جہاں جہاں انہوں نے متوسط طبقے کے مردوں اور عورتوں کی گفتگو لکھی ہے وہاں اس محاوراتی اسلوب کو اختیار کیا ہے جو اس طبقے کے مسلم گھر انوں کی شناخت ہے۔ محاورے اور ضرب الامثال بات کو اختصار، بے تکلفی اور برجستگی کے ساتھ پیش کرنے میں معاون ہوتے ہیںاس لئے اردو میں ہمیشہ محاوراتی نثر کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔ ’’ فرات‘‘ کے مصنف نے بھی محاوروں اور ضرب الامثال سے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
’’ اس لن ترانی میں سب سے آگے ذاکر چچا تھے، کہنے لگے شجاع الدین اور اس کے خاندان کو لانے میں، میں نے جو پاپڑ بیلے وہ تو بس ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی مثال ہے۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ بی بی ہم تو اپنی دال روٹی میں آج تک مست نہ ہو پائے۔ سرچھپاتے ہیں تو پیر کھلتا ہے پیر چھپاتے ہیں تو سرکھلتا ہے اور تو ایسی فاقہ مستی میں جو حاتم طائی کی قبر پرلات مارنا چاہتی ہے تو ننگی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی، مگر وہ بندی تو اٹواٹی کھٹواٹی لے کرپڑگئی۔‘‘
’’آپ ہی خدا لگتی کہو میر صاحب کیا یہ جان سے ہاتھ دھونے کی بات نہ ہوئی پر اس نامراد کا توعجب عالم، لاکھ سمجھایا کہ بی بی عقل کے ناخن لے اور اس ارادے سے باز آ۔ مگر اس خفقان نے ماں جائے کے لئے اپنے ماتھے کے سیندور تک کو سات سلام کیا اور مجھے اﷲ آمین کہہ کے روانہ کر ہی ڈالا‘‘
’’ یونیورسٹی کا ماحول بھی نام بڑا اور درشن چھوٹے کا نمونہ تھا‘‘
’’ مجھے تہذیب نہ سکھائو آپ کیسے موجود ہیں یہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے تین تیرہ نواٹھارہ دھوبی کا کتّا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘
کردار نگاری فن ناول کا ایک اہم جز وہے مگر اس کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ناول کرداری ہو۔ اس میں مصنف کو پوری توجہ کردار کی فطرت، اس کے الفاظ، حرکات و سکنات اور جذبات پر دینی پڑتی ہے جس کے ذریعہ قاری کا رشتہ اپنے آس پاس کی زندگی سے کٹ کراس ماحول اور زندگی سے جڑجاتا ہے جس میں ناول کے کردار جی رہے ہیں۔ حسین الحق نے بھی ’’فرات‘‘ میں چند ناقابل فراموش کردار تراشے ہیں مثلاً وقار احمد،تبریز اور شبل کے کردار ایسے ہیں جو شاید ہی کسی قاری کے ذہن سے عمر بھر محوہو سکیں۔ یہی نہیں حسین الحق نے اس ناول میں کرداروں کے تعلق سے ایک نئی اور منفرد تکنیک اپنائی ہے یعنی اپنے کرداروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو ادب کے چند مشہور اور آفاقی کرداروں کو بھی اپنے ناول کا حصہ بنا لیا ہے مثلاً صفدر’نعیم‘ گوتم‘ دیاشنکر نسیمؔ، ابو المنصور محمد کمال الدین، انبا، چمپا، عذرا اور عالیہ وغیرہ۔ ناول میں یہ کردار داخل ہوتے ہیں تو اچانک ناول کا کینوس بے حد وسیع اور آفاقی ہو جاتا ہے۔ کہانی میں نئی معنوی جہت پیدا ہوتی ہے اور قاری خود کو وقار احمد یافیصل کے علاوہ ان تمام کرداروں کے ساتھ بھی جڑا ہوا محسوس کرتا ہے جو ’’ آگ کا دریا‘‘ اور ’’ اداس نسلیں‘‘ جیسی عظیم تخلیقات سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ وہ تکنیک ہے جسے شاید حسین الحق کے علاوہ کسی اور نے اب تک استعمال نہیں کیا۔
جدید ناول کی حقیقت نگاری نے بیانات میں ایک کھلاپن داخل کیا ہے جو اظہاریت کے لئے ایک فطری صورت بھی بنتی جاتی ہے۔ یہ کھلاپن’’ فرات‘‘ کی نثر میں بھی بڑے واضح طور پر ملتا ہے جسے دیکھتے ہوئے بعض دوستوں نے چند جملوں پر اعتراض بھی کیا ہے مگر میرے خیال میں یہ اعتراض مناسب نہیں کیوں کہ بقول پروفیسر سید محمد عقیل رضوی’’ فرات‘‘ میں ہر وہ توڑ پھوڑ موجود ہے جو آج کی زندگی میں داخل ہے۔ ہر سچویشن اور انسانی فکر کے ساتھ زبان میں بھی تبدیلی آتی ہے معاشی، نفسیاتی اور جنسی پیچیدگیوں کے بیان میں زبان کے پرانے سانچے اور رویئے کام نہیں آتے تو نئے الفاظ بھی گڑھنے پڑتے ہیں اور زبان کے نئے رویئے بھی استعمال کرنے ہوتے ہیں۔ ’’فرات‘‘ کے بیانات میںکھلاپن بھی اسی طرح کا ایک تجربہ ہے جسے ایک طرح کی برجستگی بھی کہہ سکتے ہیں۔دراصل موضوع سچویشن اور مسالہ کبھی کبھی زبان کو ایک طرح سے مجبور کرتے ہیں کہ حسب موقع زبان کا استعمال کیا جائے تا کہ برجستگی معاملے کی تفہیم میں مدد دے سکے۔ حسین الحق کے ذریعہ لکھے گئے بیانات کا کھلاپن دراصل زبان کی یہی برجستگی ہے۔ ملاحظہ ہو
