مہر فاطمہ
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
نہ بادہ ہے نہ صراحی نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ
ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ اقبال کے تصور ادب کے ضمن میں خود اقبال کے بکثرت بیانات اور ارشادات موجودہیں جو ان کی نظم و نثر دونوں میں جابجا مل جاتے ہیں اور اگر یہ نہ بھی ہوتے تو ان کی شاعری ہی ان کے تصورات و نظر یات کی غمازی کو کافی ہوتی۔ اس مقالے میں بیشتر شاعری ہی کی مثالوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے تعلق سے آل احمد سرور صاحب نے بھی ایک نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے کہ:
’’ مجھے اقبال کے ان ارشادات پر زیادہ اعتماد ہے جو شعر میں ہیں۔ میرے نزدیک ان کے نثری بیانات کو اقبال کے وہ قطعی مثبت اور کچھ منجمد بیانات سمجھنا چاہیے ،جو فلسفی اقبال ،پیام بر اقبال، معلم اقبال، دانش ور اقبال کی نمایندگی کرتے ہیں جو اپنی شاعری کو ایک وظیفہء حیات کاایک مشن سمجھتا ہے۔ لیکن فن بڑا کافر ہے اور اس کا ایمان بھی بغیر کچھ کفر کی آمیزش سے مکمل ہی نہیں ہوتا ۔ گوئٹے نے غلط نہیں کہا تھا کہ ہر شاعر میں کچھ نہ کچھ بے دینی بھی ہوتی ہے۔ اس لئے اقبال کے نثری بیانات ان کی شعوری کوشش ظاہر کرتے ہیں۔ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فن کو کیا سمجھتے تھے لیکن شاعر کے بیانات میں یہ فکر ایک جذباتی کیفیت کی وجہ سے کچھ اور بڑی اور پھیلی ہوئی ہے اور میرے نزدیک زیادہ سچی معلوم ہوتی ہے۔ ہاں اس سچ کو پہچاننے کے لئے صرف لفظ کے لغوی معنی کا علم کافی نہیں۔ اس کے جذباتی ، رمزی ایمائی اور علامتی پہلو کا عرفان بھی ضروری ہے کیونکہ بقول جگر سخن میں ایک بات ماورائے سخن بھی ہوتی ہے۔ اور سخن وری سخن اور ماورائے سخن دونوں سے مل کر مکمل ہوتی ہے۔‘‘
(اقبال کا نظریہ ء شعر اور ان کی شاعری،ص۲۰)
ظاہر ہے کہ اقبال نہ صرف ایک شاعر تھے بلکہ وہ مفکر، مصلح، پیام بر، دانشور اور فلسفی بھی تھے۔ جس نے ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں صرف کی تھی۔اس لئے یہ صرف ایک شاعرکا تصور ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شاعر کا نظریہ ہے جو شعروادب کا محرم اسرار اور دانائے راز بھی ہے۔ جو زندگی کو آئینہ دکھاتا اور زندگی کو ایک خاص زاویے سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک ایسے شاعر کا نظریہ بھی ہے جو صرف زندگی کی کثرت کے مظاہر اور اس کے نئے نئے جلووں کی عکاسی پر قانع ہی نہیں ہے، بلکہ وہ اس کثرت میں ایک وحدت دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ جس کے یہاں شاعری صرف جذبات کی مصوری نہیں ہے۔ جذبے اور فکر کی آمیزش یا فکر کے جذبہ بننے سے وجود میں آئی ہے۔
علامہ اقبال نے اردو فارسی دونوں میں کیفیت اور کمیت دونوں کے لحاظ سے ایک عظیم سرمایہ چھوڑا ہے۔ ان کے مجموعے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز،پیام مشرق اور جاوید نامہ وغیرہ کے مطالعہ سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے ان کا خیال تھا کہ ادب کو زندگی کے اعلیٰ نصب العین کے حصول میں معاون و مدد گار ہونا چاہیے۔ اقبال کی شاعری کا بغور مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’’ہے‘‘ سے زیادہ ’’چاہیے‘‘ کے قائل ہیں۔ آپ ان کی شاعری سے چند اشعار بنا کسی شعوری کوشش کے اٹھا کر دیکھ لیں:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں/ گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر/ توابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر/ فطرت کو خرد کے روبرو کر/ پردہ چہرے سے اٹھا، انجمن آرائی کر/گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ/ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے/اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی/ نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر وغیر وغیرہ۔
ان اشعار سے مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اقبال کے نزدیک شاعری ایک و سیلہ ہے صرف مقصد نہیں۔ان کا خیال ہے کہ اچھی شاعری وہ ہے جو حیات بخش اور حیات آفریں ہو، جو حرکت اور عمل کی طرف مائل کرے۔ جس میں قوت و شوکت کا پیام ہو اور ان کے نزدیک ناپسندیدہ شاعری وہ ہے وہ ہے جو زندگی کے حالات پر صبر کرنا سکھائے، جو قنوطیت کی وجہ سے عملی قوتوں کو سلب کرلے ۔اپنی شاعری میں بھی مایوسی اور افسردگی کے خلاف اس طرح نعرہ بلند کیا ہے:
جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرۂ ینساں وہ صدف کیا، وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ معنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
لیکن اس سے یہ ہر گز مطلب نہیں نکلتا کہ اقبال کے یہاں اسلوب و ہیئت یا فنی خصوصیات کی اہمیت نہیں بلکہ وہ موضوع ہی نہیں ہیئت اور اسلوب کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہے۔ یعنی یہ نتیجہ نکالنا کہ ا ان کے یہاں الفاظ یا ان کی ترتیب یا حسن بیان کی اہمیت نہیں بالکل غلط ہے اقبال کے یہاں فن، زبان اور حسن بیان کا بڑاحترام ملتا ہے۔ شاکرصدیقی کو ایک خط میں بعض فارسی شعرا کا کلام پڑھنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ مذاق صحیح پیدا ہو۔ اور زبان سے واقفیت ہو۔ عروض کے علم کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عروض کے بغیر شاعری کا قلعہ منہدم ہوجائے گا۔عروض کو وہ شاعری کا ستون سمجھتے ہیں جس کے بغیر قصر شاعری کے انہدام کا اندیشہ ہے۔ تجربات کی ان کے یہاں گنجایش ہے مگر وہ اس پردہ ٔ مینا کو پسند کرتے ہیں جس میں مے مستور بھی ہو اور عریاں بھی۔ ان کی زبان اور اس کا درو بست دونوں کلاسکیت کے عرفان کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے خطوط میں اگر چہ جابجا مقصدی شاعری کی اہمیت ظاہر کی گئی ہے اور اشعار میں بھی اس قسم کے خیالات ملتے ہیں ۔جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا کہ وہ صرف شعر محض یا صرف صناعی کو کمال شاعری نہیں سمجھتے۔ شعر میں محض آرایش اور حسن کے خلاف بھی اس طرح اظہار خیال کر تے ہیں:
مری نوا میں نہیں ہے اداے محبوبی
کہ بانگ صورِ سرا فیل دل نواز نہیں
وہ زبان کے معاملے میں لکیر کے فقیربھی نہیں تھے۔ انہوں نے ۱۹۰۲ء میں مخزن میں ’’اردو زبان پنجاب میں ‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس میں بھی کہا تھا کہ استعارے کا میدان وسیع ہے شاعر اہل زبان کے محاورات کا پابند ہوتا ہے اور یہ پابندی ضروری ہے۔ لیکن اہل زبان کے تخیلات کی پابندی ضروری نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر متقد مین نے گلشن طور لکھا ہے تو ہم بھی گلشن طور ہی لکھا کریں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔انہوں نے مروجہ الفاظ اور تراکیب کے ایک مقررہ سانچوں کے خلاف اپنی شاعری میں بھی احتجاج کیا ہے:
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی
یعنی ادبیات میں وہ نئے تجربات اور تازہ واردات کی ضرورت اور علوم سے استفادہ پر زور دیتے ہیں:
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کو چہ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یاکہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
ان کے نزدیک ایک ایک شعر وہ ہے جو کامیاب ہے اور ایک وہ جو معیاری ہے جہاں خیال حسن رکھتا ہے اور اس طرح بیان ہوا ہے کہ اس میں تاثیر پیدا ہوگئی ہے وہ شعر کامیاب ہے مگر ان کے نزدیک معیاری شعر وہ جس میں جلال و جمال کا امتزاج ہو۔ وہ محض جمال کے قائل نہیں،جلال وجمال کے امتزاج پر اس طرح زور دیتے ہیں:
نہ ہو جلال تو حسن وجمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
یعنی اسلوب کے سلسلے میں وہ سادگی اور آرایش دونوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ شیشے کی صراحی ہو یا مٹی کا سبو، شمشیر کی سی تیزی سے غرض ہے۔ شعر ذوق حیات عطا کرے، فطرت پر اضافہ کرے، امید اور ولولہ پیدا کرے تو ٹھیک ہے اور اگر بدن کے خم و پیچ میں الجھا رہے یا موت کی نقش گری کرے تو وہ چنگیز اور ہلاکو کے لشکر سے زیادہ خطر ناک ہے۔یعنی مختصر یہ کہ ا قبال کی شاعری میں جہاںمواد اور مقصدیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے تو وہیں اس کی ضروریات کے لحاظ سے ہیئت کے سانچے اختیاررکئے گئے ہیں مثال کے طور پر ان کی نظم ساقی نامہ کو ہی دیکھ لیں کیسی خوبصورت بہاریہ نظم ہے موضوع کے لحاظ سے ہی بحر کا بھی انتخاب کیا گیا :