’’تبریز کے ہاتھ اس کی زلفوں سے کھیلتے رہے پھررخسار سے اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے ہونٹوں پر آٹکے پھر گردن کی طرف چلے اور اس کے سینے پرشرارت کرنے لگے۔تبریز آج کس عالم میں ہو؟ سریکھا نے اس کے بال بکھیرےI’m upset Darling-Extremely upsetاس نے سریکھا کی گود میں منہ چھپا لیاکیا ہوا؟ کیا بات ہے؟ مجھ سے کہو۔ سریکھانے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔مگر جواب کے بجائے ایک عجیب سی خواہش نے سراٹھایا۔ اس نے سریکھا کو لٹا دیا اور خود بھی لیٹ گیا۔ اور جب اس نے سریکھا کو Passionateکرنا چاہا تو وہ چونک پڑی’’ تم پاگل ہوگئے ہو کیا؟کیوں اس میں پاگلپن کی کیا بات ہے؟ میں تمہارے پاس بیٹھ سکتا ہوں تمہیں چھوسکتا ہوں تمہارے گال، ہونٹ، بازو، سینہ، پیٹ، جسم کے ہر حصے پر ہاتھ پھیر سکتا ہوںتو پھر تم فک کرنے کی خواہش کو پاگل پن کیوں کہہ رہی ہو‘‘؟
یقینا یہ زبان وبیان برمحل اظہار کیلئے برجستگی کی زبان و بیان ہے جس کا تقاضا ناول کی سچویشن کر رہی ہے کہ جس جذبے سے تبریز گزررہا ہے اس جذبے اور نفسیاتی کیفیت کا اظہار ایسی ہی زبان سے ہو سکتا ہے۔ اس لئے مصنف اپنی متشرع خانقاہی فکر اور اخلاقی دبائو کے باوجود مجبور ہے کہ اس موقع پر وہ مذکورہ مخصوص جذبات کے اظہار کے لئے ایک کھلی ہوئی زبان استعمال کرے۔
مختصر یہ کہ ’’ فرات‘‘ میں مصنف نے جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں اور جذباتی کیفیتوں کی سچی تصویر یںپیش کی ہیں۔ انہوں نے ہمارے آس پاس کی زندگی، حادثات اور واقعات کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے اور جس طرح محسوس کیا اسی سچائی سے کاغذ پر اتاردیا ہے۔
طویل گیپ کے بعد حسین الحق کا نیا ناول ’’اماوس میں خواب ‘‘ (۲۰۱۷)آیا جو ایک بڑے کینوس پر لکھا گیاہے ۔اس میں آزادی کے بعد کی سیاسی ،سماجی صورت حال بھی ہے اور مسلمانوں کی زندگی میں پیش آئے تغیرات و انقلابات بھی۔تعلیم کی کسادبازاری بھی ہے اور سیاست کی عیاری بھی۔اس میں بھیونڈی،مالیگائوں،بھاگلپور،بابری مسجد ،گجرات،لو جہاد،گئو رکچھا سب کچھ موجود ہے اور ان سب کو خوبصورتی سے قارئین تک پہنچانے کے لئے اسماعیل،قیدار،نائلہ اور رمیش جیسے مضبوط کردار بھی تراشے گئے ہیں۔آزادی کے بعد سے اب تک کی ہندستانی تاریخ کو ایک سیکولر اور غیر جانبدار نقطہ نگاہ سے دکھانے کے لئے ایک بڑے کینوس اور ہزاروں صفحات کی ضرورت تھی مگر حسین الحق نے ایک ماہر فنکار کی طرح استعارے ،تمثیل اور علامت کی زبان دے کر بڑی خوبی سے ۳۴۷صفحات میں سمیٹ دیا ہے۔یہاں ماضی اور اس کی قدریں ،اسلاف کی تہذیب،مشترکہ ثقافت خواب کی صور ت جلوہ گر ہوتی ہیں جسے تعبیر کی صورت میں اسماعیل سے نائلہ تک تین نسلیں پانا چاہتی ہیں ،مگر کیا کیجے کہ ملک نے اپنے اوپر نفرت ،سیاست اور دشمنی کے اماوس کی وہ چادر تان رکھی ہے کہ تعبیر کا چاند نکل ہی نہیں پاتا۔حسین الحق نے اس ناول میں بیانیہ کا خوبصور ت استعمال کیاہے۔ اس کا ڈکشن استعارے اور تمثیل کو نئی جہتیں دیتاہے اور بیانیہ کو دلچسپ بنادیتاہے۔
۳۴۷ صفحات پر مشتمل اس ناول میں جیسا کہ میں نے کہا آزادی کے بعد سے آج تک کی ہندستانی تاریخ کے بین السطور کو پیش کرنے کوشش کی گئی ہے۔آزادی کے بعد کا یہ عرصہ ملک کے لئے جیسے بھی تغیرات سے بھرا رہا ہو ،انسان کے لئے ذہنی انتشار،قلبی خلفشار اور فکری اضطراب کا عرصہ رہا ہے جس کا تعلق آج سے ہے اور آنے والے کل سے بھی۔جمہوریت کے خوشنما لبادے میں قید فر د کی چھٹپٹاہٹ ،بے چینی اور جھنجھلاہٹ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔آج کا انسان جس کی زندگی آزادی کے بعد سے مسلسل عذاب کا شکار ہے ،جس بے یقینی کا شکارہے اور جن ناہمواریوں میں سانس لینے پر مجبور ہے اس کا تخلیقی اظہار اس ناول کا وصف ہے۔اردو میں ہم عصر صورت حال پر ناول کم کم لکھے گئے ہیں۔یہ ناول موجودہ سیاسی،سماجی ،تہذیبی صورت حال کی عکاسی تاریخ کے بجائے تجربات کی روشنی میںکرتاہے۔اس میں ہر لحظہ بدلتی زندگی،ہر پل انقلاب سے دوچار معاشرے اور ہر گھڑی چونکانے والی حسیت کے اتنے مناظر سامنے آتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتاہے ہم ناول کے بجائے وقت کے ساتھ سفر کررہے ہوں۔ اپنے آس پاس کی صورت حال کو حسین الحق نے جس جذباتی قوت اور غیر معمولی حسی شدت کے ساتھ محسوس کر کے اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے وہ اس ناول کو situation based novel localکے ساتھ ساتھ عالمی صورت حال کا آئینہ بھی بنادیتی ہے۔دم توڑتی انسانیت ،عصری سیاسی حسیت اور قدروں کا بکھرائو ایسے عناصر ہیں جو اگرچہ مقامی تناظر میں ناول کا حصہ بنے ہیں مگر بڑی آسانی سے قاری کے فکری منطقے کو عالمی صورت حال تک بھی پہنچا نے کا وصف رکھتے ہیں۔
ناول کا انتساب ’’مادر وطن ہندستان کے نام ‘‘ کیا گیا ہے اور نیچے شعر درج ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
یہ شعر ہی ناول کی روح ہے۔اسماعیل ایک استعارہ ہے اس سماج کا جو آزادی کے بعد سے مسلسل منزل کی تلاش میں پل صراط سے گزر رہا ہے مگر دوسرا سرا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔اس سفر میں اس کے دل ودماغ میں ایک محشر بپا ہے ۔وہ گر تا ہے،زخمی ہوتا ہے،مگر ہمت نہیںہارتا ۔شکست کھاکر بھی اُٹھ کھڑا ہوتاہے کہ اسے وہ قرض اتارنے ہیں جو نہ ہوتے ہوئے بھی اس پہ واجب قرار دے دئیے گئے ہیں۔ در اصل گزشتہ نصف صدی کا عہد ہی قیامت جیسے انتشار اور افراط و تفریط کاہے۔اس عہد میں جنم لینے والی بیشتر ناہمواریاں مصنف کی نگاہ میں رہی ہیں اوروہ اپنے عہد کی ہر تصویر کا گواہ ہے۔اس لئے سیاست،سماج،کرپشن،فساد،مذہب،فلسفہ اور عہد حاضر کے تمام تغیرات جب اس کے قلم کی زد میں آتے ہیں تو زندہ مناظر کی صورت سامنے سے گزرتے ہیںاورقاری کے لئے یہ مناظر صرف ماضی کی بازیافت نہ رہ کرموجودہ صورت حال اور اس کی معنویت کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ناول سے کہانی اخذ کرنا مقصود ہوتو وہ چند سطروں میں بیان کی جاسکتی ہے کہ اسماعیل مرچنٹ فسادات کے بعد دربدر بھٹکتاہوا بالآخر جائے اماں کی تلاش میں ’بہار‘ پہنچتاہے اور زندگی کی آزمائشوں سے جوجھتے ہوئے بم دھماکے کا شکار ہو جاتاہے اور تقریباً یہی انجام اس کی اولاد کے ساتھ بھی پیش آتاہے اوربس۔ مگر کہانی کے ساتھ ماضی قریب سے حال تک کا تہذیبی اور معاشرتی سفر کرنا ہو تو بات چند سطروں سے نہیں بنتی ۔پھر اس کا ہر صفحہ ،اس کا ہر باب ایک نیا منظر لئے سامنے آتاہے اور آپ کو مٹی کی محبت میں قرض اتارنے والے آشفتہ سروں کا سامنا کرنے پر مجبور کرتاہے۔اس منظرنامہ کو پیش کرتے ہوئے مصنف کی نگاہ عہدحاضر کے چھوٹے چھوٹے واقعات و حادثات پر رہی ہے ،اس لئے گائوں سے ممبئی جیسے شہرتک کے مناظر اس سفر کا حصہ بنے ہیں۔ناول کے ابتدائی تین ابواب گویا قصہ کی تمہید کا درجہ رکھتے ہیں ،جس میں اماوس کا اندھیرا ہی اندھیر اہے اور جس سے جوجھنے ،لڑنے اورباہر نکلنے کی چھٹپٹاہٹ ،بے چینی و اضطراب کی علامت۔مگر یہیں سے کسی فلم کی سین کی طرح مناظر دامن پکڑنا شروع کردیتے ہیں۔آئیے کچھ دور ہم بھی ان سچویشنز کا سامنا کریں۔
پہلا منظر۔دربدر بھٹکتا ہوا اسماعیل جب بہار میں پناہ لیتاہے تو اسے پٹنہ یونیورسٹی اپنے دامن میںپناہ دیتی ہے۔جہاں دوستوں میں ایک طرف فیضان رسول میرانی ہے تو دوسری طرف انیل شرما۔یہ وہ زمانہ ہے جب بہار میں ایم۔وائی کی جوڑی سیاست میں دوھوم مچا رہی تھی۔ایک دن انیل شرما اور شوبھا کی لو اسٹوری میں رقابت کی جنگ ہوتی ہے اور وہ گوالا کے بجائے اپنے دوست انیل شرما کے ساتھ کھڑا ہوتاہے۔
’’اِس سالے کو دیکھو ،یہ میاں ہے سالا؟ یہ بھومیہار کا ساتھ دیتاہے؟ سالا بھومیہار کا ساتھ دیتاہے‘‘
فیضان اُس وقت وہاں نہیں تھا،بعد میں پہنچا۔اسماعیل نے تفصیل بتائی تو وہ ہنسنے لگا۔اسماعیل پر جھنجھلاہٹ طاری ہوگئی۔’اس میں ہنسنے کی کیابات ہے؟
ارے یار !وہ سالا عشق کا معاملہ ہے،اس میں تم بلا وجہ کود گئے۔
مگر وہ لڑکا بھومیہار بھومیہار کیا کررہاتھا؟
وہ لڑکا گوالا ہے،بہار میں مسلمان گوالوں کے ساتھ ہیں اور گوالا بھومیہار کے خلاف ہے۔اب تم گوالے کے خلاف جاکر اور بھومیہار کے ساتھ ہوکے لڑنے
لگے تو اُس پر جھلاہٹ تو طاری ہونی ضروری تھی۔
یہ ایک نیا منظرنامہ تھا اور اسماعیل کو جگہ جگہ اس کا سامنا کرنا پڑا‘‘(ص۔۹۴)
یہ وہ منظر نامہ ہے جسے بہار کی حالیہ سیاست میں مرکزیت حاصل تھی۔مسلمان اقتدار میں حصہ داری کے نشے میں جھوم رہے تھے۔کالج کے ریزلٹ سے نوکری تک گوالوں کی حصہ داری میں اضافہ ہورہاتھا۔اور اس کے لئے جواز یہ دیا جارہاتھا کہ جب تک برہمنوں ،راجپوتوں اور بھومیہاروں کی چلی گوالوں کو تیسرا درجہ بھی نہیںدیاگیا ،اب موقع ملا ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھائیں؟اور رہی مسلمان کی تو وہ اسی میں خوش تھا کہ وزیر اعلیٰ اس کے بنائے کباب کھارہے ہیں،بی جے پی کو کھری کھری سنارہے ہیں اور خانقاہوں ،مزاروں کی تقریبات میں ٹوپی پہن کر شریک ہو رہے ہیں۔اس میں کوئی فرق نہ کرسکا کہ وہ ٹوپی پہن رہے ہیںیا پہنا رہے رہیں۔