ہوا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامن کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہید ازل لالہ خونیں کفن
جہاں چھپ گیا پردہ ء رنگ میں
لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
ا ٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے گر تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ اپنے اصل مقصد کی طرف آتے جاتے ہیں:
مری فطرت آئینہ روزگار
غزالان افکار کا مر غزار
مرا دل مری رزم گاہ حیات
گمانوں کا لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹادے ٹھکانے لگادے اسے
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے پیدا رم زندگی
مجید ملک نے اقبال سے اپنی ایک ملاقات میں لکھا بھی ہے کہ:
میں نے پوچھا: کیا آپ کے نزدیک آرٹ بجاے خودکوئی حیثیت نہیں رکھتا؟ قائم بالذات نہیں فرمایا نہیں۔ اردو شاعری ہندوستان کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اس لئے کمزور، غیر فطری اور حددرجے کی مصنوعی ہے۔ آرٹ اقوام عالم کی زندگی کا عکس ہے۔ کسی قوم کے آرٹ دیکھ کر اس قوم کی نفسیاتی کیفیتوں کا صحیح نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔ لیکن آرٹ زندگی کا مظہر ہی نہیں، زندگی کا آلہ کار بھی ہے اور سچا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کوبنی نوع انسان کی بہتری کے لئے وقف کردے۔‘‘ملاقات کے دوران انہوں نے کامیاب شعر اور معیاری شعر میں فرق کیا اور کہا کہ جسے تم کامیاب شعر کہتے ہو(یعنی جس سے فرحت حاصل ہوتی ہے) وہ اور چیز ہے اور معیار پر پورا اترنے والا شعر اور چیز ہے وہ شاعری جوآرٹ کے حقیقی معیار پر پوری اترتی ہے۔ پیغمبری کا جز ہے۔ وہ شاعری جو اس معیار پر پوری اترے یا نہ اترے لیکن فنی معیار پر پوری اترتی ہے کامیاب شاعری ہے۔‘‘
اسرار خودی کے یہ اشعار اقبال کے نظریہ کو مزید واضح کرتے ہیں ؎
سوز و مستی نقش بند عالمے است
شاعری بے سوز و مستی ماتمے است
شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارث پیغمبریست
یا:
زبزم شاعراں افسردہ رفتم
نواہا مردہ بیرون افتد ازنے
نہ شعر است ایں کہ بروے دل نہادم
گرہ از رشتہ معنی کشادم
ہنرور ان ہند سے ااقبال کو یہ شکایت ہے:
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روحِ خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
مختصر ایہ کہ اقبال نے اپنا پیغام پیش کرنے کے لئے شاعری کو وسیلہ بنایا اور ساتھ ساتھ زبان اور حسن بیان کا دامن بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا،لیکن سوال یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کا پیغام یا فلسفہ کیاتھا ،تو اس کو ایک لفظ میں’’خودی‘‘ کے ذریعہ بیان کیا جاسکتاہے۔فلسفہ خودی کا پیش کرنا کیا تھا کہ تصورات کا ایک جہان آبادہوگیا۔ بے خودی،عشق و خرد،زمان و مکان،حیات بعدالموت،فلسفہ تقدیر،تصور ابلیس،تصور ملت قومیت یا جمہوریت،اور عرفان ذات،شعور ذات ،احساس ذات،یا تعین ذات وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ ان میں سے ہر ایک پر گفتگو کرنے کے لئے ایک طویل مقالہ درکارہے،غرضیکہ ا قبال نے مشرق و مغرب کے مختلف نظریات و افکار کو اپنے ادبی سرماے میں جگہ دی،انہوں قرآن شریف اور مغربی مفکرین دونوں سے استفادہ کیا ،لیکن جہاں مغربی مفکرین کے نظریات اقبال کے اصولوں سے متصادم ہوئے وہا ں انہوں نے اپنی راہ الگ نکالی ۔شاعر مشرق،حکیم الامت،مفکر اسلام،فلسفی،مصور اور نجانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔ایک شخصیت کی اتنی جہتیں کسی عطیہ خداوندی سے کم نہیں۔میں اپنی بات کو ختم اقبا ل کی نظم ’’سید کی لوح تربت ‘‘ آخری شعر کے ساتھ کروں گی کہ جس سے ان کے نظریہ شعرپر بھر پور روشنی پڑتی ہے یا اگریہ کہا جائے کہ ان کے مکمل نظریہ شاعری کو کسی ایک شعر میں بیان کرو تو یہ ایک بہترین شعر ہوگا:
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے
شناسائی ڈاٹ کام پر آپ کی آمد کا شکریہ! اس ویب سائٹ کے علمی اور ادبی سفر میں آپ کا تعاون انتہائی قابل قدر ہوگا۔ براہ کرم اپنی تحریریں ہمیں shanasayi.team@gmail.com پر ارسال کریں