دوسرا منظر:جوکاسٹ لائن گوالوں اور مقابل اعلیٰ ذات کے درمیان پید اہوئی تھی وہ بڑھتے ہوئے اس منزل تک پہنچ گئی کہ گوالہ گردی اور نکسل تحریک سے مقابلہ کے لئے سن لائٹ سینا ،ایم سی سی اور گولڈن آرمی جیسی سینائیں وجو د میں آگئیں۔اسماعیل فیضان رسول کے ساتھ’میران بیگہ ‘ کا سفر کرتاہے تو اس کے سامنے ایک اور دنیا آتی ہے جہاں ہندستان کی ۸۵ کروڑ جنتا دلت ٹولے میں ملتی ہے،شیو چرن سنگھ کا قتل چونکاتاہے،ایم سی سی اور گولڈن آرمی میں پسماندہ بنام اعلیٰ نسب اقوام کا مقابلہ جنگ کی صور ت اختیار کرتاہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ ان کے منہ میں زبان آجاتی ہے جو صدیوں سے گونگے تھے۔اور اس طرح اپنا ہندستان بدل رہا تھا:
’’کمیونز م کے بارے میں وہ سنی سنائی باتیں افصح صاحب پر پٹخنے لگا تو وہ بولے، دیکھو موجودہ منظرنامے کو تم صرف کمیونزم کے واسطے سے نہیں سمجھ سکتے۔ ہندستان میں کچھ اور فکر ی دھارائیں بھی زیریں لہرکی طرح کام کررہی ہیں،لوہیا جی نے سماجی انصاف پر جو تھیوری پیش کی ہے اس میں انہوں نے بہت صاف صاف لکھاہے کہ ہندستان میں طبقاتی جد وجہد کو کاسٹ اورئینٹڈ ہونا ہی پڑے گا۔ ’آپ کھلم کھلا ذات پات کی حمایت کر رہے ہیں‘۔اسماعیل نے بہت زور سے بدک کر کہا۔تِس پر وہ ہنسے اور بولے۔’گاندھی میدان کے ایک بڑے جلسے میں جے پرکاش نرائن نے کھلے عام کہا تھا۔’’سوال سماجی انصاف کا ہے ،وہ جس راستے سے آسکے ،اسی راستے سے اُسے لانا چاہیے۔‘‘
تیسرا منظر: سیاست جب رنگ بدلتی ہے تو اس کے اثرات دورپا اور دیر پا ہوتے ہیں۔بہار کی سیاست نے جہاں سماج کو فکر سطح پر بدل دیا وہیں انتظامی سطح پر بھی تبدیلیاں پیدا کیں۔ساتویں باب میں ناول نگار نے مثال کے طور پر تعلیمی اداروں میں پیدا ہونے والی صورت حال کا منظرنامہ پیش کیا ہے۔حکومت نے ۱۹۷۰ سے پہلے کے قائم کئے ہوئے کالجوں کو کنسٹی چوینٹ کرنے کا اعلان کردیا تو ایک طر ف انتظامی مسائل پیدا ہوئے اور دوسری طرف رشوت خوری ،اقربا پروری کا بازار گرم ہوگیا۔صلاحیت کی بجائے طاقت،غنڈہ گردی،پیسہ اور سیاست نے آگ پکڑ لی۔پچھلے دروازے سے تقرری ،فرسٹ پوسٹ،سیکنڈ پوسٹ کی لڑائی میں رشوت دینے والے کی فتح،تنخواہ میں کٹوتی کی تلوار،پروفیشنل کورسز کو بڑھاوا دے کر پیسہ اگاہی کا راستہ بنانا اور دھیرے دھیرے کالجوں سے علم کا غائب ہوجا نا،اس منظرنامے کے اہم حصے ہیں:
تہذیب کے نام پر اپنی روٹی سینکیں؟ وقت کے ساتھ سب بھول گئے اورصورت حال یہ ہے کہ :
’’ عمارت گری پڑی ہے،کچھ لوگ تو دب کر مرہی گئے،باقی گرتے ہوئے ملبے سے چوٹ کھا کر زخمی ہوئے،اور بہت سارے عمارت کے گرنے سے دُکھی ہوئے ،کچھ زخمی ابھی تک کراہ رہے ہیں،بہتوں کا ہاتھ عمارت کے نیچے دبا ہے،کچھ کا پیر پھنساہے اور کچھ کی املاک تباہ ہو گئی ہیں۔مگر صورت حال جیسی تھی ویسی ہی ہے کیوں کہ مالکان ِ اصلی اور کاشت کارانِ اصلی دونوں کو کسی نے سمجھا دیا تھا کہ عمارت کے نیچے خزانہ دفن ہے۔اس لئے دونوں ہی اس عمارت کی ملکیت کے دعوے دار ہیںاور وہ منہدم عمارت ،عمارت کے درجے سے آگے بڑھ کر ماں بن گئی ہے۔حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ والی ماں!‘‘(ص۔۲۷۳)
پانچواں منظر: بہار میں انتخابات کا موسم بڑے برے موسم کے روپ میں شمار کیا جاتاہے۔دوسرے صوبوں میں ہو سکتاہے یہ صورت حال نہ ہو اور لوگ بخوشی الیکشن ڈیوٹی کرتے ہوں ،مگر بہار میں یہ عذاب سمجھی جاتی ہے اور پرائمری اسکو ل سے کالج کے پروفیسر تک سب اس کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ دامے ،درمے ،قدمے،سخنے جیسے بھی ممکن ہو اس ڈیوٹی سے نجات حاصل ہو جائے۔غیر تدریسی ملازمین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سارے کام ٹیچروں سے ہی کروالیے جائیں۔ڈیوٹی سے نام کٹوانے سے انتخاب کے بعد ووٹوں کی گنتی تک جتنے مراحل ہیں وہ پل صراط سے کم نہیں۔حسین الحق خود پروفیسر رہے ہیں ،اور دوران ملازمت انہیں اس جہنم زار سے گزرنا پڑا ہوگا۔چنانچہ انہوں نے الیکشن ڈیوٹی ،ووٹ اور ملازمت کی مجبوریوں میں پھنسے ایک شریف انسان کی بے بسی،ذہنی کرب اور اذیت کو بڑے حقیقی انداز میں پیش کیاہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیاست ،ووٹ بینک اور بوتھ قبضے کے ذریعہ فتح حاصل کرنے کے سیاسی کھیل پر بھی گہری نظر ڈالی ہے۔ایک منظر دیکھئے:
’’اسکول کے باہر لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا۔ہر پارٹی والے اپنے دوچار سورمائوں کے ساتھ موجود تھے۔ رکشہ والے عورتوں کو اور کبھی کبھی بوڑھوں کو بھی لے کر آتے اور اسکول سے ذرا دور پر اُتار کر پھر محلے کے اندر چلے جاتے ۔اسماعیل کو یاد آیا کہ پارٹی والوں کی طرف سے ووٹروں کو آنے جانے کی یا کسی قسم کی سہولت دینا اب الیکشن کمیشن کی طرف سے غیر قانوی قرار دیا جاچکاہے۔مگر اسماعیل دیکھ رہاتھا کہ رکشے آ جا رہے تھے اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ تھا۔۔۔۔۔وہ ایک پولنگ ایجنٹ سے پرچی بنوانے لگا۔اچانک اسکول کے اندر سے پہلے تڑا تڑ لاٹھی چلنے کی آواز آنے لگی،اور پھر ہوائی فائر ہوا۔‘‘(ص۔۲۰۴)
بوتھ کیپچرنگ،قتل وغارت گری،گالی گلوج یہاں الیکشن کے لازمی عناصر ہیں جن کے درمیان عام انسان،شریف انسان خاموشی کے ساتھ پستا رہتاہے ۔یہ منظر اشارہ ہے اُس صور ت حال کا جس میںزباں بندی کا غیر اعلان شدہ حکم جاری ہو چکاہے۔آدمی کتابی،قانونی اور اصولی باتیں دماغ میں دہرا تو سکتاہے ،زبان پر ہرگز نہیں لاسکتا۔
’’میں اسماعیل رضا ولد ابراہیم رضا بابر ی مسجد کے گرنے پر کچھ نہیں کرسکتا ۔شاہ بانو کیس کی بے
معنویت پر اپنے ہم مذہبوں سے کوئی مکالمہ نہیں کرسکتا،الیکشن (ووٹ) دیتے ہوئے بلا وجہ گرفتار کر لینے پر اور دن بھر کے لئے حراست میں ڈال دینے پر کچھ نہیں کرسکتا ۔یہاں اجماع چاہئے۔بھیڑ،جاہلوں کی یا ایسے پڑھے لکھے لوگوں کی جنہیں جاہلوں کی بھیڑ پڑھا لکھا مان لے۔ یہاں ایک آدمی کی تنہا رائے کا کوئی معنی نہیں بنتا۔جمہوریت وہ طرز حکومت ہے۔۔(ص۔۲۰۶)
چھٹا منظر: یہ منظروہ ہے جو ہمارے مشاہدے اور تجربے کا حصہ بن چکاہے۔رشوت خوری،اقربا پروری اور فرقہ پرستی سرکاری دفتروںاور وہاں کی ہر فائل سے جونک کی طرح چمٹ کر رہ گئی ہے۔گپتا جی ہوں یا یادو جی،سنگھ صاحب ہوں یا اسماعیل صاحب ،سب اسی جونک کا شکار ہیں۔دفتروں میں معمولی سی فائل بھی بغیر چائے پانی کی آگے نہیںکھسکتی۔جسے چاہا اور جب چاہا ،حکومت نے پروموشن دے دیا اور جب چاہا جسے چاہا ڈیموٹ کردیا یا برطرف کردیا۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔مگر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔حکومت اور سیاست نے مداری اور اس کے کھیل کی شکل اختیار کرلی ۔کانگریس کی مخالفت کے بعد اقتدار کی ہوس نے جگلروں کو پیدا کیا جنہوں نے مذہب اور فرضی ہندومسلم تہذیب و تشخص کا شوشہ چھوڑکر تمام ہندستانیوں کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کا ایسا کھیل شروع کیاجس نے سماج میں ایک خوفناک اور بھیانک صورت حال پید اکردی۔ایسے میںزندگی سے انسان کا سروکار صرف جینے کی حد تک رہ گیا اور وہ اسی میں مطمئن ہے کہ کم از کم غیر فطری موت سے تو دور ہے:
’’سیماب نے اسی جوکھم کا ذکر کرتے ہوئے توفیق کی وہ بات بھی دہرائی تھی کہ ’’اب یہاں ہندو مسلم فساد نہیں ہوتا‘‘۔اور اس بات پر اسماعیل کو ممبئی کا وہ ملنگ دوسست یاد آیا،جس نے بہار لوٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاتھاکہ ’’بہار ایک پرسکون صوبہ ہے۔وہاں فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتا‘‘۔کیا انسانی سروکار میں سب سے بڑا عنصر جیناہے؟ پاگل ،مفلوج اور مند بدھی والے بھی تو جیتے ہیں۔(ص۔۲۱۸)
اوراس مفلوج اور مندبدھی سماج میں اگر کو ئی اپنا سروکار ذہن و فکر سے قائم کرتا ہے تو اسے اس قسم کے سوالات پریشان کرتے ہیں ۔کیا زندگی کا مقصد صرف سانس لینا ہے ؟کیا انسان کی منزل صرف روٹی ہے ؟کیا کسی ایک ہی پھول سے باغ بن جاتا ہے؟ کیا آدمی کو رنگ برنگے پھولوں کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا سچ مچ کسی ایک پھول اور خوشبو کے علاوہ باقی ساے پھول اورخوشبوئیں صرف باہر سے برآمد کی ہوئی ہیں؟کیا اس رویے کے بغیر بھی جینے کی کوئی راہ ہے؟مگر موجودہ صورت حال کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نے ایسے سوالوں سے جوجھنے والے ذہنوں کو قید کرلیاہے۔
ساتواں منظرـــ: اس منظر کے کئی شیڈز ہیں جو ہمارے معاشرے کی مذہبی ،تعلیمی اور سیاسی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔زوال روس کے اثرات،مذہبی جماعتوں کے فروغ اورمدارس کے دقیانوسی نظام تعلیم وغیرہ پہ مصنف نے نہ صرف بحث کی ہے بلکہ اس سے وابستہ قوم کی ذہنی و معاشی پسماندگی سے بھی روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔مدرسے میں عام طور پر غریب طبقہ تعلیم حاصل کرتا ہے ،جو وہاں نہ جاتا تو پاکٹ ماری،چوری چکاری کرتا یا رکشہ چلاتا،بیڑی بناتا اور مزدوری کرتا۔یہاں خوش حال طبقے کی دلچسپی کا کوئی سامان نہیںہوتا۔ صدیوں پہلے فٹ بال کا کھیل وہاں بچوں کی تفریح کا سامان تھا ،وہ اب بھی ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے صدیوں سے ان کانصاب تعلیم۔کرکٹ ،بیڈمنٹن وغیرہ سے وہ اب تک کیوں متعارف نہ ہوسکے؟بہار سے مہاراشٹر تک پورے ہندستان میں ایک ہی طرز تعلیم کیوںہے؟سالہا سال سے اس میں تبدیلی کی کوئی ضرورت کیوں نہیںمحسوس کی گئی؟
’’اسے درخت یاد آئے جو ہر سال اپنی چھال بدلتے ہیں ،پرندے یاد آئے جو اپنے پر جھاڑتے ہیں،جاندار جسم یاد آیا جو اندر سے باہر تک لگاتار اپنے کو ادلتا بدلتا رہتاہے۔
مگر یہ لوگ؟اسے شتر مرغ یاد آیا ،جو ریت میں سر چھپا کر سمجھتاہے کہ طوفان ٹل گیا۔ یا وہ مینڈک جو کنویں میں رہتاہے اور کنویں کو ہی سمندر سمجھتاہے۔‘‘(ص۲۴۴)
آٹھواں منظر: یہ منظر آج کا ہے جس میں نتیش مودی کی دوستی،سوشاسن بابو اور بی جے پی کی حکمت عملی،پردھان متری کی آمد،گاندھی میدان کا بم دھماکہ،افضل گرو،جے این یو،موب لنچنگ،اخلاق کی موت اور وہ سب کچھ ہے جو ہماری زندگی ،سماج اور ملک کے بدلتے منظرنامے کی علامت ہے۔۱۴ویں باب سے ۲۳ویں باب یعنی اختتام تک ناول ہمیں اپنے آپ سے ملواتاہے۔یعنی آج کے موجودہ منظرنامے سے جہاں پٹنہ ،بہار اور ملک کی صورت بدل چکی ہے۔بے روزگاری منہ بائے کھڑی ہے،نوجوان باہر بھاگ رہے ہیں،فارورڈ بیک ورڈ اور ریزرویشن نے معاملہ اور پیچیدہ کردیاہے،فرقہ وارانہ عصبیت شہر سے بڑھتے ہوئے گائوں کی مسجد،خانقاہ اور قبرستانوں تک پہنچ گئی ہے،ذات پات کی لعنت نے غیرمسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے،نکسل موومنٹ میں پسماندہ مسلمان بھی
شامل ہورہے ہیں اور بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب گائوں میں ان کی میٹنگیں بھی ہو رہی ہیں۔اور اس سب کے درمیان ایک نعرہ امید کی طرح شہرت حاصل کر رہاتھا کہ اچھے دن آئیں گے۔مگر اچھے دن کے لئے جو راستہ اختیار کیا گیا اس سے معلوم ہو اکہ وہ نعرہ عوام کے لئے نہیں خودکے لئے لگایا گیا تھا۔عوام کو تو اُس آگ میں جھونک دیا گیا جس کا شکار اسماعیل،فیضان ،اخلاق اور جنید جیسے لوگ ہوئے۔
’’گئو رکچھا ۔۔وندے ماترم۔۔رام مندر۔۔۔انہی آوازوں میں کچھ اور آوازیں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔۔۔اسلام واحد راہ نجات۔۔۔کافروں سے قتال کار ثواب۔۔۔پھر فضائوں
میں جھنڈے لہراتے ہیں۔ہندو واہنی ۔۔۔بجرنگ دل۔۔۔گئو رکچھا سمیتی۔۔۔شیو سینا۔۔ آرایس ایس۔۔جھنڈوں کے چیختے چلاتے رنگوں میں ۔۔۔بیچ بیچ سے کچھ مدھم ہم رنگ
سر اٹھاتے۔۔۔مجلس اتحادالمسلمین۔۔۔سیمی۔۔۔انڈین مجاہدین۔۔۔قیدار ایک طرف سے نظرچراتا تو دوسری سمت کچھ ایسا تھا جو راستہ روک کے کھڑا ہوجاتا۔۔۔ہر طرف اونچی
اونچی دیواریں۔۔۔ہر دیوار پر جھنڈے۔۔ہر دیوار کی ہر اینٹ سے گندا خون اُچھلتا کودتا باہر آتا۔ (ص۔۲۶۹)
صورت حال پہلے بھی خراب ہوئی تھی مگر اُس زمانے میں خون خرابے کی نوبت کم آتی تھی،دلوں میںدیواریں قائم نہیں کی جاتی تھیں۔جنگ کے بعد بھی دل ملے رہتے تھے یہاں تک کہ رشتے داریاں قائم ہو جاتی تھیں۔ہولی،دیوالی سے مسلمان اور شب برات محرم سے ہندو الگ کب اور کیسے ہو گئے یہ کوئی محسوس نہ کرسکا۔صورت حال کے بھیانک پن میں اضافہ ہی ہوتا گیا،یہاں تک کہ تاریخ ،تہذیب اور عشق کی ساری داستانیں بدل دی گئیں۔
مذکورہ بالا مناظر سے سب سے پہلے تو یہ و اضح ہوتا ہے کہ مصنف نے گذشتہ پچاس برسوں کے دوران ہمارے عہد اور معاشرے کو متاثر کرنے والی بیشتر ناہمواریوں پر گہری نظر ڈالی ہے۔کبھی تجربے کی صورت میں اور کبھی مشاہدے کا سہار الے کر انہوں نے صوبہ بہار کے انُ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی ناول کا حصہ بنایاہے جن کا تعلق ہمعصر علاقائی صورت حال سے توہوسکتاہے ،قومی یا عالمی تاریخ سے قطعی نہیں۔مثلاً کالجوں کا کنسٹی ٹیوینٹ ہونے کا معاملہ،رنجن یادو کا سیاسی عروج،کوچنگ کلاسز کا کھیل،بوتھ کیپچرنگ،الیکشن ڈیوٹی کی بوالعجبیاں اور شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کی منتقلی وغیرہ۔مگر ناول محض ان واقعات کا بیان نہیں۔یہ مصنف کے گہرے سماجی ،سیاسی اور تہذیبی شعور کا عکاس بھی ہے۔یہ اُس قوم کی داستان بھی ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے نفرت،فرقہ پرستی اور دشمنی کا عذاب جھیل رہی ہے۔وہ عذاب جو اُس پر صدیوں سے شکلیں بدل بدل کر نازل ہوتا رہاہے کیوں کہ محبت اور نفرت،ظلم اور رحم میں ازل سے جنگ جاری ہے ،بس ان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔تقسیم ہند کے بعد عذاب کی ایک اور صورت سامنے آئی اور اس نے محبت کرنے والوں کے لئے زمین تنگ کردی۔مصنف کاکمال یہ ہے کہ اس صورت حال کو انہوں نے تاریخ کے بجائے فلسفے کی زبان دی ہے جو فکشن کو بڑا بناتی ہے اور بلیغ علامتوں،استعاروں اور اشاروں کے سہارے فلسفۂ حیات کی سفاکیوں اور نزاکتوں کو دل پذیر انداز میں پیش کرتی ہے۔
مرکزیت بہاراور مسلمان ہونے کے باوجود اس ناول کو علاقائی یا مخصوص معاشرے کا ناول نہیں کہا جاسکتا۔صرف اس لئے نہیں کہ اس میں بھیونڈی،ایودھیا اور ممبئی کا بھی ذکر ہے یا مرکزی کردار اسماعیل ،فیضان ،قیدار اور نائلہ ہیں۔ان کے ساتھ بہت سارے کردار اپنے تفاعل کے ساتھ موجود ہیں۔مبشر رجائی،میاں والا،بنسی دھر،رمیش ،رکمنی،دلبیر سنگھ،انیل شرما،مجمدار،ٹوپو اور شوبھا وغیرہ سب کے سب ناول کا ناگزیر حصہ بن کر سامنے آتے ہیں۔اسماعیل ،فیضان ،قیدار اور نائلہ کے ساتھ ساتھ ان میں سے بھی اکثر اپنے فکر وعمل کے ذریعہ ایک اچھا ہندستان بنانے میں مصروف ہیں۔اس لئے یہ ہندستانی معاشرے اور معاشرت کا ناول ہے۔اس ہندستانی معاشرے کا جس کی معاشرت کو آزادی کے ستر سال کے بعد اس طرح بے جان کردیا گیاہے کہ اس کی حالت منٹو کے افسانہ’ کھول دو ‘کی سکینہ جیسی ہو گئی ہے۔یہ دردناک مگر بلیغ علامتی منظر دیکھئے:
’’وہ آیا ،کھانا کھایا،دیر تک بلو فلم دیکھی ،گندے گانے سنے اور اس کو پکڑکر اپنی طرف کھینچا۔اس نے سکینہ کی طرح اپنا ازاربند کھول دیا۔یہ آزادیٔ وطن کے بعد کی سترویں رات تھی‘‘ (ص۔۳۲۸)
اس معاشرے میں انسانوں کے انسان پر مسلط ہونے اور اقتدار پانے کا جنون ہے جس نے اسے وحشی بنادیاہے۔وحشی انسان طبقاتی ٹکرائو،مذہبی شدت پسندی اور تاجرانہ ذہنیت کا سہارالے کر سماج پر راکشش کی طرح حاوی ہوگیاہے،جس کے نیچے انسانیت،عشق ،دردمندی ،محبت دبی کراہ رہی ہے۔
’’اماوس میں خوا ب ‘‘ موضوع کے علاوہ اپنے بیانیہ کی وجہ سے بھی قابل توجہ ہے۔اس کا بیانیہ بہت عام ،سپاٹ اور سادہ نہیں ہے۔کہیں شعری بیانیہ متاثر کرتاہے تو کہیں استعاراتی اسلوب دامن دل کھینچتاہے۔کبھی تجریدیت ملتی ہے تو کبھی سفاک حقیقت نگاری ہیجان پیدا کرتی ہے۔ناول کا اسلوب ابہام اور صراحت کا آمیزہ ہے۔شروع سے ہی ناول نگار دو متوازی بیان لے کر آگے بڑھتاہے ۔ایک بیان عشق کا ہے اور دوسرا تاریخ و سیاست کا ۔کبھی ایک میں آگے بڑھتاہے اور دوسرے میں پیچھے ، کبھی ایک کو چھوڑتاہے اور کبھی دوسرے کو ۔مگر وہ رکتا نہیںہے۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو بات چھوٹ گئی وہ شاید ادھور رہ گئی ،مگر دوسرے یا تیسرے باب میں جاکر اس کاسرا مل جاتاہے اور بیانیہ کے ساتھ پلاٹ کا ادھورا پن بھی تکمیل کی جانب گامزن ہو جاتاہے۔یہ بیان کا انوکھا انداز ہے جو مطالعے کے لئے ذہین قاری کا تقاضا کرتاہے۔مثلاً یہ اقتباس دیکھئے:
’’اور پھر تمکنت جس نے مرنے سے پہلے خط لکھاتھا ،مجھے کینسر ہو گیاہے،میری کیمو تھیراپی ہوئی ہے ،میرے سب بال اڑ گئے ہیں۔۔۔مجھے بھولنا چاہتے ہو تو ایک بار آکے دیکھ لو۔۔۔کہتے ہیں پہلا پیا ر اور آخری پیار سانس ٹوٹنے تک ساتھ نباہتاہے۔کانگریس ہندستانی مسلمانوں کا پہلا پیار ہے ،کانگریس بھی جانتی ہے کہ ہندستانی مسلمان لاکھ بدکیں مگرجائیںگے کہاں۔انہیں بھی شاید یقین تھا کہ اسماعیل نامی شخص اُن سے چھٹ کر زندہ نہیں رہ سکے گا۔اور سچ بھی یہی تھا،وہ تو ساری زندگی ان کے ناز سہتا رہا۔غیر کانگریسیوں نے تو مسلمانوں کو کانگریس کی داشتہ تک کہ دیا۔اور تمکنت؟ جو مرگئی۔اور پاکستان جو صرف مرا نہیں ،اس کی لاش کو بیچ سے دو ٹکڑے کر دیا
گیا۔ (۲۳)
مگر مکمل ناول اس ایک بیانیہ پر منحصر نہیں ہے۔واقعات جس صورتحال سے گذرتے ہیں ،بیانیہ بھی اسی کے مطابق بدل جاتاہے۔آزادی کے بعد سے بھیونڈی کے فسادات تک چونکہ اسماعیل فکری اور عملی دونوں اعتبار سے اضطراب ،کشمکش اور بے یقینی کی صورت حال سے گزرتاہے اس لیے بیانیہ بھی پیچیدہ اور پریشان کن ہے ،مگر جیسے ہی اسماعیل پٹنہ پہنچ کر مطمئن ہوتا ہے بیانیہ بھی سادہ ،پرسکون اور عام فہم ہو جاتاہے۔شاید اسی لیے ناول کے ابتدائی ۷۵ صفحات سے گزرنا آسان نہیں ،اور اگر اس سے گزر گئے تو پھر اسے چھوڑنا ممکن نہیں ۔اسی طرح تمکنت،شوبھا اور نائلہ کے عشق کے مناظر بھی بیانیہ کے مختلف رنگ پیش کرتے ہیں۔شعریبیانیہ کی ایک مثال دیکھئے:
’’وہ آرہی ہیں ۔۔۔ایک وہم ساہوا ۔۔۔کہیں نظر نہیں آرہی تھیں مگر ایسا لگ رہا تھاکہ وہ آرہی ہیں۔برف یا روئی کے گالے سے تیار کی ہوئی فضا میں سنہرے گل بوٹے ٹکے ہوئے تھے اور جگنؤوں کو حکم دیا گیا تھا کہ تم سارے میں جگمگاتے پھرو اور چاندنے منادی کی تھی کہ ابد الآباد تک میں اس فضا پر چاندنی بکھیروں گا اور غیب الغیب سے ایک فرمان جاری ہوا تھا کہ سورج اپنی تپش کو اس جلسے سے دور رکھے۔الٰہی یہ جلسہ کہاں ہو رہا ہے،جہاں حوران بہشتی کا مجمع دف پر گاتا تھا۔۔۔چوں پردہ بر افتد۔۔۔چوں پردہ بر افتد۔۔۔۔اور پردہ ابھی اٹھا نہیں تھا۔حریری پردوں کی نرم سرسراہٹ نرم بھی تھی اور ریشم جیسی کومل بھی،پردے ساکن نہیں تھے،مگر اُٹھ بھی نہیں جارہے تھے۔اہتما م یہ تھا کہ کچھ چھپا بھی رہے ،کچھ جھلملاتا بھی رہے،ایسے ستر پردوں کے پرے وہ ساعد سیمیں ایک مستانہ سی بوجھل اور سرشار کیفیت میں مکیّف ہوئیں کہ ماتھے پر ان کے شکنیں صف تشنگاں تھیںاو ربھویں طلب کی آگ میں جل کر زلف زلیخا کی مانند سیاہ او ر آنکھوں کی پتلی میں سیاہی تھی،سفیدی تھی،شفق تھی،
ابر باراں تھا۔‘‘(ص۔۳۱)
اس ناول میں جہاں موجودہ زمانے کی حسیت یعنی روح عصر ہے وہیں وہیں بھرپور جذباتیت اور مادیت و روحانیت کے درمیان پھنسے ہوئے فر دکی چھٹپٹاہٹ بھی ہے۔اور ان دونوں کے درمیان سے ناول نگار کا مخصوص نقطۂ نظر سامنے آتاہے کہ زندگی کو جذباتیت،حقیقت،عصریت ،علمیت،فلسفہ یا کسی قسم کے نظریے کی ضرورت نہیں۔اسے صرف ہم سفر کی ٖضرورت ہے جو عشق سے حاصل ہوتاہے۔گویا عشق زندگی کی طرح اس ناول کاسرچشمہ ہے۔
آزادی کے بعد کا عرصہ واقعات و حادثات کے اعتبار سے ہنگامہ خیزرہاہے۔ہردن نیاسورج اورہرشب نئی تاریکی کے ساتھ آئی ہے۔حسین الحق کا حوصلہ قابل قدرہے کہ انہوں نے حالات کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس کی سچائی سے ہمیں روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔مذہب،تصوف اور ترقی پسندی جیسے تمام نظریات و افکار کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے قاری کو جو دعوت فکر دی ہے وہ فوری طور پر اثر پذیر ہو یا نہ ہو ،اسے غوروفکر پر ضرور مجبور کردیتی ہے۔اور اس لحاظ سے یہ ناول ہم عصر فکشن میں اپنا انفراد و امتیاز قائم کرلیتاہے۔
اوپر جو مناظرپیش کئے گئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول کا کینوس بہت وسیع ہے اور شاید پورے ہندستا ن کا احاطہ کرتاہے۔ناول نگار نے مالیگائوں،بھیونڈی،دہلی،ممبئی اور پٹنہ کا ذکر کرکے اس کے کینوس کی وسعت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ازموں کا ٹکرائو،ذات پات کی جنگ،مذہبی تفریق اور سیاسی ریشہ دوانیاںکسی ایک جگہ تک محدو د بھی نہیں۔مگر ناول کا بڑا حصہ صوبہ بہار کی عکاسی کرتاہے۔لالو پرسادکا عروج،کالجوں کے حالات،الیکشن کے مناظر،الیکشن ڈیوٹی کی دہشت،کالجوں میںریگولر کلاسز کا نہ ہونا،کوچنگ کی طرف توجہ کا بڑھنا،پٹنہ کالج اور ساحلِ گنگا کے مناظر،دربھنگہ ہائوس،کالی مندراور پٹنہ کے مختلف علاقوں کا تفصیلی ذکراورشعبۂ اردو کی منتقلی وغیرہ اس طرح ناول میں در آئے ہیں کہ بین الاقوامی تہذیب و فلسفہ یا کم از کم قومی تغیرات کے پس منظر میں لکھے گئے ناول کے کینوس کوکچھ حدتک محدود کردیتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ مقامیت آفاقیت میںپوری طرح تبدیل نہیں ہو پاتی اور پرسنل اُس طرح امپرسنل بن کر نہیں آپاتاجیسا حسین الحق کے ماقبل ناول ’فرات‘ میں سامنے آیاتھا۔مگر کسی بھی عہدکے تہذیبی ،ثقافتی،مذہبی اور سیاسی مزاج کی تلاش کے لئے ارضی حوالہ تو ضروری ہے۔غالباًمصنف نے سہولت کے کے لئے اپنی دیکھی اور بھوگی ہوئی زمین کو منتخب کیاہے۔اسی طرح ر وشنی سہائے اور قیداربن اسماعیل کی یکجائی اس بات کا اشارہ ہوسکتی ہے کہ مصنف کی نظر میں ہندستان کے محفوظ وخوبصورت مستقبل کے لئے ہندومسلمان کے درمیان محبت یا کم از کم رواداری کا رشتہ ہی ر اہ نجات ہے مگر نائلہ اور ر میش سے وابستہ میلو ڈرامائی واقعات کی پیش کش کا جواز کیاہے؟ نائلہ کا دردناک انجام بھی تواسے نمونۂ عبرت نہیںبنا سکا۔ شایدیہاں مصنف کا منشا یہ بتانا ہے کہ اس پرخطر راہ میں ہر مسافر قیداربن اسماعیل اور روشنی سہائے ہو یہ ضروری نہیں ۔
مختصر یہ کہ ’اماوس میں خواب‘ دور حاضرکا منفرد اور نمائندہ ناول کہا جائے گا کہ اس میں آزادی کے بعد سے آج تک کی ہرلمحہ تغیر پذیر تہذیب،تحریک اور ہر طرح کے بے معنی تماشوں کامکمل منظرنامہ تخلیقی انداز میں موجودہے۔اس میں سیاست،مذہب،دانشوری،تصوف ،نظریات اور جبر کی قید میںپھنسے آج کے انسان کی چھٹپٹاہٹ اور ہم عصر صورت حال کی وہ چلتی پھرتی تصویر پیش کی گئی ہے جسے ہم معاصر ہندستان کا استعارہ یا آئینہ کہ سکتے ہیں۔
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں